طالبان سے مذاکرات، ایک اچھی پیش رفت

ایڈیٹوریل  منگل 10 ستمبر 2013
کراچی میں وفاقی حکومت کی جانب سے فریقین کو اعتماد میں لینا اور صوبائی حکومت کو مکمل تعاون فراہم کرنا باعث تحسین ہے۔ فوٹو: فائل

کراچی میں وفاقی حکومت کی جانب سے فریقین کو اعتماد میں لینا اور صوبائی حکومت کو مکمل تعاون فراہم کرنا باعث تحسین ہے۔ فوٹو: فائل

دہشت گردی کے خاتمے اور مشترکہ حکمت عملی طے کرنے کے لیے وفاقی حکومت کی طرف سے بلائی گئی کل جماعتی کانفرنس میں شریک تمام جماعتوں نے طالبان سے مذاکرات کرنے پر اتفاق کیا ہے اور اس مقصد کے لیے وفاقی حکومت کو مطلوبہ اقدامات کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس میں شریک سیاسی قیادت نے ڈرون حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اس معاملے کو اقوام متحدہ میں لے جانے کے امکان کا جائزہ لے، افغانستان میں قیام امن کی کوششوں میں تعاون جاری رکھا جائے، بلوچستان حکومت لاتعلق بلوچوں کو قومی دھارے میں واپس لانے کے لیے مذاکرات کرے۔ کراچی میں وفاقی حکومت کی جانب سے فریقین کو اعتماد میں لینا اور صوبائی حکومت کو مکمل تعاون فراہم کرنا باعث تحسین ہے۔

ڈرون حملوں اور دہشتگردی سے متاثرہ خاندانوں کی بحالی کے لیے ضروری اقدامات اٹھائے جائیں، مسلح بہادر افواج پر مکمل اعتماد کا اعادہ کرتے ہیں، قومی سلامتی کو درپیش چیلنجوں یا قومی مفادات کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے مکمل یکجہتی اور حمایت کا یقین دلاتے ہیں۔ وزیراعظم ہائوس میں کل جماعتی کانفرنس کے اختتام پر جاری6 نکاتی مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ ہمیں اس بات پر تشویش ہے کہ قومی سلامتی سے متعلق ماضی میں کی گئی اہم سفارشات پر عمل نہیں کیا گیا۔ تفصیلی غور و خوض کے بعد ہم اس متفقہ عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ پاکستان کی سالمیت اور علاقائی خود مختاری کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جانا چاہیے۔

ہم اپنی بہادر مسلح افواج کو اپنی قومی سلامتی کو درپیش چیلنجز یا قومی مفادات کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے مکمل یکجہتی اور حمایت کا یقین دلاتے ہیں۔ ادھر کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے حکومت کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیے کو اچھی نظر سے دیکھتے ہیں۔ تاہم اے پی سی ہمارے مقاصد پر اثر انداز نہیں ہو گی۔ ترجمان کالعدم تحریک طالبان پاکستان شاہد اللہ شاہد کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ تین دنوں کے بعد طالبان شوریٰ کے اجلاس کے بعد اپنا تفصیلی موقف جاری کریں گے۔

مسلم لیگ ن طالبان سے مذاکرات کی ہمیشہ حامی رہی ہے‘ اب وہ چونکہ حکومت میں ہے لہٰذا اس نے اپنے اس پرانے موقف کو عملی جامہ پہنانے کے لیے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا ہے‘ خوش آیند امر یہ ہے کہ اس کانفرنس میں شریک تمام سیاسی جماعتوں نے طالبان سے مذاکرات کی حمایت کر دی ہے اور وفاقی حکومت کو اختیار دیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں مناسب اقدامات کرے۔ کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے اے پی سی کے مشترکہ اعلامیے کی ستائش سے یہ ظاہر ہوتا کہ وہ بھی مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ دونوں طرف سے برف پگھلنے کا آغاز ہو گیا ہے۔ پاکستان کو دہشت گردی نے جو نقصان پہنچایا ہے، یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ملک میں پہلے تو یہ ابہام جاری رہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری ہے یا کسی اور کی‘ یہ کنفیوژن ملک کی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں نے پھیلائے رکھا‘ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دہشت گردی کے اس سنگین مسئلے پر قوم تقسیم ہو گئی‘ اب مسلم لیگ ن نے جو راستہ اختیار کیا ہے، اسے اس کا حق حاصل ہے‘ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کے ساتھی اگر یہ سمجھتے ہیں کہ انتہا پسندوں سے مذاکرات کے ذریعے دہشت گردی پر قابو پایا جا سکتا ہے تو انھیں یہ آپشن اختیار کرنے دیا جانا چاہیے۔

ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے ان کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ اب ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کہا ہے کہ شدت پسندوں سے مذاکرات با معنی بنائے جائیں، ملکی استحکام کی اجتماعی کاوشوں پر کوئی دو رائے نہیں ہیں۔ حکومت جو کہے گی کریں گے۔ موجودہ حکومت کے بعض ذمے داروں کی طرف سے گاہے بگاہے‘ ایسے بیانات آتے رہتے ہیں جن میں کہا جاتا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے خاصا کام ہو چکا ہے اور جب کوئی بات بننے لگتی ہے تو ڈرون حملہ ہو جاتا ہے جس سے معاملات دوبارہ خراب ہو جاتے ہیں‘ اب آل پارٹیز کانفرنس نے حکومت کو ڈرون حملوں پر بھی اقوام متحدہ سے رجوع کرنے کا کہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس سلسلے میں کیا اقدامات کرتی ہے‘ اگر حکومت اقوام متحدہ  میں جاتی ہے تو وہاں اس حوالے سے کیا فیصلہ ہوتا ہے‘ اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

اقوام متحدہ کا حتمی فیصلہ جنرل اسمبلی کا نہیں بلکہ سلامتی کونسل کا ہوتا ہے‘ سلامتی کونسل میں اس وقت  تک فیصلہ نہیں ہوتا جب تک ویٹو پاور کی حامل ریاستیں اس میں شامل نہیں ہوتیں‘ اگر امریکا نے اس معاملے کو ویٹو کر دیا تو پھر پاکستان کے پاس کیا راستہ ہو گا‘ اس کے بارے میں بھی یقینی طور پر ارباب اختیار نے کوئی پالیسی بنائی ہوگی۔ جہاں تک طالبان سے مذاکرات کا تعلق ہے تو ماضی میں بھی عسکریت پسندوں سے مذاکرات ہوتے رہے ہیں لیکن یہ کامیاب نہیں ہو سکے‘ عسکریت پسندوں کے مخصوص خیالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی‘ اگلے روز کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان نے جہاں اے پی سی مشترکہ اعلامیے کا خیر مقدم کیا ہے‘ وہاں یہ بھی کہا ہے کہ اے پی سی ہمارے مقاصد پر اثر انداز نہیں ہو گی۔ کالعدم تحریک طالبان کے مقاصد کیا ہیں‘ یہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔بہرحال تمام تر خدشات اورتحفظات کے باوجود حکومت نے جو راستہ اختیار کیا، موجودہ حالات میں وہ مناسب ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔