آصف زرداری کا نیا روپ

لطیف چوہدری  منگل 10 ستمبر 2013
latifch910@yahoo.com

[email protected]

آصف علی زرداری نے اپنی صدارتی مدت کے آخری گھنٹے لاہور کے بلاول ہائوس میں گزارے۔ وہ اپنے اس الوداعی عرصے میں بہت مصروف رہے۔ انھوں نے پیپلز پارٹی کے رہنمائوں اورکارکنوں کویہاں بلارکھا تھا‘ انھوں نے تین ساڑھے تین ہزار کارکنوں سے خطاب کیا‘ پھر رات ساڑھے نو بجے سینئر صحافیوں اور اینکرپرسنز سے ملاقات طے تھی۔ میں اورایکسپریس کے سینئر ایڈیٹر ایاز خان مقررہ وقت پر بلاول ہائوس پہنچ گئے۔ ہمارے چیف رپورٹر خالد قیوم پہلے سے ہی وہاں موجود تھے۔ یہ ایک طویل غیر رسمی نشست تھی‘ آصف زرداری بڑے مطمئن اور خوش و خرم نظر آ رہے تھے۔ وہ صحافیوں کے ساتھ بڑے کھلے ڈھلے ماحول میں گفتگو کرتے رہے اور کئی موقعے پر گفتگو میں مزاح بھی پیدا کرتے رہے۔

یہ یقینی طور پر تاریخ ساز لمحات تھے‘ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ ایک منتخب صدر اپنی آئینی مدت پوری کر کے دوسرے منتخب صدر کے لیے جگہ خالی کر رہا تھا اور وہ آخری لمحات میں اسلام آباد کے ایوان صدر میں نہیں بلکہ لاہور میں اپنی نجی رہائش گاہ میں پندرہ بیس صحافیوں کے ساتھ ملکی‘ بین الاقوامی اور پارٹی امور پر گفتگو کر رہا تھا۔صحافیوں نے ان کے ساتھ ڈنر کیا‘ یہ ایک شاندار اور پر تکلف کھانا تھا۔ گفتگو کا سلسلہ کھانے کے دوران اور بعد میں بھی جاری رہا۔ کسی کو وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلااور رات 12 بجے ان کی صدارت کی آئینی مدت ختم ہو گئی۔

اتوار کی رات ساڑھے نو بجے جب ہم زرداری صاحب سے ملے تو وہ صدر تھے اور پھر وہیں بیٹھے بیٹھے وہ سابق صدر ہوگئے‘ یوں میں ان ناقابل فراموش لمحوں کا عینی شاہد بن گیا جب کوئی صدر ہماری آنکھوں کے سامنے سابق صدرہو گیا‘اس موقعے پر محترم خالد فاروقی نے میرے کان میں سرگوشی کی ’’شاید ایسا واقعہ پاکستان کی تاریخ میں دوبارہ کبھی نہ ہو۔یہ آصف زرداری کا ہی کمال ہے کہ انھوں نے اپنی ذہانت سے نئی تاریخ رقم کردی۔‘‘آصف زرداری جیسے ہی سابق صدر ہوئے بلاول ہائوس کے وسیع لان میں آتش بازی شروع ہو گئی‘ وہ سینئر صحافیوں اور دیگر شخصیات کے ہمراہ باہر آئے جہاں رپورٹر حضرات ان کے منتظر تھے۔ آتش بازی کے اس ماحول میں انھوں نے وہ سب کچھ کہہ دیا جس سے آپ آگاہ ہو چکے ہیں۔ ایسا پاکستان میں کبھی نہیں ہوا۔

سبکدوش صدر آصف علی زرداری اپنی پوری سیاسی زندگی میںمخالفین کی ہٹ لسٹ پر رہے ہیں‘ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں شاید وہ واحد سیاستدان ہیں جن پر بڑی بے رحمی سے تنقید کے نشتر برسائے گئے۔ان پربڑے دھڑلے سے بغیر کسی ثبوت کے کرپشن کے الزامات عاید کیے گئے۔میاں شہباز شریف تو تقریباً ہر جلسے میں علی بابا چالیس چور کا نعرہ لگایا کرتے تھے البتہ جب سے وہ دوبارہ وزیراعلیٰ بنے ہیں‘ خاموش ہیں۔آصف زرداری جب صدر تھے تو مجھے ایک خاصے سنجیدہ شخص نے بڑی راز داری سے بتایا کہ فلاں بیکری والوں سے صدر زرداری نے کروڑوں روپیہ بھتہ لیا ہے۔یہ سن کر میری ہنسی پھوٹ پڑی۔ میں نے اسے بہت سمجھایا کہ ایسا ممکن نہیں ہے ‘یہ تو ہو سکتا ہے کہ بیکری والے نے محکمہ فوڈ والوں یا ضلعی انتظامیہ کے کسی افسر کو رشوت وغیرہ دی ہو‘ صدر کا اس معاملے سے کیا تعلق۔

لیکن وہ نہیں مانا‘ باقی ملک کا تو پتہ نہیں لیکن پنجاب میں یہ مائنڈ سیٹ بہت مضبوط تھا لیکن آج صورت حال بالکل بدل رہی ہے۔ صدر زرداری نے اپنی پانچ سالہ صدارت کو جس طرح نبھایا‘ اس کی مثال کم از کم پاکستان کی تاریخ میں تو نہیں ملتی۔پنجاب خصوصاً لاہور کے عوام کو یہ محسوس ہو رہا ہے کہ آصف زرداری ‘وہ نہیں ہیں ‘جو انھیں ان کے مخالفین نے پینٹ کیے رکھا بلکہ وہ سیاستدان ہیں‘ جنہوں نے پانچ سال کی صدارت کے دوران آئین اور قانون کی پاسداری کی۔انھوں نے صحافیوں کے سامنے کہا کہ میں نے اپنے اختیارات خود وزیراعظم اور پارلیمنٹ کو سونپنے کا فیصلہ کیا ورنہ رضا ربانی کی کیا جرات تھی کہ وہ 18ویں ترمیم میں ایسی اصلاحات لاتے جن سے صدر کے اختیارات کم ہوتے۔

میں نے ان کی گفتگو سے محسوس کیا ہے کہ اب پاکستان کے عوام آصف علی زرداری کا نیا روپ دیکھیں گے۔ پہلے وہ ایوان صدر میں قید تھے۔ یہاںبیٹھ کر وہ پیپلز پارٹی کی قیادت تو کر رہے تھے لیکن ان پر بہت سی پابندیاں عائد تھیں۔انھی مجبوریوں کے باعث وہ 11مئی 2013 کے عام انتخابات میں اپنی پارٹی کی کوئی مدد نہیں کرسکے۔ انھوں نے اعتراف کیا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید صدر یا وزیراعظم بہت طاقتور ہوتا ہے لیکن اصل میں وہ سوائے احکامات جاری کرنے کے کچھ نہیں کر سکتا۔ اب وہ آئینی اور قانونی پابندیوں سے آزاد ہو گئے ہیں۔ انھوں نے محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد جو عرصہ گزارا ہے ‘اس میں بہت کچھ برداشت کیا اور سیکھا ہے۔ بڑے سیاستدان کی ایک خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی خامیوں اور ناکامیوں کا ذمے دار کسی اور کو نہیں قرار دیتا۔ آصف علی زرداری نے بھی اقرار کیا ہے کہ گزشتہ پانچ برس کے دوران عام انتخابات میں پارٹی کی شکست سے لے کر حکومت کی نا اہلیوں تک جو کچھ ہوا ہے ‘اس کا واحد ذمے دار وہ خود ہیں۔ میرا خیال ہے ‘یہ خود احتسابی کی ایک انوکھی مثال ہے ورنہ پاکستان جیسے ملک میں کون ہے جو سینہ ٹھونک کر کہے کہ ناکامیاں میری ہیں اور کامیابیاں کسی اور کی۔

پیپلز پارٹی کی عام انتخابات میں شکست کو انھوں نے تسلیم کیا ہے لیکن اس کے پس پردہ بہت کچھ ہے بلکہ مجھے تو لگتا ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پیپلز پارٹی کے امیدواروں میں ڈس انفارمیشن پھیلائی گئی کہ وہ انتخابی مہم کے لیے باہر نہ نکلیں کیونکہ ان پر خود کش حملے کا خطرہ ہے۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی کے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے ہر امید وار کو ایجنسیوں کے ذریعے ایسی اطلاعات فراہم کی گئیں۔قارئین آپ خود ہی سوچیں ‘ایسی صورت حال میں کون اپنی جان خطرے میں ڈال کر انتخابی مہم پر نکل سکتا تھا۔

آصف زرداری کا جو سیاسی کردار آنے والے دنوں میں سامنے آئے گا ‘وہ حیران کن ہو گا۔ بعض حلقے شاید یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بیرون ملک چلے جائیں گے لیکن ان کی گفتگو سن کر یہ یقین ہو جاتا ہے کہ وہ یہیں رہیں گے اور بھرپور سیاست کریں گے۔ پاکستان کی سیاست میں اب وہ ایسے لیڈر کا روپ دھار چکے ہیں جس کے بارے میں ان کے سب سے بڑے سیاسی حریف میاں نواز شریف بھی تعریفی کلمات کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔مجھے تو لگتا ہے کہ لاہور میں جاتی عمرہ رائیونڈ کے بعد بلاول ہائوس لاہور بھی مستقبل کی سیاست کا مرکز بننے والا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔