کھانے اچھے کھلاتا ہے

سعد اللہ جان برق  جمعـء 5 جولائی 2019
barq@email.com

[email protected]

مرحوم میاں تقویم الحق کاکا خیل ایک بے مثل عالم، اسکالر اور دانشور تو تھے ہی لیکن بہت کم لوگوں کو علم ہو گا کہ وہ اخروٹ کی طرح باہر سے سخت اور اندر سے بہت نرم اور میٹھے بھی تھے، خاص خاص مواقع پر یا خاص دوستوں میں شوخی اور مزاح کے ایسے ایسے شگوفے چھوڑتے تھے کہ جو کہاوتوں کی شکل اختیارکر لیتے تھے۔

ان کی علمیت اور اثر پذیری کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ایک مرتبہ اکادمی ادبیات پاکستان کے ایک کئی روزہ سیمینار میں جب انھوں نے خوشحال خان خٹک پر اپنا مقالہ پڑھا تو ان کے بعد ’’سجاد حیدر‘‘ کی باری تھی جو مشہور شاعر ادیب اور ریڈیو پاکستان کے سابق کنٹرولر تھے۔ لیکن انھوں نے اسٹیج پر آ کر مقالہ پڑھنے کے بجائے کہا کہ میاں صاحب کے مقالے کے بعد میرا مقالہ سنانا سورج کے سامنے دیا جلانے کی طرح ہو گا۔

اس لیے میں میاں صاحب اور ان کے مقالے کے احترام میں مقالہ نہیں سناوں گا۔ میاں صاحب کے مزاحیہ تبصرے چند لفظی  ہوتے تھے لیکن اثر پذیری میں تقریروں پر بھاری ہوتے۔ ایک محفل میں کچھ نوجوان ان سے استفادہ کر رہے تھے۔ موضوع شعر و ادب کا تھا کہ درمیان میں ایک نوجوان نے ایک اور بڑی ہستی کے بارے میں پوچھا جو شاعر، ادیب، محقق، دانشور سب کچھ تھے اور تھوڑے ہی عرصے میں بہت نیچے سے ابھر کر ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی چھا گئے تھے۔ تقریباً ہر بڑی پوسٹ پر ڈائریکٹر، چئیرمین یہاں تک کہ کئی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر اور ملکی سطح کی کونسلوں کے چیئرمین بھی بنے تھے۔ نوجوان نے میاں صاحب سے ان کے بارے میں پوچھا کہ وہ کیسے شاعر و ادیب ہیں؟۔ میاں صاحب نے مختصر جواب دیتے ہوئے کہا، بڑے اچھے کھانے کھلاتا ہے۔

تھوڑی دیر بعد نوجوان نے اپنا سوال پھر دہرایا، میاں صاحب میں نے پوچھا ہے کہ وہ کیسے شاعر و ادیب ہیں۔ میاں صاحب نے پھر کہا۔ کھانے بڑے اچھے کھلاتا ہے۔ لیکن نوجوان کی تسلی نہیں ہو رہی تھی اس لیے گفتگو کے ایک وقفے میں پھر پوچھا، میاں صاحب آپ نے بتایا نہیں کہ فلاں صاحب کیسے شاعر و ادیب ہیں۔ میاں صاحب مسکرا کر بولے۔ کیوں نہیں بتایا میں نے کہا نا کہ بڑے اچھے کھانے کھلاتا ہے۔ اور کیا بتاوں؟

آموزی کے لیے نہیں سنایا ہے کہ ’’اچھے کھانے‘‘ کھلانا بھی ایک بہت بڑی صفت ہے لیکن نہ جانے لوگ اور پھر خاص طور پر سیاسی اور سرکاری درباری لوگ اس صفت سے کیوں عاری ہوتے جا رہے ہیں۔ معاملہ بچت کا بھی نہیں ہے جیسا کہ ہاتھی کے دانتوں کی طرح دکھایا جا رہا ہے۔ ایسی بچت ہم نے ایک مرتبہ پہلے بھی دیکھی تھی کہ جب ایم ایم اے کو خلاف توقع بہت زیادہ ’’شکار‘‘ ملا تھا اور انھوں نے جناب اکرم خان درانی کو وزیراعلیٰ منتخب کیا تھا۔ درانی صاحب نے دوسرے تیسرے دن جب کہ ابھی ان کی نوخیز داڑھی نے تازہ تازہ جنم لیا تھا، چند صحافیوں کو بلوایا تو اس ڈنر میں سادگی کی انتہا تھی۔

ون ڈش ڈنر ہی سمجھ لیجیے۔ اور ہم اس ’’ابتدائے عشق‘‘ کو دیکھ کر خوش بھی بہت ہوئے تھے۔ لیکن اس کے بعد کیا ہوا کیسے ہوا کتنا کتنا کہاں کہاں ہوا اس کی تفصیل ہمیں تو معلوم نہیں شاید اکرم درانی اور حاجی غلام علی جانتے ہوں گے۔ ہم بھی سارا سال تاجروں دکانداروں اور ہر قسم کے ’’فروشوں‘‘ سے زیادہ رمضان کا انتظار کرتے تھے کہ اس مبارک مہینے میں انجن اتنا تازہ دم ہو جاتا تھا کہ دوسرے رمضان تک چلتا رہتا تھا۔ لیکن اس مرتبہ راہ تکتے تکتے آنکھوں کے ڈیلے تھک گئے لیکن دل کے دروازے پر ٹھک ٹھک نہیں ہوئی۔

کھانے کے سلسلے میں بہت کچھ مشہور ہے۔ اس کے فوائد اور ویئر اباوٹ کون نہیں جانتا۔ یہاں تک کہ بزرگوں نے کہاہے کہ ’’دل‘‘ تک جو راستہ جاتا ہے وہ پیٹ کے گیٹ وے سے جاتا ہے اگرچہ بزرگوں نے اپنی طرف ڈنڈی مارتے ہوئے ’’مرد‘‘ کے دل اور پیٹ کی بات کی ہے لیکن ایسا کوئی دل نہیں ہے جس تک پہنچنے کے لیے واحد راستہ پیٹ سے ہو کر نہ جاتا ہو۔ اور کھانا کھانے والوں کو ہم یہ تسلی بھی دیتے ہیں کہ ہم نہ نمک حرام ہیں نہ شکر حرام اس لیے بلا خوف و خطر ہمیں کھلا سکتے ہیں۔

کچھ نہ کسی سے بولیں گے

چپکے چپکے ٹھونس لیں گے

ایک کہانی دم ہلا رہی ہے، اس سے بھی نمٹ لیتے ہیں۔ پرانے زمانے کی پشتون روایات میں سے ایک روایت بھی تھی کہ جس گھر میں غمی ہو جاتی تھی اور بے تحاشا مہمان آنے لگتے تھے تو گاؤں محلے کے لوگ اپنی استطاعت کے مطابق ایک دو یا چار پانچ دس مہمان لے جا کر اپنے ہاں خاطر تواضع کرتے تھے تا کہ غمی والے گھر پر بوجھ نہ پڑے۔ ایسی ہی ایک سچوئیشن میں ایک صاحب آ کر بولے کہ میری صرف ایک مہمان کی استطاعت ہے اور مہمان بھی ایسا ہونا چاہیے جس کی ماں سو روپے میں بیاہی گئی ہو۔

اس زمانے میں لڑکی کا باپ لڑکے والوں سے معاوضہ وصول کرتا تھا جو لڑکی کی صفات کے مطابق ہوتا تھا اور ’’ولور‘‘ یا ’’ورور‘‘ کہلاتا تھا۔ یہ اچھا تھا یا برا اس پر بحث نہیں کریں گے لیکن کم از کم جہیز سے اچھا تھا کہ آخر پلی پلائی ایک عدد عورت اس کے حوالے کی جاتی تھی لیکن جہیز میں تو ’’لڑکی‘‘ والوں سے جہیز یوں مانگا جاتا ہے جسے وہ غلاظت کی ٹوکری ہو اور غلاظت اٹھانے والے اسے ٹھکانے لگانے کا معاوضہ وصول کر رہے ہوں، خیر اس شخص کی شرط پر ایک نوجوان اٹھا کہ ہاں میری ماں سو روپے کے عوض بیاہی گئی ہے۔

وہ شخص اسے لے گیا اور تھوڑی دیر بعد ایک رومال میں مکئی کے ایک دو بھنے ہوئے ’’بھٹے‘‘ پیش کرتے ہوئے بولا ، یہی میری استطاعت ہے اور میں اس لیے ایسا مہمان چاہتا تھا جو مجھے بعد میں رسوا نہ کرے اور لڑکے نے ایسا ہی کیا ۔کسی کو کچھ نہیں بتایا کہ میں نے کیا کھایا ہے۔ اپنے گھر پہنچ کر اپنے باپ کے پوچھنے پر بتا دیا اور باپ نے کہا، بے شک تمہاری ماں کے سو روپے دیے تھے لیکن ان میں سے ایک روپیہ کھوٹا نکلا تھا اور اگر وہ ایک روپیہ بھی پورا ہوتا تو تم مجھے بھی نہ بتاتے۔ اس سے یہ نتیجہ ہرگز مت نکالیے گا کہ یہ ’’بھٹوں‘‘ کے لیے حسن طلب ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔