مرجانے کافن اورہمارے فن کار

خرم سہیل  پير 9 ستمبر 2013
khurram.sohail99@gmail.com

[email protected]

تخلیق کار بھی کتنے بھولے مزاج کا مالک ہوتا ہے۔ خواب کو سرمایہ اورحقیقت کو سراب سمجھتاہے۔زمانہ اس کے ساتھ قیامت کی چال چلتا ہے،وہ اس چال کو بھی چاہ سمجھ بیٹھتا ہے۔ اس کوکیسے سمجھایاجائے۔یہ دل سے سوچتا ہے،عقل کو قریب پھٹکنے نہیں دیتا۔سودوزیاں سے بے پرواہ ،صرف تخلیق کے خمار میں سرگرداں ،اپنی دُھن میں مگن ، تخلیق کی حیرتوں میں گم رہتا ہے۔

دل کی سیاہی کوکبھی کاغذوں پر اُنڈیل کر راحت ڈھونڈتا ہے، توکبھی روح کی بے قراری کو کینوس پر رنگوں میں گھولتا ہے۔ کبھی پردہ ٔ اسکرین پر کردار بن کر تاثرات کی زبان سے کچھ کہہ دیتاہے اورکبھی آواز کی زنجیر سے بندھے ہوئے جذبوں کو رہائی دینے کی سعی کرتاہے۔یہ تخلیق کار اتنے جوکھم اٹھاتا ہے، کس لیے؟ شاید اس لیے کہ وہ انسانوں سے محبت کرتا ہے، اس محبت کو عوام کے لیے عام کرتا ہے۔عوا م کی محبت کو اپنا سرمایہ حیات سمجھتاہے۔ان تمام پہلوؤں سے بے خبر کہ زمانہ صرف طلوع ہونے والوں کے ساتھ ہے۔ ڈوبنے والے سورج کے ساتھ صرف اس کی تنہائی ہوتی ہے یا پھر اس کے تاریک ہوتے ہوئے اپنے وجود کا سایہ،جسے کچھ دیر میں دم دینا ہوتا ہے۔

نہ جانے یہ فطرت ہے یا پھر ہم ہی ایسے ہوگئے ہیں۔ خود کو تہذیب یافتہ ثابت کرنے کے لیے مختلف فنون سے پیار کرتے ہیں۔ان سے جڑی ہوئی شخصیات سے محبت کرتے ہیں۔ ہمارے مہمان خانوں کی دیواروں پر سجی ہوئی پینٹنگز ہمارا بھرم رکھتی ہیں۔خواب گاہ میں کتابوں سے سجی الماریاں ہمارے ضمیر کو مطمئن کرتی ہیں۔کانوں میں رس گھولنے والی موسیقی ہمیں رومان پرور انسان کاتصور بخشتی ہے۔پردہ ٔ اسکرین پر کام کرنے والوں کے ساتھ تصویریں کھنچوا کر جب ہم ان سے یہ کہتے ہیں کہ’’ ہم آپ کے بہت بڑے مداح ہیں‘‘ تو جواب میں اس شخصیت کی دلفریب مسکراہٹ ملتی ہے۔

ان فنکاروں ،لکھاریوں کے ساتھ تصویریں کھنچوا کر اپنے گھروں میں آویزاں کرتے ہیں۔خاندانی تصاویر کے البم کاحصہ بناتے ہیں،موبائل کی تصویروں کا حصہ اور کمپیوٹر کی وال پیپر بناتے ہیں۔یہ سب کچھ کرنے میں حرج کوئی نہیں،لیکن ہم اتنے بے وفا ہیں،جب اس تخلیق کار کو اپنے مداحوں کی ایک مسکراہٹ کی ضرورت ہوتی ہے،تو وہ دور کی بات ہے ،ہم یہ بھی یاد نہیں رکھتے،کہ ایک یاد کاقرض ہے ہم پر،ایک مسکراہٹ ہم نے چکانی ہے۔

ہم یاد کے قرض کو لوٹانا بھول جاتے ہیں۔ہاں ایک لمحے کو یہ افسوس پلٹ کر ہمارے چہروں پر نمودار ہوتاہے،جب ٹیلی ویژن کی اسکرین پر کسی تخلیق کار کی رحلت کاپتاچلتاہے،مگر یہ افسو س بھی ایک لمحے کا ہوتاہے، ہم دوبارہ سے نئے تخلیق کاروں کے سحر میں مگن ہوجاتے ہیں۔اپنے فنکاروں کو گمنامی اور فراموشی کے ملبے میں دبا دینے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں ہے۔

اردو شاعری کے جدید عہد میں ادا جعفری کو پہلی شاعرہ کے طورپرجانا جاتا ہے۔ان کی شاعری کلاسیکی اور جدیدیت دونوں کا امتزاج اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ انھوں نے پاکستان کا کون سااعزاز ہے،جسے حاصل نہ کیاہو۔کون سی شاعری کی ایسی یادگار محفل ہے، جوان کے بغیرمکمل رہی ہو۔ انھوں نے سعادت حسن منٹو،صہبالکھنوی،فیض احمد فیض اور دیگر مشاہیرکے ساتھ ایک پُر اعتماد خاتون شاعرہ کی حیثیت سے ادبی منظر نامے پراپنی جگہ بنائی۔انھوں نے اپنی سوانح عمری لکھی، تو اس کا نام ’’جو رہی سو بے خبری رہی‘‘رکھا۔ اسے پڑھ کر اندازہ ہوتاہے، دنیا کواپنی آنکھوں سے دیکھنا کتنا خوبصورت تجربہ ہے۔انھوں نے بھرپور زندگی گزاری۔ ان کے بچوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔

گزشتہ کئی برس سے ہمارے ملک میں ادبی کانفرنسوں کا رَن پڑا ہواہے۔کراچی ،لاہور اوراسلام آباد میں یہ میلے سجائے جارہے ہیں اوران میں شرکت کے لیے مدعوئین ملک بھر اور سات سمندر پار سے رخت سفر باندھتے ہیں۔ان ادبی میلوں میں چند ایک بڑے ناموں کو خراج عقیدت پیش کرکے ادبی ضمیر بھی مطمئن کرلیاجاتاہے،مگر کتنی بے حسی ہے،کئی برسوں سے میں نے اس شاعرہ کا نام کسی میلے،محفل یا شخص کے منہ سے نہیں سنا۔خواتین کے ادب کی نمایندگی کرنے والی ادیباؤں اور شاعرات کے ہاں بھی ان میلوں میں کسی تحریریا تقریر میں ذکر موجود نہیں ہے اس خاتون کا،جسے پاکستان کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔جب ہر کوئی اپنی تحسین وترقی کے نشے میں مگن ہو،توپھر کسی اورکی یادکہاںآئے گی۔
اداجعفری ابھی حیات ہیں ،لیکن ایک طویل عرصے سے بسترِ علالت پر ہیں۔کبھی کبھی ان کو یاد کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔اسکرین کے پردے پر اور اخبارات کے صفحات میں ، جب کسی ایسی شخصیت کی رحلت کاذکر آتا ہے، تو تعزیتی اور تاثراتی تحریروں کا ریلہ اُمڈ پڑتا ہے،یہ بتانے کے لیے کہ ہم اس شخصیت سے کس قدر قریب تھے یاہم اس کے شناسا تھے۔ بے حسی اورنرگسیت کا یہ آخری موڑ ہے،جس کے بعد کچھ سلامت نہیں رہتا۔ خداہمیں ہدایت دے اوراداجعفری کو صحت کاملہ عطا فرمائے، آمین۔ بے شک موت کاایک دن معین ہے۔

اداجعفری تو ایسی شاعرہ ہیں کہ انھیں ان کی شاعری ہی زندہ رکھے گی۔سات شعری مجموعوں کی شاعرہ کی صرف ایک غزل کاحوالہ کافی ہے،جسے پٹیالہ گھرانے کے نامور گائیک استاد امانت علی خاں نے گایاتھا،اس کے بعد اسدامانت علی کی آواز میں بھی یہ مصرعے ہماری سماعتوںمیں گو نجتے رہے۔ کیااس غزل کوزمانہ بھول سکتاہے۔؎

ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے
آئے تو سہی ، برسرِ الزام ہی آئے

اسی طرح ایک شاعر کوبھی ہم نے بھلارکھاہے،جس کی شاعری کی ایک ہی کتاب نے اس کو مستند اوراہم شعرا میں شمار کر دیا۔ان کامختصر شعری مجموعہ ’’اکیلی بستیاں ‘‘کئی بھاری دیوانوں پر حاوی ہے۔گزشتہ دودہائیوں سے یہ شاعر محبوب خزاںہیں،جو اپنی اکیلی بستی میں بسے ہوئے ہیں۔ایک ایساشاعر جس نے مختلف سرکاری اداروں اورعہدوں پر کام کیا۔پاکستانی سفارتی مشن کے رکن کی حیثیت سے تہران میں بھی مقیم رہے۔نون میم راشد کے ساتھ وہاں ان کی ملاقاتیں رہیں۔کراچی میں محب عارفی،قمرجمیل،احمد ہمدانی اورسلیم احمد کے ہمراہ رفاقتیں رہیں،لیکن زمانے سے ناراض ہوکر گوشہ نشین ہوگئے۔

اس بزرگ شاعر کو منانے کے لیے نہ زمانہ آگے بڑھا اورنہ ہی کوئی ثقافتی ادارہ۔انھوں نے اپنے شعری مجموعے کے نام کوہی اپنی زندگی بنالیا اوراکیلی بستیوں میں بس گئے۔عمر کے جس حصے میں یہ ہیں،وہاں علالت کا ہونا فطری امر ہے،وہ خاص طورپر یہ ذہنی علالت کاشکار ہیں،مگر کون ان کو منائے، جن کاایک قطعہ ہی ان کی تخلیقی دانائی کی گواہی ہے۔’’ایک محبت کافی ہے۔باقی عمر اضافی ہے۔کہتاہے چپکے سے یہ کون۔جینا وعدہ خلافی ہے‘‘

پوری دنیا میں سب سے مفصل ’’تاریخ ِ ادب ِاُردو‘‘لکھنے والے معروف محقق،تنقید نگار اوراستاد ڈاکٹر جمیل جالبی کسی تعارف کے محتاج نہیںہیں۔وہ بھی ان دنوں صاحب فراش ہیں۔ ان کے نام اورکام کے حوالے سے کسی ادبی میلے میں کوئی سیشن دکھائی نہیں دیا۔یہ وہ لوگ ہیں ،جنہوں نے اپنی پوری زندگی لکھنے میں صرف کی۔اس معاشرے کے سدھار کے لیے لکھا۔ تہذیب وتمدن کو محفوظ کرنے کے لیے لکھا،لیکن اب وہ لوگ زیادہ مشہور ہیں،جن کا اثررسوخ زیادہ ہے، یا وہ تعلقات استعمال کرتے ہیں اورچاپلوسی پر زندہ ہیں۔ہم نے اپنے بزرگوں کو کتنی آسانی سے فراموش کردیا۔ڈاکٹر جمیل جالبی وہ شخصیت ہیں،جوچار سے پانچ دہائیوں سے یہ تاریخ لکھ رہے ہیں۔کیا ان کی ستائش کا کوئی بدل ہے ہمارے پاس ؟

میں نے ایک تقریب کا دعوت نامہ ایک بزرگ ادیب کو بھیجا،جس کے جواب میں انھوں نے کہا ’’شکریہ، آپ نے ایک بوڑھے کو اس دعوت میں یاد رکھا۔‘‘یہ کس قدر دردناک جواب ہے اورشاید ہماری مصروف زندگی کے چہرے پر طمانچہ بھی۔نثری نظم گو شاعر احمد ہمیش ان دنوں بیمار ہیں،متعدد بار اسپتال میں بھی داخل ہوچکے ہیں،کسی نے ان کی کوئی خبر گیری نہیں کی۔

پاکستانی فلمی صنعت کی معروف اداکارہ اورہدایت کارہ شمیم آرا گزشتہ تین برس سے لندن کے ایک ہیلتھ کیئر سینٹر میں بسترعلالت پر ہیں اوربے ہوش ہیں۔گزشتہ حکومت میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے عیادت کی تھی،جس کی وجہ سے کچھ دن یہ خبروں میں رہیں،اس کے بعد سے پھر ایک طویل اورگہری خاموشی ہے۔دوبارہ پلٹ کر کسی نے خبر نہیں لی کہ وہ اب کس حال میں ہیں۔

پی ٹی وی کی معروف اداکارہ روحی بانو پر مختلف چینلز نے اپنے مارننگ شو کی حد تک ہمدردی کا اظہار کیا،کسی نے اپنے زمانے کی خوبرو اورپڑھی لکھی اداکارہ کو بوسیدہ گھر سے نکال کر کسی مناسب جگہ رہائش کا انتظام کرکے نہیں دیا۔نہ ہی کسی ثقافتی ادارے کو یہ توفیق ہوئی۔ہمارے کتنے ہی فنکار اسی کسمپرسی کی حالت میں اس دنیا سے چلے گئے۔لاہور کے شام چوراسی گھرانے کے معروف استاد ریاض علی خان ایک مدت سے مختلف عارضوں میں مبتلا ہیں،نہ ہی کسی نے عیادت کی اور نہ کسی نے ان سے یہ پوچھا کہ ان کی گزربسر کیسے ہورہی ہے۔

اداجعفری نے معروف مغربی شاعرہ ’’سلویاپلاتھ‘‘کی ایک نظم کاترجمہ کچھ یوں کیاتھا،گویااس ترجمے میں وہ اپنے دل کی بات ہم سے کہہ رہی ہیں۔اس نظم کے بعد کچھ کہنے کو باقی نہیں رہتا…
مرجانا
دوسرے فنون کی طرح
ایک فن ہے
میں اس فن میں
غیرمعمولی مہارت رکھتی ہوں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔