اپوزیشن اور حکومت میں محاذ آرائی سے عوامی مشکلات میں اضافہ

ارشاد انصاری  بدھ 10 جولائی 2019
ہڑتالوں واحتجاج کاسلسلہ شروع ہے جبکہ تیرہ جولائی سے آل پاکستان انجمن تاجراں نے ملک گیرشٹرڈاون ہڑتال کی کال دے رکھی ہے۔

ہڑتالوں واحتجاج کاسلسلہ شروع ہے جبکہ تیرہ جولائی سے آل پاکستان انجمن تاجراں نے ملک گیرشٹرڈاون ہڑتال کی کال دے رکھی ہے۔

 اسلام آباد:  پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار میں ایک سال ہونے کو ہے مگر سیاسی عدم استحکام تھمنے کی بجائے بڑھتا جا رہا ہے اور دونوں طرف سے بھرپور سیاسی کارڈ کھیلے جا رہے ہیں لیکن حکومت و اپوزیشن کی اس لڑائی میں ماری عوام جا رہی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام کی مشکلات کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھ رہی ہیں۔

جس آئی ایم ایف پروگرام کے باعث عوام کیلئے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے اس پروگرام کے شروع ہونے سے قبل ہی حکومتی ٹیم کے اپنے اہم کھلاڑی گورنر اسٹیٹ بینک نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور کہا کہ ایف اے ٹی ایف شرائط پوری کرنے کے لئے خصوصی ٹیم کام کر رہی ہے، ایف اے ٹی ایف کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام خطرے میں ہے، ایف اے ٹی ایف کے مطالبات پورے نہ ہوئے تو آئی ایم ایف پروگرام معطل ہو سکتا ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا  تو یہ اس سے بڑی تباہی ہوگی جو آئی ایم ایف کا پروگرام نہ ملنے سے ہونے کا خدشتہ تھا۔ دوسری طرف حالت یہ ہے کہ حکومت کے پہلے بجٹ کی ابھی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی ہے کہ ملک بھر میں تاجر و صنعتکار برادری سمیت معاشرے کے دیگر طبقے اس بجٹ کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔

ہڑتالوں و احتجاج کا سلسلہ شروع ہے، جبکہ تیرہ جولائی سے آل پاکستان انجمن تاجراں نے ملک گیر شٹرڈاون ہڑتال کی کال دے رکھی ہے۔ دوسری جانب حکومت روایتی انداز اپنائے ہوئے ہے اور حکومت اپنے خلاف ہونیوالے مظاہروں،احتجاج ، ہڑتالوں اور عوامی ردعمل کو روکنے کیلئے ہر حربہ استعمال کر رہی ہے  اور بجٹ کے خلاف شٹرڈاون ہڑتال کی کال ناکام بنانے کیلئے تاجر و صنعتکار تظیموں میں پھوٹ  ڈالنے کی کوششیں بھی جاری ہیں اور تاجر تنظیموں کے بعض دھڑوں نے حکومتی رہنماوں سے ملاقاتیں کرکے ہڑتال سے دستبردار ہونے کے اعلانات بھی کئے ہیں مگر تاجر و صنعتکار تنظیموں کے نمائندوں کا دعوی ہے کہ جن لوگوں سے ملاقاتیں کرکے اعلانات کروائے جا رہے ہیں وہ تاجروں کے نمائندے نہیں ہیں یہ تو وقت بتائے گا کہ حکومت کے خلاف  اعلان کردہ یہ شٹرڈاون ہڑتال کامیاب ہو پائے گی یا نہیں، لیکن بجٹ کے بعد سے جو مہنگائی کا سیلاب آیا ہے اس کے آگے اگر بند نہ باندھا گیا تو  عوامی ریلے کو روکنا کسی بھی قوت کے بس کی بات نہیں رہے گی۔

حکومت و اپوزیشن کی لڑائی میں جس انداز سے اداروں کو گھسیٹا جا رہا ہے اس سے یہ لڑائی خوفناک رُخ اختیار کرتی جا رہی ہے اور اسٹیبلشمنٹ و اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا بیانیہ عوام میں زبان زدعام ہوتا جا رہا ہے اور میڈیا کی سنسر شپ سے لے کر ہر معاملے کو اسٹیبلشمنٹ سے جوڑا جا رہا ہے جو کہ کسی طور بھی درست نہیں ہے اور اس وقت حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے دونوں طرف سے ایک دوسرے پر بھرپور سیاسی وار کئے  جا رہے ہیں جس میں حکومت اور اپوزیشن میں تفریق کرنا مشکل ہوگیا ہے۔

اپوزیشن تو حکومت کے خلاف برسرپیکار ہے ہی مگر حکومت بھی کسی سے  پیچھے نہیں ہے۔ اپوزیشن رہنما اگر ایک پریس کانفرنس کرتے ہیں تو جواب میں حکمران جمات کے چھ، چھ رہنما پریس کانفرنس کرتے ہیں اور اپوزیشن کی جانب سے حکومت کے اس رویئے کو بوکھلاہٹ سے تعبیر کیا جا رہا ہے، خاص کر جب سے پاکستان مسلم لیگ(ن)کی رہنما مریم نواز نے منڈی بہاولدین میں بھرپور عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے اس وقت سے حکومتی حلقوں میں جارحیت بڑھ گئی ہے اور وزیراعظم عمران خان جنہوں نے عنان اقتدار سنبھالنے کے بعد اپوزیشن کو احتجاج اور دھرنوں کیلئے کنٹینر دینے کی پیشکش کی تھی وہ کنٹینر دینا تو دور کی بات اس جلسہ سے اس قدر خائف دکھائی دیئے کہ اس جلسے کو روکنے کیلئے تمام کوششیں بروئے کار لائے۔  جلسہ گاہ سے اسٹیج اکھاڑنے اور اسٹیج لگانے والوں سمیت دیگر کارکنوں کی گرفتاریوں اور جلسہ گاہ تک میں پانی چھوڑا گیا مگر مریم نواز تمام تر رکاوٹوں کے باوجود منڈی بہاوالدین پہنچی اور بھرپور جلسہ کیا۔

بعض سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مشکل ترین حالات میں پاکستان مسلم لیگ(ن)کے اس بھرپور عوامی طاقت کے مظاہرے نے حکمران جماعت کی صفوں میں بے چینی پیدا کر دی ہے  اور اب حکومتی حلقوں سے احتساب کا عمل تیز کرنے اور گرفتاریوں کا سلسلہ بھی تیز کرنے کی آوازیں آرہی ہیں اس وقت پاکستان مسلم لیگ(ن)  اور پیپلز پارٹی کی قیادت سمیت دیگر اہم رہنما جیلوں میں ہیں اور جس تیزی اور طریقے سے اپوزیشن رہنماوں کو جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے اس سے احتساب بارے اپوزیشن کے بیانیہ کو عوام میں تقویت مل رہی ہے اور عوام میں یہ  بیانیہ مقبول ہو رہا ہے کہ حکومت احتساب کے نام پر سیاسی انتقام لے رہی ہے اور جو بھی حکومت کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اس کے خلاف کیس بنا کر جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔

یوں معلوم ہو رہا ہے کہ حکومت  بھی جلد ی میں دکھائی دے رہی ہے  ابھی آگے چل کر شاہد خاقان عباسی،خواجہ آصف سمیت دیگر رہنماوں کی گرفتاریوں کی بھی افواہیں جنم لے رہی ہیں جبکہ  ابھی اہم ڈویلپمنٹ ہوئی ہے جس میں احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں جعلی ٹرسٹ ڈیڈ پر مریم نواز کو طلب کر لیا ہے، احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس میں جعلی ٹرسٹ ڈیڈ پر مریم نواز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 19 جولائی کو طلب کر لیا ہے۔ نیب نے مریم نواز کے خلاف جعلی دستاویزات پر ٹرائل کے لیے درخواست دی تھی جس میں کہا گیا ہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز کی پیش کردہ ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ثابت ہوئی۔

دوسری طرف جس جج نے نوازشریف کو سزا سنائی اس کی متنازعہ ویڈیو منظرعام  پر آنے کے بعد حالات مزید خراب ہوگئے ہیں، اس سے احتساب کی ساکھ کو مزید دھچکا لگا ہے اگرچہ اس بارے میں تردید پر مبنی پریس ریلیز سامنے آئی ہے مگر اس سے مزید سوالات پیدا ہوئے ہیں اور جس جج کے بارے میں یہ ویڈیو منظر عام پر آئی ہے اس جج کی ہائیکورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس سے طویل ملاقات ہوئی ہے، اب اس بارے  حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں یہ تو وقت بتائے گا مگر حکومتی رہنماوں کی جانب سے اس ویڈیو پر جو ردعمل ظاہر کیا گیا اور ویڈیو کا فرانزک آڈٹ کروانے کا اعلان کیا۔ اس  سے حالات مزید گھمبیر ہوئے ہیں۔اب حکومت نے خود کو اس سے لاتعلق رکھنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ یہ کام پہلے کرنے والا تھا۔ دوسری جانب سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے قائمہ کمیٹیوں کے اجلاس منسوخ کر دیئے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ صرف قومی اسمبلی کے سیشن کے دوران اجلاس ہو سکیں گے اس پر بھی حکومت کی خوب لے دے ہو رہی ہے اور اپوزیشن کی جانب سے اسے خلاف قانون اقدام قراردیا جا رہا ہے اور سپیکر پر جانبدار ہونے کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں اس سے اپوزیشن اور حکومت میں فاصلے مزید بڑھیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔