معاشرتی بگاڑ میں خوشامد کا کردار

محمد اطیب اسلم  بدھ 10 جولائی 2019
کچھ لوگوں نے ’خوشامد‘ کے فن کو جِلا بخشتے ہوئے اسے ایک بزنس کا درجہ دے دیا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کچھ لوگوں نے ’خوشامد‘ کے فن کو جِلا بخشتے ہوئے اسے ایک بزنس کا درجہ دے دیا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پرانے وقتوں میں بادشاہوں نے اپنے درباروں میں خوشامدی رکھے ہوتے تھے، جن کا کام صرف اور صرف بادشاہوں کی تعریف کرنا اور ان کی شان میں قصیدے، غزلیں اور نظمیں کہنا ہوتا تھا۔ اپنی چرب زبانی سے بادشاہ سلامت کے دل و دماغ کو قابو کرنا اور ان کے فیصلوں پر حاوی ہونا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا تھا۔

آج کل بادشاہوں کا دور تو نہیں رہا لیکن کیونکہ بڑھتی ہوئی انا اور تکبر کی فضا کی وجہ سے ہر شخص اپنے آپ کو بادشاہ سمجھنے لگا ہے، چنانچہ ایسے لوگوں کی شاہانہ فطرت کی تسکین کےلیے معاشرے میں بہت سے خوشامدی بھی پیدا ہوگئے ہیں۔ جن میں سے بیشتر نے ’خوشامد‘ کے فن کو جِلا بخشتے ہوئے اسے ایک بزنس کا درجہ دے دیا ہے۔ چنانچہ اب ’فنِ خوشامد‘ ایک نئے بزنس کے طور پر ابھر رہا ہے اور آپ کو تقریباً ہر گلی محلے میں ایک آدھ خوشامدی ضرور نظر آئے گا اور کچھ بعید نہیں کہ چند برسوں بعد اس فن کو باقاعدہ تربیتی اور عملی کورس کے طور پر اداروں میں شروع کروا دیا جائے۔

ان خوشامدیوں کا کام بڑا دلچسپ ہوتا ہے۔ یہ شروع دن سے ہی کسی بڑے افسر کو تاڑ لیتے ہیں اور پھر شہد کی مکھیوں کی طرح ان کے آس پاس بھنبھنانے لگتے ہیں اور صاحب کےلیے اپنی ہر ممکن ہمدردی ثابت کرنے کی پوری کوشش کر ڈالتے ہیں، حتیٰ کہ اگر انہیں پتہ چل جائے کہ ابھی کل ہی صاحب کے گال پر مچھر کاٹنے سے نشان پڑگیا ہے تو اسی بات پر رو رو کر خود کو ہلکان کرلیں گے کہ ہمارے ہوتے ہوئے یہ نامراد مچھر آپ تک پہنچ گیا، سرکار تف ہے ہم پر۔ اور عموماً ڈرامے میں جان ڈالنے کےلیے ایک آدھ گالی خود کو اور اپنے آباؤاجداد کو بھی دے ڈالتے ہیں۔ اس کا فائدہ ان خوشامدیوں کو سستی شہرت کی صورت میں ہوتا ہے۔ ہم آپ جیسے بھولے لوگ سمجھتے ہیں کہ صاحب کے نزدیک ہونے کی وجہ سے یہ کوئی بہت اہم شخصیت ہیں اور ان کے ساتھ تعلق بگاڑنا نہیں چاہیے، ورنہ بڑے صاحب سے بگڑ جائے گی۔ نتیجتاً یہ لوگ معاشرے میں من مانیاں، بدمعاشیاں اور غنڈہ گردی کرتے ہیں اور معاشرتی بگاڑکا باعث بنتے ہیں۔

اگر کوئی صاحبِ ہمت ان لوگوں کی زیادتیوں کے خلاف ڈٹ بھی جائے تو عموماً یہ کچھ اس طرح سے دھمکیاں دیتے ملیں گے کہ ’’ہمارا تعلق بہت ہے‘‘ یا ’’فلاں ممبر قومی اسمبلی تو میری پھپھو کے بیٹے کے دوست کا سسر ہے‘‘۔ اس کے علاوہ بالفرض اگر کبھی بڑے صاحب تک ان کی کرتوتوں کی بھنک پہنچ جائے تو خوشامد کا اسٹیج پلے پہلے ہی تیار ہوتا ہے بلکہ اکثر خوشامدی تو اپنے پرانے احسانات یاد کروانے سے بھی نہیں چوکتے، جیسے کہ ’’صاحب یاد کریں جب آپ کے جوتے میں کیل لگا تھا تو سب سے زیادہ کون فکرمند ہوا تھا‘‘ یا جذباتی انداز میں یوں کہیں گے کہ ’’صاحب ہم غریبوں کو کہاں حق ہے کہ آپ سے خدمت کا صلہ مانگیں‘‘۔ اتنی دیر میں صاحب پگھل جاتے ہیں اور ڈرامہ اپنے کلائیمیکس کو پہنچ جاتا ہے۔

اس سلسلے میں ایک مثال پیشِ خدمت ہے جو کہ راقم کا کانوں سنا اور آنکھوں دیکھا حال ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ کچھ عرصہ قبل ایک دوست کے گائوں جانا ہوا۔ جونہی ان کی گلی میں داخل ہوا، کیا دیکھتا ہوں کہ کم و بیش 60 فٹ چوڑی گلی ہونے کے باوجود موٹر سائیکل گزارنے کو جگہ نہیں۔ پہلے تو مغالطہ ہوا کہ کسی کے ڈیرے پر آگیا ہوں، جو کہ گائوں وغیرہ میں عام ہوتے ہیں کہ 10 سے 12 بھینسیں گلی میں بندھی ہیں، صفائی کہیں نام کو نہیں، دو عدد موٹر سائیکل بھی درمیان میں ٹیڑھے میڑھے سے کھڑے ہیں، بھینسوں کے سامنے مخالف سمت میں ایک چارپائی بچھی ہے، جس پر ایک عدد موٹی توند اور چھوٹی لیکن گہری سرخ آنکھوں والے صاحب بڑی شان سے براجمان ہیں، اردگرد چند لفنگوں کا حلقہ ہے۔ ہلڑ بازی کی وجہ سے لفنگا پن غالب تھا۔ خیر کسی طرح دوست تک پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ ’گندگی پسند‘ صاحب علاقے کے نامی گرامی بدمعاش ہیں جو ’شاکر پٹھان‘ کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں اور ان کے گاؤں کے نمبردار چوہدری طارق کے ساتھ ’’ڈائریکٹ‘‘ تعلقات ہیں۔ چنانچہ اگر ان کے اس ناجائز قبضے کے خلاف کوئی ’صفائی پسند‘ کسی قسم کی درخواست اعلیٰ افسران تک پہنچانا چاہے تو یہ صاحب فوراً نمبردار کے ڈیرے پر ناک رگڑنے پہنچ جاتے ہیں اور نتیجتاً اس ادائے دلربا کے نتیجے میں نمبردار صاحب اپنے وسیع تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے کارروائی رکوا دیتے ہیں۔ رہی بات گاؤں کے دیگر لوگوں کی، تو ’بھئی ہم کیوں نمبردار سے لڑائی لیں، آخر کل کلاں کوئی کام پڑسکتا ہے‘۔

راقم کے نزدیک معاشرے کے وسیع تر مفاد میں خوشامدی ٹولے سے نجات اسی صورت ممکن ہے کہ آپس میں اتفاق اور اتحاد کی فضا قائم ہو اور حق کا ساتھ دینے کا حوصلہ ہو۔ عموماً لوگ سچے لوگوں کا ساتھ صرف کسی بڑے ظالم کے ڈر سے نہیں دیتے، جو کہ ہمارے ایمان کی کمزوری کی نشانی ہے۔ ہمیں نبی کریمؐ کا وہ فرمان یاد رکھنا چاہیے کہ ’’تم سے پہلی قومیں اسی وجہ سے برباد ہوئیں کہ اپنے چھوٹوں کو سزا دیتے تھے اور بڑوں کو چھوڑ دیتے تھے‘‘۔ جب تک ہم اجتماعی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے نہیں لیں گے، ہم نفاق کا شکار رہیں گے اور ہمارا معاشرہ ایسے ہی خوشامد پسندوں، بدمعاشوں اور شاکر پٹھانوں سے بھرتا چلا جائے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد اطیب اسلم

محمد اطیب اسلم

بلاگر انفارمیشن ٹیکنالوجی میں گریجویٹ ہیں۔ ملکی و سماجی مسائل پر لکھنے کا شوق رکھتے ہیں۔ آج کل تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں جبکہ اردو ادب سے خصوصی لگاؤ رکھتے ہیں۔ رابطے کےلیے ان کی فیس بک آئی ڈی teeeb01 جبکہ ٹوئٹر آئی ڈی @foolishlearner ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔