جسٹس مری یاد آئے

زاہدہ حنا  بدھ 10 جولائی 2019
zahedahina@gmail.com

[email protected]

صوبائی حکومتوں کی تشکیل کا سوال ہو، سینیٹ کے چیئرمین، لاپتہ افراد یا اس صوبے سے تعلق رکھنے والے ایک معزز جج کا معاملہ ہو، بلوچستان ہمیشہ خبروں میں نمایاں رہتا ہے۔ یہ سب ایسے معاملات ہیں جن کا براہ راست یا بالواسطہ تعلق کسی نہ کسی طور آئین کی حکمرانی اور قانون کی بالادستی سے ہے۔

اس حوالے سے مجھے مرحوم جسٹس خدا بخش مری ان دنوں بہت یاد آ رہے ہیں۔ ماضی میں ان کے حوالے سے لکھتے ہوئے میں نے جن مسائل اور خیالات کا اظہار کیا  تھا، ان میں آپ کو بھی شریک کرنا چاہوں گی کیونکہ پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر آج بھی ان کی گہری چھاپ صاف نظر آتی ہے۔ جسٹس مری ایک ایسے باضمیر اور بے باک قانون داں اور دانشور تھے تاہم یہ بھی ایک المناک حقیقت ہے کہ پاکستان میں ان کی قدر نہیں کی گئی۔

مرحوم جسٹس صاحب کا کہنا تھا کہ پاکستان ، قانون آزادی ہند مجریہ 1947کے تحت 14 اگست 1947 کو معرض وجود میں آیا۔ قانون آزادی ہند کے تحت حکومت پاکستان اس وقت تک گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ مجریہ 1935 کی دفعات کے تحت کام کرتی رہی تا آنکہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے ملک کا آئین تیارکر لیا۔ اس وقت تک قانون سازی کا سارا کام وفاقی اسمبلی کو کرنا تھا اور ملک کا سربراہ گورنر جنرل کہلاتا تھا۔ سات سال کی تاخیر اور طویل بحث مباحثہ کے بعد بالآخر دستور ساز اسمبلی نے دستوری تجاویز تیار کر لیں اور ان کی منظوری دی۔

گورنر جنرل ملک غلام محمد آئین کے نفاذ اور اس کے تحت ہونے والے عام انتخابات سے خوفزدہ تھے کیونکہ انتخابات میں شکست انھیں صاف نظر آرہی تھی۔ چنانچہ انھوں نے بعض سیاست دانوں اور بیوروکریسی کے ساتھ سازش اور گٹھ جوڑ کے بعد 24 اکتوبر 1954 کو دستور ساز اسمبلی توڑ دی اور اس کے لیے یہ بہانہ بنایا کہ ’’اسمبلی اپنا نمایندہ کردار کھوچکی ہے‘‘ اس طرح ملک غلام محمد نے ملک کے پہلے آئین کو ، قانون کا درجہ حاصل ہونے سے قبل ہی، موت کے گھاٹ اتار دیا۔ سدا بہار مفاد پرست خوشامدیوں، جن میں تاجر اور سیاستدان بھی شامل تھے، کے ایک گروہ نے گورنر جنرل کو دستور ساز اسمبلی کو توڑنے پر ’’محافظ ملت‘‘ کا خطاب تک دے دیا۔

مرحوم جسٹس صاحب نے بیان کیا ہے کہ پاکستان میں آئین سازی پر یہ پہلا مہلک وار تھا۔ چند ایک سیاستدانوں کے سوا، عدلیہ، فوج یا سول انتظامیہ میں سے کسی نے بھی اس اقدام کے عواقب و نتائج پر کچھ زیادہ غور و فکر کی ضرورت محسوس نہ کی۔ چنانچہ دستور ساز اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیزالدین کے لیے عدالت سے رجوع کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہا اور انھوں نے سندھ چیف کورٹ میں گورنر جنرل کے اس حکم کو چیلنج کر دیا جس کے تحت دستور ساز اسمبلی کو ختم کیا گیا تھا۔ عدالت نے 9 اکتوبر 1955 کو فیصلہ سنایا کہ دستور ساز اسمبلی ، جب دستور سازی کر رہی ہو تو اس کے منظور شدہ قوانین کو گورنر جنرل کی توثیق کی ضرورت نہیں ہوتی۔

وفاقی حکومت نے وفاقی عدالت میں اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دی۔ اس مقدمے میں وفاقی عدالت نے جو فیصلہ دیا اس سے گویا ’’پنڈورا بکس‘‘ کھل گیا اور پھر یکے بعد دیگر مارشل لا آئے اور ملک پر فوج کی حکومت قائم ہوتی رہی۔ مرحوم جسٹس خدا بخش نے اپنی کتاب میں جو سوالات اٹھائے ہیں، ان کا آج تک جواب ممکن نہ ہو سکا۔ انھوں نے اکبر خان بہ نام حکومت اور یوسف پٹیل بہ نام حکومت کے مقدمات کا معاملہ اٹھایا ہے۔

انھوں نے گورنر جنرل غلام محمد کے دائرکیے ہوئے اسپیشل ریفرنس نمبر ایک، 1955 سے بحث کی ہے اور جس میں یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ گورنر جنرل نے دستور ساز اسمبلی توڑ کر درست اقدام کیا ہے یا نہیں۔ عدالت نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ان خصوصی حالات میں، جن کا ذکر ریفرنس میںکیا گیا ہے، گورنر جنرل کو اسمبلی توڑنے کا اختیار حاصل ہے اور عبوری عرصہ کے دوران بھی اسے (گورنر جنرل) ایسا اختیار حاصل ہے کہ وہ دستور ساز اسمبلی کو توڑ سکے اور یہ کہ گورنرکو، عبوری عرصہ کے دوران ’’عام سول قانون یا مملکتی نظریہ ضرورت‘‘ کے تحت یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ ان قوانین کو موثر بہ ماضی منظوری دے سکے۔

چیف جسٹس خدا بخش مری نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس محمد منیر کے اس فیصلے پر بہت تفصیلی بحث کی ہے جس نے ملک کی قانونی اور آئینی تاریخ میں وہ نظیر قائم کی جو بعد میں آنے والے ہر طالع آزما کے حق میں پیش کی گئی اور جسے بدقسمتی سے ملک میں اکثر و بیشتر روبہ عمل لایا گیا چنانچہ کامیاب ’’انقلاب‘‘ اقتدار پر قبضے اور آئین میں تبدیلی کا مسلمہ طریقہ طے پایا اور ایسا کرنے والوں کے لیے کوئی سزا کوئی مکافات عمل بھی نہیں۔

ایک مغربی مصنف مسٹر ہربرٹ فیلڈ مین نے ڈوسوکیس کے فیصلہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’یہ بات بھی، البتہ، بعید ازقیاس ہے کہ اگر سپریم کورٹ فرد واحد کی طرح بھی احتجاج اور مخالفت میں اٹھ کھڑی ہوتی تو اس سے ان تبدیلیوں پر جو وقوع پذیر ہوچکی تھیں،معمولی سا بھی اثر ہوتا۔‘‘

مرحوم جسٹس مری نے فیلڈمین کی اس بات سے اتفاق کیا اور یہ لکھا کہ اگر سپریم کورٹ فرد واحد کی طرح احتجاج کے لیے اٹھ کھڑی ہوتی اور اس کی مخالفت کرتی تو بھی عملاً صورت حال پرکوئی اثر نہ پڑتا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر سپریم کورٹ گورنر جنرل کے من مانے حکم کے خلاف فیصلہ دیتی تو اخلاقی اور آئینی سطح پر اس کے زبردست اثرات رونما ہوتے۔ اس سے رائے عامہ بیدار ہوتی اور عوام کی نظروں میں عدلیہ کا وقار بڑھ جاتا ممکن ہے ایسا کرنے میںجج حضرات کو بعض خطرات کا سامنا کرنا پڑتا۔ بہت سے ممالک کی قانونی تاریخ ایسی مثالوں سے خالی نہیں۔ امام ابو حنفیہؒ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بادشاہ نے ان کو بغداد کا قاضی القصناۃ مقررکرنے کی پیشکش کی مگر امام صاحب نے یہ پیشکش مسترد کردی۔

سلطان نے حکم دیا کہ امام کو اس وقت تک تازیانے لگائے جائیں جب تک وہ بغداد کا قاضی القصناۃ کا عہدہ قبول نہ کرلیں۔ امام نے تشدد برداشت کیا مگر سلطان کی پیشکش قبول نہ کی کیونکہ امام ابوحنیفہؒ کی یہ سوچی سمجھی رائے تھی کہ ملک جن سیاسی و معاشرتی حالات سے گذر رہا تھا ان حالات میں وہ شریعت کے مطابق عدل نہیںکرسکتے تھے۔ صد افسوس کہ ہمارے ہاں پاکستان میں صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔

جسٹس صاحب نے انگلستان کے چانسلر سرتھامس مور(چیف جسٹس) کی مثال بھی دی ہے ۔ سرتھامس مورکی گہری دوستی شاہ ہنری ہشتم سے تھی۔ شاہ نے انھیں ملک کے اعلیٰ ترین عدالتی منصب پر فائزکیا تھا یہ 1535ء کا ذکر ہے کہ سرتھامس مور نے ملکہ این کی رسم تاجپوشی میں شرکت سے انکارکردیا کیونکہ وہ ملکہ کو اخلاقی اعتبار سے درست نہیں سمجھتے تھے۔ انھوں نے ’’شاہی خاندان کی بالادستی‘‘ کا حلف اٹھانے سے بھی معذوری ظاہرکردی حالانکہ انگلستان کے چرچ یعنی مذہبی رہنماؤں نے اس شاہی حکم کو تسلیم کرلیا تھا اور بجائے پاپائے اعظم کے شاہی خاندان کی بالادستی کا حلف اٹھالیا تھا۔

سرتھامس مور شاہی حکم اور حلف اٹھانے سے انکارکے نتائج سے آگاہ تھے۔مرحوم جسٹس صاحب نے لکھا ہے کہ سر تھامس مور پر جب بغاوت کا الزام عائد کیا گیا تو انھوں نے اس جھوٹے اور بے بنیاد مقدمہ کا بھی بڑی ہی جرأت اور پامردی سے مقابلہ کیا۔ سر تھامس مور کے خلاف استغاثہ اس قدرکمزور اور ان کی صفائی اتنی مضبوط اور دو ٹوک تھی کہ مقدمہ میں ان کی بریت یقینی تصورکی جا رہی تھی یہاں تک کہ مقدمہ کی سماعت کے دوران ایک وکیل مسٹر رچ جو شاہی وکیل تھا، اپنی جگہ سے اٹھا اور گواہ کے کٹہرے میں جا کھڑا ہوا۔

اس نے جھوٹا حلف اٹھا کر بیان دیا کہ سرتھامس مور نے وہ الفاظ کہے تھے جن کی بنا پر ان پر بغاوت کا الزام صادق آتا ہے۔ سرتھامس مور نے پروقار انداز میں نہایت سکون کے ساتھ صرف اتنا کہا ’’مسٹر رچ، حقیقت تو یہ ہے کہ مجھے اپنی زندگی کو لاحق خطرات سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ آپ نے جھوٹی قسم کھائی ہے۔‘‘ سرتھامس مورکو موت کی سزا سنائی گئی۔ جب ان کا سر قلم کرنے کے لیے گلوٹین پر رکھا جانے لگا تو انھوں نے اپنا وہ تاریخی جملہ کہا جسے ان کی تمام باتوں سے زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔ سرتھامس مور نے کہا ’’ ٹھہرو، مجھے اپنی داڑھی سنوارنے دو کیونکہ میری داڑھی نے کوئی جرم نہیں کیا۔‘‘

جسٹس صاحب نے آج سے بہت پہلے یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا ہم نے اپنے اندر کوئی ابوحنیفہؒ ، کوئی تھامس مور یا ان لوگوں جیسا کوئی شخص پیدا کیا ہے جس نے حق و صداقت پر مبنی اصولوں کا بول بالا کیا ہو؟ جسٹس مری کو دنیا سے گئے برسوں گزر چکے ہیں لیکن ان کے سوال کا جواب آج بھی ہم سب پر قرض ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔