ایک اورنگوتان ماں

زاہدہ حنا  اتوار 7 جولائی 2019
zahedahina@gmail.com

[email protected]

جنوب مشرقی ایشیا کے کسی ملک سے آنے والے پام آئل کے قطرے جب اپنے فرائنگ پین میں ڈالیں اور اسے چولہے پر گرم کر لیں تو اس اورنگوتان ماں کے دل میں لگی آگ کو یاد کر لیں جو سماٹرا کے جنگلوں میں اپنے بچے کے ساتھ پیڑوں پر بسیرا کرتی تھی۔

اس لحیم شحیم اورنگوتان ماں کے سینے سے اس وقت بھی اس کا بچہ لپٹا ہوا تھا جب علاقے کے گھنے اور بلند و بالا پیڑوں کو کاٹنے کے لیے لوگ آن پہنچے۔ انھیں یہ علاقہ صاف کرنا تھا، پیڑوں کی کٹائی چھٹائی کرنی تھی تاکہ یہاں پام کے پیڑوں کی کاشت ہو سکے۔ پام کے پیڑ جو زرمبادلہ کمانے کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ ان کی کاشت کے لیے وسیع رقبہ درکار ہے اور اس رقبے کو حاصل کرنے کے لیے ان جنگلوں کی کٹائی لازمی ہے جن پر صدیوں سے بڑے بڑے سرخ بالوں والے لحیم شحیم اورنگوتان بندروں کا قبضہ ہے۔ وہ اپنے بچوں کے ساتھ ان پیڑوں پر زندگی بسر کرتے آئے ہیں۔

مائیں اپنے بچوں کو سینے سے لگائے ہوئے جھولتی ہیں، زقند لگاتی ہیں اور ایک پیڑ سے دوسرے پیڑ پر پہنچ جاتی ہیں۔ علاقے کے لوگ اورنگوتان نسل کے ان نایاب بندروں کے ستھرائو سے بہت ناراض ہیں اور انھوں نے انھیں بچانے کے لیے ایک تنظیم بنائی ہے۔ یہ تنظیم 2012 سے قائم ہے اور اس نے کچھ اورنگوتان بچائے بھی ہیں۔ ان ہی میں سے ایک ’’امید‘‘ نام کی ایک مادہ اورنگوتان تھی جو کچھ دنوں پہلے ماں بنی تھی۔ چند دنوں پہلے ان نایاب بندروں سے جنگل کو صاف کرنے والے آئے اور انھوں نے اپنے نیزوں اور پیلٹ گنوں کا استعمال شروع کیا۔ ’’امید‘‘ اپنے بچے کو سینے سے لپٹائے پیڑوں پر ادھر سے ادھر بچتی رہی۔

اس کوشش میں اس کی دونوں آنکھیں پیلٹ گنوں کے چھروں سے ضایع ہو گئیں اور اس کے پھیپھڑوں اور بدن کے بالائی حصے میں پیلٹ گن کے 74 زخم آئے۔ ان تمام کوششوں کے باوجود وہ اپنے بچے کو نہ بچا سکی اور خود اندھی ہو گئی۔ چھروں کے زخمی اور نیزوں سے اس کا بدن بے طرح زخمی ہوا۔ اب وہ وٹرنری سرجنوں کے رحم و کرم پر ہے۔ اس کی دیکھ بھال کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ نابینا اورنگوتان ماں اپنے سینے سے لپٹے ہوئے بچے کو ٹٹول کر ڈھونڈتی ہے، اسے نہیں پاتی تو سسک سسک کر روتی ہے، اس کی چھاتیوں سے دودھ بہتا رہتا ہے۔ وہ ایک ماں ہے اور مائیں اپنے بچھڑ جانے والے بچوں کے لیے اسی طرح تڑپتی ہیں۔

اس موقع پر وہ تمام مائیں یاد آئیں جن کے بچے ان سے جدا کر دیے گئے۔ کچھ مار دیے گئے اور سیکڑوں مفقود الخبر ہیں۔ اپنے بچے کے لیے ’’امید‘‘ کی بے قراری دیکھ کر دنیا کی تمام مائوں کو یاد کرنے کے ساتھ ہی ان بیٹوں کا بھی خیال آتا ہے، جن کی مائوں کے عشق نے انھیں بے قرار رکھا۔

65 برس پہلے کی بات ہے جب ’’بانگ درا‘‘ سے اقبال کی مشہور نظم ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ پڑھائی گئی۔ جذبوں کا جمال، لفظوں کا جاہ و جلال، ایک طویل نظم جس میں درد اور آہِ سرد کے مقامات تھے۔ اقبال جو لفظوں کے جوہری تھے۔ انھوں نے اپنی والدہ محترمہ کے غم میں کیسے لعل و گہر لٹائے۔

جب ترے دامن میں پلتی تھی وہ جانِ ناتواں

بات سے اچھی طرح محرم نہ تھی جس کی زباں

اور اب چرچے ہیں جس کی شوخئیِ گفتار کے

بے بہا موتی ہیں جس کی چشم گوہر بار کے

عِلم کی سنجیدہ گفتاری، بڑھاپے کا شعور

دنیوی اعزاز کی شوکت، جوانی کا غرور

زندگی کی اوج گاہوں سے اُتر آتے ہیں ہم

صحبتِ مادر میں طفلِ سادہ رہ جاتے ہیں ہم

بے تکلُّف خندہ زن ہیں، فکر سے آزاد ہیں

پھر اُسی کھوئے ہوئے فردوس میں آباد ہیں

کس کو اب ہو گا وطن میں آہ ! میرا انتظار

کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار

خاکِ مرقد پر تری لے کر یہ فریاد آئوں گا

اب دعائے نیم شب میں کس کو میں یاد آئوں گا!

تربیت سے تیری مَیں انجم کا ہم قسمت ہوا

گھر مرے اجداد کا سرمایہ عزت ہوا

دفترِ ہستی میں تھی زریں ورق تیری حیات

تھی سراپا دِین و دنیا کا سبق تیری حیات

عمر بھر تیری محبت میری خدمت گر رہی

میں تری خدمت کے قابل جب ہوا تو چل بسی

وہ جواں، قامت میں ہے جو صورتِ سروِ بلند

تیری خدمت سے ہوا جو مجھ سے بڑھ کر بہرہ مند

کاروبارِ زندگانی میں وہ ہم پہلو مرا

وہ محبت میں تری تصویر، وہ بازو مرا

تجھ کو مثل طفلکِ بے دست و پا روتا ہے وہ

صبر سے نا آشنا صبح و مسا روتا ہے وہ

تُخم جس کا تو ہماری کِشتِ جاں میں بو گئی

شرکتِ غم سے وہ اُلفت اور محکم ہوگئی

اردو کے شعری ادب میں یہ ایک یادگار نظم ہے۔ یہ ایک ماں کی عظمت اور اس سے جدائی کے غم میں بے قرار بیٹے کی کیفیات کو عیاں کرتی ہے۔

’’اُمید‘‘ کا جو بچہ مار دیا گیا، اگر وہ زندہ ہوتا اور کئی انسانی خصوصیات رکھنے کے ساتھ ہی زبان میں بھی مہارت رکھتا تو کیا وہ اپنی ماں کا مرثیہ نہ لکھتا؟۔ وہ مارا گیا، اس کی ماں کی آہ و بکا کیا لفظوں میں نہ ڈھلتی؟ سماٹرا کی جنگلوں میں ’’اُمید‘‘ کی گریہ و زاری ہمیں اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ ’’ماں‘‘ دو پایہ ہو یا چوپایہ۔ وہ انسان ہو یا انسان ہونے کے قریب تر ہو، ایک جیسی صفت رکھتی ہے۔ رڈ یارڈ کپلنگ نے اپنی کسی کہانی میں لکھا ہے کہ ’’رب الارباب‘‘ چونکہ ہر مقام پر موجود نہیں ہو سکتا تھا، اسی لیے اس نے ’’ماں‘‘ کی تخلیق کی۔

ہم سب ’’ماں‘‘ کی نگرانی میں زندگی بسر کرنے والے خوش نصیب ہیں، خواہ ہماری عمریں 60 اور 70 برس کی کیوں نہ ہو جائیں۔ مائیں خطہ ارض کے ہر کونے میں پائی جاتی ہیں، وہ کسی دور میں پیدا ہوئی ہوں اور ان کی نسل، ان کی زبان اور ان کی تہذیبی شناخت کچھ بھی ہو، ’’اولاد‘‘ ان کے لیے سب سے بڑا خزانہ ہے۔ اس میں انسان اور غیر انسان کی کوئی تخصیص نہیں۔ اپنے بچے سے محبت ان کی جین میں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بندریا اپنے بچے کو مر جانے کے بعد بھی سینے سے چمٹائے پھرتی ہے۔

اس تناظر میں دیکھیے تو دنیا بھر کی ان مائوں کا درد و الم عرش کے پائے ہلا دیتا ہے جن کے بیٹے اور بیٹیاں کسی اندھی گولی کا شکار ہوئے یا جو ’’اعتراف جرم‘‘ کروانے کے لیے دنیا کی مختلف عقوبت گاہوں میں بدترین تشدد کا شکار ہوئے۔ وہ جو مار دیے گئے اور جن کی رخصت کی خبر آ گئی۔ ان پر ان کی مائوں اور ان کے گھر والوں کو رو پیٹ کر صبر آ گیا۔ لیکن وہ جن کی کوئی خبر نہیں آتی، ان کے لیے کیسے قرار آئے؟

ہمیں نہیں معلوم کہ سماٹرا کے جنگلوں میں رونے والی والی نابینا اورنگوتان ماں کب تک اپنے بچے کی یاد میں آنسو بہائے گی اور ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ اپنے بچوں کے لمس اور ان کے بدن کی خوشبو سے محروم ہو جانے والی مائیں اپنے غم و اندوہ کی آگ کو صبر کے کس پانی سے ٹھنڈا کریں گی۔ ہم کچھ نہیں جانتے لیکن ہم اورنگوتان ماں ’’امید‘‘ کے لیے اور تمام ناامید مائوں کے لیے بس دعا کر سکتے ہیں کہ ان کے پہلو سے نوچ لیے جانے والے لوٹ آئیں یا ان کی مائوں کو ان کی قبر کا سراغ مل جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔