3 لاپتہ شہریوں کی بازیابی کیلیے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو نوٹس

اسٹاف رپورٹر  بدھ 11 ستمبر 2013
سندھ ہائیکورٹ نے ڈی جی رینجرز،آئی جی وصوبائی وزارت داخلہ سے جواب طلب کرلیے. فوٹو: فائل

سندھ ہائیکورٹ نے ڈی جی رینجرز،آئی جی وصوبائی وزارت داخلہ سے جواب طلب کرلیے. فوٹو: فائل

کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے3لاپتہ افرادکے اہل خانہ کی درخواستوں پروفاقی وصوبائی وزارت داخلہ، حساس اداروں کے سربراہوں،ڈائریکٹرجنرل  رینجرز، آئی جی سندھ اوردیگرکونوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیے۔

جسٹس ندیم اخترکی سربراہی میں2رکنی بینچ نے درخواستوںکی سماعت کی،سید زین الدین کی جانب سے دائر درخواست میں آئی ایس آئی،ایم آئی اور آئی بی کے سربراہوں سمیت محکمہ داخلہ،سی آئی ڈی اوردیگر کو فریق بناتے  ہوئے موقف اختیار کیاگیاکہ سادہ لباس اوروردی میں ملبوس 30 سے 40اہلکاروں نے26 اگست 2013 کو درخواست گزارکے بیٹے ظہورالدین کوگلشن اقبال میں واقع اس کی دکان سے حراست میں لیا، اسے تشدد کا نشانہ بنایااوراگلے روزکشمیرروڈپرپھینک دیا،27اگست کودوسرے بیٹے نصیرالدین کوگرفتارکرلیاجو تا حال لاپتہ ہے،روشن دین نے اپنی درخواست میںکہاکہ وہ ملیرکارہائشی ہے،20 اگست 2013 کو درخواست گزار کا بیٹا محمد آصف اپنے دوست کے ہمراہ موٹرسائیکل پرقائد آباد گیا تھا مگر وہاں سے نہیں لوٹا۔

اس ضمن میں متعلقہ حکام اور پولیس سے بھی رابطہ کیاگیامگرمحمدآصف سے متعلق معلومات فراہم نہیںکی جا رہی، خدشہ ہے کہ حساس اداروں نے اسے حراست میں لے لیاہے،عدالت نے دونوں درخواستوں پر مدعا علیہان کو 3 اکتوبرکیلیے نوٹس جاری کردیے،مسمات آسیہ نے اپنی درخواست میں محکمہ داخلہ،ڈی جی رینجرز، آئی جی سندھ ،ایس ایچ او کورنگی اوردیگرکوفریق بناتے ہوئے کہاکہ اس کا خاوند سیدشاہ اعجاز قادری سرکاری ملازم ہے،6ستمبر 2013 کورینجرز71ونگ نے گھر پرچھاپہ مارااوراسے گرفتار کرکے لے گئے، بعدازاں رینجزرحکام سے رابطہ کیاگیاتو انھوں نے لاعلمی کا اظہار کیاجس سے درخواست گزار کی تشویش بڑھ گئی۔مدعاعلیہان کو ہدایت کی جائے کہ لاپتہ سیدشاہ اعجاز قادری کوعدالت میں پیش کریں۔ عدالت نے ابتدائی سماعت کے بعدمدعا علیہان کو 19 ستمبر کیلیے نوٹس جاری کردیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔