خود کوعزت دو!

ندا ڈھلوں  بدھ 10 جولائی 2019
خود کو پہچانہے اور خود کو عزت دیجئے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

خود کو پہچانہے اور خود کو عزت دیجئے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

انتخابات 2018 کا میدان سجا۔ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے نے دھوم مچائی۔ زبان زدِ عام اس نعرے نے جہاں عوامی پذیرائی حاصل کی وہیں میری سوچ کا زوایہ بھی بدل دیا۔ ووٹ کا حق پانچ سال بعد ایک بار استعمال کیا جاتا ہے۔ یقیناً یہ امانت بھی باعث تکریم ہے مگر معاشرے کا اہم حصہ ’’انسان‘‘ اس حق سے محروم ہے۔ عزتِ نفس انسان کےقلبی اطمینان اور ذہنی سکون کا باعث بنتی ہے، اس پر کسی قانون دان نے کوئی قانون بنایا اور نہ ہی ووٹ سے منتخب ممبران نے اس پر کوئی رائے دی۔ عزت نفس کےلیے قانون سازی اور معاشرتی تبدیلی کی بات تک نہیں کی جاتی، جس کی واحد وجہ بظاہر ہم ہیں جو اس سے آشنا ہی نہیں۔

کتنی زندگی ہم اپنے لیے جیتے ہیں؟ کتنی کوشش ہم خود کو عزت دلوانے کےلیے کرتے ہیں؟ آپ خود سوچیے اور جواب دیجیے۔ ہماری زندگی کا محور دوسروں کی ذات ہوتی ہے۔ کیریئر کا انتخاب ہم اپنے والدین، احباب، رشتہ داروں اور معاشرے کی رائے کے مطابق کرتے ہیں۔ اپنی زندگی کےلیے بھی ہم اوروں کے محتاج ہوتے ہیں۔ اس سوچ سے انکار نہیں کہ ہمارے عزیز و اقارب کا بھی ہماری ذات پر حق ہوتا ہے اور یہ حق ہمیں ادا بھی کرنا چاہیے، مگر ہماری اپنی ذات کا بھی تو ہم پر حق ہے! وہ حق کون ادا کرے گا؟ بدقسمتی سے، اپنی ذات کو حق دلوانے کے وقت ہم دوسروں کی طرف دیکھتے ہیں۔ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ ہم تو اپنی خوبیوں کا ادارک بھی دوسروں کی تعریفوں سے کرتے ہیں۔ اپنی ذات کے بارے میں دوسروں کی رائے کو ہم حقیقت تسلیم کرلیتے ہیں لیکن بازی تب پلٹتی ہے جب لوگ ہماری توقعات پوری نہیں کرتے۔ اس طرح ہم مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں اور زندگی بے معنی سی محسوس ہونے لگتی ہے۔

انسانی عزت کا دار و مدار اس کی دنیاوی زندگی میں ہے، جہاں اپنی پہچان بنانے کےلیے ایک عمر صرف ہوجاتی ہے۔ روح کی پرواز کے بعد ہی انسان تنہائی کے سفر پر روانہ ہوجاتا ہے۔ یعنی انسان کی زندگی کا سفر اسی کے ساتھ شروع ہوکر اسی کی ذات پر اختتام پذیر ہوجاتا ہے۔

ماہرین نفسیات و عمرانیات کے مطابق، انسان کی خوبیوں کو جلا بخشنے کےلیے اسے آزاد فضا اور اپنی زندگی پر بھرپور اختیار دیا جانا چاہیے۔ پابندیوں میں جکڑی، جامد اور مقید فضا انسان کی ذہنی صلاحیتوں اور استطاعت کو زنگ آلود کردیتی ہے۔ کسی بھی فرد کی صلاحیتوں کے مثبت استعمال کےلیے اسے آزادی دینا ہوگی۔ خیالات، احساسات اور عمل کی یہ آزادی ہی اس کی زندگی میں رنگ بھر سکتی ہے جس کے بعد انسان معاشرے کو رنگوں سے مزین کرسکتا ہے۔ سوچ اور خیالات کی آزادی ہی انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے، اسی آزادی کی بنا پر اسے اشرف المخلوقات بھی کہا جاتا ہے۔ اللہ نے بھی تکریم انسانیت کا پیغام بھیجا ہے۔

قدرت نے تو ہماری اصل پہچان کھل کر بیان کردی ہے، مگر افسوس کہ انسان خود کی قیمت کو پہچان نہ پایا۔

بات سیدھی سی یہ ہے کہ خود کو عزت دو!

خود سے پیار کیجیے، خود سے باتیں کیجیے، خود کو سکھائیے اور خود سے سیکھیے۔ رب نے آپ کے اندر ایک پورا جہان آباد کیا ہوا ہے۔ اُس سلطنت کے آپ ہی بے تاج بادشاہ ہیں، یہ سلطنت آپ کی ہے اور آپ اس سلطنت کے قرض دار بھی ہیں۔ آپ اس سلطنت میں تب ہی فتح یاب ہوں گے جب آپ خود کو جانیں گے، خود کو عزت دیں گے۔ آپ احترام آدمیت کا درس عام کیجیے لیکن اس سے قبل آپ خود کو عزت دینے کے اسرار سے واقف تو ہوں!

اس سفر میں آپ کو مشکلات پیش آئیں گی۔ لوگ آپ کو خود پسند، مطلبی بھی کہیں گے۔ لیکن عمل پہیم، لگن اور حوصلے کی بدولت آپ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا ہی لیں گے۔ ایک بات یاد رکھیے کہ ووٹ کو بھی تب ہی عزت ملے گی جب انسان کو عزت ملے گی اور جب احترام انسانیت کا درس عام کیا جائے گا؛ اور جب انسان کو قیمتی سمجھا جائے گا تو اس دنیا میں ہر چیز ہی قیمتی لگنا شروع ہوجائے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ندا ڈھلوں

ندا ڈھلوں

بلاگر جامعہ پنجاب سے فارغ التحصیل ہیں، مختلف ٹی وی چینلوں سے وابستہ رہ چکی ہیں۔ سیر و سیاحت اور کتب بینی ان کے مشاغل ہیں۔ ان سے ٹوئٹر آئی ڈی @DhillonNida پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔