سیاسی کھیل کے مختلف پہلو ؟

مزمل سہروردی  بدھ 10 جولائی 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پاکستان کی سیاست دنیا سے کافی مختلف ہے۔ اس کی اقدار اور اصول دنیا کے مہذب ممالک کی سیاست سے الگ ہیں۔ اسی لیے پاکستان کی سیاست کو سیاست کے مروجہ اصولوں کے تناظر میںدیکھا جا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی رائے دی جا سکتی ہے۔ پاکستان کی سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہے۔ کھیل کا کو ئی فائنل راؤنڈ نہیں ہے۔ کہیں بھی کسی چیز کا کوئی اختتام نہیں ہے۔ اس تناظر میں آج کے سیاسی منظر نامہ کو دیکھا جائے تو کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

کیا سیاست میں کوئی فائنل راؤنڈ شروع ہو گیا ہے؟ کیا دونوں طرف کی صف بندی کسی فائنل راؤنڈ کی نشاندہی کر رہی ہے؟ کون کھیل رہا ہے،کون کس کے ساتھ ہے اور کون کس کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی خلاف کھیل رہا ہے؟ کیا نواز شریف کیمپ کسی فائنل راؤنڈ کی لڑائی لڑ رہا ہے۔ کیوں جیل میں کھانا بند کرنے، ملاقاتیں بند کرنے جیسے  اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ پہلے یہ سب رعایتیں کیا کسی مفاہمت کے تحت دی گئی تھیں اور اب وہ مفاہمت ختم ہو گئی ہے، اس لیے جیل کی مراعات بھی ختم کی جا رہی ہیں۔

کیا لڑائی میں جیل کی مراعات کی اتنی کلیدی حیثیت ہے کہ سارے کھیل کا دارومدار انھی پر ہے۔ کیا جیل مراعات کی بنیاد پر نواز شریف کے ساتھ کوئی مفاہمت ہو سکتی ہے؟ کس کا خیال ہے کہ جیل مراعات کھیل کے نتائج کو بدلنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ تاثر اور حقیقت کے کھیل میں جیل مراعات کی بندش دراصل تاثر پیدا کرنے کی کوشش ہیں کہ معاملات خراب ہو گئے ہیں جب کہ حقیقت مختلف ہے۔

لوگ حیران ہیں کہ ایک طرف چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد آرہی ہے، دوسری طرف اتنی خاموشی کیوں ہے۔ کیوں حکومت کے ایوانوں میں ہلچل نظر نہیں آرہی ۔ بجٹ پاس کرانے کے لیے وزیر اعظم روز ناراض ارکان کو منانے کے لیے بیٹھے ہوئے تھے۔ ن لیگ بھی خاموش ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ انھیں بھی کوئی یقین نہیں ہے۔ وہ اگلے چیئرمین سینیٹ کے نام کا اعلان بھی نہیں کر رہے ۔ یا وہ انتظار کر رہے ہیں کہ پہلے عدم اعتماد تو کامیاب ہو جائے پھر اعلان کریں گے۔ عدم اعتماد سے پہلے نام کا اعلان مذاق بھی بن سکتا ہے۔ بظاہر سنجرانی کے جانے میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آرہی ہے لیکن ان کے جانے کا ماحول بھی نظر نہیں آرہا۔

پتہ نہیں ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ حکومت کی پشت پر موجود طاقتیں اب موجود نہیں ہیں۔ پتہ نہیں کیوں لگ رہا ہے کہ حکومت کو اپنی مدد آپ کے اصول کے تحت تنہا چھوڑ دیا گیا ہے البتہ بجٹ پاس کرانے میں مدد کی گئی ہے لیکن وہ  بھی محدود تھی۔ ایسی نہیں تھی کہ دل واہ واہ کر اٹھے۔ بجٹ پاس ہوا ہے۔ لیکن عمران خان کو ناک کی لکیریں نکالنا پڑی ہیں۔ ایک اتحادی نے اپنی قیمت وصول کی ہے۔ ورنہ پہلے  ایسا ماحول نہیں تھا۔ اس لیے مجھے اقتدار کے ایوانوں میں سب اچھا نہیں لگ رہا۔میں اب بھی نہیں مان رہا کہ ویڈیوز کسی اسکرپٹ کا حصہ نہیں ہیں۔ مجھے مریم نواز کی دلیری بے وجہ نہیں لگ رہی۔ ان کے پاس بھی کوئی اسکرپٹ ہے۔ ورنہ یہ وہی مریم نواز ہیں جو آٹھ ماہ تک ٹوئٹر سے بھی غائب تھیں۔ جو بس اﷲ اﷲ کر رہی تھیں۔آج یہ دلیری بے وجہ نہیں ہے۔

ایسا لگ رہا کہ کھیل میں دو الگ الگ فریق ہیں۔ حکومت کا چوبیس گھنٹے بعد ہی ویڈیو کے معاملے سے پیچھے ہٹ جانا بھی اعلان کر رہا ہے کہ حکومت کے ایوانوں میں بھی کچھ محسوس کیا جانے لگا۔ اس معاملے پر زیادہ دیر خاموشی بھی نہیں رکھی جا سکتی۔ یہ معاملہ سادہ نہیں ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ مبینہ ویڈیو عمران خان کے لیے کسی پاناما سے کم نہیں ہے۔ جس طرح پاناما نواز شریف کے گلے کی ہڈی بن گیا تھا۔ اسی طرح یہ مبینہ ویڈیو عمران خان کے گلے کی ہڈی بھی بن سکتا ہے۔ ویڈیو کے پیچھے اگر کوئی اسکرپٹ ہے تو زرداری ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ حکومت جا رہی ہے، سنجرانی جا رہے ہیں۔متحدہ اپوزیشن اسلام آباد کے لاک ڈاؤن کی تاریخ بھی دے گی۔

لیکن دوستوں کی رائے ہے کہ سب میرا وہم ہے۔ سب خواب ہے۔ مجھے وہم ہو گیا ہے۔ سب ٹھیک چل رہا ہے۔ کوئی اسکرپٹ نہیں ہے۔ مریم بی بی کے پاس کچھ نہیں ہے۔ وہ ماضی کی طرح اندھیروں میں تیر چلا رہی ہیں۔ سب تدبیریں فیل ہو جائیں گی۔ مبینہ ویڈیو کا ڈرامہ بھی فلاپ ہو جائے گا۔ بلکہ الٹا گلے کی ہڈی بن جائے گا۔ عدلیہ اس چکر میں مریم کو ایسا پھنسا لے گی کہ بچنا مشکل ہو جائے گا۔ ایسا کھیل کھیلنے والوں کو عبرت کا نشانہ بنانا ہوگا ۔ ورنہ ریاست کے ستون گر جائیں گے، اس لیے مریم ایک اور سیاسی خود کشی کرنے جا رہی ہیں۔ وہ frustrateہو گئی ہیں۔ ضمانتوں کی منسوخی نے انھیں ایک مرتبہ پھر جذباتی کر دیا ہے۔

آپ دیکھیں شہباز شریف مکمل خاموش ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اس طرح کچھ نہیں ہوگا۔ بلکہ مسائل بڑھیں گے۔ شاید وہ اپنے بھائی کو سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ا س لیے اس کھیل کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ مریم کا ایڈونچر ہے۔ وہ اس میں رکاوٹ نہیں بن رہے۔ لیکن اس کا حصہ بھی نہیں ہیں۔ان کی خاموشی ساری کہانی بیان کر رہی ہے۔ وہ تو ن لیگ کی کسی تقریب میں بھی نہیں جا رہے۔

لیکن یہ کوئی پہلی ویڈیو آئی ہے؟ پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے ۔ اس لیے خطرے کی کوئی بات نہیں۔ مریم کا یہ اعلان کہ میرے پاس مزید ٹیپس بھی موجود ہیں، یہ اعلان اس کھیل میں ایک ترپ کی چال ہے۔ جس میں حکومت کو پھنسایا جا رہا ہے ۔ اس لیے اس میں کوئی جارحا نہ قدم نہیں اٹھایا جاسکتا ہے۔ آپ بھی پیچھے ہٹ جائیں۔ عدلیہ کو دیکھنے دیں۔ اس کھیل میں ہی شریف فیملی کو وہ مل جائے گا جس کی انھیں تلاش ہے۔

عمران خان الگ نظر آرہے ہیں۔ جیسے منڈی بہاؤالدین کا جلسہ روکا گیا۔ ایسا حکومتیں تب کرتی ہیں جب کمزور ہو رہی ہوتی ہیں۔ بے وجہ طاقت دکھانے کی کوشش کر تی ہیں۔ جیل کی مراعات بھی تب بند کی جاتی ہیں جب کوئی اور حل نہ رہ جائے۔ یہ بھی طاقت کا نہیں کمزوری کا اعلا ن ہے۔ بہر حال تصویر کے دونوں رخ سامنے ہیں۔ سینیٹ میں عدم اعتماد کی تحریک فیصلہ کرے گی کہ کھیل نے کس طرف جانا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔