پانی کی کمی رنگ دکھانے لگی ؛ کراچی سے چینائے تک العطش کی دہائی

سید عاصم محمود  اتوار 7 جولائی 2019
بڑھتی آبادی ،پانی ضائع کرنے کی منفی روش اور عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیاں بھارت اور پاکستان کے کروڑوں باشندوں کو قلت ِآب کی ہولناک آفت میں مبتلا کر رہی ہیں۔ فوٹو: فائل

بڑھتی آبادی ،پانی ضائع کرنے کی منفی روش اور عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلیاں بھارت اور پاکستان کے کروڑوں باشندوں کو قلت ِآب کی ہولناک آفت میں مبتلا کر رہی ہیں۔ فوٹو: فائل

سنجیو ہریش درد سے تڑپ رہا تھا۔ آج اس کا آپریشن تھا۔ ڈاکٹر نے گردے سے پتھریاں نکالنی تھیں۔ سنجیو کو امید تھی کہ آج اسے گردے کے شدید درد سے نجات مل جائے گی۔ مگر ایک ناگہانی آفت نے سبھی کو آن دبوچا… ہسپتال میں پانی ختم ہو گیا۔ جبکہ آلاتِ آپریشن کی صفائی کے لیے پانی لازمی ضرورت تھا۔

سنجیو کو معلوم ہوا کہ پانی کا ٹرک شام کو آئے گا‘ تو اس پر گویا بجلی گر پڑی۔ اسے اب مزید کئی گھنٹے گردے کی جان لیوا تکلیف برداشت کرنی تھی۔یہ مریض کسی دوردراز گاؤں نہیں بہ لحاظ آبادی بھار ت کے چھٹے بڑے شہر‘ چینائے (مدارس) کا باسی ہے۔ چینائے اور اس کی مضافاتی بستیوں میں تقریباً ایک کروڑ انسان بستے ہیں۔ شہر خلیج بنگال پر واقع ہے۔ مگر مختلف مسائل کے باعث شہر میں پانی کی شدید قلت جنم لے چکی ہے ۔ عالم یہ ہے کہ اکثر علاقوں میں سرکاری ٹرک شہریوں کو پانی فراہم کر رہے ہیں۔ کئی جگہوں پر پانی اتنا نایاب ہو چکا کہ اسے ڈرموں میں محفوظ کر کے تالے لگا دیئے جاتے۔ مقصد یہ کہ پانی چوری نہ ہو سکے۔ گویا چینائے میںپانی سونے کی طرح قیمتی شے بن چکا ہے۔

سنجیو ہریش کروڑوں بھارتی شہریوں کی طرح متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ مقامی کمپنی میں ملازم ہے۔ آمدن اتنی ہے کہ ماہانہ اخراجات پورے ہو جائیں۔ مگر گردوں کی تکلیف نے اسے مالی مسائل میں بھی مبتلا کر د یا۔ اسے کمپنی سے بغیر تنخواہ کے دس دن کی چھٹی کرنا پڑی تاکہ گردے کا آپریشن کرا سکے۔ اب پانی کی قلت نے اسے نئی مصیبت سے دو چار کر دیا۔حقیقت یہ ہے کہ قلت آب نے چینائے کے لاکھوں باسیوں کی زندگیاں اجیرن کر دی ہیں۔ مرد‘ عورتیں‘ بچے بوڑھے… سبھی کو روزانہ کئی گھنٹے قطار میں لگے صرف کرنے پڑتے ہیں تاکہ سرکاری ٹرکوں سے پانی پا سکیں۔ یہ مائع دیکھتے ہی دیکھتے شہر میں بیش قیمت مصنوعہ بن گیا۔ امرا ہزاروں روپے دے کر پانی سے بھرے ٹرک خریدنے لگے۔ جن لوگوں کے گھروں میں پانی کے کنوئیں تھے، ان کی تو چاندی ہو گئی۔ وہ منہ مانگی قیمت پر پانی فروخت کرنے لگے۔

ایک ایک بوند کا حساب

چینائے کو چار ذرائع آب سے پانی ملتا ہے۔ علاقے میں پچھلے چار برس سے مون سونی بارشیں کم ہوئی ہیں۔ اس دوران آبادی بڑھنے سے پانی کا استعمال بھی بڑھ چکا۔ ان دو متضاد عوامل کے باعث چاروں جھیلوں میں پانی نہیں رہا اور وہ سوکھ گئیں۔ اسی عمل کی وجہ سے چینائے میں پانی کی شدید کمی نے جنم لیا اور تمام شہریوں کی روز مرہ زندگی تلپٹ ہو گئی۔ ان کا بیشتر وقت پانی کا بندوبست کرنے میں گذرنے لگا۔سرکاری اور نجی دفاتر میں ملازمین کو جلد چھٹی دی جانے لگی تاکہ وہ پانی کم استعمال کر سکیں ۔ کئی کمپنیوں نے تو ملازمین کو یہ کہہ دیا کہ وہ گھر پر کام کریں۔لوگوں نے نلکوں میں نوزل لگوا لیے تاکہ پانی کم خرچ ہو۔ شہر میں قلت آب سے ہوٹلوں کا دھندا ماند پڑ گیا۔ ظاہر ہے ہوٹلوں میں پانی ہی نہیں رہا، تو گاہک کیوں آئیں گے؟سب ہوٹل بڑے بڑے پتوں یا کاغذی برتنوں میں کھانا دینے لگے تاکہ انھیں پانی سے دھونا نہ پڑے۔ بہت سے اسکول وکالج بند کر دئیے گئے۔

چینائے کے باسی شدید قلت آب کا نشانہ بنے تو انھیں پانی کی قدر و قیمت کا احساس ہوا۔ وہ پھر بڑی کنجوسی سے یہ قدرتی نعمت استعمال کرنے لگے۔ جب پانی بکثرت تھا‘ تو کوئی اسے اہمیت نہ دیتا۔ پانی کا نلکا بہہ رہا ہے مگر کسی کو پروا نہ ہوتی۔سرکاری پائپ لائن رسنے لگتی تو کئی دن بعد ٹھیک کی جاتی۔ اب نلکے سے ہوا خارج ہوتی ہے، تو شہریوں کو بہتے پانی کا منظر تڑپاکر رکھ دیتا ہے۔ انہیں افسوس ہوتا ہے کہ وہ پانی کی قدر نہیں کر پائے۔ پھر عہد کرتے ہیں کہ اب وہ اس آسمانی نعمت کو سوچ سمجھ کر استعمال کریں گے۔ یہی وجہ ہے ‘ چینائے کے شہری اب محض ایک لیٹر پانی سے بھی غسل کر لیتے ہیں۔وہ ایک ایک بوند کا حساب رکھنے لگے تاکہ اس نعمت سے بخوبی فائدہ اٹھا سکیں۔

چینائے میں مون سون کا موسم شروع ہو چکا۔ ہفتے میں دو تین دن بارشیں ہو جاتی ہیں۔ مگر یہ بارشیں اب قلت آب دور کرنے کا مستقل حل نہیں رہیں۔ وجہ یہ کہ بارشوں سے چاروں ذرائع آب میں جو پانی جمع ہوتا ہے، وہ چند ماہ کے اندر ہی شہری استعمال کر لیتے ہیں ۔چنانچہ پھر انہیں پانی کی کمی کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ چینائے سمندر کے کنارے واقع ہے۔ اسی لیے وہاں زیر زمین پانی بھی کھارا ہے۔ میٹھے پانی کے کنوئیں شہرسے دور واقع ہیں۔چینائے بھارتی ریاست تامل ناڈو کا صدر مقام ہے۔ مشہور تفریحی وکاروباری مقام ہے۔

مقامی تہذیب و ثقافت کا مرکز ہے۔ یہاں کے باسی اعتدال پسند اور روادار ہیں۔ چالیس پچاس سال پہلے تک ریاست میںپانی کی فراوانی تھی۔ ساحل سمندر سے دور زمین میں کنواں کھودا جاتا‘ تو جلد ہی میٹھا پانی مل جاتا۔ مگر بے دریغ استعمال کے باعث زیر زمین پانی کی سطح بھی بہت نیچے جا چکی۔ اب کئی فٹ کھدائی کی جائے تو میٹھا پانی نکلتا ہے اور وہ بھی عمدہ نہیں ہوتا۔پانی کی کمی کے باعث شہر میں لڑائی جھگڑے بھی د یکھنے کو ملے۔حتی کہ قتل بھی ہو گئے جو انہونی بات تھی۔ اہل چینائے ٹھنڈے مزاج کے صبر و سکون رکھنے والے شہری ہیں۔ مگر قلت آب نے شہریوں کو غصیلا اور جلد باز بنا دیا۔ جب پانی کا ٹرک پہنچے‘ تو لوگ بے تابی سے اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ تب ہر کسی کی تمنا ہوتی ہے کہ وہ پہلے پانی حاصل کر لے۔

مگر جلد بازی کے باعث آپس میں لڑائی بھی ہو جاتی ہے۔ یوں قلت آب امن پسند شہر میں منفی تبدیلی لے آئی اور باسیوں کو جھگڑالو بنانے لگی۔چینائے ہی نہیں بھارت کے دیگر بڑے شہر اور علاقے بھی پانی کی کمی کا شکار ہیں۔ اس قلت نے مختلف وجوہ کی بنا پر جنم لیا۔ مثال کے طور پر تامل ناڈو کے ممتاز ماہر آب ڈاکٹر شنکر رگھوان کا کہنا ہے ’’قلت آب جنم دینے میں انسانوں کا بھی ہاتھ ہے۔ لوگ ندی نالوں اور جھیلوں میں کوڑا کرکٹ پھینکتے ہیں۔ اس باعث آبی ذخائر کا رقبہ سکڑ رہا ہے اور ان میں زیادہ پانی جمع کرنے کی صلاحیت نہیں رہی۔‘‘

بھارتی معیشت خطرے میں

دنیا کے بیشتر ممالک میں بڑھتی آبادی‘ آب پاشی کے غلط طریقوں کا استعمال‘ پانی ضائع کرنا اور آب و ہوا میں تبدیلیاں قلت آب جنم لینے کے بڑے اسباب ہیں۔وطن عزیز کے سب سے بڑے شہر،کراچی ہی کو لیجیے جہاں لاکھوں باسیوں کو روزانہ پانی حاصل کرنے کے لیے بہت تگ ودو کرنا پڑتی ہے۔قابل ذکر بات یہ کہ ہمارے کرہ ارض کا بیشتررقبہ پانی سے گھرا ہوا ہے مگر یہ کھارا ہے۔ زمین پر موجود کُل پانی میں سے صرف 3.4فیصد میٹھا ہے۔ اس میٹھے پانی کا 1.7 فیصد حصہ زیر زمین آبی ذخائر اور 1.7 فیصد گلیشروں میں محفوظ ہے۔

افسوس کہ بڑھتے درجہ حرارت کی وجہ سے قطب شمالی‘ قطب جنوبی اور گرین لینڈ میں صدیوں سے منجمند میٹھا پانی پگھل کر سمندروں میں گر رہا ہے۔گویا میٹھے پانی کے ذخائر میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ 2025 ء تک دنیا بھر میں تقریباً دو ارب انسانوں کو پانی کی کمی سے نبردآزما ہونا پڑے گا۔گلیشیرؤں اور بارشوں کے پانی ہی سے دریا وجود میں آئے۔ دریاؤں کا پانی آب پاشی میں کام آتا ہے۔ بھارت اور کئی دوسرے ممالک میں 70تا 80 فیصد پانی زراعت میں استعمال ہوتا ہے۔ 22فیصد پانی کارخانوں میں کھپ جاتا ہے۔ یوں گھریلو مقاصد پورے کرنے کی خاطر 8 فیصد پانی بچ پاتا ہے۔ اسی پانی سے اہل خانہ پیاس بجھاتے ‘ کپڑے دھوتے‘ فلش کرتے اور دیگر کام انجام دیتے ہیں۔ ماہرین کی رو سے ہر انسان کو روز مرہ کام کرنے کے لئے 25 لیٹر فی کس پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔

چینائے میں پانی کی قلت آب و ہوائی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔ ان کی وجہ سے بھارت کی جنوبی اور مغربی ریاستوں میں پچھلے پانچ سال کے دوران کافی کم بارشیں ہوئی ہیں۔ بھارتی ریاستوں میں پانی کی کمی نے مہاراشٹر اور تامل ناڈو کو زیادہ متاثر کیا۔ یہ دونوں بالترتیب بہ لحاظ آبادی بھارت کی دوسری ( ساڑھے گیارہ کروڑ) اور چھٹی (سوا سات کروڑ) بڑی ریاستیں ہیں۔ بارشیں کم ہونے کے باوجود ان ریاستوں کے کروڑوں باسی آبی ذخائر کا پانی استعمال کرتے رہے۔

چنانچہ اب وہ سوکھ چکے اور ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ رواں سال بھی مہاراشٹر اور تامل ناڈو کے بیشتر علاقوں میں مون سونی بارشیں کم ہی ہوں گی۔بھارتی حکومت کے لیے یہ اچھی خبر نہیں۔ بھارت کے جی ڈی پی میں سب سے زیادہ یہی دونوں ریاستیں حصہ ڈالتی ہیں۔ ان ریاستوں میں کئی ملٹی نیشنل اور مقامی کمپنیوں کے دفاتر اور کارخانے واقع ہیں۔ لیکن پانی کی کمی ان ریاستوں میں صنعت و تجارت ‘ کاروبار اور زراعت کو نقصان پہنچائے گی۔سرمایہ کار اپنے کارخانے اور دفاتر دیگر ریاستوں میں منتقل کرنے پر مجبور ہوں گے۔یوں ریاستیں معاشی زوال کا نشانہ بن جائیں گی۔ان کے زوال سے بھارت کا جی ڈی پی بھی کم ہو گا۔ نیز معاشی ترقی کی شرح کو بھی ضعف پہنچے گا۔

چینائے قلت آب کا نشانہ بننے والا پہلا بڑا بھارتی شہر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مستقبل میں پانی کی کمی بھارتی معیشت کو کافی نقصان پہنچائے گی۔ بڑھتی آبادی کے باعث بھارت میں پانی کی طلب بھی بڑھ رہی ہے۔ لیکن پانی کے ذخائر میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ آب و ہواکی تبدیلیوں کی وجہ سے بارشوں میں کمی آ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے‘ جب بھارت آزاد ہوا تھا تو ہر شہری کو تین ہزار مکعب میٹر پانی میسر تھا۔ آج یہ عدد صرف ایک ہزار مکعب میٹر رہ گیا ہے۔ جبکہ اس میں مزید کمی آ رہی ہے۔آج بھارت کے تمام بڑے شہروں میں قلت آب جنم لے چکی۔ غریب عوام خصوصاً اکثر پانی کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ وہ گھٹیا معیار کا پانی پینے پر مجبور ہیں جو انہیں مختلف بیماریوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے قوم سے وعدہ کیا ہے کہ وہ 2024ء تک ہر شہری کو نلکے کا صاف پانی فراہم کریں گے۔ لیکن یہ مہم کیونکر کامیاب ہو گی ‘ اس ضمن میں مودی سرکار کے سامنے کوئی واضح پلان اور وژن موجود نہیں۔

 نت نئے مسائل کا جنم

بھارت میں کئی سو چھوٹے بڑے دریا بہتے ہیں ۔ رفتہ رفتہ ان دریاؤں کا پانی کنٹرول کرنے کی خاطر ریاستی حکومتوں کے مابین اختلافات اور چپقلش بڑھ رہی ہے۔ ظاہر ہے‘ ہر ریاستی حکومت چاہے گی کہ اس کی ریاست میں قلت آب جنم نہ لے۔ یہ قلت لوگوں میں بے چینی اور معاشرتی بگاڑ پیدا کرتی ہے جس سے ہر حکومت بچنا چاہتی ہے۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ مستقبل میں قلت آب شدید ہوئی‘ تو پانی کے مسئلے پر ریاستی اختلافات بھی شدت اختیار کر لیں گے۔ تب ممکن ہے کہ وفاقِ بھارت ٹوٹنے کا خطرہ پیدا جائے۔ ظاہر ہے تب جذبہ حب الوطنی نہیں بقائے زندگی حکومتوں کے لیے اہمیت اختیار کر جائے گی۔ جب پانی نہ ہو تو انسان پہلے اپنی جان بچانے کی فکر کرتا ہے‘ کوئی اور جذبہ پیاس بجھا کر ہی جنم لیتا ہے۔

ہمارے پڑوسی دیس میں یہ اعجوبہ بھی موجود ہے کہ وہاں پانی کی کل ضروریات کا 55فیصد حصہ زیر زمین واقع آبی ذخائر سے پانی نکال کر پورا کیا جاتا ہے۔ بھارتی حکومت دریاؤں ‘ نہروں‘ جھیلوں کے پانی پر تو کچھ کنٹرول رکھتی ہے مگر زیر زمین ذخائر میں موجود بیشتر پانی شہریوں کی ملکیت ہے۔ یہی وجہ ہے پچھلے پچاس برس کے دوران شہری ان ذخائر سے اربوں گیلن پانی نکال چکے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بیشتر بھارتی اضلاع اور شہروں میں اگلے سال کے اواخر تک زیر زمین آبی ذخائر ختم ہوجائیں گے۔ یہ مودی سرکار کے لیے ایک اور بری خبر ہے۔ بھارت کے جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ تقریباً 16 فیصد ہے جبکہ بھارتی زراعت میں 25 فیصد پانی زیر زمین آبی ذخائر سے حاصل ہوتا ہے۔ اگر یہ ذخائر ختم ہوگئے، تو زراعت بھی ماند پڑجائے گی۔ یوں خوراک کم پیدا ہوگی۔ بھارتی حکومت کو بیرون ممالک سے غذا درآمد کرنا پڑے گی۔ اس طرح حکومت پر ایک اور مالی دباؤ پڑ ئے گا جو پہلے ہی بڑھتے اخراجات کے باعث پریشان ہے۔

یاد رہے، جو پانی زمین کی زیادہ گہرائی سے نکالا جائے، وہ ڈاکٹروں کے نزدیک عمدہ نہیں ہوتا۔ وجہ یہ کہ اس پانی میں بعض معدنیات مثلاً فولاد اور نمکیات تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ اصطلاح میں یہ ’’بھاری پانی‘‘ کہلاتا ہے۔ انسان اگر طویل عرصہ یہ بھاری پانی استعمال کرے تو مختلف بیماریوں کا شکار ہوسکتا ہے۔ مثلاً بالوں کا گرجانا، جلدی مسائل اور خاص طور پر امراض معدہ، لیکن کروڑوں بھارتی یہ مضر صحت پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ انہیں صاف ستھرا پانی میسر نہیں۔بھارتی حکومت کے اپنے اعدادو شمار کی رو سے آج ’’ساٹھ کروڑ بھارتی‘‘ کسی نہ کسی طرح پانی کی کمی کا شکار ہو چکے۔ ان میں شہری، دیہاتی، کسان، مزدور، کلرک، تاجر، دکان دار غرض ہر پیشے اور شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ قلت آب نے خصوصاً کسانوں کو زیادہ متاثر کیا ہے کیونکہ ان کا روزگار خطرے میں پڑچکا۔

مہاراشٹر، راجستھان، تامل ناڈو، کرناٹک، اڑیسہ اور پانی کی کمی کا شکار دیگر ریاستوں میں ہزارہا کسانوں کے کھیت قلت آب کے باعث تباہ ہوچکے۔ لاکھوں بھارتی مجبور ہوگئے کہ وہ اپنے دیہات سے نکل مکانی کرکے شہروں میں آجائیں تاکہ وہاں روزگار مل سکے۔ بھارتی شہروں میں دیہاتیوں کی بڑی تعداد آنے سے نئے معاشی و معاشرتی مسائل جنم لے رہے ہیں۔شہروں میں مقیم بھارتیوں کو شکایت ہے کہ دیہاتی ان سے ملازمتیں چھیننے لگے ہیں۔ پھر پانی، بجلی اور گیس کے وسائل جو بڑھتی آبادی کے باعث پہلے ہی نایاب تھے، دیہاتیوں کی آمد سے ان پر مزید دباؤ پڑگیا۔ گھروں اور فلیٹوں کے کرائے میں بھی اضافہ ہوا کیونکہ ان کی مانگ بڑھ گئی۔ غرض قلت آب بھارت میں نت نئے مسائل کو جنم دے رہی ہے۔

پانی کی کمی اور بڑھتے درجہ حرارت سے پیدا ہونے والا قحط بھی بھارت میں مختلف خطرات سامنے لارہا ہے۔ سرکاری اداروں کی رپورٹ کے مطابق بھارت کے ’’44 فیصد‘‘ علاقے کم یا زیادہ قحط میں مبتلا ہیں۔ اکثر علاقوں میں مویشی مرچکے۔ اس باعث دیہاتی اپنے اہم ذریعہ آمدن سے محروم ہوگئے۔ فصلیں تو پہلے ہی تباہ ہوچکی تھیں۔ لہٰذا بھوک، پیاس اور قرضوں کے ستائے کئی بھارتی کسان ہر سال خودکشی کرلیتے ہیں۔ وہ حالات کا مقابلہ کرنے کے بجائے اپنی جان لینے کو ترجیح دیتے ہیں۔یاد رہے اناج، پھل اور سبزی کی کاشت آب و ہوائی تبدیلیوں، بڑھتے درجہ حرارت، مسلسل بارشوں اور دیگر موسی حالات سے متاثر ہوتی ہیں۔ اگر طویل عرصہ شدید گرمی رہے، تو وہ فصلیں تباہ کر ڈالتی ہے۔ اسی طرح مسلسل بارشیں ہونا بھی نیک شگون نہیں ہوتا اور کھیت یا باغات برباد ہوجاتے ہیں۔ غرض زراعت کوئی آسان پیشہ نہیں بلکہ اس پیشے سے وابستہ افراد کو کوئی مسائل کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔

بڑے شہر ہوں یا دیہات، آج بھارت کے باسی قلت آب سے دوچار ہوکر کٹھن زندگی کے نئے رنگ روپ سے آشنا ہو رہے ہیں۔ زیر زمین آبی ذخائر سوکھ چکے۔ انسانی آبادیوں کو پانی فراہم کرنے والی جھلیوں اور تالابوں میں بھی پانی کم ہورہا ہے۔ وہ زمانہ بیت گیا جب ہر کسی کو وافر و مفت پانی دستیاب تھا۔ اب تمام بڑے بھارتی شہروں میں پانی کو راشن کرنا معمول بن چکا۔ کئی علاقوں میں ایک ایک لیٹر کا حساب رکھا جاتا ہے۔

اسی طرح بہت سی جگہوں میں بچے بڑے صبح اٹھ کر سب سے پہلے پانی کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات تو پانی حاصل کرتے ہوئے کئی گھنٹے بیت جاتے ہیں۔ غرض ہزارہا بھارتیوں کے لیے پانی کا کھوج لگانا کل وقتی کام بن چکا۔المیہ یہ ہے کہ بھارت میں پانی کی تقسیم کا نظام بھی منصفانہ نہیں۔ دیہی علاقے میں بڑے زمین دار دریاؤں اور نہروں سے زبردستی زیادہ پانی لیتے ہیں۔ شہروں میں امیر و پوش علاقوں میں زیادہ پانی سپلائی کیا جاتا ہے۔ غرض غریب بھارتی گاؤں میں ہو یا شہر میں، پانی کا حصول اس کے لیے کٹھن مرحلہ بن جاتا ہے۔ یہ قدرتی نعمت پانے کی خاطر اسے کئی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ پانی کرہ ارض کی روح ہے۔ مگر یہ روح رفتہ رفتہ بیمار و لاغر ہورہی ہے۔ اگر بنی نوع انسان نے اس روح کو تندرست و صحت مند بنانے کے ٹھوس اقدامات نہ کیے تو خود اس کی بقا خطرے میں پڑجائے گی۔ لہٰذا پانی کی قدر کیجیے اور اسے محفوظ کرنے کے لیے اقدامات اپنائیے۔ یہ معمولی نہیں ہیرے سے بھی قیمتی شے ہے۔ پانی ضائع کرکے آنے والی نسلوں کو یہ موقع نہ دیجیے کہ وہ آپ پر لعنت ملامت کرتے زندگی گزارنے لگیں۔ یاد رکھیے، آپ کوئی بھی کام انجام دیں، توہ پانی کم سے کم استعمال کرکے بھی کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔