کیا عورت واقعی مظلوم ہے؟

شہاب احمد خان  اتوار 7 جولائی 2019
عورتوں کو حد سے زیادہ آزادی ہمارے معاشرے نے دے دی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

عورتوں کو حد سے زیادہ آزادی ہمارے معاشرے نے دے دی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

’’اور بھی غم ہیں زمانے میں سیاست کے سوا‘‘۔ بیٹیوں کی مظلومیت، عورت کی محکومیت اور مرد کا جبر جیسے موضوعات بھی اسی دنیا کا حصہ ہیں۔ آج ایک خاتون کی تحریر نے یہ چند الفاظ لکھنے پر مجبور کردیا ہے۔

ہمارا معاشرہ ایک تغیراتی دور سے گزر رہا ہے۔ جہاں روایات سے لے کر مزاجوں تک ہر چیز بدل رہی ہے۔ ہمارا اپنے مذہب سے عملی رشتہ جتنا کمزور ہے، ہمارے جذبات اس کے متعلق اتنے ہی شدید ہیں۔ اگر ہم مذہب کے نکتہ نظر سے بات کریں تو عورت کو جتنے حقوق اسلام نے دیئے ہیں، اس حساب سے اس پر ذمے داریاں عائد نہیں کی گئی ہیں۔

اس بات کو کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام نے مرد کو ذمے داریاں دے کر اس کو ایک درجہ بلند بھی عطا کیا ہے۔ الله نے خود قرآن میں فرمایا ہے کہ مرد کو عورت پر قوّام یعنی حاکم اس لیے بنایا ہے کہ وہ اپنا کمایا ہوا مال عورت پر خرچ کرتے ہیں۔ یعنی مال کمانے کی ذمے داری عورت پر بالکل نہیں ڈالی گئی ہے۔ روزگار کےلیے سرگرداں رہنا عورت کی ذمے داری نہیں ہے۔ اب اگر ہم اس بات کو اس طرح سے لیتے ہیں کہ ہم عورت کے ساتھ جو چاہے کریں، ہمیں پوری آزادی الله نے دی ہے، تو یہ ہماری کم عقلی اور نادانی ہے۔

عورتوں کے حقوق سے متعلق پوری ایک طویل سورۃ عورت کے نام سے ہی قرآن میں موجود ہے، جس میں وراثت تک کے متعلق احکامات موجود ہیں.

یہ تو ہوا اسلام میں عورت کا مقام، اب اگر ہم اپنے معاشرے کی روایات کو لے کر کچھ رونا روتے ہیں تو اس میں ہمارا قصور زیادہ ہے۔ چند ایک تنگ نظر گھرانوں کے علاوہ کہیں عورتوں پر کوئی پابندی نظر نہیں آتی۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ عورتوں کو حد سے زیادہ آزادی ہمارے معاشرے نے دے دی ہے تو یہ کچھ غلط نہ ہوگا۔ اوپر سے غیرملکی ثقافت کی یلغار نے ہمارے معاشرے کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ اس ثقافتی یلغار کے نتیجے میں آج یہ حال ہے کہ ہمارے معاشرے میں جب لڑکی جوانی کی حدود میں قدم رکھتی ہے تو وہ عموماً اس وقت تک پڑوسی ملک یا ہالی ووڈ کے کسی ہیرو کی محبت میں گرفتار ہوچکی ہوتی ہے۔

کوئی گھرانے کا بڑا کیا اس کو کسی خیالی ہیولے سے ڈرا سکتا ہے، اکثر و بیشتر وہ خود اپنی دوستوں اور قریبی لوگوں کو اپنی پسند سے آگاہ کررہی ہوتی ہے۔ اکثرو بیشتر گھرانوں میں موبائل فون ہر لڑکی کے پاس موجود ہے۔ پھر ہمارا موبائل نیٹ ورک اس کو بیشمار ایسے پیکیجز آفر کر رہا ہوتا ہے، جس میں وہ ساری رات جس سے چاہے باتیں کرسکتی ہے۔ اب تو یہ لطیفہ اکثر لوگوں نے سن رکھا ہوگا جس میں کہا جاتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں کچھ اتنے الله والے بھی پائے جاتے ہیں جن کی رضائیوں سے روشنی پھوٹ رہی ہوتی ہے۔ وہ الله والے انہی الله والیوں سے ہی باتیں کررہے ہوتے ہیں۔

آج انٹرنیٹ پر شروع ہونے والی محبت کے نتیجے میں ہونے والی شادیوں میں اکثر لوگ شرکت کرچکے ہوں گے۔ اگر خواتین اتنی معصوم اور والدین کی فرمانبردار ہیں تو انٹرنیٹ پر دوستی محبت میں کیسے بدل جاتی ہے؟ کیا یہ اسی ثقافتی یلغار کا نتیجہ نہیں ہے جس میں زندگی کا مقصد سوائے محبت کے کچھ نہیں دکھایا جاتا۔

ہمارے معاشرے میں اب بھی تمام ذمے داریاں مردوں پر ہی عائد ہوتی ہیں۔ جنھیں وہ کمال خوشدلی سے نباہ بھی رہے ہیں۔ 95 فیصد خواتین تعلیم سے فراغت کے بعد بھی گھروں میں ہی رہتی ہیں۔ لیکن جس طرح عورتوں کی بڑھتی ہوئی خواہشات مردوں کو کارزار حیات میں سرپٹ دوڑا رہی ہیں، وہ آخرکار کسی نہ کسی ناخوشگوار انجام پر ہی پہنچائے گی۔

آج کسی بھی شاپنگ مال میں آپ چلے جائیں۔ آپ کو چند ایک ایسی فیملیز نظر آجائیں گی جن کے حلیے سے اندازہ ہوجائے گا کہ ان کا تعلق نچلے طبقے سے ہے۔ اب کس طرح اس فیملی کا مرد رقم کا بندوبست کرکے اپنی فیملی کو یہاں شاپنگ کرانے لایا ہے، یہ وہی جانتا ہے۔ کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ وہ اپنی بیوی اور بچوں کی خوشیوں کےلیے یہ ساری مصیبت اٹھا رہا ہے۔

انسان کے دل میں چار خانے ہوتے ہیں۔ آج کی لڑکی ان چاروں خانوں کا بیک وقت استمعال کررہی ہوتی ہے۔ دل کے پہلے خانے میں پڑوسی ملک کے ہیرو کی تصویر لگی ہوتی ہے، جس کے متعلق اس کا خیال ہوتا ہے کہ اگر یہ مل جائے تو پھر خدا سے کچھ مانگنے کی حاجت نہیں۔ دوسرے خانے میں پاکستانی ایکٹر یا ماڈل کی تصویر لگی ہوتی ہے۔ تیسرے خانے میں خاندان، کالج، یونیورسٹی یا ملنے جلنے والوں میں سے کسی خوبرو لڑکے کی تصویر لگی ہوتی ہے۔ اور چوتھے خانے میں آڑھی ٹیڑھی لکیروں سے ایک کارٹون بنا ہوتا ہے، جس کی صورت واضح نہیں ہوتی۔ جب اس لڑکی کی شادی ہوجاتی ہے تو صرف دو خانوں کی تصویریں باقی رہتی ہیں۔ ایک تصویر جو پہلے خانے میں پڑوسی ملک کے ہیرو کی ہوتی ہے اورآخری خانے میں جو کارٹون بنا ہوتا ہے۔ یہ لڑکی اپنی ساری تخیلاتی زندگی اس ہیرو کے ساتھ گزارتی ہے۔ زندگی کی سختیوں اور مشکلات کو آسان بنانے والے شوہر کی صورت کی جھلکیاں اس کارٹون میں نظر آنے لگتی ہیں۔

آج آپ کسی ایسی خاتون سے پوچھ کر دیکھ لیں جس کی شادی کو دس پندرہ سال ہوچکے ہوں کہ اس کا اپنے شوہر کے بارے میں کیا خیال ہے؟ 90 فیصد خواتین یہی کہیں گی کہ یہ میں ہی ہوں جس نے ان کے ساتھ گزارا کرلیا ہے۔ ورنہ یہ بندہ اس لائق نہیں تھا کہ اسے مجھ جیسی بیوی ملتی۔

کیا مصلحت شناس تھا وہ آدمی قتیل
مجبوریوں کا جس نے وفا نام رکھ دیا

ایک مرد، عورت سے صرف وفاداری کا طلبگار ہوتا ہے۔ لیکن یہ وفاداری اب عورتوں میں ناپید ہوتی جارہی ہے۔ کتنی ہی خواتین جب پڑوسی ملک کی فلم دیکھ رہی ہوتی ہیں اور جس والہانہ انداز سے وہ ہیرو کو دیکھتی ہیں، وہی بتادیتا ہے کہ اس ہیرو کا ان کے دل میں شوہر سے کتنا اونچا مقام ہے۔ کیا اکثر شادی شدہ مردوں کو اندازہ نہیں ہوتا ہے کہ اگر بیوی کے والد کو کچھ کہہ دیا تو اتنا برا نہیں منایا جائے گا جتنا برا اس ہیرو کو کچھ کہنے پر منایا جائے گا۔ رہی سہی کسر نوجوانی کے معاشقے، جو کالج، یونیورسٹی اور موبائل نیٹ ورک پر ہوچکے ہوتے ہیں، وہ پوری کردیتے ہیں۔

اسی لیے ذرا ذرا سی باتوں پر آج کل ہمارے معاشرے میں بھی طلاقیں ہورہی ہیں۔ کیونکہ جو ذہنی اور قلبی تعلق ایک شوہر اور بیوی میں ہونا چاہیے، وہ پہلے ہی کسی اور سے جڑ چکا ہوتا ہے۔

آج کچھ نام نہاد تعلیم یافتہ خواتین جو مظلومیت کا رونا روتی ہیں، اس میں کوئی حقیتت نہیں۔ یہ خواتین ہمارے معاشرے کو اس مقام تک پہنچانا چاہتی ہیں جہاں مرد اور عورت کا رشتہ صرف اس وقت تک قائم رہے گا، جب تک انٹرٹینمنٹ باقی رہے گی۔ انٹرٹینمنٹ ختم، رشتہ ختم۔ جہاں غیرت نام کی کوئی چیز نہیں ہوگی۔ اگر منہ کا ذائقہ بدلنے کےلیے کہیں کوئی مرد منہ مار لیتا ہے تو کوئی بات نہیں، عورت کو بھی یہ حق حاصل ہے۔ جہاں فیملی نام کی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی ہوگی۔ جہاں پارٹنر اس طرح بدلتے ہوں گے جیسے انسان کپڑے بدلتا ہے۔ جہاں نہ کسی مرد پر خاندان کی ذمے داری ہوگی۔ اگر خاندان بنانا ہے تو کوئی ایسا مرد نہیں ملے گا جو اس پر راضی ہو۔ جہاں سنگل پیرنٹ کی اصطلاح عام ہوجائے گی۔ بچوں کی ولدیت میں نامعلوم کا لفظ عموماً نظر آئے گا۔

معاشرے کو پرسکون اور منظم رکھنے کےلیے چند اصول اور ضوابط زمانہ قدیم سے ہی انسانی معاشرے میں موجود ہیں۔ جہاں کسی کو اگر ذمے داری دی گئی ہوتی ہے تو کچھ فوقیت بھی دے دی جاتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شہاب احمد خان

شہاب احمد خان

بلاگر اسلامک بینکنگ اور فائنانس میں ماسٹرز کی سند رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔