ٹشو پیپر کی تاریخ

سعد اللہ جان برق  جمعرات 4 جولائی 2019
barq@email.com

[email protected]

ایجادات تو ہمیشہ ہوتی رہتی ہیں کیونکہ ان کی ماں محترمہ’’ضرورت‘‘جو موجود ہے۔لیکن ان تمام ایجادات میں جو پتھر کو تراش کر ہتھیار بنانے سے موجودہ ایٹم بم تک کی ساری ایجادات شامل ہیں، اگر سب سے زبردست اور نمبرون ایجاد کوئی ہے تو وہ ’’ٹشوپیپر‘‘ہے، اس سے پہلے‘‘ رومال‘‘تھا جو گندہ بھی ہوجاتاتھا پھٹ بھی جاتاتھا اور گم بھی ہوجاتاتھا لیکن ’’ٹشوپیپر‘‘کمال کی ایجاد ہے۔ لیا جو کچھ پونچھنا تھا وہ پونچھ لیا اور پھینک دیا۔

ہم نے جب اس مفید ترین اور ملٹی پرپز بلکہ کم خرچ بالانشین ایجاد پر اپنی تحقیق کا ٹٹو دوڑایا تو اس کا سب سے بڑا موجد ایک اطالوی موجد میکیاویلی کو پایا بلکہ وہ بھی نہیں اس کی کتاب’’دی پرنس‘‘میں مذکور ایک بادشاہ کو۔اس بادشاہ کی سلطنت کا ایک صوبہ بڑا شورش پسند تھا، بات بات پر دھرنے جھرنے اور مرنے نکلتا تھا۔

شاہ محترم نے ایک شخص کو اس شورش زدہ صوبے کا گورنر بناکر بھیجا اور اسے ہدایت کی کہ جاکر ظلم کا بازار گرم کردو چن چن کر شورش پسندوں کی اینٹ سے اینٹ بجادو۔بلکہ عبرت کے لیے راہ چلتوں کو بھی پکڑکر دار کے سر پر سردار بنا دو۔گورنر نے ویسا ہی کیا،اتناظلم برپاکیا کہ لوگوں کی چیخیں نکل گئیں اور پھر یہ چیخیں بڑھ کربادشاہ سلامت تک پہنچ گئیں۔ بادشاہ سلامت محافظ دین وملک نے عدل گسترانہ اعلان کردیا کہ وہ خود جاکر لوگوں کی فریاد سنیں گے۔بہ نفس نفیس جاکر مابدولت نے وہاں کچہری لگائی لوگوں نے فریاد نامے سنائے اور گورنر کے مظالم کی داستانیں گوش گزار کیں۔ شاہی کانوں نے فریادیں سنیں تو ایک دم غضب ناک ہوکر کھڑے ہوگئے اور نہایت گلوگیر آواز اور بھیگے بھیگے لہجے میں کہا میری پیاری رعایا، میرے بچوں پراتنا ظلم؟نہیں میں نہیں سہہ سکتا۔

دیکھ سکتاہوں کچھ بھی ہوتے ہوئے

نہیں میں نہیں دیکھ سکتا تجھے روتے ہوئے

اسی وقت ٹکٹکی لگائی اور گورنر کو اس پرلٹکا دیا۔رعایا نے زندہ باد،گارڈ سیودی کنگ۔سایہ خدائے ذوالجلال کے ترانے گائے اور سب کچھ شانت ہوگیا صرف ایک ’’ٹشوپیپر‘‘ کے استعمال سے۔اس گورنر کو اکثر سب سے پہلا اور ’’ٹشوپیپراعظم‘‘ کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا۔ٹشوپیپر کے بے شمار فوائد پر میکیاولی جیسے ماہر ’’ٹشو پیپریات‘‘کے علاوہ بھارت کے ایک ماہر ’’ٹشو پیپر یات‘‘ ’’چانکیہ‘‘ نے بھی ایک کتاب ’’ارتھ شاستر‘‘میں بہت زیادہ روشنی ڈالی ہے لیکن میکیاولی اس سے آگے اس لیے نکل گیاکہ اس نے ’’ٹشوپیپروں‘‘کی باقاعدہ مثالیں دے کر ٹشو پیپر کے فوائد بیان کیے ہیں اور پھر نصابوں میں اس کے چرچے بھی بہت ہوئے اس لیے ’’ٹشوپیپرازم‘‘ ایک ہمہ گیر طریقہ واردات ہوگیا۔خاص طور پر پاکستان میں تو ’’ٹشوپیپرازم‘‘ اس لیے بہت ترقی کرگیا کہ یہاں ’’کھانے والے‘‘… ’’وقت کم اور مقابلہ سخت‘‘ کی وجہ سے بے تحاشا ٹھونستے ہیں۔

جس سے ان کے ہونٹ اور چہرہ بھی لتھڑجاتاہے، اس لیے ٹشو پیپر کی ضرورت اور استعمال زیادہ ہے۔ہم نے جب اس سلسلے میں تحقیق کا ٹٹو دوڑایا تو لیاقت باغ راول پنڈی میں بھی اس کے کچھ آثار وشواہد ملے جہاں دو ٹشوپیپروں کو ٹھکانے لگایاگیاتھا۔اگرہم پاکستان کو ایک ٹشوپیپرز کا ڈبہ فرض کرلیں جو ہے بھی۔ ’’ٹشوپیپرز‘‘کا سلسلہ یوں ہوتاہے کہ ایک ٹشو پیپر نکالنے اور زیراستعمال لانے کے ساتھ ہی ایک اور نیاٹشوپیپر بھی نکل کراپنی باری پکڑلیتاہے۔کہ ادھر وہ پہلے والا ٹشوپیپر اپنا کام کرکے ضایع ہوا اور ادھر دوسرا ڈیوٹی کے لیے تیار ہوا۔ایوب خان سے لے کر موجودہ دور تک دیکھیے تو ٹشو پیپرز کا ایک باقاعدہ یکے بعد دیگرے سلسلہ چل رہاہے اور ہر دفعہ نئے ٹشوپیپر کے نکل آنے پر لوگوں کا ردعمل بھی یکساں ہے۔

کیونکہ کم از کم پانچ ہزار اولڈ شرافیہ نے مسلسل دماغ کے استعمال اور پچاسی فیصد عوامیہ کے عدم استعمال نے دونوں طبقوں کے دماغ ویسے ہی کیے ہوئے ہیں جیسا کہ استعمال اور عدم استعمال کا نتیجہ ہونا چاہیے۔ایک کا جسم مضبوط اور دماغ مفقود جب کہ دوسرے کا جسم نازک اور دماغ دو انگل زیادہ۔چنانچہ ٹشو پیپر کو بھی پتہ نہیں چلتا کہ میں ٹشو پیپر ہوں اور بے دماغ عوامیہ کو بھی احساس تک نہیں ہوتا کہ جسے رومال سمجھ رہے ہیں وہ ’’ٹشوپیپر‘‘ہے ویسے بھی اگر ٹشوپیپر کو پتہ چلے کہ میں ٹشوپیپر ہوں تو وہ ٹشوپیپر بنے ہی کیوں؟۔اس سلسلے میں مجھے کسی اور کا کوئی شعر تو یاد نہیں آرہاہے لیکن اپنے دو شعر یاد ہیں جو ’’ٹشوپیپر‘‘کے موضوع پراچھی طرح روشنی ڈالتے ہیں۔

ھم ھغہ قید ھغہ قیدی وی خو زنزیر بدل کڑی

وزیر دے نہ بدلوی مونگ لہ دے تقدیر بدل کڑی

باچا ھم ھا غسے معصوم او بے گناہ پاتے شی

خپل گناھونہ ور پہ سر کڑی او وزیر بدل کڑی

ترجمہ اس کا یہ ہے۔قید بھی وہی قیدی بھی وہی صرف زنجیر بدل دی جاتی ہے وزیر بدلنے کے بجائے ہماری تقدیر بدلی جائے…اور بادشاہ ویسے کا ویسے معصوم اور پاک پاکیزہ رہ جاتاہے کیونکہ اپنے گناہوں کا گھٹڑھ سر پر رکھ کر ’’وزیر‘‘بدل دیتا ہے۔ اتنی سی تشریح پرذرا سترسالہ دسترخوان پرنظر ڈالیے کہ کتنے ’’ٹشوپیپر‘‘ کس کس طرح استعمال کرکے کوڑے دان میں پھینک دیے گئے اور اب ایک مرتبہ پھر ’’ٹشوپیپر‘‘ اور پھر ٹشوپیپر یعنی سب ’’ٹشوپیپر‘‘ ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔