جسم میں دوا کی ترسیل کیلیے ننھا ’’جیلی فِش‘‘ روبوٹ

ویب ڈیسک  بدھ 10 جولائی 2019
اس تصویر میں جیلی فش روبوٹ کو پانچ مختلف انداز میں تیرتےہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ فوٹو: بشکریہ میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ

اس تصویر میں جیلی فش روبوٹ کو پانچ مختلف انداز میں تیرتےہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ فوٹو: بشکریہ میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ

لائپزگ، جرمنی: سائنسداں آئے دن جانوروں سے متاثر ہوکر بایوروبوٹس بناتے رہتے ہیں اور اب جرمنی کے ماہرین نے ایک چھوٹا جیلی فش روبوٹ بنایا ہے جو اشیا کو لے جاسکتا ہے، مائعات کو ملانے اور خود کو دفنانے کا کام بھی کرتا ہے۔

کسی تار کے بغیر کام کرنے والا ’جیلی فِش‘ روبوٹ صرف پانچ ملی میٹر جسامت رکھتا ہے۔ اسے دیکھ کر ہم خود جیلی فش کے بچوں کی بدلتے ہوئے حالات میں بقا کی صلاحیت کے بارے میں بھی جان سکیں گے۔

میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ڈاکٹر میٹن سِٹی اور ان کی ٹیم نے یہ روبوٹ ایک عام جیلی فش کے بچوں سے متاثر ہوکر بنایا ہے۔ اتنا ننھا منا ہونے اوراپنی سادہ ساخت کے باوجود یہ بہت سے کام کرسکتا ہے۔ یہ مائعات کے بہاؤ کو کنٹرول کرتے ہوئے پیچیدہ عمل انجام دیتا ہے۔

جیلی فِش سمندروں میں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ماہرین چاہتے ہیں کہ وہ روبوٹ کے ذریعے سمندروں کی بدلتی ہوئی کیفیات ، آلودگی، درجہ حرارت اور دیگر کیفیات میں اس مخلوق کا برتاؤ اور اسے جھیلنے کی صلاحیت کو سمجھ سکیں۔

روبوٹ جیلی فِش کو کنٹرول کرنے اور چلانے کے لیے اس پر مقناطیسی ذرات لگائے گئے ہیں جو بیرونی مقناطیسی میدان کے زیرِ اثر تھرتھراتے ہیں ۔ پھر مچھلی تیرتی ہے، چھوٹے موتی جیسی اشیا ساتھ لے جاتی ہے، کھانا پکڑتی ہے، دشمن سے بچنے کے لیے سمندری مٹی میں چھپ جاتی ہے اور کئی مائعات کو باہم ملاتی ہے۔

اس کی تفصیلات نیچر کمیونکیشن میں شائع ہوئی ہیں۔ اگلے مرحلے پر اسے انسانی جسم میں داخل ہونے کے قابل بنایا جائے گا جہاں یہ دوائیں پہنچانے اور شفا دینے کا کام بھی کرسکے گی۔ لیکن اب بھی یہ منزل قدرے دور ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔