ٹیکس چوروں کے سامنے سرنڈر کیوں؟

مزمل سہروردی  منگل 9 جولائی 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

کیا عمران خان کی حکومت ٹیکس کا ہد ف حاصل کر سکے گی؟ کیا ٹیکس اصلاحات ممکن ہیں؟ کیا شبر زیدی کامیاب ہو جائیں گے؟عمران خان کی حکومت اپنے پہلے سال میں ٹیکس کے اہداف حاصل نہیں کر سکی۔ وجہ کچھ بھی ہو لیکن عمران خان کی حکومت کی پہلے سال میں ٹیکس محصولات کو اکٹھا کرنے کے حوالے سے کارکردگی نہا یت ناقص رہی ہے۔

اسی ناقص کارکردگی نے عمران خان کو اپنی معاشی ٹیم تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس بری کارکردگی کی وجہ سے ہی آج عمران خان سیاسی طور پر بہت کمزور ہو گئے ہیں۔ اپوزیشن کو نئی زندگی مل گئی ہے۔ احتساب کا عمل کمزور ہو گیا ہے۔

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگلے سال کے لیے عمران خان کی معاشی ٹیم نے اپنے لیے بہت مشکل ٹیکس ٹارگٹ سیٹ کیے ہیں۔ بلکہ سب جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے قرضے کی شرائط میں ٹیکس ٹارگٹس کا حصول بھی شامل ہے۔ نئی ٹیکس اصلاحات کے خلاف ملک میں ایک شور اٹھنا شروع ہو گیاہے۔ فیکٹریوں میں ہڑتالیں شروع ہو گئی ہیں۔ تاجروں نے ملک بھر میں ہڑتال کی کال دے دی ہے۔  دوسرے لفظوں میں نئے ٹیکس کلچر کے خلاف ہڑتالیں شروع ہو گئی ہیں۔ یہی اس حکومت کا سب سے بڑا امتحان ہے۔

پاکستان میں تنخو اہ دار طبقہ ٹیکس دیتا ہے۔ بڑے صنعت کار اور بڑی کمپنیاں کم یا زیادہ وہی ٹیکس دیتی ہیں۔ لیکن پاکستان کا تاجر طبقہ پوری طرح پاکستان کے ٹیکس نیٹ میں آنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ نواز شریف اس ملک میں تاجر طبقہ کے لیڈر تھے۔ وہ خود کو کاروباری طبقہ کا لیڈر کہتے تھے۔ تاجر ان کے ووٹ بینک کی اساس تھے۔ اس لیے انھوں نے ہمیشہ تاجروں کا تحفظ کیا۔ انھیں ٹیکس کلچر میں نہیں آنے دیا۔ ان کی بات مانی۔ ان کو خوش رکھا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کا ملک کو نقصان ہوا۔ جب تاجر وں نے ٹیکس نیٹ میں آنے سے انکار کیا تو براہ راست کے بجائے بالواسطہ ٹیکس لگائے گئے۔ جس کی وجہ سے ملک کا معاشی نظام خراب ہوا۔

آج بھی پاکستان کا تاجر طبقہ ٹیکس اصلاحات کے لیے تیار نہیں ہے۔ ماضی میں نواز شریف کی حکومت میں تاجروں کو ٹیکس کلچر میں لانے کے لیے بہت سی مراعات دی گئیں۔ ایمنسٹی دی گئی، بہت سی اصلاحات متعارف کرائی گئیں۔ لیکن سب ناکام ہو گئیں۔ اس ملک کا چھوٹا بڑا تاجر کسی بھی صورت ٹیکس دینے کے لیے تیار نہیں۔ وہ اپنی آمدن اور اخراجات کا حساب دینے کے لیے تیار نہیں۔ فائلر اور نان فائلر کی کہانی بھی اس کو ٹیکس کلچر میں لانے میں ناکام رہی ہے۔ وہ ایف بی آر کو اپنی ٹیکس ریٹرن دینے کے  لیے تیار نہیں ہے۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا، میں اب بھی کہتا ہوں کہ یہ آسان کام نہیں ۔

آپ نواز شریف دور کی بات کرتے ہیں۔ جنرل مشرف نے اپنے مارشل لا کے ابتدائی دور میں تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کی۔ اس دور میں بھی مارکیٹوں میں ٹیکس گوشوارے تقسیم کیے گئے۔لیکن تب بھی تاجروں نے ہڑتالیں شروع کر دیں۔ جنرل مشرف نے ان کی ہڑتالوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ نواز شریف نے تو کبھی ان کے سامنے سر اٹھایا ہی نہیں۔ آج یہ سوال اہم ہو گیا کہ کیا عمران خان اور ان کی نئی معاشی ٹیم بھی تاجروں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے جا رہی ہے۔

مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ ایک طرف تو حکومت برملا اعلان کر رہی ہے کہ اب ایمنسٹی اسکیم ختم ہو گئی ہے، اب کسی کو کوئی معافی نہیں دی جائے گی تو دوسری طرف گورنرہاؤسز میں تاجروں کو بلا کر یقین دہانی کرائی جا رہی ہے کہ وہ ہڑتال کی کال واپس لے لیں۔ ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں کیا جائے گا۔ ان کے تحفظات دور کیے جائیں گے۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن ملک کے اصل چور یہ تاجر ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن پاکستان کے معاشی استحصال کی بڑی ذمے داری ان تاجروں پر عائد ہوتی ہے۔ یہ نہ صرف خود ٹیکس چور ہیں بلکہ انھوں نے پورے ملک کو ٹیکس چور بنا ہوا ہے۔

ان کے پاس بڑی بڑی گاڑیاں ہیں۔ بڑ ے بڑے گھر ہیں۔ بچے مہنگے اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔ سال میں تین تین عمرے کرتے ہیں۔ لیکن ٹیکس دینے کو تیار نہیں ہیں۔ نہ انکم ٹیکس دیتے ہیں۔ نہ ود ہولڈنگ ٹیکس دیتے ہیں۔ اگر آج  حکومت نے ٹیکس چوروں کے سامنے سرنڈر کر دیا تو عمران خان کی ناکامی نوشتہ دیوار ہے۔ ایک طرف تو عمران خان کہہ رہے ہیں کہ انھیں موت سے بھی ڈر نہیں لگتا دوسری طرف ان تاجروں کی ہڑتال سے جان نکلی جا رہی ہے۔ ان سے ہڑتال واپس لینے کی درخواستیں کی جا رہی ہیں۔ کیوں؟

کیوں یہ اعلان نہیں کیا جا رہا ہے کہ ہرمتمول شخص کا حساب ہوگا۔ کیا حساب صرف سیاسی مخالفین کا ہی کرنا ہے ۔ جہاں سے ملنا بھی کچھ نہیں۔ اس کی جگہ اگر پاکستان کے  تاجروں کا حساب شروع کر دیا جائے تو ملک کی تقدیر سنور جائے گی۔ آپ سنیں تو سہی یہ تاجر کیا مانگ رہے ہیں۔ ان کا پہلا مطالبہ ہے کہ بارہ لاکھ روپے کی آمدن تک ٹیکس استثنا بحال کیا جائے۔ کیوں جب تنخواہ دار طبقہ اس آمدن پر ٹیکس دے رہا ہے تو تاجر کیوں نہ دیں۔ یہ کہاں کے لاڈلے ہیں۔ یہ کہتے ہیں ڈسٹری بیوٹر/ ہول سیلرز/ڈیلرز/ریٹیلرز کے غیر رجسٹرڈ افراد کو سیلز ٹیکس پر شناختی کارڈ نمبر درج کرنے شرط ختم کی جائے۔ کتنی معصوم شرط ہے تاکہ چور بازاری جاری رہے۔ یہ شناختی کارڈ نمبر لکھنے میں کیا قباحت ہے۔ جو سیلز ٹیکس دے رہا ہے وہ اپنی شناخت کیوں چھپانا چاہتا ہے۔

کمرشل امپورٹرز پر تمام مصنوعات کی ریٹ لسٹ آویزاں کرنے کی شرط ختم کی جائے۔ آپ بتائیں اس مطالبے کی کوئی منطق ہے۔ ہول سیلرز اور ریٹیلرز کو ود ہولڈنگ ایجنٹ نہ بنایا جائے۔ بھائی آپ جس سے مال خریدیں گے وہ آپ کا ود ہولڈنگ ٹیکس کاٹے گا۔ اور آپ جس کو مال بیچیں گے اس سے ود ہولڈنگ ٹیکس کاٹنے کے آپ پابند ہوں گے۔ یہ طریقہ کار پوری دنیا میں رائج ہے۔ لیکن آپ چاہتے ہیں کہ نہ تو آپ سے پوچھا جائے کہ کس سے کتنے کا کتنا مال خریدا اور نہ ہی یہ پوچھا جائے کہ کس کو کتنے کا کتنا مال بیچا۔ جب باقی سب سے پوچھا جاتا ہے تو آپ کے ساتھ یہ لاڈلے والا سلوک کیوں۔ تاجر یہ بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ اگر ان سے ٹیکس گوشوارا بھرنے میں غلطی ہو جائے تو ان کے خلاف فوجداری قانون کے تحت کارروائی نہ کی جائے۔ مطلب اگر کوئی ٹیکس چوری کرتا پکڑا جائے تو اس کے خلاف فوجداری قانون کے تحت کارروائی نہ کی جائے۔ بس در گرز کر دیا جائے۔ جرمانے بھی نہ کیے جائیں۔

حکومت تاجروں کے ساتھ گورنر ہاؤسز میں میٹنگ کر رہی ہے۔ ان کو یقین دہانی کرائی جا رہی ہے کہ ان کے خلاف کو ئی ایکشن نہیں لیا جائے گا۔ جب ریاست کے ادارے آپ کے ساتھ ہیں۔ تو ڈر کس بات کا۔ کیا  صرف سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانا ہے ۔ صرف سیاسی مخالفین کے ہی ٹیکس گوشوارے چیک کیے جائیں گے۔ صرف ان کی بے نامی جائیدادیں پکڑی جائیں گی۔ صرف ان پر ہی کیس بنائے جائیں گے اور ان تاجروں سے ٹیکس کے حوالے سے مذاکرات کیے جائیں۔ میں تو کہوں گا کہ عمران خان کو ان تاجروں کو ہر گز نہیں ملنا چاہیے جیسے وہ اپوزیشن کو نہیں ملنا چاہتے۔ اگر اس ملک کا تاجر ایمانداری سے ٹیکس دینا شروع کر دے گا تو ملک کے معاشی مسائل خود بخو د حل ہو جائیں گے۔ لیکن اس کے لیے اس حکومت کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہوگا جو نظر نہیں آرہا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔