مریم نواز شریف کا زلزلہ

تنویر قیصر شاہد  پير 8 جولائی 2019
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

محترمہ مریم نواز شریف رکنِ قومی اسمبلی ہیں نہ پاکستان کی سینئر و تجربہ کار سیاستدان لیکن آج پورے ملک میں اُنہی کا نام اور پیغام گونج رہا ہے ۔ وہ نون لیگ کی نائب صدرتو یقیناً ہیں لیکن انتخابی اور قانونی حلقوں میں ان کی نائب صدارت کو بھی کئی چیلنج درپیش ہیں ۔

مریم نواز اور اُن کے خیر خواہوں کا کہنا ہے کہ یہ چیلنج کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ وہ سرخرو ہوں گی ۔ پسِ دیوارِ زنداں بیٹھے سابق وزیر اعظم کی صاحبزادی خود بھی ضمانت پر ہیں لیکن وہ کئی خطرات مول لے کر میدانِ سیاست میں متحرک ہیں ۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ وہ ضمانت پر رہا ہو کر جاتی امرا میں مہر بہ لب ہو کر بیٹھ جائیں گی لیکن یہ توقعات درست ثابت نہیں ہُوئی ہیں ۔اُن کا سیاسی تحرک جاری ہے ۔ وہ خود ایک تحریک اور سیلاب بنتی جارہی ہیں ۔ اُن کا یہ تحرک اُن کے مخالفین کے لیے دردِ سر بنتا جارہا ہے ۔ مریم نواز شریف کی ساری کوششوں اور جدوجہد کا مرکزی نکتہ اپنے والدِ گرامی کی جیل سے رہائی ہے ۔

اُن کا ایقان ہے کہ نواز شریف بیگناہ ہیں ؛چنانچہ وہ ببانگِ دہل کہتی ہیں کہ وہ اپنے ’’بیگناہ‘ ‘والد صاحب کو رہا کرانے کے لیے ’’آخری حد تک‘‘ جائیں گی ۔ یہ ’’آخری حد‘‘ کیا ہو سکتی ہے، اس کے عنوانات اور آثار آہستہ آہستہ بے نقاب ہوتے جا رہے ہیں ۔ مریم نواز کی جدوجہد بے تکان، مسلسل اور بے روک ہے ۔اپنی سیاسی طاقت اور اپنے مطالبے میں قوت کے حصول کے لیے انھوں نے اپنے والد صاحب کے سابقہ کٹر مخالفین اور حریفوں سے بھی مصافحہ اور صلح کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھا اور نہ اس میں تاخیر کی ہے ۔

بعض سیاسی پنڈتوں کا خیال رہا ہے کہ مریم نواز محض نواز شریف کی لاڈلی اور نازوں پلی بیٹی ہیں ۔ سیاست کا گرم اور خطرناک کھیل کھیلنا اُن کے بس کی بات نہیں ہے ۔ مریم نواز شریف نے اپنے قول و فعل سے ان قیافوں اور اندازوں کو غلط ثابت کیا ہے ۔ کہا جا سکتا ہے کہ حوالہ زنداں نواز شریف کو آج کوٹ لکھپت جیل میں جو سہولتیں اور آسانیاں دستیاب ہیں ، یہ کسی کی مہربانی اور استحقاق کا ثمرنہیں ہیں بلکہ یہ اُس دباؤ کا نتیجہ ہے جو مریم نواز کا پیدا کردہ ہے ۔ وہ ایک بے چین اور بیقرار روح کی طرح اپنے والد کی رہائی کے لیے بھاگ دوڑ رہی ہیں ۔ ایسی جدوجہد تو محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی( اپنے قیدی والد کی رہائی کے لیے) بوجوہ نصیب نہیں ہو سکی تھی۔ وہ جلسے کرنے کے ساتھ ساتھ مقتدرین کو چیلنج بھی کررہی ہیں ۔

وہ ایک سرطان زدہ بچے کی تیمار داری کے بہانے ظفر وال ( ضلع نارووال) گئیں تو ایک بڑا جلسہ کرنے میں بھی کامیاب رہیں ۔ سابق وفاقی وزیر دانیال عزیز اور اُن کی  ایم این اے اہلیہ نے خوب ساتھ نبھایا۔ مقامی نون لیگی ایم پی اے مولانا غیاث الدین اس جلسے میں دانستہ غیر حاضر رہے ۔ اُن کی خاموشی اور غیر حاضری کا راز اب کھلا ہے ۔ موصوف نون لیگ کے اُس گروہ میں پائے گئے ہیں جس نے ’’اپنے حلقوں کے مسائل حل کرنے کے لیے ‘‘ وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی ہے ۔ مولانا صاحب پر بلا شبہ نون لیگ کے لاتعداد احسانات ہیں لیکن وہ آزمائش کی گرمی میں ثابت قدم نہیں رہ سکے ہیں ۔ اگر مبینہ ’’فارورڈ بلاک‘‘ واقعی تشکیل پا گیا تو ممکن ہے حضرت مولانا غیاث الدین بھی دل کی مرادیں پا جائیں۔ رانا ثناء اللہ نے مولانا صاحب کے بارے جو تبصرہ کیا تھا، وہ بھی فضا میں موجود ہے۔

نون لیگ کو کمزور کرنے اور توڑنے کی ممکنہ کوششوں کے باوصف مریم نواز شریف کے قدم آگے بڑھ رہے ہیں ۔ وہ ظفروال کے بعد اب منڈی بہاء الدین میں بھی جلسہ کرنے کا مصمم ارادہ کر چکی ہیں ۔حکومت مگر اُن کے راستے میں مزاحم ہے لیکن مریم نواز کے ارادے اٹل ہیں ۔ اتوار کی صبح جس لمحے یہ سطور رقم کی جارہی ہیں ، اطلاعات آ رہی ہیں کہ منڈی بہاء الدین کی انتظامیہ ڈٹی ہے کہ مریم نواز کو جلسہ نہیں کرنے دینا۔ انتظامیہ کا موقف ہے کہ جلسے کے لیے ’’ کئی سیکیورٹی رسک‘‘ ہیں ۔ مریم نواز اور نون لیگ کے پیروکاروں کا مگر اصرار ہے کہ منڈی بہاء الدین کا یہ جلسہ ہو کررہے گا۔ گراؤنڈ نہیں تو منڈی بہاء الدین کی سڑکیں ہی سہی ۔

یہ بدلتے وقت کی داستان ہے۔ کہاں وہ وقت کہ مریم نواز کے جلسے کے لیے شہروں کی انتظامیہ خود بڑھ چڑھ کر بندوبست کرتی تھی اور کہاں یہ وقت؟ سچ کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں پر دن پھیرتا رہتا ہے ۔ یہ دراصل انسانوں کی آزمائش ہے ۔ مریم نواز پر پڑی یہ آزمائش بھی گزر جائے گی لیکن افسوس تو آج کے اُن مقتدر افراد پر ہے جن کا دعویٰ تھا کہ اپوزیشن حکومت کے خلاف نکلے تو سہی ، ہم انھیں خود کنٹینر اور دیگر سہولتیں فراہم کریں گے ۔ یہ دعوے مگر پہلے مرحلے پر ہی ہوا ہو گئے ہیں ۔ منڈی بہاء الدین میں مریم نواز شریف کے جلسے کو مسدود اور ناکام کرنے کے لیے ایسے موقعے پر اقدامات کیے گئے ہیں جب مریم نواز کی ایک تازہ پریس کانفرنس کی باز گشت پاکستان سمیت پوری دُنیا کے میڈیا میں سنائی دے رہی ہے۔

اس پریس کانفرنس نے ایک زلزلہ پیدا کر دیا ہے ۔ مریم نواز کا موقف کتنا سچا ہے ، یہ تو آنے والے دن بتائیں گے لیکن فی الحال اس نے ہماری سیاست میں ایک بھونچال کی سی کیفیت پیدا کر دی ہے ۔ مریم نواز کی یہ دھمکی کہ ’’اس طرح کے مزید ثبوت بھی میرے پاس ہیں‘‘ ایک اور سیاسی زلزلے کی پیش گوئی ہے ۔لیکن متعلقہ فریق کی طرف سے پریس ریلیز کی شکل میں جو جواب میڈیا میں سامنے آیا ہے ، وہ خاصا اہم ہے ۔ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

مریم نواز شریف نے یہ زلزلہ اور بھونچال ایسے موقعے پر پیدا کیا ہے جب نون لیگ پنجاب کے صدر اور نواز شریف کے معتمد ترین ساتھی ، رانا ثناء اللہ، تازہ تازہ ایک سنگین الزام کے تحت حراست میں لیے گئے ہیں ۔جب اپوزیشن کی ’’رہبر کمیٹی‘‘ یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ رواں جولائی کے وسط تک چیئرمین سینیٹ کو ہٹا کر خان صاحب کی حکومت کو اپنی طاقت دکھائی جائے گی اور اُن کے لیے نیا مسئلہ کھڑا کیا جائے گا۔ اس غرض کے لیے 9 جولائی کو چیئرمین سینیٹ کے خلاف قرار داد جمع کروائی جائے گی اور 11جولائی کو اپوزیشن اپنا متفقہ امیدوار سامنے لائے گی۔ جب ہماری سیاسی فضاؤں میں یہ ’’بو‘‘ پھیلی ہے کہ حکومت کی ایما پر نون لیگ کے اندر ’’فارورڈ بلاک‘‘ کی تشکیل تکمیل کے قریب ہے ۔

جب نون لیگ کے مرکزی صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا ہے ۔ مریم نواز شریف نے  ایسے وقت میں سیاسی بھونچال پیدا کیا ہے جب ایشیائی ترقیاتی بینک نے پشاور کے میٹرو پراجیکٹ (بی آر ٹی) بارے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں شدید اور سنگین قسم کے سوالات اُٹھا دیے ہیں اور دعویٰ کیا ہے کہ اس پراجیکٹ میں میٹریل بھی ناقص استعمال ہُوا ہے اور اس کے ڈیزائن میں کی گئی تبدیلیوں نے بڑی خرابیاں پیدا کر دی ہیں ۔ ایشیائی ترقیاتی بینک ہی نے مذکورہ پراجیکٹ کے لیے فنڈز (70ارب روپے) فراہم کیے ہیں ۔ اُن کی تشویش بجا محسوس ہوتی ہے ۔ یہ رپورٹ بھی جناب عمران خان کے لیے پریشانی کا باعث بنی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔