ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان

سہیل اقبال خان  ہفتہ 6 جولائی 2019
ایئرپورٹ پر اے ایس ایف اہلکاروں کی موجودگی میں اسلحہ و منشیات سے بھری گاڑیاں کیسے اندر تک پہنچ جاتی ہیں؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ایئرپورٹ پر اے ایس ایف اہلکاروں کی موجودگی میں اسلحہ و منشیات سے بھری گاڑیاں کیسے اندر تک پہنچ جاتی ہیں؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

دنیا بھر میں ایئرپورٹس کو سب سے زیادہ محفوظ جگہیں سمجھا جاتا ہے۔ چاہے بیرون ملک سے آنے والے مسافروں کا ذکر ہو یا پھر ملک سے جانے والے مسافروں کی بات ہو، ہر کوئی یہ خواہش رکھتا ہے کہ یہاں ان کے جان و مال کی حفاظت یقینی بنائی جاتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں کے ایئرپورٹس کی بات کی جائے یہاں ایسے واقعات رونما ہوتے دکھائی دیتے ہیں جو عوام کےلیے اذیت ناک حد تک پریشان کن ہیں۔ چند روز پہلے لاہور ایئرپورٹ پر ہونے والے فائرنگ کے واقعے نے ایک بار پھر ایئرپورٹ سیکیورٹی کا پول کھول دیا ہے۔

اس واقعے میں دو افراد جاں بحق ہوئے، جس کے بعد فائرنگ کرنے والوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس واقعے نے جہاں ایک جانب دو انسانی جانوں کا ضیاع کیا، تو دوسری جانب ہمیں بھی یہ یقین دلا گیا کہ ایئرپورٹ کی حدود میں بھی اپنی حفاظت خود کیجیے کیونکہ وہاں موجود سیکیورٹی اہلکار صرف اپنی ڈیوٹی پر موجود ہوتے ہیں۔ شاید وہ یہ ذمہ داری ہی قبول کرنے سے قاصر ہوچکے ہیں کہ شہریوں کی جان ومال کی حفاظت ان ہی کے ذمہ ہے۔

خوش قسمتی سے اس واقعے میں کسی بھی دوسرے شہری کو نقصان نہیں ہوا، ورنہ شاید ایئرپورٹ لاؤنج میں موجود دیگر مسافر بھی اس واقعے کی زد میں آسکتے تھے۔ لاہور ایئرپورٹ پر جو کچھ بھی ہوا، وہ اپنی نوعیت کا پہلا یا واحد واقعہ ہر گز نہیں۔ اس سے قبل اسلام آباد ایئرپورٹ، کراچی ایئرپورٹ، اور پشاور ایئرپورٹ پر پیش آنے والے مختلف واقعات نے ماضی میں بھی ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگایا ہے۔

سمجھ سے بالاتر ہے کہ جہاں ہم ایک جانب دنیا بھر کو پُرامن و خوشحال پاکستان کا پیغام دیتے ہیں، وہیں دوسری جانب ہم دنیا سے آنے والے مہمانوں کی جگہ ہی کو محفوظ نہیں بناسکے۔ ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس کی کارکردگی پر یہ سوالیہ نشان کوئی آج کی بات نہیں، بلکہ آئے دن ان پر کو کوئی نہ کوئی الزام آتا رہتا ہے۔ کبھی اے ایس ایف کی خاتون اہلکار کی سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہوجاتی ہے تو کبھی ایئرپورٹ پر آنے والے مسافروں سے الجھنے کا واقعہ سننے کو ملتا ہے۔

اصولاً ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس کو تو ایئرپورٹ پر ایسی سروس دینی چاہیے جس کی نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ بیرون ملک سے آنے والے مہمان بھی تعریف کریں۔ لیکن افسوس کہ ایسا ہوتا نہیں۔ اگر ماضی میں پیش آنے والے واقعات اور لاہور ایئرپورٹ پر ہونے والے تازہ واقعے کو سنجیدگی سے دیکھا جائے تو اے ایس ایف کی کارکردگی درست نہ کرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا۔ اس بدترین کارکردگی کے پیچھے بہت سے محرکات ہوتے ہیں۔ لیکن مجھے یہ نہیں لگتا کہ خود اے ایس ایف میں بیٹھے ہوئے افسران نے کبھی اس طرف توجہ دی ہو۔ اگر اے ایس ایف کے اہلکار گاڑیوں کی صحیح طریقے پر تلاشی لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اسلحہ ایئرپورٹ کے داخلی راستے سے اندر جائے۔

لیکن یہ ممکن کیوں نہیں ہوتا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ خود اے ایس ایف اہلکاروں کا کوئی جاننے والا وہاں آجائے، تو وہ اس کو پروٹوکول دینے کے چکر میں گاڑیوں کی چیکنگ کرنا ہی بھول جاتے ہیں، جو ان کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔ اور اگر گاڑیوں کو چیک بھی کر لیا جائے تو کیا فائدہ، اے ایس ایف کے پاس موجود ہتھیاروں کا پتا لگانے والے آلات ہی یا تو خراب ہوتے ہیں، یا پھر انہیں اس طرح استعمال ہی نہیں کیا جاتا جیسے استعمال میں لانا چاہیے۔ اسی وجہ سے بہت سی گاڑیاں داخلی راستے سے بغیر چیکنگ کے ہی گزر جاتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ایئرپورٹ مین گیٹ پر موجود اے ایس ایف اہلکاروں کی سستی اور نااہلی کی وجہ سے ہی یہ اسلحہ ایئرپورٹ کے لاؤنج تک پہنچ جاتا ہے؛ اور قتل کے واقعات بھی رونما ہو جاتے ہیں۔

اب ذرا سیکیورٹی کیمروں کی بات بھی کر لی جائے۔ ایئرپورٹ پر نصب سیکیورٹی کیمروں کا حال ہی تمام دکھائی دیتا ہے۔ بہت سے کیمرے خراب ہیں اور چل ہی نہیں رہے۔ سوال تو یہ بنتا ہے کہ کیا ان کیمروں کی مانیٹرنگ کرنے والا کوئی نہیں جو اے ایس ایف کے افسران کو یہ بھی بتاسکے کہ کیمرے چل ہی نہیں رہے۔

اگر ان کیمروں کو باقاعدہ طور پر مانیٹر کیا جاتا، تو کوئی دوسری رائے نہیں کہ ان ملزمان کی نقل و حرکت کی بنیاد پر ان کو پکڑا نہ جاسکتا۔ لیکن یہ سب تو تب ممکن ہوتا جب خود اے ایس ایف اس کو اپنی ذمہ داری سمجھتی۔

اس واقعے سے ہٹ کر دوسرے واقعات کی بات کرلی جائے، تو منشیات کے کیسز میں بھی ملزمان سے گئی کلوگرام منشیات ایئرپورٹ ہی کی حدود میں برآمد کی جاتی رہی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر ایئرپورٹ کے مرکزی داخلی دروازے پر ہی اے ایس ایف کی جانب سے گاڑیوں کی جامع تلاشی لی جاتی ہے تو پھر اندر تک منشیات کیسے پہنچ جاتی ہیں؟ حیران کن بات یہ ہے کہ ایئرپورٹ کے گیٹ پر اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد موجود ہوتی ہے لیکن ان کی موجودگی میں ہی ملزمان آنکھوں میں دھول جھونک کر چلے جاتے ہیں۔ کیا یہ سب باتیں کبھی اے ایس ایف کے افسران کو پتا نہیں چلیں؟ کیا کبھی اہلکاروں کو اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں دلایا گیا؟ اور کیا ان نااہل افسران اور اہلکاروں کے خلاف کبھی کوئی ایکشن لیا گیا؟ اگر ایکشن لیا جاتا تو آج یہ سب واقعات رونما نہیں ہو رہے ہوتے۔ ان سب باتوں کی اعلی سطح پر تحقیقات ضرور ہونی چاہئیں کہ کیسے اے ایس ایف اہلکار ان اسلحہ اور منشیات سے بھری گاڑیوں کو داخل ہونے دیتے ہیں۔ کہیں خود یہ اہلکار ہی تو ان ملزمان کے سہولت کار نہیں؟ ان سب باتوں کی تفتیش ہونا نہایت ضروری ہے۔

ساتھ ہی ساتھ اے ایس ایف کے ڈی جی سے یہ بھی گزارش ہے کہ اے ایس ایف اہلکاروں کے رویّے کا بھی نوٹس لیں۔ ایئرپورٹ پر موجود مسافروں اور ان کے ساتھ آئے رشتہ داروں کے ساتھ اے ایس ایف اہلکاروں کا رویہ بہت سخت اور نازیبا ہوتا ہے۔ اگر کوئی اپر کلاس کا شخص آ جائے تو اسے پروٹوکول اور دوسروں کو دھکے دیئے جاتے ہیں۔ یہ اے ایس ایف کا دوہرا معیار بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔

یہ سب باتیں صرف میرے سوچنے کی نہیں، بلکہ ایون بالا کو تو یہ سوچنا چاہیے کہ ایک جانب ہم اپنے ملک میں سیاحت کو فروغ دینے کی ہر کوشش کر رہے ہیں تو دوسری جانب ہمارے ایئرپورٹ پر بیرون ملک سے آنے والے مسافر کیسے خود کو محفوظ سمجھ سکتے ہیں۔ اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ اندرون ملک سے جانے والے اور بیرون ملک سے آنے والے مسافروں کو ہر ممکن حفاظت فراہم کی جائے۔ ورنہ ان ہی واقعات کی وجہ سے ہمارے ملک کی سیاحت بری طرح متاثر ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سہیل اقبال خان

سہیل اقبال خان

بلاگر اردو اور انگریزی میں کالم نگاری کے ساتھ بلاگز بھی لکھتے ہیں۔ سیاسی صورتحال پر خاص نظر ہے۔ بلاگر سے فیس بک آئی ڈی uos.awan اور ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔