’’5 جولائی1977 ‘‘ کے پاکستانی سیاست پر اثرات

علی احمد ڈھلوں  بدھ 10 جولائی 2019
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

گزشتہ دنوں ’’5جولائی‘‘ گزرا، ہر جمہوریت پسند سیاسی رہنما اس دن جنرل ضیاء الحق کے ’’شب خون‘‘ مارنے کو یاد کرتا اور ماتم کناں نظر آیا۔ میں نے اُن سیاستدانوں کو بھی اس دن کی مناسبت سے ٹی وی اسکرینوں کے سامنے گڑگڑاتے دیکھا جن پر کرپشن کے الزامات ہیں۔

وہ  یقینا افسوسناک دن تھا جب منتخب حکومت پر شب خون ماراگیا جو 90 روز کے بجائے گیارہ برس چلا اور وقفے وقفے سے اُس کا سلسلہ جاری رہا۔ وہ شب خون اپنی بے شمار سفاکیوں کے ساتھ دل و دماغ سے محو ہونے کو نہیں آتا ۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ اُس کی زیادہ تر مہلک علامات قومی تاریخ کے رگ و پے میں جذب ہو کر رہ گئی ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے اس 11سالہ دور میں اُن سیاستدانوں کی بھی انٹری ہوئی جنھوں  نے پاکستان میں کرپشن کی ’بنیاد‘ رکھی۔ اس سے پہلے کرپشن کے حوالے سے الزامات تو لگتے تھے مگر وہ خالص سیاسی ہوا کرتے تھے۔ اُن کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوا کرتا تھا۔ بھٹو صاحب آخری وقت تک مالی طور پر ایک بے داغ، مقتدر، مقبول اور ذہین وزیراعظم رہے۔

اُس وقت سیاستدانوں کے اختلافات محض نظریاتی ہوا کرتے تھے یا کہیں کہیں مذہبی اختلافات سامنے آیا کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سیاست میں بھی ایک رومانس ہوتا تھا۔ حسن ناصر کی شاہی قلعے میں پراسرار ہلاکت ہو یا ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی! لیڈر تو ایک طرف، عام کارکن بھی نظریات کی خاطر نعرے لگاتے تختہ دار پر چڑھ گئے۔

یہاں منصور بھی ملے گا اور سقراط بھی!یہاں شیخ مجیب الرحمن بھی ملے گا اور ولی خان، باچا خان، خیر بخش مری، جی ایم سید ، اجمل خٹک، ارباب سکندر خلیل، مولانا مفتی محمود، مولانا عبدالستار خان نیازی، میر غوث بخش بزنجو ،محمود خان اچکزئی، میاں محمود علی قصوری، ممتاز محمد خان دولتانہ، ملک غلام جیلانی، بیگم افتخار الدین، محمد حسین چٹھہ، نوابزادہ نصراللہ خان، عبدالحمید جتوئی، رسول بخش تالپور، محمود الحق عثمانی، مولانا شاہ احمد نورانی، حسن اے شیخ ایڈووکٹ، چوہدری محمد علی، خواجہ ناظم الدین، حسین شہید سہروردی جیسے لوگ بھی۔ جن کے آپسی نظریاتی اختلافات ہوا کرتے تھے۔

جن کے گھروں میں بھی اگر سیاسی مخالفین پولیس گردی کرتے تھے تو سیاسی کتابیں، پمفلٹ، پرنٹنگ مٹیریل ضبط کرلیاجاتے تھے۔ اب چھاپہ پڑتا ہے تو پاکستانی اور بیرونی کرنسی کروڑوں میں گھروں سے برآمد ہوتی ہے۔ پہلے مقدمات نظریہ پاکستان اور قومی مفاد کے خلاف کام کرنے جیسے الزامات پر بنائے جاتے تھے، اب اثاثے چھپانے، بیرون ملک جائیداد ، دہری شہریت، شوگر ملز یا اسٹیل مل لگانے پر بنائے جاتے ہیں۔ پہلے وفاداری تبدیل کرنا کم ازکم برا ضرور سمجھا جاتا تھا، اب ضرورت سمجھا جاتا ہے۔آج شاید ہی ریاست کا کوئی ستون یہ کہہ سکے کہ وہ کرپشن سے مکمل پاک ہے ۔

ایسا کیوں ہے؟ کیا 1977کے بعد ضیاء الحق نے وہ تمام سیاستدان عملی طور پر ختم کردیے تھے جنھیں اقتدار کے بجائے اپنی اور ملک کی عزت پیاری ہوتی تھی؟ یا اُن نظریاتی سیاستدانوں کے مقابلے میں کاروباری لوگ سیاست میں دھکیل دیے تاکہ وہ اقتدار کو  دولت مند بننے کے لیے استعمال کریں۔ ملک کے گورنر جنرل غلام محمد تو تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں کو یاد ہوں گے! بہت سوں کو اُن سے لاکھ اختلافات ہوں گے مگر وہ ایمانداری میں اس قدر آگے تھے کہ کھانے اور مشروبات کے تمام اخراجات  اپنی ذاتی جیب سے ادا کرتے تھے البتہ کراکری گورنر جنرل ہاؤس کی ملکیت تھی جس کی پشت پر سبز رنگ کا اسٹیکر لگا ہوتا تھا جس پر ’’حکومت پاکستان‘‘ درج ہوتا تھا۔

گورنر جنرل ہاؤس میں سرکاری تقریبات کے دوران آرمی کے باورچی اور بیرے منگوائے جاتے تھے جو تقریب کے بعد واپس یونٹوں میں چلے جاتے تھے۔ غلام محمد جب زیادہ بیمار ہوئے تو ان کی خوراک ’’سوپ‘‘ تک محدود ہو کر رہ گئی ،گورنر جنرل کوسوپ پلانے کی ذمے داری ان کی سوئس سیکریٹری مس روتھ بورل کی تھی۔ کسی دوسرے رکن مملکت یا گورنر جنرل ہاؤس کے ملازم کو کچن سے کوئی چیز حاصل کرنے کی سختی سے ممانعت تھی، جس پر باورچی سختی سے کاربند رہتا تھا لیکن اس کے باوجود ماہ کے آخر میں جب غلام محمد بلوں کی پڑتال کرتے تو باورچی کو بلا کر ضرور ڈانٹتے تھے۔

اس دوران ان کا موقف عموماً یہ ہوتا تھا کہ چار افراد کا جن میں ایک تقریباً معذور، دوسرا بوڑھا (مس بورل کی والدہ) ایک اسمارٹ خاتون جو پیٹ بھر کر کھانے کی عادی نہیں اور ایک سوکھے سڑے باورچی کے کھانے کا بل اتنا زیادہ کیسے آ سکتا ہے؟ اس کا مطلب ہے تم، وہ باورچی کو مخاطب کرتے، ہاں تم اپنی سرکاری ذمے داریاں پوری نہیں کر رہے اور دوسرے لوگ کچن میں گھس کر ’’گورنر جنرل آف پاکستان‘‘ کے کھانے کی اشیاء چوری کرتے رہتے ہیں۔ اس دوران باورچی لاکھ صفائیاں پیش کرتا لیکن غلام محمد فریق مخالف کی بات سننے کے قائل نہیں تھے۔ چنانچہ یوں ایک آدھ گھنٹے کی یہ یک طرفہ ڈانٹ اس حکم پر ختم ہوتی کہ باورچی آیندہ مزید احتیاط سے کام لے گا۔ جب غلام محمد گورنری کے عہدہ سے فارغ ہوئے تو اُن کے رہنے کے لیے اپنا گھر بھی نہیں تھا، وہیل چیئر ہی اُن کی واحد ملکیت تھی۔ کسی کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ انھیں کہاں چھوڑا جائے لہٰذاپھر اُن کی بیٹی کے ہاں انھیں چھوڑا گیا۔

آپ لیاقت علی خان ، محترمہ فاطمہ جناح، بھٹو ،باچا خان ، ولی خان ، مبشر حسن، حفیظ پیرزادہ، بابائے سوشل ازم شیخ محمد رشید یا مفتی محمود جیسے سیاستدانوں سے لاکھ اختلاف کر لیں مگر نہ تو انھوں نے شوگر ملیں لگائیں، نہ کہیں اسٹیل مل، نہ کہیں منی لانڈرنگ کی اور نہ ہی ولایت بھاگے ، اس کے برعکس آج کے سیاستدانوں کو دیکھ لیں، کوئی ایک بھی آپ کو پاک دامن نظر نہیں آئے گا۔ ہر علاقے میں جہاں کوئی بڑی انڈسٹری نظر آئے گی پتہ چلے گا کہ یہ فلاں سیاستدان یا فلاں سیاسی خاندان کی ملکیت ہے، یہ کھرب پتی سیاستدان جب عوام پر حکومت کرتے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ وہ ان لوگوں کے بارے میں سوچتے ہوں جنھوں نے انھیں منتخب کیا ہوتا ہے۔ لہٰذااُس وقت کے اور آج کے سیاستدانوں میں زمین آسمان کا فرق ہے، اُس وقت کے سیاستدان باکردار ہوا کرتے تھے، کرپشن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔

کیا آپ نے نظریاتی سیاست کے دور میں کسی عدالت میں ملزم سے یہ سوال پوچھتے سنا یا پڑھا کہ تمہاری منی ٹریل کیا ہے، تم نے جعلی اکاؤنٹ کے ذریعے اربوں کی منی لانڈرنگ کی؟ اس وقت تو راولپنڈی سازش کیس ہو، نیپ  کے خلاف حیدرآباد ٹرائل ہو یا جام ساقی سازش کیس جیسے مقدمات کی نوعیت ہی مختلف ہوتی تھی۔ نظریاتی لڑائی میں سب سے اہم سوال یہ تھا کہ ملک کو جمہوری انداز میں آگے بڑھانا ہے کہ آمریت کے زیرسایہ!زبان اور شناخت اس ملک میں ہمیشہ سے اہم مسئلہ رہا ہے اور جب بھی کچھ لوگ یہ بات کرتے ہیں کہ تعلیم مادری زبان میں ہونی چاہیے خاص طور پر بنیادی تعلیم تو اس کو دوسرا رنگ دے دیا جاتا تھا۔اگر قیام پاکستان کے فوراً بعد ہمارے ملک سے بھی جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ کردیا جاتا، آئین معطل نہیں کیا جاتا اور جمہوریت کی بنیاد رکھ دی جاتی تو نہ کوئی سیاستدان آمریت کی پیداوار کہلاتا اور نہ ہی نظریہ ضرورت کے تحت کرپٹ معاشرے کی بنیاد رکھی جاتی۔

بہرکیف آج نظریاتی سیاست کو یکسر ختم کر دیا گیا ہے، جب جب سیاستدان نظریاتی طور پر کمزور ہوئے تو وہ جلد ہی بکنے کو بھی تیار ہوئے۔1977 کے بعد حکومت بنانے میں اور گرانے میںہمیں پیسہ بیدردی سے خرچ ہوتا نظر آیا۔ اصغر  خان کیس اس کی عملی شکل ہے۔بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں نے ان سالوں میں جو کچھ کیا، اس کا کوئی دفاع نہیں کیا جاسکتا ۔شاید ہی کسی رکن اسمبلی نے وفاداری تبدیل کرتے وقت اپنے پچھلے کردار پر معافی مانگی ہو، شرمندہ ہوا ہو۔

وہ زمانے گئے جب سیاست رومانس کی مانند تھی جس کی خاطر لوگ جان دینے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے، نظریات پر پھانسی چڑھ جاتے تھے، انھیں کوئی منی ٹریل نہیں دینا پڑتی تھی۔ ان کا اثاثہ ان کے نظریات ہوتے تھے، کتاب اور قلم ہوتے تھے مگر نظریاتی سیاست سے کرپشن تک کی کہانی سناتے وقت پورا سچ بولنا چاہیے۔ فیض یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ یہ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے اور جالب یہ کہتا ہوا رخصت ہوا کہ

ہے کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریباں کا جالب

چاروں جانب سناٹا ہے دیوانے یاد آتے ہیں

لہٰذا 1977سے پہلے کا دور وہ لوگ یاد کریں جن کا ماضی کا کردار اچھا رہا ہو، جن کاماضی داغدار نہ ہو، جن کا ماضی کرپشن سے لتھڑا نہ ہو۔ خواہ وہ حکومت میں ہے یا اپوزیشن میں لیکن ’’سیاسی نظریہ‘‘ ضرور ہونا چاہیے۔دامن صاف ہونا چاہیے، اگر آپ نے عوامی فلاح کے لیے عوام کا پیسہ خرچ کیا ہے تو سینہ تان کر کہہ سکیں کہ آؤ ثابت کر لو کہ کہاں کرپشن ہوئی ہے؟پس جس طرح بغیر نظریے کے سیاست میں کچھ نہیں، اسی طرح اقتدار بھی بغیر سوچ اور فکر کے کچھ نہیں۔ ہمیں باکردار سیاستدان بننا چاہیے تاکہ آنے والی نسلیں ہماری مثالیں دیں!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔