بلوچستان کے آنسو نہیں تھمے

نادر شاہ عادل  جمعرات 4 جولائی 2019

نواب اکبر بگٹی کی سیاسی گفتگوکی، ایک جھلک قارئین گزشتہ کالم میں دیکھ چکے ، مگر یہ باب ختم نہیں ہوا، جن سیاست دانوں کو نواب اکبر بگٹی کی سیاسی مابعدالطبیعات اور جدلیات کا خوب اندازہ ہے وہ ان کی برہم مزاجی، سخت سیاسی موقف، مکالماتی طنز ومزاح ، ٹکراؤکی حکمت عملی اور اسٹرٹیجی کی باریکیوں سے کبھی غافل نہیں رہے۔

بلوچستان کی سیاست میں بگٹی کی حیثیت ایک محشرستان کی تھی، وہ کسی بھی مسئلہ کو اس کی بنیاد سے اٹھا کر میڈیا ٹرائل کا موضوع بنا دیتے، وہ عمر کے آخری فیصلہ تک منفرد ومتنازع رہے، خفا ہوئے اور ان کا محاصرہ ختم نہ ہوا تو انھوں نے ہتھیار نہیں ڈالے جان دے دی۔

یہی بات سینئر خاتون صحافی اور مصنفہ نرگس بلوچ نے اپنی کتاب ’’شیر کی موت۔ Death of  Lion ‘‘میں تفصیل سے بیان کی تھی۔ کتاب کی تقریب رونمائی میں ممتاز شاعر احمد فراز اور معروف اینکر حامد میر نے بھی شرکت کی تھی۔ احمد فراز نے کہا تھا کہ نرگس بلوچ نے بلوچستان کا مقدمہ عوام کے سامنے رکھا، حقائق بیان کیے، یہ بلاشبہ ایک بہترین کوشش ہے کہ نرگس بلوچ خود بلوچستان سے تعلق رکھتی ہیں۔

حامد میرکا کہنا تھا کہ بلوچستان کے مکمل منظر نامہ کو پوری سیاسی سچائی کے ساتھ بیان کرنے کی ذمے داری نرگس نے پوری کی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ صورتحال میں بہتری آئے، صوبوں میںہم آہنگی ہو اور مسائل مکالمہ سے حل ہوں۔ نرگس بلوچ سینئر صحافی انور ساجدی کی اہلیہ اور ایک روزنامہ کے مدیرہ بھی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں کیا ہوا  وہ صوبہ کے سیاسی معاملات کے ایک اہم حصہ کی عینی شاہد بھی ہیں، حالات ان کی نگاہوں کے سامنے وقوع پذیر ہوتے رہے، انھوں نے گلہ کیا کہ پارلیمانی پارٹی میں ان کی شمولیت ہوتی تو وہ بھی حقائق بتاتیں ۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ چوہدری شجاعت حسین اور مشاہد حسین سید نے اخلاص نیت کے ساتھ مسائل کا جامع حل نکالنے کی سعی کی مگر حالات نے اور ہی رخ اختیار کرلیا اور تصادم نے تصفیہ کے بجائے معاملہ خراب کردیا۔

آج بلوچستان کے جسد سیاست میں اکبر بگٹی کی ہلاکت یونانی دیومالا کے مطابق ’’ ایکلیس کی زخمی ایڑھی‘‘ بنی ہوئی ہے۔

اکبر بگٹی بلوچستان کی پاور پالیٹکس کے اہم رازداں  رہے ، ان کے بغیر پاکستان کی بلوچ قوم پرست سیاست کا کوئی باب مکمل نہیں ہوسکتا، وہ ہمیشہ ستیزہ کار رہے ، سیاست میں بلوچستان کے اندر ، پہاڑوں کے ادھر ادھر ، بساط سیاست پر، مری مینگل قبائل اور سیاسی زعماء سے تلخ وشیریں تعلقات کے جمبلات یعنی اتھل پتھل میں اپنی بات اور سیاسی و قبائلی محاذ و موقف سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے، بلوچ سیاست دان ان سے خائف بھی رہتے، پاکستانی سٹیبلشمنٹ  سے کشمکش اور پھر ان کی ایک غار میں الم ناک ہلاکت کے بعد صورتحال دو آتشہ بنی ، کئی سیاسی نکات پر پوائنٹ آف نو ریٹرن تک گئے ، ڈیرہ بگٹی کے معاملہ پر جنرل مشرف سے بھڑجانے اور سوئی سکینڈل میں ایک خاتون ڈاکٹر کو ملک سے باہر نکالنے کی کوششوں پرڈٹ جانے، بلوچ قوم پرست رہنماؤں سے راہ و رسم، بلوچستان کے بنیادی حقوق اور سیاسی مذاکرات کے حوالے سے ان کے موقف کو بلوچ سیاستدانوں نے ہمیشہ اہمیت دی۔

ہاں اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بگٹی کے کئی فیصلے یا اقدامات نے بلوچستان کی سیاست میں میدان کو ہمیشہ گرم رکھا، ان سے ان کے قریب ترین ساتھی سیاست دان بھی بتا نہیں سکتے تھے کہ بگٹی کی اگلی چال بساط سیاست کو کس نئے چیلنج سے دوچار کرنے والی ہوگی۔ وہ بیک وقت چیستان گر اور ٹروبل شوٹر تھے۔کوئی بڑا فیصلہ بلوچ سیاست دانوں نے بگٹی کو الگ رکھ کر نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ہلاکت پر بلوچستان کے آنسو آج تک نہیں تھمے۔

مثلاً جب اردو زبان بولنے کی خود ساختہ پابندی بگٹی صاحب نے خود پر لگائی تو ان دنوں کراچی میں تھے، اور گذری کے ’’بگٹی بلک‘‘ والی رہائش گاہ میں ان سے ملاقات ہوئی،اس روز بھی انھیں سیاسی موضوع پر چھپی ہوئی اردو کتاب پیش کی گئی جو انھوں نے سامنے بیٹھے ہوئے مہمانوں اور نوجوان سیاسی کارکنوں کی جانب اچھال دی اور بلوچی زبان میں کہا کہ ’’ بوانیت ایشیا، شمے واسطہ انت‘‘ اسے پڑھیے آپ لوگو ں کے لیے ہے۔ وہ برہم تھے، لیکن ان کی برہمی اس وقت عروج پر تھی جب ایک روزنامہ میں ان کی نیوز چھپی تو ان کے پارٹی ترجمان رؤف ساسولی کی حالت دیدنی تھی، وہ دفتر آئے اور بگٹی صاحب کا غصہ میز پر پھیلا دیا، میں نے وضاحت کی کہ ان کے ٹیپ سے جو سب ایڈیٹر نے ٹرانسکرائب کیا وہی تو چھپا ہے۔

ان کی خبر کہیں سے توڑ مروڑ کر پیش نہیں کیا گیا۔ سرخی اور ذیلیاں ہمارا کام نہیں، بہر حال دو چار دن شکوے شکایات کی نذر ہوئے پھر اچانک ساسولی صاحب نے کہا کہ چلیے بگٹی صاحب نے بلایا ہے، میں نے معذرت کی بگٹی صاحب ناراض ہیں جانا مناسب نہیں، مگر ساسولی نے منت سماجت کی، رؤف ساسولی مقامی صحافیوں میں بے حد مقبول چیز ہوا کرتے تھے، بہت ہی شستہ قسم کی گلابی اردو بولتے کہ محفل کشت زعفران ہوجاتی تھی۔

یہ 90 ء دہائی کے وہ دن تھے جب جام صادق کی لندن سے کراچی میں آمد تھی ،عرفان اللہ مروت سرگرم تھے، ہم لوگ جمہوری وطن پارٹی کے  ساسولی صاحب کے ہمراہ گاڑی میں بگٹی بلک پہنچے، میں نے اپنے ہمراہ سینئر صحافی طاہر نصیرکو بھی لیا تھا اور سید عقیل احمد فوٹوگرافر تھے،جب ہم کمرے میں داخل ہونے لگے تو دروازہ کھولتے ہی مڑکر لوگ بگٹی صاحب سے ہاتھ ملاتے اور آگے جاکر بیٹھ جاتے ، میں آخری آدمی تھا ، میں نے کمرے میں جاتے ہی بگٹی کی طرف ہاتھ بڑھایا تو انھوں  نے حقارت سے جھٹک دیا کہ اسے کیوں لائے ہو، اب ساسولی کوکاٹو تو لہو نہیں،ایک یار باش، خوش گپ شخص پریشان تھا۔

میں نے صورتحال کو سنبھالا اور کہا کہ نواب صاحب میں نے کہا تھا کہ بگٹی صاحب ناراض ہیں جانا ٹھیک نہیں، مگر یہ لوگ تو ساسولی کے کہنے پر آئے ہیں اگر میرا آنا آپ کو ناگوار گزرا ہے تو ہم سب چلے جاتے ہیں، بگٹی صاحب نے ساسولی کی حالت دیکھی پھرکہنے لگے، ٹھیک ہے جن کو گفتگو کرنی ہے وہ انٹرویو کرلیں، میں نے کہا کہ طاہر نصیر آپ سے بات چیت کریں گے ، پوری گفتگو کی ذمے داری ان کی ہوگی، میں اس گفتگو سے لاتعلق ہوں۔ انٹرویو شروع ہوا ،گفتگو ٹھیک ٹھاک مکمل ہوئی۔

طاہر نصیر نے ٹیپ بند کیا، میں کھڑا ہوا اور اجازت چاہی، بگٹی نے اشارہ کیا کہ بیٹھ جائیں، ہنستے ہوئے کہنے لگے ناراض مت ہوں، دیکھو نواز شریف وزیراعظم ہیں ،آپ بھی ایک دو سوال پوچھ لیں، شاید کشمیر آزاد ہو جائے ۔ میں کھڑا ہوگیا،’’ نواب صاحب اجازت دیں ہمارا کام مکمل ہوگیا، ہمیں دوسرے اسائنمنٹ پر جانا ہے ،‘‘ بگٹی کی آواز گونجی ، ’’نان بہ ورے، نندے ۔‘‘( بیٹھیں کھانا کھا کر جائیں)۔ لیکن میں جانے کے لیے بے تاب تھا میں نے کہا کہ ہمیں جانا ہے، بگٹی صاحب نے محسوس کیا کہ لیاری کا بلوچ صحافی ہتھے سے اکھڑگیا ہے، یوں دروازہ کھلا اور ہم لوگ بگٹی بلک سے باہر نکل آئے۔

پھر تیسرے  دن  جو ساسولی کا ہم لوگوں نے دفتر پہنچنے کے بعد ’’ریمانڈ‘‘ لیا توسخت حیرت اور قدرے ڈرامائی خاموشی کے بعد زور سے قہقہہ بلند کیا کہ ’’صاحبو بگٹی صاحب نے آپ سب کو آج رات کھانے پر بلایا ہے‘‘ ایک دن سابق صوبائی وزیر محنت عبداللہ بلوچ کی بیٹی کی شادی پر ہم جب گلستان جوہر میں واقع شادی ہال پہنچے تو سردار شیر باز مزاری، بگٹی صاحب اور دیگر معروف بلوچ رہنما موجود تھے، بگٹی نے دور سے  مجھے دیکھ کر اپنے آدمی کو بھیجا کہ ’’شاہ جی! کو پکڑ کر لاؤ۔‘‘ بڑی گپ شپ ہوئی ۔ ہم سے ان بلوچ رہنماؤں کی یہ یادگار ملاقات تھی ۔

ممتازصحافی اور ادیب رفیع الزماں زبیری نے ایک خط لکھا ہے وہ نذر قارئین ہے۔لکھتے ہیں،

شاہ صاحب ، سلام مسنون،آپ کا کالم پڑھ کر مجھے اپنے کوئٹہ میں قیام کا زمانہ یاد آ گیا۔ یہ دسمبر1973ء کا زمانہ تھا۔ میں سینٹرل انفارمیشن سروس میںآیا تو نیوز ایڈیٹر کی حیثیت سے میرا تقرر ریڈیو پاکستان کوئٹہ میں ہوگیا۔ میں نے جس دن کوئٹہ پہنچ کر اپنے فرائض سنبھالے، اسی دن بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے عطاء اللہ مینگل نے عہدہ سنبھالا تھا اور اسی دن ان سے  ان کی پہلی نیوز کانفرنس میں میری ملاقات ہوئی، وہ خوب آدمی تھے، میرا کوئٹہ میں قیام تین ساڑھے تین ماہ رہا، مگر میں نے بلوچستان کی اس قیادت کو بہت قریب سے دیکھ لیا جو اب تاریخ کا حصہ ہے،خیر بخش مری،اکبر بگٹی، نواب رئیسانی، غوث بخش بزنجو، عبدالصمد اچکزئی  اور عطاء اللہ مینگل۔

یہ سب مجھے یاد ہیں کہ انھوں نے مجھے عزت دی،اور مجھے ان سے ملنے اور اپنے فرائض کی انجام دہی میں ان کی فراخ دلانہ مدد حاصل کرنے میں کبھی دشواری پیش نہیں آئی،گل خان نصیر اور عطا شاد کی مہربانیاں بھی نہیں بھول سکتا، کوئٹہ میں اپنے گزارے ہوئے یہ دن اور میڈیا کے ساتھیوں کو بھی میں نہیں بھلا سکتا۔ جی چاہتا ہے کہ وہ ہنگامہ خیز واقعات جو ان تین مہینوں میں پیش آئے ان کا احوال لکھوں ۔‘‘

کیوں نہیں، ضرور لکھیں زبیری صاحب ، تاریخ  آپ کو یاد دلارہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔