چبھے کانٹا جو کابل میں...

قمر مختار  منگل 9 جولائی 2019
روس افغانستان سے نکلا تو امریکا آ گیا افغانستان کی سر زمین عالمی طاقتوں کا اکھاڑا بن گئی ۔ فوٹو : فائل

روس افغانستان سے نکلا تو امریکا آ گیا افغانستان کی سر زمین عالمی طاقتوں کا اکھاڑا بن گئی ۔ فوٹو : فائل

یہ لگ بھگ 1981 کی بات ہوگی کہ ہم نے پاکستانی قوم کو تڑپتے ہوئے دیکھا۔ روس نے افغانستان پر حملہ کردیا تھا، افغان قوم پر مشکلات کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ مملکت پاکستان نے اپنی سرحدیں افغانوں کےلیے کھول دیں تو پاکستانی عوام نے اپنی بانہیں۔ روزانہ ہزاروں افغان، پاکستان میں داخل ہوتے اور پاکستان سے جو بن پایا وہ سب کچھ کیا: میزبانی بھی کی اور دل جوئی بھی۔

میں اس وقت ساتویں جماعت میں پڑھتی تھی۔ پی ٹی وی کے عروج کا دور تھا۔ ویک اینڈ پر لانگ پلے لگا کرتا تھا۔ ایک رات ایک ڈرامہ لگا تھا ’’پناہ‘‘ جس میں ہماری لیجنڈ اداکارہ عظمٰی گیلانی نے ایک حاملہ افغان عورت کا کردار ادا کیا تھا۔ اس ڈرامے کے توسط سے افغان خاندانوں پر بیتنے والے دکھ گویا ہمارے دل میں درد بن کر اتر گئے۔ ہم لوگ بچے تھے۔ چپکے چپکے آنسو صاف کرتے رہے جبکہ گھر کی خواتین ہچکیاں لے لے کر روئیں۔ ڈرامے میں جب عظمٰی گیلانی کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو ہمارے ایک کزن نے خوشی سے ’’نعرۂ تکبیر‘‘ بلند کیا تو ہم سب نے ’’اللہ اکبر‘‘ کی صدا لگائی۔ لگ رہا تھا کہ یہ ’’کاکا‘‘ گویا ہمارے ہی محلے میں یا کسی رشتہ داروں کے ہاں پیدا ہوا ہے۔

کچھ دنوں بعد ہمارے محلے میں واقعی ایک لٹا پٹا افغان خاندان آ بسا۔ سب نے ان کےلیے جو کچھ بن پڑا، کیا۔ اس خاندان میں ایک ادھیڑ عمر مرد، تین عورتیں اور سات بچے تھے۔ ہماری ان افغان بچوں سے دوستی ہوگئی۔ مگر ’’زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم۔‘‘ یہ لوگ ترکی نہیں، فارسی بولتے تھے۔ محبت کی زبان کب لفظوں کی محتاج ہوتی ہے۔ انسانیت اور دوستی تو جنم ہی خامشی میں لیتے ہیں۔ پھر پتا چلا کہ گھر کے سربراہ کا نام موسٰی خان تھا، ایک عورت اس کی بیوی تھی، ایک بیوہ بھابھی اور ایک بیوہ بہن۔ ان دونوں کے شوہر شہید ہوگئے تھے۔ یہ بچے ان تینوں کے تھے۔

موسیٰ خان کو شیخ صاحب نے اپنی فیکٹری میں چوکیدار رکھ لیا۔ بچوں کوایک اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔ ان کی خواتین برقعہ پہنتی تھیں۔ آہستہ آہستہ اس خاندان کو اردو سمجھنی اور بولنی آگئی۔ اگر گھر میں کوئی اچھی چیز پکتی تو ان کے گھر بجھوائی جاتی۔ یہ بچے ہمارے گھر آتے تو والد صاحب تاکید کرتے کہ ان کو اچھی چیز ہی کھلائی جائے۔ والد صاحب اکثر اقبالؒ کا شعر پڑھتے:

اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستاں کا ہر پیر و جواں بیتاب ہو جائے

دو ڈھائی سال بعد یہ خاندان پشاور منتقل ہوگیا۔ کچھ عرصہ رابطے رہے، پھر نہ رہے۔ مگر اچھی یادوں کی خوشبو باقی رہی۔ پھر تو وہ دن بھی آئے کہ ہزاروں پاکستانی نوجوان افغان بھائیوں کی محبت میں روس کے ساتھ جہاد کرنے کےلیے سرحد پار کر گئے اور پھرجان سے ہی گزر گئے۔ اب بھی بہت سوں کی مائیں، بہنیں، بیویاں اور بچے ان کی یاد میں تڑپ رہے ہیں۔ کون کہاں گیا؟ کہاں شہید ہوا؟ کون کنٹینروں میں ڈال کر کس کے حوالے کیا گیا؟ کس کی قیمت، کس نے وصول کی؟ اور کتنی کی؟ کسی کو کچھ خبر نہیں۔ بس کہانیاں باقی ہیں۔

روس افغانستان سے نکلا تو امریکا آ گیا۔ افغانستان کی سر زمین عالمی طاقتوں کا اکھاڑا بن گئی۔ بھارت کو کیا چاہیے تھا۔ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ اس نے دو مسلمان بھائیوں کے درمیان نفرت کے وہ بیج بونے شروع کیے جو اس کی گھٹی میں پڑے تھے؛ اور اپنے احمق اور خود غرض رہنماؤں اور کرتا دھرتاؤں کی وجہ سے بڑی حد تک وہ اس مقصد میں کامیاب بھی ہوگیا، جس کا مظاہرہ پاک افغان کرکٹ میچ کے بعد برطانیہ میں اس وقت دیکھنے میں آیا جب پاکستانی ٹیم میچ جیت گئی۔ کھیل تو کھیل ہے۔ جیت ہار تو ہوتی رہتی ہے؛ اور کھیل میں جیت کا مزہ یا ہار کا دکھ کھیل کی طرح ہی لینا چاہیے۔ ایسے رویّے نہیں اپنانے چاہئیں جو دوسروں کےلیے باعث آزار، آپ کےلیے باعث ذلت و ندامت، جگ ہنسائی اور ایک عیار دشمن کےلیے خوشی کا ذریعہ بنیں۔

مگر کیا کیجیے کہ مسلمان بے چارے ازل سے ٹھہرے سادہ دل۔ انہی دنوں میں پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے افغان صدر اشرف غنی نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ انہیں علامہ اقبال پسند ہیں کیونکہ وہ افغانوں کو سمجھتے ہیں۔ تو عرض ہے کہ افغانوں کو علامہ اقبال ہی نہیں، ہمارا عماد وسیم بھی سمجھتا ہے۔ جس نے پوری پاکستانی قوم کی ترجمانی کا حق ادا کر دیا۔ یہ کہتے ہوئے کہ ہم ’’مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ہمیں ہرگز نہیں لڑنا چاہیے۔‘‘

عماد وسیم کی والدہ اتنی ہی مبارک باد کی مستحق ہیں جتنی کہ ورلڈ کپ جیتنے پر ہوتیں۔ امید کہ افغان بھائیوں نے بھی عماد وسیم کی بات ضرور سنی ہو گی۔ عزت مآب افغان صدر اشرف غنی صاحب نے بھی سنی ہوگی۔ ان سب سے صرف اتنی درخواست ہے کہ خدارا اپنے اور پرائے کے فرق کو سمجھ جائیے۔ آج بھی ہزاروں افغان، پاکستان کی سرزمین پر رہائش پذیر ہیں۔ رہا سوال معیار زندگی کا، تو پاکستانی عوام کی خود ایک بڑی تعداد کسمپرسی کے حالات میں زندگی کے دن پورے کر رہی ہے۔

شاید آپ بھی اپنے عوام کےلیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہوں۔ سردست صرف اتنا کیجیے کہ اپنے دوست اور دشمن کو پہچانیے اور اس خاص پڑوسی پر اتنا بھی اعتبار نہ کیجیے جو امت مسلمہ کی نسل کشی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ آج وہ آپ کا خیرخواہ بنا بیٹھا ہے اور بڑی ہوشیاری سے دونوں ملکوں کے درمیان نفرت کے شعلے بھڑکانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ اگر ہم یہ بات نہ سمجھ سکے تو پھر کیا علامہ اقبالؒ کے افکار اور کیا جمال الدین افغانیؒ کی تعلیمات۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

قمر مختار

قمر مختار

بلاگر زمانہ طالب علمی میں زرعی یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس میگزین ’’کشت نو‘‘ کی ایڈیٹر اور یونیورسٹی ڈبیٹنگ سوسائٹی کی صدر رہی ہیں۔ پی ٹی وی کے کو ئز مقابلے ’’یونیورسٹی چیلنج‘‘ میں حصہ لے چکی ہیں اور آج کل ایک بینک سے بطور اسسٹنٹ وائس پریذیڈنٹ منسلک ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔