تبدیلی مہنگی پڑگئی

شبیر احمد ارمان  پير 8 جولائی 2019
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

پاکستانی قوم سے نہ جانے ایسی کیا غلطیاں سر زد ہوئی ہیں کہ ہر بارکوئی نہ کوئی اس کی سادگی یا کم شعوری سے فائدہ اٹھا کر اسے ایک کھائی سے نکالنے کا وعدہ کرکے اسے مزید اندھیری کھائی میں دھکا دے دیتا ہے۔ انتخابات سے پہلے، دوران انتخابات اور اب بجٹ میں عوام کو زخم دینے کے بعد بھی وہی گھسے پٹے تبدیلی کے نعرے پر جھوٹی تسلی اور نام نہاد تبدیلی کے نام پر بہلایا جارہا ہے ۔ عوام اپنے تئیں بہت سوچ بچار کے بعد موجودہ حکومت کو اقتدار میں لائے کہ جہاں دوسری پارٹیوں نے تیس برس باری، باری حکومت کی ہے وہاں اب اگر پانچ سال کے لیے تبدیلی کو بھی آزمایا جائے توکیا حرج ہے۔

آنکھوں میں تبدیلی کے خواب لیے ،کانوں میں دل کش سیاسی نعروں کو سماتے ہوئے میرے ملک کے غریب عوام نے بڑی چاہ سے کپتان کو اور اس کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دیا لیکن بہت جلد یہ تمام خواب وسپنے اور امیدیں اس وقت دم توڑ گئے جب حکومت نے لوٹی ہوئی پاکستانی دولت کو چوروں اور لٹیروں سے واپس لینے کے بجائے وصولی غریب عوام سے شروع کی۔ غریب عوام معیشت اور بجٹ کی بھول بھلیوں کی بجائے اپنے لیڈرکی ان باتوں ، وعدوں ، یقین دہانیوں اور نعروں پر اعتماد کرتے رہے ہیں جو ان سے کیے گئے تھے۔

اب عوام کوبہت جلد یہ احساس دلایا گیا ہے کہ بند آنکھوں میں سپنے تھے، سپنوں میں دن اپنے تھے ، جب آنکھ کھلی تو ہم نے دیکھا ، سپنے آخر سپنے تھے ۔ جو ظلم وستم غریب عوام کے ساتھ ہوتا رہا ہے اس سے بھی بڑھ کر مہنگائی کی جو قیامت خیز سونامی تبدیلی لائی ہے اس سے غربت جو تباہی پھیلانے والی ہے مراعات یافتہ طبقے کو اس کا احساس ہی نہیں ہے کیوں کہ انھیں ٹیکس سے چھوٹ حاصل ہے ، ملک کے غریب عوام ازل سے ٹیکس دیتے چلے آرہے ہیں اور ملکی معیشت غریب عوام کے ٹیکس سے چلتی رہی ہے اور چل رہی ہے، یہ الگ بات ہے کہ ان پیسوں کو غریب عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کے بجائے ذاتی تجوریاں بھری گئیں۔

موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کے دیے ہوئے بجٹ میں غریب عوام پر ٹیکسسزکا جو ناقابل برداشت بوجھ لاد دیا ہے، اس کا خمیازہ حکومت کو بھی بھگتنا ہوگا، عوام کی نفرت کی صورت میں۔ غریب عوام پر ٹیکس پہلے بھی لگتے رہے ہیں ، ہر بجٹ پر عوام سے یہی کہا جاتا رہا ہے کہ معیشت کی ترقی کے لیے عوام کوکڑوی گولی نگلنی ہوگی اور عوام نگلتے ہی رہیں گے لیکن اس بار ٹیکسز نے غریب عوام کی چیخیں نکال دی ہیں، ان کے کھانے کے لقمہ پر بھی ٹیکس لگا دیے گئے ہیں، باقی بچی ہے سانس اس پربھی ٹیکس غیر محسوس طور پر لگا دیا گیا ہے ،جب پیٹ میں دو وقت کی روٹی میسر نہ ہو تو فاقہ کشی موت بن جاتی ہے اور اس بار یہی کیا گیا ہے ۔ غربت کے خاتمے کی یہ جدید ٹیکنیک ایجاد کی گئی ہے، جب ملک میں غریب نہ ہونگے تو لامحالہ یہ اونچے محل بھی نہیں رہیں گے کیونکہ یہ عالی شان محل غریبوں کے دم سے آباد ہیں ۔

ٹیکسز کے بوجھ تلے دبے ہوئے غریب عوام کا کہنا ہے کہ ٹیکس لگا دینا اگر حکومت کی مجبوری ہے تو سب سے پہلے ان مراعات یافتہ طبقہ پر لگاؤجو ماہانہ لاکھوں روپے کماتے ہیں جنھیں سرکاری مراعات بھی حاصل ہیں اور وہ کسی بھی قسم کے ٹیکسز دینے سے آزاد ہیں ، یہ کیسا انصاف ہے ؟ لیکن حکومت ایسا نہیں کرسکتی ، کیونکہ وہاں پر جل جانے کا اندیشہ ہے ،جس سے حکومت کی ہوا نکل سکتی ہے، ساری تبدیلی بھول جانی پڑے گی،کیا یہی انصاف ہے؟ لگتا ہے کہ کپتان کو بھی غریبوں سے نام نہاد ہمدردی تھی جو اب ظاہر ہوتی جا رہی ہے۔

ذرا سوچیے، یہ کیسی تبدیلی ہے کہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافے کا اعلان کیا جاتا ہے، تو دوسرے ہی لمحے ان پر ماہانہ بارہ فیصد ٹیکس عائدکر دیا جاتا ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کی تنخواہوں میں سرے سے اضافہ ہی نہیں کیا گیا ہے بلکہ ان پر دو فیصد ٹیکس عائد کرکے انھیں یہ احساس دلایا جارہا ہے کہ تم نے جو نیا پاکستان مانگا تھا وہ یہی ہے اب تم چیخو یا چلاؤ یہی ہے کپتان کا نیا پاکستان جہاں غریب سرے سے ہی نہیں رہیں گے۔کپتان کی سیاسی نعروں میں سے صرف ایک ہی نعرہ سچ ثابت ہو رہا ہے کہ ’’میں ان کو رلا دوں گا ‘‘ واقعی غریب عوام رونے پر مجبورکردیے گئے ہیں، لیکن ڈرو ان کے آنسوؤں سے ، ان کی آہوں اور بددعاؤں سے جو پہلے ہی سابقہ حکومتوں کو لے ڈوبے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں عوام پر جو ٹیکس لگا دیا جاتا ہے وہ رقم واپس عوامی سہولت کے نام پر عوام کو ہی لوٹا دی جاتی ہے لیکن ہمارے یہاں ان رقوم سے ذاتی تجوریاں بھری جاتی رہی ہیں۔

عوام بیچارے منہ تکتے رہ جاتے ہیں، چور چور کے نعرے بلند ہوتے رہے ہیں لیکن سزا کسی کو بھی نہیں ہوئی ہے سب وقت کے ساتھ بے گناہ ثابت ہوتے رہے ہیں، خدارا ! اس کھیل کو بندکیا جائے اور اپنی ساری توجہ غریب عوام کی زندگی پر دیں کہ وہ چند ہزار روپے کی تنخواہ پر کیسے گزارہ کرسکتے ہیں جہاں قدم قدم پر ٹیکسز کی بھرمارکردی گئی ہے۔ اوپر سے ناجائز منافع خوری ہے، بازاروں میں جانا غریب عوام کی دسترس سے باہر ہے ، جہاں ہر لمحے چیزوں کی قیمتیں بڑھتی رہتی ہیں ۔کم ازکم مدینے کی ریاست میں ایسا کچھ نہیں ہوتا تھا ۔ بلکہ اس ریاست میں بھوکے پیاسے کتے کی ذمے داری بھی خلیفہ وقت پر تھی ، یہ کیسی مدینے کی ریاست ہے کہ عوام نے نہ کچھ کھایا نہ کچھ پیا ، گلاس توڑا کسی اور نے اور بارہ آنے وصول کیے جا رہے ہیں بے چارے غریب عوام سے ؟ ہائے! کیسے کیسے وعدے کیے گئے تھے نئے پاکستان کے لیے سب کے سب یوٹرن میں بدل گئے ۔

کیا کسی کو احساس ہے کہ یہ بارہ مہینے چالیس سال سے مہنگے پڑ رہے ہیں ، غریب عوام کو ؟ ٹھنڈے کمروں سے باہر نکل کر بازاروں میں نکل جائیں اور چیزوں کی قیمتیں معلوم کریں اور پھر ان قیمتوں کو غریب عوام کی قلیل آمدنی سے موازنہ کریں کہ آخر کس طرح غریب اس مہنگائی کے سونامی میں زندہ رہ سکتے ہیں ؟ آپ کہتے ہیں کہ گھبرائیں نہیں،کیوں نہ گھبرائیں یہاں تو زندہ رہنا محال ہوتا جارہا ہے ۔زندگی کی باقی ضروریات کوکیسے پورا کیا جائے جب کہ زندہ رہنے کے لیے روٹی ہی میسر نہیں ہے ۔ وزیر اعظم صاحب ! مدینے کی ریاست کی طرح باہر نکل کرغریبوں کے گھروں میں جھانکیے کس نے کھانا کھایا ہے اورکس نے نہیں ۔ فائلوں میں سب اچھا اچھا لکھا ہوگا مگر حقیقت اس سے بھیانک ہوتی جارہی ہے، بجٹ کے آغاز ہی میں غریب کا خاتمہ دکھائی دینے لگا ہے۔اس سے پہلے کہ غربت سب کچھ ہڑپ کرلے غریب عوام پر لادے گئے ٹیکسز پر نظرثانی کریں اور آئی ایم ایف والوں سے کہہ دیں کہ پاکستان کے عوام غریب ہیں ان کی قلیل آمدنی بھاری بھرکم ٹیکسزکی متحمل نہیں ہوسکتی ، یہ جیتے جی مرجائیں گے تو پھر میں کن پر حکومت کروں گا ۔

پچھلی حکومتوں نے بھی یہی کہا تھا کہ ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں کہ ہم یا تو مزید قرضے بڑھنے دیں یا قیمتیں بڑھائیں ۔سو حکومت وقت نے بیک وقت دونوں راستے اپنا لیے ہیں۔ قیمتیں بھی بڑھا دی ہیں اور قرضے بھی بڑھا دیے ۔روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی ہے ،جوکہ مہنگی پڑ گئی۔ جب تک غریب عوام میں سکت ہے یہ سب کچھ سہتے رہیں گے تاوقتیکہ ان کے صبرکا پیمانہ لبریز نہ ہو۔ مجھے تو ڈر سا لگ رہا ہے کہ سونامی جیسی مہنگائی اور اژدھا جیسی بے روزگاری ملک میں انارکی کا سبب نہ بنے جہاں کوئی طاقت بھی کام نہیں آئے گی ۔ اللہ پاک ہمارے وطن عزیز پر رحم کرے اوراسے سدا آباد رکھے اور حکمرانوں کو غریبوں کی حالت زار دیکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔