اے پی سی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ خود لڑنے کا عزم

انوار فطرت  منگل 10 ستمبر 2013
مل جل کر جنگل میں رستا  ڈھونڈ نکالیں، اے پی سی کے شرکاء کا مشترکہ اعلامیہ   فوٹو: فائل

مل جل کر جنگل میں رستا ڈھونڈ نکالیں، اے پی سی کے شرکاء کا مشترکہ اعلامیہ فوٹو: فائل

یہ امر انتہائی خوش آئند ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس کے شرکاء کسی ایک قراداد اور اعلامیہ پر متفق ہو گئے ہیں۔

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام سمیت تمام سیاسی رہ نماؤں کے درمیان دہشت گردی کے خلاف اشتراک رائے کو نیک شگون کے طور پر لیا جائے گا۔ اس موقع پر جس بات پر سب سے زیادہ زور دیا گیا وہ یہ رہی کہ عسکریت پسندوں سے مذاکرات پہلی ترجیح ہے، یہ طریقہ کار اگر کارگر رہا تو فَبِہا، بہ صورت دیگر دہشت گردوں کے خلاف دوسرا آپشن استعمال کیا جائے گا۔

کانفرنس کے آخر میں جو اعلامیہ تیار کیا گیا، اس پر بعض چھوٹے موٹے اعتراضات وارد ہوئے تاہم بات زیادہ نہ بڑھنے پائی اور ترامیم کرنے کے بعد اسے متفقہ طور پر منظور کر کے تمام شرکاء کے دست خط کے ساتھ جاری کر دیا گیا۔ اس موقع پر یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ دہشت گردی کی دست برد سے متاثر ہونے والے صوبے بلوچستان کے معاملات و مسائل کے حل کے لیے ایک اور آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی جائے گی۔

وزیراعظم میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں سے مذاکرات ان کا اپنا فیصلہ بھی تھا تاہم یہ بھی اس فیصلے کا حصہ تھا کہ اگر گھی سیدھی انگلیوں سے نہیں نکلتا تو پھر انگلیاں ٹیڑھی کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جائے گا۔ اجلاس سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا کہ ’’پاکستان اس وقت دہشت گردوں کی گرفت میں ہے اور ہمیں اس معاملہ کو سیاسیانے سے گریز کرنا چاہیے۔‘‘

انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ اس حوالے سے فیصلہ جمہوری انداز میں کرنا از حد ضروری ہے۔ اگر یہ حکومت دہشت گردی سے نمٹنے کے حوالے سے اتفاق رائے قائم کر لیتی ہے تو اس سے جمہوریت پر عوام کا اعتماد بڑھے گا۔ ہم طاقت کے استعمال کے بہ جائے مذاکرات کو ترجیح دیں گے تاہم بات نہ بنی تو آخری فیصلہ قومی قائدین کریں گے۔

شرکاء کانفرنس میں سے تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اس موقع پر اپنے خدشے کا اظہار کیا کہ دہشت گردی کے ساتھ بہ یک وقت مذاکرات اور جنگ کوئی دانش مندانہ اقدام نہ ہوگا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ قبائلی علاقوں میں فوج بھیجنا ایک سنگین غلطی تھی، یہ امر بہت ضروری ہے کہ لوگوں کو محسوس کرایا جائے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ان کی اپنی جنگ ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے رہ نما فاروق ستار کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے ساتھ نمٹنے کے لیے اس کے منبع تک پہنچنا ہو گا ابھی تک ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی ہے لکین اس کی جڑیں اکھاڑنے کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ وزیراعظم میاں نواز شریف نے اس دوران خبردار کیا کہ امریکا فی الحال (2014 میں) افغانستان سے نکلنے والا نہیں ایسی امید کرنا حقائق سے چشم پوشی کے مترادف ہو گا۔

کانفرنس کے دوران مولانا فضل الرحمان نے بھی تلقین کی کہ دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے تمام فیصلے اتفاق رائے سے ہونا ضروری ہیں اور انہوں نے متنبہ کیا کہ باہمی بات چیت سے کیے گئے فیصلوں پر عمل درآمد میں مشکل کا سامنا ہو سکتا ہے، اس کے لیے ہم سب کا متحد ہو کر آگے بڑھنا بہت اہم ہوگا، سید خورشید شاہ نے کہا کہ دہشت گردی ایک ایسا معاملہ ہے جس پر تمام سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے ہونا چاہیے۔

چیف آف آرمی سٹاف اشفاق پرویز کیانی نے اس موقع پر غیر مبہم انداز میں کہا کہ فوج سیاسی رہ نماؤں کے فیصلے پر عمل درآمد کرے گی۔ کانفرنس کے دوران سوال و جواب کا مرحلہ بھی آیا۔ سوالات آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے کیے گئے جن پر انہوں نے کانفرنس کے شرکاء کو اعتماد میں لیا بھی اور انہیں اعتماد دیا بھی، ان کا کہنا ہے کہ ملک کی سلامتی سب سے اہم امر ہے اور اس سلسلے میں فوجی قیادت اور قومی قیادت ایک ہی پیج پر ہیں۔ جلیل عا لی کا شعر ہے

تنہا تنہا کیوں خوراک بنیں چیتوں کی
مل جل کر جنگل سے رستا ڈھونڈ نکالیں
عمران خان کی جائز ضد
اور وزیرِ اعظم کا عزم

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا یہ موقف ماضی کے حوالے سے کچھ زیادہ غلط نہیں تھا کہ آل پارٹیز کانفرنسیں منعقد کرنا، خاص طور پر ملک میں جاری بدامنی کی لہر کے حوالے سے، کبھی سود مند نہیں رہیں۔ یقیناً سابق حکومت کے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی 29 ستمبر 2011 کی یک روز اے پی سی سے لے کر عام انتخابات سے کچھ عرصے قبل جمعیت علماء اسلام (فضل الرحمان) کی اے پی سی تک، اس نوع کی تمام کانفرنسیں اپنے اثرات مرتب کرنے سے قاصر رہی ہیں۔

ان کانفرنسوں میں شامل ہونے والے تمام ذہن سوچ کے اپنے اپنے زاویے رکھتے تھے، جو ایک دوسرے کو قطع کرتے گزر جاتے رہے، اس لیے ان میں کسی طرح کی کوئی یک جہتی یا ہم آہنگی پیدا نہ ہو سکی، پھر یہ بھی رہا کہ پیپلز پارٹی یا اے این پی یا جے یو آئی جو بھی سیاسی جماعت اس طرح کی کوئی کانفرنس منعقد کرواتی تو وہ اپنے میزبان ہونے کی حیثیت سے اپنے لائحہ عمل کو برتر ثابت کرنے یا کسی حد تک مسلط کرنے کی کوشش میں رہتی تاکہ اسے برتری حاصل ہو جب کہ دوسری شریک جماعتیں کسی ایک سیاسی جماعت کی برتری تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی تھیں لہٰذا یہ کانفرنسیں نشتند و گفتند و براخواستند کی مثال بنتی رہیں۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ اے پی سی کانفرنس کے انعقاد میں ایک گرم جوشی دکھائی جاتی ہے۔ تمام اہم سیاسی جماعتیں پہلی بار ملک کو درپیش اس انتہائی اہم معاملے پر سرجوڑ کر بیٹھ گئیں۔

ہر چند بعض جماعتوں کے رہ نماؤں نے کسی حد تک گریز کا رویہ اپنائے رکھا تاہم آخری مراحل میں انہوں نے بھی معاملے کی نزاکت کے پیش نظر شرکت پر آمادگی ظاہر کر دی۔ اس میں پاکستان تحریک انصاف کے رہ نما عمران خان نے، جو وادیٔ سیاست میں دوسروں کی نسبت تھوڑے سے نو وارد ہیں، پہلے تو اے پی سی کی ایسی صورتوں کو بے سود قرار دیا تھا۔ بعد میں ایک موقع پر آ کر وہ اس شرط پر شرکت پر آمادہ ہوئے کہ ان کی چیف آف آرمی سٹاف جناب اشفاق پرویز کیانی سے ملاقات کرائی جائے تاکہ وہ صورت حال کو پوری طرح جان اور سمجھ سکیں۔ ان کی یہ شرط بہ ہرحال اس حوالے سے ذرا ٹیڑھی سی تھی کہ دوسری سیاسی جماعتیں بھی اس خصوصی امتیاز پر اعتراض جڑ سکتی تھیں اور اسی طرح کے مطالبات داغ سکتی تھیں تاہم معاملہ کی اہمیت کے باعث کسی جماعت نے بھی ایسا نہیں کیا۔

عمران خان کا یہ مطالبہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے تسلیم کر لیا اور ان کی ملاقات چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی سے کرا دی گئی۔ کسی حد تک دیکھا جائے تو عمران خان کا مطالبہ غلط بھی نہیں تھا کیوں کہ ان کے ہاتھ حکومت کرنے کو خیبر پختون خوا کا صوبہ آیا ہے اور کون نہیں جانتا کہ خیبر پختون خوا دہشت گردوں کی مشقِ ستم کا سب سے پہلا اور سب سے آسان نشانہ ہے۔ عمران خان کی ایک جائز ضد بھی پوری ہو گئی اور میاں نواز شریف کا یہ عزم بھی پورا ہو گیا کہ وہ تمام اہم سیاسی شخصیات کو بہ ہرحال اے پی سی میں شامل کریں گے۔ ادھر جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بھی عمران خان کو وقت دینے میں بخل نہیں کیا اور اس طرح انہوں نے دونوں اہم رہ نماؤں کی ’’جائز ضد‘‘ پوری کرنے میں معاونت کی۔

یہ ملاقات بنیادی طور پر سہ رکنی تھی تاہم اس میں ڈی جی، آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام نے بھی شرکت کی اور موجودہ صورتِ حال کی تفصیلات بتائیں۔ یہ ملاقات وزیراعظم کے دفتر اسلام آباد میں ہوئی، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بھی اس میں موجود رہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی ظہیر الاسلام نے خیبرپختون خوا اور فاٹا کو درپیش احوال پر خصوصی طور پر روشنی ڈالی۔ عمران خان نے ڈرون حملوں کے معاملے پر خصوصی زور دیتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے معاملات واضح نہیں ہیں، ابہام بہت ہے، یہ حملے جب تک بند نہیں کروائے جاتے، دہشت گردی کے خاتمے کی توقع عبث رہے گی۔

اس کے علاوہ انہوں نے وزیراعظم کی طرف سے ڈرون حملوں کی مذمت نہ کیے جانے کو بھی ہدف تنقید بنایا اور سوال کیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عالمی معاہدوں کو سامنے لایا جائے علاوہ ازیں طالبان اور دہشت گردوں کی فنڈنگ اور مفاہمتی پالیسی، فوجی آپریشن، طالبان کے مختلف گروہوں سے مذاکرات اور امن عمل کے دوران طالبان کے دوبارہ منظم ہونے سے متعلق امور بھی زیر بحث آئے جب کہ عسکری قیادت نے پی ٹی آئی کے رہ نما کو ردِ دہشت گردی کے دوران فوج کی بڑی تعداد میں قربانیوں سے آگاہ کیا اور ملک دشمن عناصر کے بارے میں تفصیل بیان کی اور اس بات پر زور دیا کہ اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے قوم کا ایک پلیٹ فارم پر یک جہت ہونا ازبس ضروری ہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بعد ازاں اس بات کی دو ٹوک انداز میں تردید کی کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان کوئی ایسا معاہدہ وجود رکھتا ہے جس کے تحت امریکا پاکستان پر ڈرون حملوں کا مجاز ہو۔

اے پی سی کی مشترکہ قرارداد

اس موقع پر جو قرارداد منظور کی گئی اس کے مطابق شرکاء نے حکومت کو اختیار دیا ہے کہ وہ ایک مناسب لائحۂ عمل بناکر، رابطہ کاروں کی نشان دہی اور دیگر اہم اقدامات کرے۔کانفرنس نے قرار دیا کہ یہ لائحۂ عمل حتی المقدور جامع ہونا چاہیے، جس میں حکومت خیبر پختونخوا اور دیگر فریقوں کی مکمل شرکت ہو۔ عمل کے دوراں جن رہ نما اصولوں پر زور دیا گیا ان میں مقامی روایات، رواج، اقدار اور مذہبی عقائد کا احترام شامل کیا گیا۔ شرکاء نے اس امر پر مایوسی کا اظہار کیا کہ گزشتہ کئی برسوں سے صورت حال مسلسل بگڑ رہی ہے اور دہشت گرد عناصر کو کنٹرول کرنے کے لیے ماضی میں ہونے والی کوششیں مطلوبہ نتائج نہیں دے سکیں۔

کانفرنس کے آخر میں جاری کی گئی قرارداد میں کہا گیا کہ وہ قومی تاریخ کے اس اہم موڑ پر عوام کے منتخب نمائندوں کی حیثیت سے امن اور خوش حالی کو فروغ دینے اور قوموں کی برادری میں پاکستان کا جائز مقام بہ حال کرنے کے لیے ذرائع وضع کرنے کی اپنی تاریخی ذمہ داری سے پوری طرح آگاہ ہیں، پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت سب پر مقدم ہے، جس کا ہر قیمت پر تحفظ ہونا چاہیے۔ اس موقع پر مسلح افواج پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا گیا اور قومی سلامتی کو درپیش کسی بھی چیلنج یا قومی مفاد کو درپیش خطرے پر قابو پانے کے لیے اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔

شرکاء نے کہا کہ جنگ، غیرقانونی اور غیر اخلاقی ڈرون حملوں اور افغانستان میں نیٹو اور ایساف فورسز کی کارروائیوں کے ردعمل میں خواتین، بچوں، مردوں اور سیکورٹی فورسز کے ہزاروں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، معیشت کو پہنچنے والا گراں تر نقصان الگ ہوا، اس پر عالمی برادری کا یہ الم ناک رویہ کہ عالمی برادری نے پاکستانی عوام کی مشکلات اور قربانیوں کا صحیح طرح اعتراف نہیں کیا گیا۔ کانفرنس کے شرکاء نے شہداء کے لیے دعا کی اور سوگ وار خاندانوں سے دلی ہمدردی کا اظہار کیا گیا۔ کانفرنس کے شرکاء نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر زور دیا کہ متاثرہ خاندانوں کی آبادکاری کے لیے مناسب مدد فراہم کی جائے۔

شرکاء نے منتخب جمہوری حکومت کے واضح احتجاج کے باوجود امریکا کی جانب سے ڈرون حملوں کے مسلسل استعمال پر تشویش کا اظہار کیا اور متفقہ طور پر کہا کہ ڈرون حملے ایک طرف تو پاکستان کی علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی ہے اور دوسری طرف اس سے انتہاء پسندی اور دہشت گردی کو زیادہ فروغ مل رہا ہے۔ اس موقع پر وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ڈرون حملوں کا مسئلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کوسل میں اٹھائے کیوں کہ یہ حملے عالمی قانون کے خلاف ہیں۔ کانفرنس نے واضح کیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے امریکا یا کسی دوسرے ملک سے رہ نمائی نہ لی جائے۔

قرارداد میں کہا گیا کہ تیزتر سماجی اور اقتصادی ترقی کے لیے امن اور استحکام اور روادار معاشرہ قائم کیا جائے۔ شرکاء نے 2011 کی جماعتی کانفرنس کے نعرے ’’امن کو موقع دو‘‘ کو مرکزی رہ نما اصول بنایا جائے اور قبائلی علاقوں میں اپنے لوگوں کے ساتھ امن مذاکرات شروع کئے جائیں۔ شرکاء نے کراچی کے عوام کے ساتھ یک جہتی کا اظہار بھی کیا اور صوبائی اور وفاقی حکومتوں پر زور دیا کہ وہ کراچی کو بہ حال کرنے کے لیے غیرجانب داری اور لگن کے ساتھ بھرپور کوششیں کریں۔

کانفرنس نے بلوچستان کی خراب صورت حال کا بھی ذکر کیا گیا اور بلوچستان کی حکومت اور وزیراعلیٰ بلوچستان کو اختیار دیا گیا کہ وہ تمام بلوچ عناصر کے ساتھ مذاکرات شروع کرکے انہیں مرکزی دھارے میں لانے کی کوشش کریں۔ کل جماعتی کانفرنس نے افغانستان میں جاری امن کے عمل کو سراہا اور اس اعتماد کا اظہار کیا کہ ایک پرامن اور مستحکم افغانستان ایک مضبوط پاکستان کے لیے ضروری ہے لہٰذا وفاقی حکومت افغان حکومت اور عوام کے ساتھ مسلسل رابطوں کے ذریعے امن لانے کے لیے تمام کوششیں کرے۔

مشترکہ اعلامیہ
کل جماعتی کانفرنس نے ایک مشترکہ چھے نکاتی اعلامیہ جاری کیا جن کے تحت فیصلہ کیا گیا کہ ڈرون حملوں کا معاملہ سلامتی کونسل میں لے جایا جائے گا ، طالبان سے مذاکرات کیے جائیں گے، فاٹا کے معاملات خیبر پختون خوا حکومت، وفاق کے ساتھ مل کر طے کرے گی، کراچی کا معاملہ وزیراعلیٰ سندھ کے سپرد کر دیا گیا جب کہ بلوچستان کے تمام معاملات وزیراعلیٰ بلوچستان کے سپرد کرنے کا فیصلہ بھی کیاگیا۔ واضح رہے کہ ملک میں جاری دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے بلائی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس میں ملک کی تمام اہم سیاسی جماعتوں نے شرکت کی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔