- آرمی چیف سے ترکیہ کے چیف آف جنرل اسٹاف کی ملاقات، دفاعی تعاون پر تبادلہ خیال
- مینڈھے کی ٹکر سے معمر میاں بیوی ہلاک
- جسٹس اشتیاق ابراہیم چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ تعینات
- فلاح جناح کی اسلام آباد سے مسقط کیلئے پرواز کا آغاز 10 مئی کو ہوگا
- برف پگھلنا شروع؛ امریکی وزیر خارجہ 4 روزہ دورے پر چین جائیں گے
- کاہنہ ہسپتال کے باہر نرس پر چھری سے حملہ
- پاکستان اور نیوزی لینڈ کا پہلا ٹی ٹوئنٹی بارش کی نذر ہوگیا
- نو منتخب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا
- تعصبات کے باوجود بالی وڈ میں باصلاحیت فنکار کو کام ملتا ہے، ودیا بالن
- اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت؛ امریکا ووٹنگ رکوانے کیلیے سرگرم
- راولپنڈی میں گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری میں ملوث گینگ کا سرغنہ گرفتار
- درخشاں تھانے میں ملزم کی ہلاکت، سابق ایس پی کلفٹن براہ راست ملوث قرار
- شبلی فراز سینیٹ میں قائد حزب اختلاف نامزد
- جامعہ کراچی ایرانی صدر کو پی ایچ ڈی کی اعزازی سند دے گی
- خیبر پختونخوا میں بیوٹی پارلرز اور شادی ہالوں پر فکسڈ ٹیکس لگانے کا فیصلہ
- سعودی عرب میں قرآنی آیات کی بے حرمتی کرنے والا ملعون گرفتار
- سائنس دان سونے کی ایک ایٹم موٹی تہہ ’گولڈین‘ بنانے میں کامیاب
- آسٹریلیا کے سب سے بڑے کدو میں بیٹھ کر شہری کا دریا کا سفر
- انسانی خون کے پیاسے بیکٹیریا
- ڈی آئی خان میں دہشتگردوں کی فائرنگ سے بچی سمیت 4 کسٹم اہلکار جاں بحق
کئی افراد کو مچھر زیادہ کیوں کاٹتے ہیں؟
آپ نے کئی لوگوں کو یہ شکایت کرتے ہوئے سنا ہوگا کہ مچھر بہت کاٹتے ہیں۔ ان کی شکایت سُن کر شناسا ازراہ تفنن کہتے ہیں کہ آپ کا خون میٹھا ہے اس لیے مچھروں کو زیادہ پسند ہے۔ تاہم سائنسی تحقیق اس کی مختلف وجہ بیان کرتی ہے کہ بعض افراد مچھروں کے ’پسندیدہ‘ کیوں ہوتے ہیں اور بعض کو وہ کاٹنا کیوں پسند نہیں کرتے۔
سائنس کہتی ہے کہ اس کا سبب ہمارے جسم سے فضا میں خارج ہونے والے کیمیکل ہیں۔ نیدرلینڈ کی واخننگن یونیورسٹی سے منسلک ماہر حشریات جوپ وان لون کے مطابق مچھر اپنے خصوصی طرزعمل، حسی غدود اور انسانی جسم سے فضا میں خارج ہونے والے کیمیکلز کے ذریعے ہدف کا تعین کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ خاص طور سے ان کی راہ نمائی کرتی ہے۔ جب ہم سانس کے ذریعے کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں تو یہ فوراً ہوا میں شامل نہیں ہوجاتی بلکہ مرغولوں کی صورت میں موجود رہتی ہے جن کی طرف مچھر لپک لپک جاتے ہیں۔
جون وان لون کہتے ہیں کہ مچھر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ان غیرمرئی مرغولوں کے ماخذ کی طرف بڑھتے ہیں۔ جیسے جیسے وہ ماخذ کی طرف بڑھتے ہیں اس گیس کے ارتکاز میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مدد سے مچھر 50 میٹر ( 164 فٹ) کی دوری سے اپنے ہدف کی موجودگی کا اندازہ کرلیتے ہیں۔ جب وہ ہدف سے ایک میٹر کی دوری پر پہنچتے ہیں تو پھر دیگر عوامل بھی ان کی توجہ حاصل کرتے ہیں۔ یہ عوامل ہر فرد کے لیے مختلف ہوتے ہیں جیسے جلد کا درجۂ حرارت، آبی بخارات کی موجودگی اور رنگت وغیرہ۔
سائنس دانوں کے مطابق سب سے اہم عامل جس کی بنیاد پر مچھر ہدف کے انتخاب میں ایک فرد کو دوسرے پر ترجیح دیتے ہیں وہ کیمیائی مرکبات ہیں جو ہماری جلد پر موجود جراثیم کی آبادیاں پیدا کرتے ہیں۔ وان لون کہتے ہیں کہ پسینے کے غدود سے خارج ہونے والی رطوبتوں کو جراثیم طیران پذیر (اُڑجانے والے) مرکبات میں بدل دیتے ہیں جو فضا میں شامل ہوجاتے ہیں اور مچھر کے سر پر موجود نظام شامہ سے ٹکراتے ہیں۔ انسانی جسم سے 300 قسم کے مرکبات خارج ہوتے ہیں اور ہر انسان کی جینیاتی ساخت کے لحاظ سے ان کی مقدار اور تناسب مختلف ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر انسان کے جسم کی بُو بھی جدا جدا ہوتی ہے۔
واشنگٹن یونی ورسٹی میں حیاتیات کے پروفیسر جیف ریفل کہتے ہیں کہ ایک ہی گھر میں رہنے والے باپ اور بیٹے کے جسموں سے خارج ہونے والے جراثیمی مرکبات میں مختلف کیمیکلز کا تناسب مختلف ہوتا ہے جو انھیں مچھروں کے لیے ایک دوسرے سے منفرد بناتا ہے۔ تحقیق کے مطابق انسانی جلد پر جراثیم کی اقسام اور آبادیوں میں کمی بیشی پائی جاتی ہے۔ جس انسان کی جلد پر زیادہ اقسام کے جراثیم ہوتے ہیں وہ مچھروں کے لیے اتنی ہی کم کشش رکھتا ہے۔ اس کے برعکس جس انسان کی جلد پر جراثیم کی کم اقسام پائی جاتی ہیں اس کا خون مچھر زیادہ رغبت سے چوستے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔