پاکستانی.... افراد سے ملک تک ڈاکازنی کا شکار

سید بابر علی  اتوار 7 جولائی 2019
’’حقوق املاکِ دانش‘‘ کے قانون کے بارے میں انٹیلکچول پراپرٹی رائٹس کی ممتاز وکیل ثمریناشاہ کی ایکسپریس سے چشم کُشا گفتگو

’’حقوق املاکِ دانش‘‘ کے قانون کے بارے میں انٹیلکچول پراپرٹی رائٹس کی ممتاز وکیل ثمریناشاہ کی ایکسپریس سے چشم کُشا گفتگو

تخلیق ایک ایسا لفظ جس نے اپنے اندر پوری کائنات کو سمو رکھا ہے، ہر فرد کے لیے اس کے معنی الگ الگ ہیں، شاعر کے لیے ایک شعر کی تخلیق کا سفر اسے دنیا و مافیہا سے بے خبر کردیتا ہے، ایک مجذوب تخلیق کی حقیقت جاننے کے لیے ہوش و حواس سے بے گانہ ہوجاتا ہے۔

مصور ایک تصویر کی تخلیق کے لیے دشت و صحرا، جنگل و بیاباں کی خاک چھانتا ہے۔ سنگیت کار ایک سنگیت کی تخلیق میں اپنی زندگی کے کتنے ہی قیمتی لمحات کھو دیتا ہے۔ اتنی کٹھنائیوں کے بعد جب ایک شعر تخلیق پاتا ہے، جب ایک تصویر حقیقت کے روبرو ہوتی ہے، جب ایک نغمہ کانوں میں رس گھولنے کے قابل ہوتا ہے، بس یہی ایک شعر، ایک تصویر، ایک نغمہ اس کے خالق کے رگ و پے کو مسرت و شادمانی سے بھر دیتا ہے۔

اس کی روح کو خوشی سے لبریز کردیتا ہے، لیکن جب!! اتنی مشقتوں، صحرانوردی اور دشت کی سیاحی سے تخلیق پانے والے ’شاہ کار‘ کو کوئی اور چُرا لے جائے تو اس درد، اس اذیت، اس تکلیف کا اندازہ صرف اسی کو ہوسکتا ہے جو اس کیفیت سے گزر چکا ہو۔ تخلیق کی چوری کا یہ مذموم سلسلہ نیا نہیں، حقوق املاکِ دانش کی خلاف ورزی کے نقش تو سولہویں صدی میں بھی پائے جاتے ہیں، لیکن دورِحاضر میں انٹرنیٹ کی بدولت اس چوری نے ایک وسیع کاروبار کی شکل اختیار کرلی ہے۔ دل چسپ بات تو یہ ہے کہ پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں آج بھی اس ’چوری‘ کو ’چوری‘ سمجھا ہی نہیں جاتا ۔ اس بابت شعور کا فقدان اس قدر ہے کہ چور کو خود نہیں پتا ہوتا کہ وہ چوری جیسے جرم کا مرتکب ہورہا ہے اور لٹنے والے کو اس بات کا احساس بھی نہیں ہوپاتا کہ وہ اپنی زندگی کے اس قیمتی متاع حیات سے محروم ہوچکا ہے جس کی تخلیق میں اس نے اپنی جوانی تیاگ دی۔

پاکستان میں ’حقوق املاکِ دانش‘ کے لیے سرکاری طور پر ایک ادارہ تو قائم ہے لیکن عوام کو اس بارے میں کچھ آگاہی نہیں۔ اس عدم آگاہی کا سب سے بڑا فائدہ دوسروں کی تصاویر، تحاریر اور دیگر ادبی اور تخلیقی کام پر دن دیہاڑے ڈاکا مارنے والے ’لٹیرے‘ اٹھا رہے ہیں۔ ٹور آپریٹرز کسی کی بھی محنت اور سرمایہ خرچ کرکے لی گئیں تصاویر کو اپنے کاروبار کی پروموشن میں استعمال کرتے ہیں تو کچھ ’لٹیرے‘ دوسروں کے ادبی اور تخلیقی کاموں کو اپنے نام سے شائع اور نشر کروا کر لوگوں سے داد وصول کرتے رہتے ہیں۔ زیرنظر مضمون میں دنیا بھر بشمول پاکستان میں ’حقوق املاکِ دانش‘ کے حوالے سے موجود قوانین کے حوالے سے برطانیہ کی یونیورسٹی آف بکھنگم سے ’کمرشل لا‘ میں قانون کی ڈگری حاصل کرنے والی ممتاز وکیل ثمرینا شاہ سے گفت گو کی گئی ثمرینا شاہ وائیو آربیٹریشن اینڈ میڈ ایشن سینٹر سے بہ حیثیت لائیرر سپورٹنگ میڈی ایشن وابستہ ہیں جس کا احوال نذر قارئین ہے۔ واضح رہے کہ ’حقوق املاکِ دانش‘ پر شائع ہونے والے اس مضمون کی دوسری قسط اگلے اتوار شایع کی جائے گی۔

٭  ایڈووکیٹ ہائی کورٹ ثمرینا شاہ

وکیل برائے انٹیلیکچوئل پراپرٹی رائٹس (حقوق املاکِ دانش)

دنیا بھر خصوصاً پاکستان میں حقوق املاکِ دانش کو سمجھنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے اس کا پس منظر جاننا ہوگا، کہ آخر کن وجوہات کی بنا پر اپنے ہی تخلیقی کام کو قانونی شکل دینے کی نوبت پیش آئی۔

’حقوق املاکِ دانش‘ کے لیے ایک بین الاقوامی آرگنائزیشن کے قیام کی ضرورت اس وقت شدت سے محسوس کی گئی جب ایگزبیٹرز (نمائش کنندگان) نے 1873میں ویانا میں ہونے والی ایجادات کی بین الاقوامی نمائش میں شرکت سے انکار کردیا، کیوں کہ انہیں اپنے آئیڈیاز اور یا ایجادات کے چوری یا دوسرے ممالک کی جانب سے اس کا استحصال کیے جانے کا خدشہ تھا۔ اس کے نتیجے میں1883میں انڈسٹریل پراپرٹی کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ’پیرس کنوینشن‘ کے نام سے ایک بین الاقوامی معاہدہ طے پایا۔ ممتاز فرانسیسی شاعر اور ناول نگار وکٹر ہیوگو کی جانب سے ’حقوق املاکِ دانش‘ کے تحفظ کی مہم اور ادبی و تخلیقی کام کو تحفظ دینے کے ’برن کنوینشن‘ معاہدے نے 1886میں اہم سنگ میل عبور کیے۔

1891میں ہسپانوی شہر میڈریڈ نے اس معاہدے پر عمل درآمد کرتے ہوئے پہلے بین الاقوامی آئی پی (انٹیلکچوئل پراپرٹی) فائنلنگ سسٹم کو لانچ کیا۔1893میں برن کنونشن کا نظم و نسق چلانے کے لیے پیرس میں BIRPI (یونائیٹڈ انٹرنیشنل بیوریکس فار دی پروٹیکشن آف انٹیلکچوئل پراپرٹی) کا قیام عمل میں لایا گیا۔ 1970میں ایک بین الاقوامی تنظیم نے رکن ممالک کے ساتھ بہ طور بین الحکومتی تنظیم کے ساتھ کام کرنا شروع کردیا جس کے نتیجے میں BIRPI وائپو) ورلڈ انٹرنیشنل انٹیلکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن ) بن گئی۔ 1974 میں وائپو اقوام متحدہ کا حصہ بن گئی اور دنیا بھر میں ’حقوق املاکِ دانش‘ کی تمام اشکال کو تحفظ اور معاونت فراہم کرنے کے لیے بھرپور طریقے سے کام کا آغاز کردیا۔ اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو وائپو کا رکن بننے کی ترغیب دی جاتی ہے لیکن اس کا رکن بننا یا نہ بننا رکن ملک کی مرضی پر منحصر ہے۔

پاکستان1977میں ’وائپو‘ کا رکن بنا۔ اس وقت دنیا کے 192ممالک وائپو کے رکن ہیں۔ دنیا کے 195ممالک میں سے177 ممالک برن کنونشن معاہدے کے سِگنیٹری (کسی معاہدے پر دستخظ کرنا) ہیں۔ پاکستان 5 جولائی1948کو اس کا رکن بنا۔ دنیا بھر میں ’حقوق املاکِ دانش‘ کے لیے ’برن کنونشن‘ کے علاوہ دیگر بین الاقوامی ادارے بھی ہیں جن میں 1952میں بننے والا سوئٹزر لینڈ، جینوا کا ’یونیورسل کاپی رائٹس کنوشن‘ (یو سی سی) ہے، پاکستان 16 ستمبر1955کو اس کا رکن بنا۔ اسی طرح ’ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن‘ کے رکن ممالک کے درمیان ایک بین الاقوامی قانونی معاہدہ ہے جسے ’ ایگریمنٹ ان ٹریڈ ریلیٹڈاسیپیکٹس آف انٹیلکچوئل پراپرٹی رائٹس‘ TRIPS کہا جاتا ہے۔ پاکستان یکم جنوری1995 سے اس کا رُکن ہے۔

لیکن ’حقوق املاکِ دانش‘ کے لیے کام کرنے والے اتنے سارے بین الاقوامی اداروں کا رکن ہونے کے باوجود پاکستان میں انفرادی سطح پر اس بابت شعور کا فقدان پایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں ’حقوق املاکِ دانش‘ کی نو مختلف سروسز دی جاتی ہیں، جن میں پیٹینٹ، کاپی رائٹ، انڈسٹریل ڈیزائن، کاپی رائٹ، انٹیگریٹڈ سرکٹس، جیو گرافیکل انڈیکیشن، پلانٹ بریڈرز رائٹس، جینٹکس ریسورسز (جی آر ٹی کے ایف) اور نیشنل انٹیلکچوئل رائٹس شامل ہیں۔

پاکستان میں اس ضمن میں درج بالا چار سروسز مہیا کی جاتی ہے۔ لیکن پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان وائپو کے ’جیو گرافیکل انڈیکیشن قانون‘ کی عدم موجودگی سے ہورہا ہے۔ یہ قانون کسی بھی ملک کو اس کی سرزمین پر پیدا اور تیار ہونے والی مصنوعات کی ملکیت کا بین الاقوامی حق دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اٹلی میں پنیر کے ایک برانڈ Parmigiano-Reggiano کو ’جیو گرافیکل انڈیکیشن‘ قانون کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ اب پوری دنیا میں کوئی بھی ملک یا ادارہ پنیر کو اس نام سے فروخت نہیں کر سکتا، تاہم اس پنیر کے جینیرک نام Parmesanکو بہت سی کمپنیاں Parmigiano-Reggianoکی طرح کا پنیر تیار کرکے فروخت کر رہی ہیں۔ پاکستان کو قدرت نے بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے، ہمارے یہاں بہت سی معدنیات، پھل اور سبزیاں ایسی بھی ہیں جو دنیا کے کسی اور خطے میں نہیں پائی جاتیں، لیکن ہم صرف اس قانون کے نہ ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی منڈیوں میں اپنی مصنوعات کو اچھی قیمت پر فروخت نہیں کرپاتے جس کا بالواسطہ اثر ہماری برآمدات پر پڑتا ہے۔ پاکستان میں ’جیو گرافیکل انڈیکیشن قانون‘ نہ ہونے کا سب سے زیادہ فائدہ بھارت اور چین کو پہنچتا ہے۔

اس وقت چین اس قانون سے سب سے زیادہ مستفید ہو رہا ہے ، ہم چین کے ساتھ ایک بڑے منصوبے سی پیک کو لے کر چل رہے ہیں لیکن ’جیو گرافیکل انڈیکیشن لا‘ کے حوالے سے قانون سازی پر سنجیدگی سے کام نہیں کر رہے۔ ایڈووکیٹ ثمرینا شاہ کا کہنا ہے کہ ’جیو گرافیکل انڈیکیشن‘ قانون ایگری فوڈ انڈسٹری کو سپورٹ اور پاکستان کے برآمدی اہداف کو پورا کرنے میں مدد دے سکتا ہے ۔ زرعی پالیسی اور جیو گرافیکل انڈیکشن کا قانون بناکر ہم اپنی افرادی قوت کی محنت کے ثمرات سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی معیشت کو بھی مستحکم کر سکتے ہیں۔ معاشی فوائد کو کھو دینے کی سب سے بڑی مثال ڈیزائنر سر پال اسمتھ کی ہے، جو ہمارے ملک میں بننے والی پشاوری چپل کے ڈیزائن کو آئی پی رجسٹرڈ کروا کر 300 پاؤنڈ میں فروخت کر رہے ہیں۔ ہمارے پاس بہت باصلاحیت لوگ ہیں لیکن قانون سازوں کو اس بارے میں سنجیدگی سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ یورپی اقوام جیو گرافیکل انڈیکشن قانون کی مدد سے وائنز، پھل، اور دیگر اشیاء کی برآمدات کو فروغ دے رہی ہیں اور پاکستان اس قانون کے نہ ہونے کی وجہ سے ان معاشی فوائد سے بھی محروم ہو رہا ہے جسے وہ حاصل کر سکتا ہے۔

ایڈووکیٹ ثمرینا شاہ نے بتایا کہ ’پاکستان میں ’حقوق املاکِ دانش‘ کا شعور نہ ہونے کے برابر ہے تاہم گذشتہ چند سال میں چھوٹے و درمیانے درجے کے کاروباری اداروں اور انفرادی سطح پر اس بابت شعور بیدار کرنے کا آغاز کیا گیا ہے لیکن اب بھی ہمارے یہاں لوگوں میں ’حقوق املاکِ دانش‘ کے تحت کاپی رائٹ، ٹریڈ مارک، ڈیزائن یا پیٹنٹ رجسٹرڈ کروانے کی شرح اس خطے کے دیگر ممالک کی نسبت کم ہے ۔ دسمبر 2014 میں محکمہ قانون اور انصاف نے ’انٹیلکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن آف پاکستان‘ کے ایکٹ 2012  کے سیکشن 16(1)کے تحت تین شہروں کراچی لاہور اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں انٹیلکچوئل پراپرٹی ٹریبیونل قائم کیے، لیکن اس معاملے میں بلوچستان کو نظرانداز کیا گیا جب کہ بلوچستان میں بھی تخلیقی کام ہورہا ہے، وہاں بھی بہت سارے ادارے ایسے ہیں ۔

جنہیں کاپی رائٹ، ٹریڈ مارک، پیٹنٹ اور انڈسٹریل ڈیزائن کی خلاف ورزی جیسے مسائل کا سامنا ہے ۔ ’حقوق املاکِ دانش‘ کی رجسٹریشن کی بابت پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے یہاں لوگ بہت اچھا کام کر رہے ہیں لیکن وہ اپنے کام کو ’آئی پی او‘ سے رجسٹرڈ نہیں کرواتے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ قانونی طور پر اپنا دفاع کرنے کے اہل نہیں رہتے، کیوں کہ جب آپ نے اپنے کام کو قانون کے مطابق رجسٹرڈ ہی نہیں کروایا تو پھر آپ اس کی خلاف ورزی پر قانونی جنگ کیسے لڑ سکتے ہیں؟ بات یہ ہے کہ ’حقوق املاکِ دانش‘ کی وسعت صرف تحریر اور تصویر تک ہی محدود نہیں ہے۔

مثال کے طور پر ہمارے کھانے پینے کے بہت سے مشہور برانڈ ایسے ہیں جو ابھی تک اپنے ٹریڈ مارک، سلوگن کاپی رائٹ کو رجسٹر کروائے بنا کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح بہت سے اداروں نے اپنے کاروباری راز (ٹریڈ سیکریٹ) کو بھی قانونی تحفظ فراہم نہیں کیا ہے، مثال کے طور پر ایک مشہور فوڈچین کی بریانی بہت مشہور ہے ، لیکن وہ اس کی تیاری میں استعمال ہونے والے مصالحوں اور اجزا کو کسی کو بتانا نہیں چاہتی۔ اسی طرح کوئی کمپنی خاص قسم کی خوشبو یا شیمپو بناتی ہے لیکن اس کے اجزائے ترکیبی اس کے کاروباری راز ہیں۔ پاکستان میں ’ ٹریڈ سیکریٹ‘ کا قانون موجود نہیں ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے ٹریڈرز کو تحفظ حاصل نہیں ہے، ٹریڈرز اور کاروباری ادارے اپنے راز ظاہر نہ کرنے کے معاہدے بھی کر سکتے ہیں۔

جس کی خلاف ورزی کی صورت میں انہیں قانونی مدد ملے گی۔‘ ان کا کہنا ہے کہ’ وائپو کے قوانین کے مطابق ’ کوئی بھی ادارہ اپنے کاروباری راز کو متعلقہ ملک کی ’ آئی پی او‘ سے رجسٹرڈ کروانے کا پابند نہیں ہے لیکن اگر کل کو ئی بھی آپ کے فارمولے یا ریسپی کی بنیاد پر اپنی پراڈکٹ فروخت کرنا شروع کردے تو پھر قانوناً آپ اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکتے۔ اسی طرح سلوگن، جنگلز، بھی کاپی رائٹس میں شامل ہیں، یوں سمجھ لیں کہ ہر وہ چیز جو آپ نے لکھی، بنائی، وہ آپ کی ’انٹلیکچوئل پراپرٹی‘ ہے، بہ حیثیت موجدیا مصنف آپ کے پاس اس کے مالکانہ حقوق موجود ہیں لیکن اپنے اس حق کو عدالت میں ثابت کرنے کے لیے اپنی ایجاد، اپنی تخلیق، اپنی تحریر یا اپنے ڈیزائن کو ’ آئی پی او‘ سے رجسٹرڈ کروانا لازمی ہے۔ ایڈووکیٹ ثمرینا شاہ کا کہنا ہے کہ اگر کوئی آپ کے کام کو چُرا کو اپنے نام سے رجسٹر یا اسے شایع کردیتا ہے تو اس سے آپ کے حقوق کی خلاف ورزی تو ہوتی ہے لیکن اسے عدالت میں ثابت کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے ۔

یہ معاملہ بالکل ایسا ہی ہے کہ میں ایک کافی شاپ کھول لیتی ہوں، لیکن اس کا ٹریڈ مارک اور نام رجسٹر نہیں کرواتی اور کچھ عرصے کوئی فرد میرے ہی نام اور ٹریڈ مارک کو آئی پی او میں رجسٹرڈ کروا کر، کافی شاپ کھول کر میری ’اچھی ساکھ‘ کا فائدہ اٹھاتا ہے تو پھر قانونی طور پر میرے پاس اپنے نام، ٹریڈ مارک، اور اچھی ساکھ کو کھونے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچتا۔ کاپی رائٹ کی طرح ٹریڈ مارک، پیٹینٹ، انڈسٹریل ڈیزائن کو بھی ’انٹیلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن آف پاکستان‘ رجسٹرڈ کروانا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر آپ گاڑی بنانے والے پہلے انسان ہیں، آپ اس کے موجد ہیں، آپ نے اسے ڈیزائن کیا، آپ اپنی اس ایجاد کو انسانیت کے بہتر مفاد میں پیٹینٹ کروا کے اپنی اجارہ داری قائم نہیں کرنا چاہتے تو یہ آپ کی شرافت ہے لیکن ہوسکتا ہے کہ کوئی اور آپ کی اس ایجاد کا سہرا اپنے سر باندھ لے۔ کسی بھی ایجاد یا دریافت کو پیٹینٹ کروانے سے کے بعد اس پر اگلے بیس برسوں تک آپ کی اجارہ داری قائم ہوجاتی ہے، اگلی دو دہائیوں تک کوئی فرد یا ادارہ آپ کی اجازت کے بغیر اس پیٹینٹ کو استعمال نہیں کرسکتا۔ اسی طرح اگر کوئی ادویہ ساز کمپنی کینسر کی دوا بنا کر اسے پیٹنٹ کروا لیتی ہے، تو اگلے بیس سال کوئی اور کمپنی اس دوا کو تیار نہیں کر سکتی۔ اب یہ اس فارما سیوٹیکل کمپنی کی صوابدید پر ہے کہ وہ اس سے ایک روپیا منافع کمائے یا ایک لاکھ روپے!

٭ ’حقوق املاکِ دانش‘ اور رجسٹریشن کی میعاد

ٹریڈ مارک، پیٹینٹ، انڈسٹریل ڈیزائن اور کاپی رائٹ کی رجسٹریشن کے دورانیے کی بابت ایڈووکیٹ ثمرینا شاہ کا کہنا ہے کہ ’پیٹینٹ کی رجسٹریشن بیس سال تک موثر ہوتی ہے، اس کے بعد یہ ایجاد یا تحقیق پبلک پراپرٹی بن جاتی ہے۔ یعنی کوئی بھی اسے اپنی مرضی کے مطابق استعمال کر سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اسی وجہ سے بہت سی کمپنیاں اپنی تحقیق یا ایجاد کو پیٹینٹ کروانے کے بجائے اپنے طریقہ کار یا فارمولے کو ’ٹریڈ سیکریٹ ‘ کے طور پر رجسٹرڈ کرواتی ہیں، مثال کے طور پر سوفٹ ڈرنک بنانے والی ایک کمپنی نے اپنے مشروب کے فارمولے کو ٹریڈسیکریٹ کے طور پر رجسٹرڈ نہیں کروایا ہے لیکن یہ اب تک دنیا کے بہترین ٹریڈ سیکریٹ کے طور پر جانا جاتا ہے یہ کمپنی اپنے سافٹ ڈرنک کے ذائقے کا راز عوام پر ظاہر نہیں کرنا چاہتی، اگر وہ اسے پیٹینٹ کے طور پر رجسٹرڈ کرواتے تو پھر کئی دہائی پہلے ہی یہ اس کمپنی کی اجارہ داری ختم ہوچکی ہوتی۔ کاپی رائٹ کی مدت اس کے تخلیق کار کی موت تک ہے، لیکن کاپی رائٹ کے قانون میں موروثیت کا عنصر بھی شامل ہیں، مثال کے طور پر ایک گلوکار کا انتقال ہوجاتا ہے اور اس نے وصیت میں اپنے گائے گئے گانوں کے کاپی رائٹس حقوق بچوں کو منتقل کردیے تھے تو پھر وہ ان گانوں کے کاپی رائٹ حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے فرد یا ادارے کے خلاف عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں۔ ٹریڈ مارک کی رجسٹریشن کی مدت دس سال تک موثر ہوتی ہے لیکن یہ کمپنیوں کے ساتھ بھی منتقل ہوتا رہتا ہے۔‘

ایڈووکیٹ ثمرینا شاہ نے بتایا کہ بین الاقوامی سطح پر ’حقوق املاکِ دانش‘ کا معاملہ تھوڑا مختلف ہے کیوں کہ ’ورلڈ انٹیلکچوئل پراپرٹی رائٹس‘ (وائپو) میں پوری دنیا کا ڈیٹا شیئر ہو رہا ہوتا ہے ۔ گوگل سرچ انجن کی طرح وائپو کے پاس ٹریڈ مارک، کاپی رائٹ، ڈیزائن وغیرہ کو تلاش کرنے کا ایک سرچ جرنل ہے جہاں جا کر آپ کسی بھی رجسٹرڈ آئی پی او کو تلاش کرسکتے ہیں، لیکن اس تک رسائی صرف مجاز اتھارٹیز کو ہی دی جاتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان نے ابھی تک پی سی ٹی (پیٹینٹ کو آپریشن ٹریٹی) معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں، اگر پاکستان اس معاہدے کا حصہ بن جائے تو اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ پاکستان میں رجسٹرڈ ہونے والا پیٹینٹ پی سی ٹی کے 152رکن ممالک میں بھی رجسٹرڈ ہوجائے گا۔

پی سی ٹی پر موجود تمام معلومات ہر کسی کے لیے دست یاب ہیں اور کوئی بھی موجد ہے تو وہاں جا کر رجسٹرڈ پیٹنٹ کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کر سکتا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ برن کنوینشن کا رکن ہونے کی حیثیت سے پاکستان کو یہ فائدہ حاصل ہے کہ پاکستان کے کسی بھی ادبی، تخلیقی اور تحقیقی کام کو دنیا کے 177ممالک میں ’حقوق املاکِ دانش‘ کا حق مل جاتا ہے، یعنی پاکستان میں پیش کیے گئے میرے کام کو ’برن کنوینشن‘ کے رکن ممالک میں کوئی بھی فرد یا ادارہ اپنے نام سے شایع یا رجسٹر نہیں کروا سکتا، لیکن کہ اس کے لیے اولین شرط یہی ہے کہ آپ نے اپنے کام کو ’انٹیلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن آف پاکستان‘ میں رجسڑڈ کروایا ہو۔‘

٭ ’حقوق املاکِ دانش‘ اور ڈیجیٹل میڈیا

پاکستان میں ڈیجیٹل میڈیا پر کاپی رائٹ کی سب سے زیادہ خلاف ورزی کی جارہی ہے، اس بابت ایڈووکیٹ ثمرینا شاہ کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا کی بہت ساری اصناف ہیں لیکن اس میں انٹیلکچوئل رائٹس کی سب سے زیادہ خلاف ورزی سوشل میڈیا ویب سائٹس پر کی جارہی ہے۔ مثال کے طور پر ہم انٹرنیٹ پر شمالی علاقہ جات کی تصاویر تلاش کرتے ہیں تو ایک لمحے میں ہزاروں تصاویر ہماری اسکرین پر آجاتی ہیں، ہم انہیں سوچے سمجھے بنا سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرکے اپنے دوستوں کی ساتھ شیئر کرنا شروع کر دیتے ہیں، جب اس تصویر یا تحریر کے خالق نے ہی اپنی ملکیت ظاہر نہیں کی تو یہ پبلک پراپرٹی بن گئی، اور سب ہی نامعلوم فوٹو گرافر یا مصنف کے کام سے لطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا پر اپنے کام کو تحفظ فراہم کرنے کا سب سے بہتر طریقہ ’واٹر مارک ‘ کا ہے۔

آپ اپنے کام کو واٹر مارک کے بنا ہرگز انٹرنیٹ پر اپ لوڈ نہ کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اگر کوئی آپ کی تصاویر سے کوئی مالی فوائد حاصل نہیں کر رہا تو اس حد تک تو یہ بات ٹھیک ہے لیکن اگر کوئی ادارہ یا فرد آپ کے تخلیقی کام سے مالیاتی یا دیگر فوائد حاصل کر رہا ہے تو پھر یہ اس کا قانونی اور اخلاقی فرض بنتا ہے کہ وہ اس کا فائدہ اُس تصویر یا تحریر کے خالق کو بھی پہنچائے یا کم از کم ایک جملہ اس تخلیق کے مالک کی حوصلہ افزائی میں ہی لکھ دے، لیکن ہمارے یہاں اس کا کوئی تصور نہیں ہے۔ یہاں میں آپ کو ایک بات سے اور آگاہ کرنا چاہوں گی کہ انٹرنیٹ پر کسی کے ’حقوق املاکِ دانش‘ کی خلاف ورزی سائبر کرائم کے زمرے میں بھی آتی ہے۔ اگر آپ کسی کے گانے، تحریر یا تصویر کو بلااجازت غلط مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں تو مذکورہ فرد کو آپ کے خلاف سائبر کرائم ایکٹ یا ’حقوق املاکِ دانش‘ کی خلاف ورزی کے تحت قانونی کارروائی کرنے کا مکمل حق حاصل ہے۔

٭ ’حقوق املاکِ دانش‘ اور قانونی حق

’حقوق املاکِ دانش‘ کی خلاف ورزی پر قانونی کارروائی کے حوالے سے ایڈووکیٹ ثمرینا شاہ کا کہنا ہے کہ انٹیلکچوئل رائٹس ایک مکس ڈومین ہے، اب یہ آپ کے کیس کی نوعیت پر منحصر ہے۔ آپ اپنے ’حقوق املاکِ دانش‘ کی خلاف ورزی کرنے والے فرد یا ادارے پر ہتک عزت کا دعویٰ بھی کرسکتے ہیں، ہرجانے کا دعویٰ کرسکتے ہیں، حکم امتناع یا انجری بھی کلیم کر سکتے ہیں۔

ویسے پاکستان میں ’حقوق املاکِ دانش‘ کے کیسز کے لیے تین صوبوں میں الگ الگ ٹریبونل قائم کیے گئے ہیں۔‘ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں انٹلیکچوئل پراپرٹی رائٹس کی جنگ اداروں کے درمیان چل رہی ہے، انفرادی طور پر اپنے ’حقوق املاکِ دانش‘ کی خلاف ورزی پر کیس دائر کرنے کی شرح بہت کم ہے۔ تاہم اب پاکستان میں جامعات اور کالجز کی سطح پر اس بات کا شعور اجاگر کیا جا رہا ہے، طلبا کو بتایا جارہا ہے کہ ’جی آپ جو کام کر رہے ہیں اسے پاکستان کے انٹیلکچوئل پراپرٹی رائٹس کی شکل میں قانونی تحفظ حاصل ہے۔ پہلے تو طالب علموں کو پتا ہی نہیں ہوتا تھا کہ ان کے تحقیقی اور تخلیقی کام کی بنیاد پر کتنے ادارے پیسے لاکھوں روپے کما چکے ہیں۔ انجینئرنگ اور بایو میڈیکل کے طلبا کو کو تو خاص طور پر اپنے ریسرچ پراجیکٹ کو پیٹنٹ کی شکل میں قانونی تحفظ دینا چاہیے۔

 ٭ہمالین سالٹ اور ’حقوق املاکِ دانش‘

ایڈوو کیٹ ثمرینا شاہ نے بتایا کہ ’حال ہی میں سوشل میڈیا پر کھیوڑہ سے بھارت برآمد ہونے والے ’پنک سالٹ‘ کے حوالے سے کافی شور رہا۔ ہر پاکستانی کی ذہن میں یہ سوال چبھتا رہا کہ آخر وہ کیا وجوہات ہیں کہ پاکستانی سرزمین سے نکلنے والے اس نمک سے پاکستان کے بجائے بھارت کو زیادہ فائدہ مل رہا ہے؟ اصولاً تو اس نمک کی برآمدات کا سب سے بڑا فائدہ پاکستان کو ہونا چاہیے، کیوں کہ یہ نکل پاکستانی زمین سے رہا ہے تو اس کا فائدہ بھی پاکستان کو ملنا چاہیے وغیرہ وغیرہ؟ عوام کے دل و دماغ میں گردش کرنے والے اس سوال کا جواب بھی ’جیو گرافیکل انڈیکیشن‘ قانون نہ ہونے میں پوشیدہ ہے۔

وائپو کے مطابق پاکستان اس نمک پر اپنی ملکیت کا دعویٰ نہیں کر سکتا، کیوں کہ جب آپ مقامی طور پر کسی چیز پر اپنا قانونی حق دائر نہیں کرتے تو پھر بین الاقوامی سطح پر بھی آپ اس پر ملکیت دعویٰ نہیں کرسکتے! ان کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ صرف ایک پنک سالٹ تک ہی محدود نہیں ہے، بھارت سوات سے نکلنے والے قیمتی پتھر ’زمرد‘ کو کوڑیوں کے مول خرید کر بین الاقوامی مارکیٹ میں سونے کے مول فروخت کرتا ہے۔ بین الاقوامی منڈیوں میں پاکستانی مصنوعات کی گرتی ہوئی قدر میں دیگر بہت سے عوامل کے ساتھ ساتھ ’جیو گرافیکل انڈیکیشن‘ قانون کا نہ ہونا بھی ہے۔ پاکستان میں اس قانون کو عملی شکل دینے کے لیے گذشتہ 18سال سے کام ہورہا ہے لیکن یہ ابھی تک ڈرافٹ کی شکل میں ہے۔

ہم صرف اس ایک قانون کی وجہ سے بین الاقوامی مارکیٹ سے مستفید نہیں ہوسکتے۔ اس کی ایک اور مثال لے لیں ’بھارتی اور پاکستانی پنجاب میں کھیس ایک مشہور پراڈکٹ ہے، لیکن بھارتی کھیس ’جیو گرافیکل انڈیکیشن‘ قانون کے تحت ایک رجسٹرڈ آئی پی او ہے، اسی طرح تھر اور راجستھان میں ’پھلکاری‘ کے نام سے ایک مخصوص چادر تیار ہوتی ہے، لیکن کھیس کی طرح یہ بھی بین الاقوامی مارکیٹ میں بھارتی پراڈکٹ کے طور پر رجسٹرڈ ہے۔ پاکستان ’کھیس‘ یا ’پھلکاری‘ کے پاکستانی پراڈکٹ ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا، کیوں کہ وہ تو بھارت ہم سے پہلے ہی اپنی پراڈکٹ کے طور پر آئی پی او رجسٹرڈ کرواچکا ہے۔ اسی طرح بھارت ’کشمیری پشمینہ‘ اور ’بنارسی ساڑھی‘ کو بھی ’جیو گرافیکل انڈیکیشن قانون ‘ کے تحت رجسٹرڈ کرواچکا ہے۔

اسی طرح مغربی بنگال کی ایک مشہور مٹھائی ’رس گلہ‘ ہے، 2015 میں بھارت نے ’جیو گرافیکل انڈیکیشن‘ قانون کے تحت اس مٹھائی ’بنگالی رس گلہ‘ کو جی آئی ٹیگ عطا کردیا۔ اب وائپو کے رکن ممالک میں کوئی بھی اس مٹھائی کو ’بنگالی رس گلہ‘ کے نام سے فروخت نہیں کر سکتا۔ پاکستان میں اس قانون کے نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں برآمدات کی مد میں جو نقصان ہو رہا ہے اس بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے، ہمیں اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ دیکھیں تمام تر انٹیلکچول رائٹس کاروباری طبقے کو ایک تحفظ فراہم کرتے ہیں، اگر آپ کا لیگل فریم ورک مضبوط نہیں ہے تو اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بہت سی کثیرالقومی کمپنیاں ان پراڈکٹ کو بھی اپنے نام سے پاکستان میں رجسٹرڈ کروالیتی ہیں جن ہر ملکیت کا حق ہمارا بنتا ہے۔

ایڈووکیٹ ثمرینا شاہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بہت سے مشہور ملکی اور غیرملکی برانڈز کے نام پر بننے والی جعلی اشیاء ’ فرسٹ اور سیکنڈ کاپی ‘ کے طور پر کھلے عام فروخت ہورہی ہیں، لیکن زیادہ تر کیسز میں آپ ان کے خلاف قانونی کارروائی اس لیے نہیں کر پاتے کیوں کہ جو اوریجنل پراڈکٹ ہے وہ خود آئی پی او میں رجسٹرڈ نہیں ہے ۔ اسی لیے یہاں کپڑوں سے لے کر موبائل تک ’فرسٹ کاپی‘ کی شکل میں فروخت ہورہے ہیں جو کہ انٹیلکچوئل رائٹس کے ساتھ ساتھ صارفین کے حقوق کی بھی بدترین خلاف ورزی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم چھوٹے اور درمیانے کاروباری اداروں میں اس حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کریں۔ پاکستان میں اسٹارٹ اپ، انٹر پرینیورشپ کے رجحان میں اضافہ ہورہا ہے، ہمارے نوجوان بہت اچھا تخلیقی کام کر رہے ہیں لیکن آئی پی او نہ ہونے کی وجہ سے بین الاقوامی مارکیٹ تک سائی حاصل نہیں کر پارہے ، یا پھر دوسرے ملک ہمارے کام کا کریڈٹ خود لے کر انہیں آٹے میں نمک برابر ادائیگی کر رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔