آصف علی زرداری کی ایوانِ صدر سے باوقار رخصتی

خالد قیوم  منگل 10 ستمبر 2013
آصف علی زرداری کے ناقدین اب انہیں جمہوریت اوراصولوں کاپاسدار بھی قرار دے رہے ہیں۔۔ فوٹو: اے ایف پی  / فائل

آصف علی زرداری کے ناقدین اب انہیں جمہوریت اوراصولوں کاپاسدار بھی قرار دے رہے ہیں۔۔ فوٹو: اے ایف پی / فائل

لاہور: 66 برس میں آصف علی زرداری پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے ایوان صدر میں اپنی آئینی مدت پوری کی ہے اور پانچ سال کے دوران بڑے سیاسی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں ۔

انہوں نے اپنے دور صدارت میں اپوزیشن ، عدلیہ ، میڈیا اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے مسلسل دباؤ اور تنقید کا سامنا کیا لیکن اپنی صدارتی معیاد کے خاتمہ پر ان کی یہ سب سے بڑی کامیابی قرار دی جا رہی ہے کہ انہوں نے اپنے ناقدین کو تعریف اور ستائش پر مجبور کردیا ہے ۔ ان کے تمام ناقدین کی جانب سے جن خیر سگالی کے جذبات کااظہارکیا گیا ہے اس سے انہوں نے بے نظیر بھٹو کی طرف سے اپنے شوہر کو پاکستان کا نیلسن منڈیلا قرار دیئے جانے کو درست ثابت کردیا ہے۔

ان کے ناقدین اب انہیں جمہوریت اوراصولوں کاپاسدار بھی قرار دے رہے ہیں۔ نواز شریف نے سابق صدر کے اعزاز میں ظہرانے کے موقع پر تقریر میں دل سے اپنے جذبات کا اظہارکیا۔ نواز شریف یہ باتیں آصف علی زرداری سے نجی طورپر بھی کرچکے تھے۔

نواز شریف نے اپنی تقریر میں جدہ اور لندن میں بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری سے اپنی ملاقاتوں کا تذکرہ بھی کیا اور کہا کہ وہ آج بھی محسوس کرتے ہیں کہ آصف علی زرداری اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے ماضی کی ساری تلخیوں اور سیاسی رنجشوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے، رابطوں میں جو پہل کی، اُ س نے نہ صرف ہم دونوں کے درمیان خیر سگالی اور باہمی تعلقات کے ایک نئے دور کا آغار کیا بلکہ مستقبل کی سیاست پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوئے ۔ آصف علی زردار ی پہلے منتخب جمہوری صدر ہیں جو اپنا آئینی عہدہ مکمل کرکے ایک باوقار انداز میں رخصت ہو رہے ہیں۔ اُن کا یہ اعزاز ہمیشہ کے لئے تاریخ کا حصہ بن گیا ہے۔ اُن کے عہد میں ہونے والی تمام ترامیم بھی اتفاق رائے سے ہوئیں۔

وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے صدر آصف علی زرداری کیلئے الوداعی تقریب سے پاکستان میں مثبت سیاست کی ابتداء ہوئی ہے اور پہلی بار لگ رہا ہے کہ حکومت اوراپوزیشن نے ماضی کی غلطیوں سے سیکھا ہے۔ وہ 88ء اور 99ء کے درمیان تلخیوں کی سیاست کو دوبارہ نہیں دہرانا چاہتے۔ میثاق جمہوریت میں جو اصول طے ہوئے ان پر اگرچہ مکمل عمل درآمد نہیں ہوا، لیکن لگتا یوں ہے کہ آصف زرداری اور نوازشریف دونوں میثاق جمہوریت بھلانے کو تیار نہیں ہیں ۔

ان کے ذہن میں ماضی کی وہ تلخیاں جو سیاستدانوں کو برداشت کرنی پڑیں ابھی تک تازہ ہیں ۔ اگرچہ جمہوری نظام کو فی الحال فوج اور کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن ابھی تک آصف زرداری اور نوازشریف بڑے محتاط ہیں، وہ تلخیوں میں اضافہ نہیں کرنا چاہتے ۔ صدر زرداری نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ سیاست پانچ سال بعد کریں گے ۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ نوازشریف کے خلاف کسی سازش میں شریک نہیں ہوں گے۔ صدر زرداری کو احساس ہے کہ پانچ کے دوران ان کے خلاف جو سازشیں ہوئیں نوازشریف نے خود کو ان سے الگ رکھنے کی کوشش کی۔ صدر زرداری نے کہا کہ انہوں نے پانچ سال مفاہمت کی سیاست کی اوراب نوازشریف مفاہمت کے عمل کی قیادت کریں ۔ اس طرح نواز شریف اور آصف زرداری دونوں 88ء اور 99ء میں جو کچھ ہوا وہ نہیں بھولے۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار مخالف پارٹی کا صدر ایوان صدر سے رخصت ہو رہا ہے اور دوسری طرف وزیراعظم ان کے اعزاز میں الوداعی دعوت دے رہا ہے ۔ نوازشریف نے بے نظیربھٹو شہید کے ساتھ لندن میں جس میثاق جمہوریت پر دستخط کیے پیپلز پارٹی نے اس پر کافی حد تک عمل درآمد کیا ہے، اب میثاق جمہوریت پر عملدرآمد کیلئے نوازشریف کی باری ہے۔ صدر زرداری پانچ سالہ صدارتی معیاد کے دوران اپنے عمل اور مفاہمت کی سیاست سے جمہوریت بہترین انتقام کے نعرے پر پورا اترے ۔

بے نظیر بھٹوکی شہادت کے بعد جب سندھ جل رہاتھا اورپاکستانی سالمیت خطرے میں تھی تو آصف زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگاکر ملک کو بڑے بحران سے بچایا اورجب وہ الیکشن 2008ء کے بعد صدارت پر براجمان ہوئے تو انہوں نے حقیقی معنوں میں وفاق کی علامت بن کر چھوٹے صوبوں کے حقوق کی بحالی اوران کی محرومیوں کے ازالے کیلئے اقدامات کئے جن میں سرفہرست بلوچستان کے عوام سے ماضی میں ان پر کئے گئے مظالم پرمعافی مانگنا اور صوبہ سرحد کو خیبر پختون خوا کا نام دینا شامل ہیں۔

میڈیا پر کسی قسم کا کوئی قدغن عائد نہ کیاگیا، اخبارات اور ٹی وی چینلز پر پیپلز پارٹی کی حکومت پر آخری حد تک تنقید کی گئی لیکن ماضی کی حکومتوں کے برعکس کسی قسم کی کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی گئی حالانکہ پرویز مشرف کی جانب سے اعلٰی عدلیہ کو ہٹایا گیا اور عدلیہ کی بحالی کا سہرا پیپلز پارٹی کے سر تھا لیکن وزیراعظم گیلانی کو نااہل کیے جانے کے باوجود سابق صدر آصف زرداری نے جنرل مشرف کی طرح کا کوئی اقدام کرنے سے گریز کیا ۔ پاکستان کی افواج کے سپریم کمانڈر کی حیثیت سے آصف زرداری کاکردار باعث ستائش رہا، میمو گیٹ کیس میں پیپلز پارٹی کی حکومت کوملوث کیے جانے کے باوجود جب اسامہ بن لادن پاکستان میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں مارا گیا اورافواج پاکستان تنقید کی زد میں آئیں تو آصف علی زرداری نے بطور صدر ان کا دفاع کیا۔

انہوں نے پاکستانی سیاست میں برداشت اور رواداری کے کلچر کوجس طرح پروان چڑھایا ہے اوراس حوالے سے جو پیمانے انہوں نے طے کردیئے ہیں ان پر پورا اترنا نوا زشریف حکومت کے لیے ایک کڑا چینلج ہے کیونکہ ان کا ماضی کا طرز حکمرانی یہ بتاتا ہے کہ اپنے اقتدار کے پہلے سال میں ہی انہوں نے عدلیہ ، فوج، میڈیا اوراپنے وقت کی اپوزیشن کوآڑے ہاتھوں لیا، انتقامی کاروائیاں شروع ہوگئیں اور بالآخر اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں انہیں گھر جانا پڑا۔ نوازشریف پر یہ الزام رہا کہ انہوں نے فوج اور عدلیہ سے مل کر حکومت کو کمزور کیا ، ان کا اعلٰی عدالتی شخصیات کے ساتھ گٹھ جوڑ رہا، وہ میمو گیٹ سکینڈل میں آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے ہمراہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف فریق بنے۔

پاکستان کی سیاست میں پہلی مرتبہ انتقام کے کلچر کے خاتمے کا سہرا بھی آصف زرداری کے سر ہے جن کے اپنے دور حکومت میں کوئی ایک بھی سیاسی قیدی نہیں تھا، ماضی کے احتساب بیورو کے سربراہ سیف الرحمان جیسے لوگوں کی طرف سے پارٹی قیادت کی کردار کشی جیسا کوئی واقعہ ان کے دور حکومت میں رونما نہیں ہوا ۔ ان کی کامیابی ہے کہ جو پارٹی پانچ سال ان کی کردا ر کشی کرتی رہی، اس پارٹی کے سربراہ آصف زرداری کی تعریف اورستائش پر مجبور ہوگئے ۔انہوں نے حکومت کمزور کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا، سابق صدر آصف زرداری نے اگلے پانچ سال جمہوریت کی مضبوطی کے لیے اپنی پارٹی کی جانب سے تمام تر تعاون کا یقین دلایا ہے۔ بلاول ہاؤس لاہور میں سینئر صحافیوں سے انہوں جو ملاقات کی، راقم اس میں موجود تھا، انہوں نے وہاں دوٹوک الفاظ میں کہا کہ نواز شریف کی جمہوری حکومت کے خلاف کسی سازش میں شریک نہیں ہوں ، جمہوریت کو بچانے کے لیے سڑکوں پر آنا پڑا تو سب سے پہلے ہم آئیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔