شام، امریکا کا نیا شکار۔۔۔

عابد محمود عزام  منگل 10 ستمبر 2013

تمام مخالفتوں کے باوجود امریکا شام پر جنگ ٹھونسنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ جنگ کے منڈلاتے بادل دن بدن مزید گہرے ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ امریکا کی جانب سے لگائی گئی خانہ جنگی کی آگ اب تک ڈیڑھ لاکھ شامیوں کی زندگیوں کو نگل چکی ہے اور ان گنت دربدر اور بے گھر ہیں۔ طویل عرصے بعد امریکا کو شامی عوام کے دکھ درد کا احساس ہوا تو وہ شام کو ’’سبق سکھانے‘‘ اور کھنڈرات و ویرانے میں تبدیل کرنے کے لیے بے چین، بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کو جنگ کی بھٹی میں جھونکنے کے لیے کوشاں ہے۔ بہانہ وہی جو صدر صدام حسین کے خلاف تراش کر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ بے شک شامی عوام پر کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کر کے ظلم کیا گیا ہے۔ ایران کے صدر’’حسن روحانی‘‘ سمیت ساری دنیا نے کیمیائی حملہ کرنے والوں کی کھلے الفاظ میں مذمت کی ہے۔ یقینا اس ظلم کے ذمے داروں کے خلاف عالمی عدالت میں مقدمہ چلنا چاہیے۔ لیکن اس کا یہ مطلب کس کتاب میں لکھا ہے کہ اس حملے کی آڑ میں امریکا شام پر چڑھ دوڑے۔

شام میں جاری خانہ جنگی سے بے شمار لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، اگر امریکا کو یہ’’ نیک‘‘ کام کرنا ہی تھا تو پہلے کیوں نہ کر دیا۔ شام میں متعدد بار اس سے پہلے بھی کیمیائی ہتھیار استعمال کیے گئے، لیکن امریکا کو عوام کا درد اس وقت محسوس نہ ہوا۔ درحقیقت کیمیائی ہتھیاروں کا تو اک بہانہ ہے، ورنہ امریکا شام پر حملہ کرنے کا منصوبہ تو بہت پہلے سے تیار کیے بیٹھا تھا۔ بس وہ اس انتظار میں تھا کہ امریکا کے لیے شام میں یلغار کرنے کے لیے حالات کب سازگار ہوتے ہیں۔ اسی لیے وہ اکیلا ہی جنگی میدان میں کودنے کو فخر محسوس کر رہا ہے، عین ممکن ہے کہ حالات سازگار دیکھ کر ’’شامی فوج کو سبق سکھانے کے لیے‘‘ امریکا نے خود ہی شام میں کیمیائی حملہ کروایا ہو۔ جنگ کے لیے حالات سازگار بنانے کے لیے امریکا نے جان بوجھ کر عوامی بغاوت کو خانہ جنگی میں تبدیل کیا اور خانہ جنگی کو طول دینے کے لیے بے تحاشہ اسلحہ فراہم کرتا رہا، تا کہ فریقین کی طاقت کا شیرازہ اچھی طرح بکھر جائے۔

امریکا نے بہت ہی شاطرانہ مہارت سے آمریت اور عوام کی لڑائی کو فرقہ وارانہ جنگ میں تبدیل کر دیا، آج شام کی جنگ شیعہ اور سنی، عرب اور ایران کی جنگ بنا دی گئی ہے۔ اسی لیے شام پر امریکی حملے پر بہت سے اسلامی ممالک نے چپ سادھ لی ہے یا امریکا کو ہلہ شیری دے رہے ہیں۔ شام کی عوام کو بشارالاسد سے چھٹکارہ دلا کر امریکا کے رحم و کرم پر چھوڑدینا بھلا کہاں کی عقلمندی ہے؟ درحقیقت شام کی جنگ امریکا اور روس کے مفادات کی جنگ ہے۔ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے اسلامی ممالک میں پھوٹ ڈالنا امریکا کے شاطرانہ ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ امریکا کا پرانا طریقۂ واردات ہے۔ امریکا اسلامی ممالک کا ایک شاطر و چالاک دشمن ہے، وہ کسی صورت بھی اسلامی ممالک میں امن اور ترقی نہیں دیکھ سکتا۔ تمام اسلامی ممالک میں مختلف قسم کی لڑائیاں کروا دینا اس کا پسندیدہ مشغلہ ہے تا کہ اسلامی ممالک آپس میں ہی لڑ بھڑ کر کمزور ہو جائیں۔ عراق میں بھی امریکا نے شیعہ سنی لڑائی کروا کر اپنے مقاصد حاصل کیے تھے۔ جو قوت امریکا کے خلاف استعمال ہونی چاہیے تھی وہ آپس میں استعمال ہوئی اور امریکا نے اس لڑائی کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔

امریکا کے معروف تھنک ٹینک ’’رینڈ کارپوریشن‘‘ نے امریکا کی فوجی قیادت کی ہدایت پر ’’مسلم دنیا نائن الیون کے بعد‘‘ کے عنوان سے ایک تحقیقی رپورٹ تیار کی تھی۔ اس کا خلاصہ ’’نائن الیون کے بعد مسلم دنیا میں امریکی حکمت عملی‘‘ کے عنوان سے 2004 میں جاری کیا گیا۔ اس رپورٹ میں امریکی حکومت کو مشورہ دیا گیا تھا کہ ’’عالم اسلام میں امریکی اہداف کے حصول کے لیے شیعہ سنی اور عرب غیر عرب اختلافات کو استعمال کیا جائے۔‘‘ معروف امریکی تجزیہ کار’’ مائک وٹنی‘‘ کے مطابق اس تحقیقی مطالعے کا بنیادی مقصد ’’فرقہ وارانہ، نسلی، علاقائی اور قومی سطحوں پر پائے جانے والے کلیدی اختلافات اور تنازعات کا تعین کرنا اور یہ اندازہ لگانا تھا کہ یہ اختلافات امریکا کو اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے کیا مواقعے فراہم کرتے ہیں۔‘‘ اس رپورٹ کی سفارشات کے عین مطابق عراق میں قابض استعماری قوتوں نے یہی حکمت عملی اختیار کی۔

بصرہ میں قابض افواج نے مجاہدین کا بہروپ بھر کر عام شہریوں کو بم دھماکوں کا نشانہ بنایا۔ اس کے دو ماہ بعد عراقی نیشنل گارڈز نے دو برطانوی سپاہیوں کو بارود سے بھری ہوئی ایک گاڑی، دہشت گردی کے لیے لے جاتے ہوئے پکڑا۔ یہ سپاہی روایتی عرب لباس میں تھے اور انھیں تحفظ فراہم کرنے کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ معروف تجزیہ کار ’’کرٹ نمو‘‘ نے اپنی ویب سائٹ پر منظر عام پر آنے والے اپنے تجزیے میں ان واقعات کا حوالہ بھی دیا تھا۔ اسی طرح شیعوں اور ان کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنا کر انھیں یہ تاثر دیا گیا کہ یہ سنیوں کا کام ہے اور سنیوں اور ان کی عبادت گاہوں کو ہدف بنا کر انھیں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ یہ شیعوں کی سازش ہے۔ اسلامی ممالک یہ بات نجانے کیوں نہیں سمجھتے کہ دشمن نہ تو کسی شیعہ کو چھوڑتا ہے اور نہ ہی کسی سنی کو معاف کرتا ہے۔ ان کا دشمن متفق ہے لیکن یہ خود دشمن کے مقابلے میں مختلف ہو چکے ہیں۔

امریکا کی پالیسی ’’لڑائو اور حکومت کرو‘‘ کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکا جنگ سے پہلے ہی شام میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکا ہے۔ امریکا کا مقصد یہ ہے کہ وہ اسلامی ممالک کے باشندوں کو آپس میں دست و گریباں کر کے اسلامی ممالک کو خانہ جنگی کی دلدل میں دھنسا کر اس قدر کمزور کر دے کہ اس دلدل سے نکلتے نکلتے بھی برسوں بیت جائیں۔ شام کو خانہ جنگی سے جس قدر نقصان پہنچ چکا ہے، اگر شام پوری محنت و کوشش سے بھی مستحکم ہونا چاہے تو برسوں کی مشقت درکار ہے۔ یہی حال افغانستان، لیبیا اور عراق کا ہے۔ لاکھوں مسلمانوں کو قتل کر دینا اور ان ممالک کو دس بیس سال پیچھے دھکیل دینا ہی امریکا کی کامیابی ہے۔ ان جنگوں سے امریکا میں تو کسی امریکی کو خراش تک نہیں آئی جب کہ اسلامی ممالک کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو شام کے معاملے میں اسلامی ممالک ہی قصور وار ہیں۔ کسی نے اپنی ذمے داری پوری نہیں کی۔ اسلامی ممالک کو چاہیے تھا کہ شام کے معاملے کو گفت و شنید سے حل کراتے ۔ یہ ممالک معاملہ تو کیا حل کراتے خود اس خانہ جنگی کے فریق بن کر اس جنگ کو مزید بھڑکاتے رہے ہیں۔ اگر اسلامی ممالک اس معاملے کو سنجیدگی سے لیتے اور اس جنگ کی آگ کو مزید نہ بھڑکاتے تو یہ معاملہ یقینا سلجھ جاتا۔ ان گنت لوگ موت کے منہ میں نہ جاتے۔ حالانکہ صاحب عقل و دانش تو ایک عرصے سے یہی کہتے آ رہے ہیں کہ جب تک اسلامی ممالک اپنے فیصلے خود نہیں کریں گے، اپنے اندر اتحاد و اتفاق پیدا نہیں کریں گے اور اپنے مسائل کو باہم مل کر سنجیدگی کے ساتھ حل نہیں کریں گے، اس وقت تک سب ایک ایک کر کے دشمن کی سازشوں کا شکار ہوتے رہیں گے۔ دور اندیش لوگ افغانستان کے حملے کے بعد سے دہائی دے رہے ہیں کہ اس کے بعد عراق، شام، ایران، پاکستان اور سعودی عرب امریکا کا ہدف ہوں گے۔ لیکن کوئی اس مسئلے کو سنجیدگی سے لے تو تب ہے نہ۔ ان کو کون سمجھائے کہ آنکھیں موند لینے سے کبوتر اپنی جان نہیں بچا سکتا۔ تین متحدہ بیلوں کو تو شیر بھی شکست نہ دے سکا۔ اگر اتحاد کا درس دینے والے دین برحق کے پیروکار متحد ہوں تو ان کو کوئی کس طرح شکست دے سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔