ہمارا نیلسن منڈیلا

محمد عثمان جامعی  اتوار 7 جولائی 2019
کچھ حلقوں کی جانب سے اس شبہے کا اظہار بھی کیا گیا کہ آصف زرداری کو ’’غلطی لگی‘‘ ہے جو روح ان میں حلول کرگئی ہے وہ بھٹو کی نہیں ضیاء الحق کی ہے۔ فوٹو: فائل

کچھ حلقوں کی جانب سے اس شبہے کا اظہار بھی کیا گیا کہ آصف زرداری کو ’’غلطی لگی‘‘ ہے جو روح ان میں حلول کرگئی ہے وہ بھٹو کی نہیں ضیاء الحق کی ہے۔ فوٹو: فائل

وہ چینی کہاوت تو آپ نے سُنی ہوگی کہ ایک تصویر ہزار الفاظ پر بھاری ہوتی ہے، اب اگر تصویر زرداری سب پر بھاری کی ہو تو اُس کے وزن کا اندازہ لگالیجیے۔

ہم جس تصویر کا تذکرہ کر رہے ہیں وہ حال ہی میں مختلف شہروں کی سڑکوں پر نمودار ہوئی ہے، مگر چینی کہاوت کے برعکس اس تصویر کے نیچے تحریر الفاظ تصویر سے کہیں زیادہ بھاری ہیں، یہ صرف تین لفظ ہیں ’’پاکستان کا نیلسن منڈیلا۔‘‘ زرداری صاحب کے اس نئے تعارف نے ہمیں ان کا مزید گرویدہ کردیا۔ ہمیں پتا ہی نہیں تھا کہ ہمارا اپنا نیسلن منڈیلا ہمارے درمیان منڈلا رہا ہے۔

زرداری صاحب کے نیلسن منڈیلا ہوجانے پر وہ لوگ حیران ہیں جو ان کے ارتقاء سے واقف نہیں۔ واضح رہے کہ یہ ڈارون کے نظریے والا ارتقا نہیں تھا۔ جہاں تک ہمیں یاد ہے  آصف علی زرداری کو ملنے والا پہلا خطاب ’’مسٹرٹین پرسینٹ‘‘ تھا، ہماری انگریزی بہت کم زور صحیح لیکن اتنا ضرور پتا ہے کہ اس خطاب کے ذریعے انھیں ’’سینٹ‘‘ (Saint) قرار دیا گیا تھا، ان کی روحانیت کی تصدیق ان کرشموں سے ہوتی ہے کہ وہ آصف زرداری ہونے کے باوجود بے نظیر بھٹو کے شوہر بھی بن گئے اور ملک کے صدر بھی۔

اللہ اللہ کیا کرامت ہے، ہاتھ پھیلا کر دعا مانگی ’’پاکستان کَھپّے‘‘ اور کچھ عرصے بعد وہ صدر تھے اور پورا پاکستان ان کے ہاتھ میں تھا، اتنے بابرکت ہاتھ کون نہیں دیکھنا چاہتا، سو انھوں نے صدرمملکت بننے کے بعد خوب ہاتھ دکھائے۔ ان کی کرامتوں کا ایسا چرچا ہوا کہ لوگ انھیں مخاطب کرکے کہنے لگے،’’تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو‘‘، شاعری نہ سمجھنے اور زرداری کو سمجھنے والوں کو ہم سمجھادیں کہ ایسا ان کی کرامتیں دیکھ کر کہا جاتا تھا اس کا کسی قتل سے کوئی تعلق نہیں۔ بعض لوگ تو زرداری صاحب کے لیے اس شعر کا پہلا مصرعہ بھی پڑھتے ہیں ’’دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ‘‘ یہ ان کی صفائی پسندی اور نفاست کو خراج تحسین ہے، کیا اپنے کیا غیر ان کی صفائی کم ازکم ہاتھ کی صفائی کے سب ہی معترف ہیں۔

انھیں اگلا مرتبہ ’’مردِحُر‘‘ کے خطاب کی صورت میں مجید نظامی صاحب کی طرف سے ملا، جس کا سبب پرویزمشرف کے دور میں ان کی طویل قید تھی۔ اُن کے اس مقام کو سب نے قبول کیا، نہ مَردوں نے اعتراض کیا نہ پیرپگارا کے مُرید حُر معترض ہوئے۔ اسیری سے نجات پاکر اور اس کے بعد مشکل وقت آنے پر وہ جس طرح بیرون ملک گئے اور وہاں طویل سکونت اختیار کی اسے دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ نظامی صاحب نے مستقبل بینی کرتے ہوئے اُنھیں ’’مردِ پُھر‘‘ قرار دیا ہوگا جو ’’سنور کر‘‘ مردِحُر ہوگیا۔

زرداری صاحب کی کرامتوں کے سب قائل ہیں لیکن انھوں نے ہمیشہ کسرنفسی سے کام لیا، یہاں ان لوگوں کو جن کی اردو ہمارے کردار سے بھی زیادہ کم زور ہے بتادیں کہ کسرنفسی کسی ماڈل کا نام نہیں، آسان زبان میں اس کا مطلب ہے عاجزی، مزید وضاحت کے لیے ہم اس لفظ کو جملے میں بھی استعمال کیے دیتے ہیں ’’وہ نیب سے اتنا عاجز آیا کہ اس نے عاجزی سے کہا۔۔۔حساب کتاب چھوڑو آگے بڑھو۔‘‘ تو کسرنفسی کے باعث زرداری صاحب نے کبھی اپنی روحانیت کا ذکر نہیں کیا، اپنی روحانیت کو بھی دولت کی طرح چُھپائے رکھا، مگر ایک دن کہہ بیٹھے ’’اگرچہ میرا تعلق بھٹو خاندان سے نہیں لیکن مجھ میں بھٹو کی روح داخل ہوگئی ہے۔‘‘ ان کے اس انکشاف نے بھٹو کے زندہ ہونے کا مسئلہ تو حل کردیا مگر یہ سوال پیدا ہوگیا کہ بھٹو نے ’’چُن لیا میں نے تمھیں سارا جہاں رہنے دیا‘‘ کہتے ہوئے اپنے قیام کے لیے زرداری صاحب کے جسم ہی کا انتخاب کیوں کیا؟ ہمارے خیال میں بھٹو کی روح نے سوچا ہوگا کہ داخلے کے لیے کسی ایسے جسم کا انتخاب کیا جائے جو مقدمات اور جیلوں سے زندہ بچ نکلتا ہے۔

کچھ حلقوں کی جانب سے اس شبہے کا اظہار بھی کیا گیا کہ آصف زرداری کو ’’غلطی لگی‘‘ ہے جو روح ان میں حلول کرگئی ہے وہ بھٹو کی نہیں ضیاء الحق کی ہے، اس شبہے کو پیپلزپارٹی کی حالت سے تقویت ملتی ہے، مگر ہمیں زرداری صاحب ہی کی بات پر یقین ہے، صاف لگتا ہے کہ اینٹ سے اینٹ بجانے کے اعلان والی تقریر کے وقت ان میں بھٹو کی روح موجود تھی۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں تو ایک جسم میں دو روحیں کیسے قیام پذیر ہوئیں؟

ممکن ہے روح خود نہ داخل ہوئی ہو بلکہ کراچی کے کسی بس کنڈیکٹر نے یہ فریضہ انجام دیا ہو۔ جو بھی ہو، کُل ملا کے بات اتنی ہے کہ اس دعوے کے ساتھ ہی زرداری صاحب کے درجات بلند ہوئے اور وہ ’’مسٹر ٹین پرسینٹ‘‘ سے ترقی پاکر بھٹو ہوگئے۔ اس حقیقت کو ماننے میں تعجب نہیں کرنا چاہیے، بھئی جو شخص اپنے زرداری بچوں کو پلک جھپکنے میں بھٹو کردے وہ برسوں کی تپسیا کے بعد خود بھٹو نہیں ہوسکتا؟

ہوتے ہوتے آخر آج زرداری صاحب نیلسن منڈیلا ہوگئے ہیں۔ ہمیں ان کے مقامی نیلسن منڈیلا ہونے پر کوئی شک نہیں، دونوں میں ہر طرح مماثلت پائی جاتی ہے، نیلسن منڈیلا نے جنوبی افریقہ پر گوروں کے تسلط کے خلاف تحریک چلانے کی وجہ سے زندگی کا طویل حصہ جیل میں گزارہ تو ہمارے نیلسن منڈیلا نے بھی برسوں جیل کاٹی، انھیں بھی اپنے وطن کی سرزمین اور قوم کی دولت پر کسی کا اور تسلط پسند نہیں تھا، وہ اراضیاں اور مال دوسروں کے قبضے سے چھڑواکر اپنی پناہ میں لینے میں مصروف رہے، اسی پاداش میں اسیری جھیلی۔

افریقی منڈیلا نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ظلم ڈھانے والے گورے حکم رانوں کو معاف کردیا تھا، پاکستانی منڈیلا نے بھی صدر بننے کے بعد اپنی اہلیہ کے قاتلوں سے درگزر سے کام لیے، اُس نیلسن منڈیلا نے ہر ستم توڑنے والے گورے حکم راں کو شریک اقتدار کرلیا تھا، ہمارا نیلسن منڈیلا کیوں پیچھے رہتا، اس نے جسے قاتل لیگ کہا تھا اس جماعت کو گلے سے لگا کر نائب وزارت عظمیٰ کا عہدہ دے دیا۔ اور بھیا اس سے بڑھ کر مماثلت اور مشابہت کیا ہوگی کہ ایک نے سیاہ فاموں کے لیے جدوجہد کی دوسرے نے سیاہ کاموں کے لیے۔

اللہ آصف زرداری صاحب کو زندگی دے، ابھی ان کی درجات کی بلندی کا سفر باقی ہے، امید ہے کہ اگلے درجے میں انھیں ’’مدرٹریسا‘‘ کا مقام عطا ہوجائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔