چیئرمین پیپلز پارٹی کی عوام رابطہ مہم، تین کامیاب جلسے

شاہد حمید  بدھ 10 جولائی 2019
بلاول بھٹو کے جلسے یقینی طور پر اثر تو ڈالیں گے۔

بلاول بھٹو کے جلسے یقینی طور پر اثر تو ڈالیں گے۔

پشاور: پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے خیبرپختونخوا کا دورہ کرتے ہوئے صوبہ کی سیاست کو گرما دیا ہے،ان کے صوبہ کے دورے کا مقصد قبائلی اضلاع میں 20 جولائی کو منعقد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے لیے پارٹی امیدواروں کے لیے ماحول بنانا ہے اسی لیے وہ اپنے دورے کے دوران تین جلسے کر گئے اور ساتھ ہی پارٹی ورکرز کنونشن اور میڈیا کے ساتھ بھی بات کرنے کا موقع نکالا تاکہ حقیقی معنوں میں اپنے دورہ کا فائدہ لیا جا سکے تاہم انھیں ان کے دورے کے دوران پشاور پولیس لائنز میں پولیس شہداء کی یادگار پر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔

بلاول بھٹو پولیس لائنز میں پولیس شہداء کی یادگار پر فاتحہ خوانی کرنے اور شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جانا چاہتے تھے تاہم انھیں سکیورٹی وجوہات کی بناء پر عین وقت پر پولیس لائنز آنے سے روک دیا گیا جس کے لیے ایک تھریٹ الرٹ بھی جاری کیا گیا جس میں دہشت گردوں کی جانب سے پولیس لائنز پر حملے کو جواز بنایا گیا تاہم اگر پولیس نے ایسا کرنا تھا تو پہلے ہی سے پیپلزپارٹی کی قیادت کو باقاعدہ طور پر مطلع کردیا جاتا کیونکہ جس طریقے سے بلاول بھٹو کو روکا گیا وہ کچھ مناسب نہیں تھا۔

چونکہ انتظامیہ کی جانب سے بلاول بھٹو کو اس سے پہلے بھی جلسوں کی اجازت نہیں دی گئی تھی جس کی وجہ سے انہوں نے اپنا دورہ ہی منسوخ کردیا تھا اور اس مرتبہ بھی بلاول بھٹو کو قبائلی اضلاع میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی تاہم پارٹی نے اس کا حل یہ نکالا کہ اپنے جلسے بندوبستی اور قبائلی اضلاع کے سنگم پر منعقد کیے تاکہ جو جلسے کیے جا رہے ہیں ان کا پیغام قبائلی اضلاع تک پورے طریقے سے جا سکے، بلاول بھٹو کے جلسے یقینی طور پر اثر تو ڈالیں گے اور پھر انہوں نے تواتر کے ساتھ تین جلسے کرتے ہوئے قبائلی اضلاع کے انتخابات کے لیے باقاعدہ طور پر پیپلزپارٹی کی جانب سے انتخابی مہم کا آغاز بھی کیا ہے جس کے بعد یقینی طور پر دیگر سیاسی جماعتوں کے مرکزی قائدین اور سربراہ بھی میدان میں آئیں گے۔

اگرچہ پی ٹی آئی کو اقتدار میں ایک سال ہونے کو آیا ہے اور ملک میں مہنگائی کی وجہ سے عوام کی جو حالت ہے اس میں تحریک انصاف کے امیدواروں کو مشکلات کا سامنا ضرور ہے تاہم اس کے باوجود قبائلی اضلاع میں 20 جولائی کو منعقد ہونے والے انتخابات کے لیے جو سروے رپورٹس سامنے آرہی ہیں ان میں تحریک انصاف دیگر جماعتوں کے مقابلے میں آگے ہے جس کا توڑ یہی ہوسکتا تھا کہ اپوزیشن جماعتیں اتحاد بنا کر میدان میں اترتیں تاہم ایسا نہیں ہو سکا اور پھر اپوزیشن جماعتیں اتحاد بنا بھی لیتیں تو اس کے باوجود جماعت اسلامی نے تنہا ہی یہ پرواز کرنی تھی کیونکہ جماعت اسلامی نہ تو اپوزیشن کے ساتھ ہے اور نہ ہی حکومت کے اور اس نے اپنی راہیں ایم ایم اے سے بھی جدا کر لی ہیں، البتہ ان انتخابات کے حوالے سے اہم معاملہ پولنگ سٹیشنوں پر فوج کی تعیناتی کا ہے جسے اپوزیشن جماعتوں نے مسترد کردیا ہے۔

اپوزیشن کی تقریباً تمام ہی جماعتیں فوج کی پولنگ سٹیشنوں کے اندر تعیناتی کی مخالفت کر رہی ہیں تاہم پیپلزپارٹی نے اس سے ایک قدم آگے جاتے ہوئے عدالت جانے کا بھی عندیہ دیا ہے، اگر یہ معاملہ عدالت جاتا ہے اور عدالت کا فیصلہ اپوزیشن جماعتوں کے حق میں آجاتا ہے تو اس صورت میں اپوزیشن جماعتیں بندوبستی علاقوں میں انتخابات کے روایتی تمام طور طریقے وہاں آزمائیں گی تاکہ میدان مارا جا سکے تاہم اگر عدالت نے اپوزیشن جماعتوں کے حق میں فیصلہ نہ دیا تو اس صورت میں انھیں انہی حدود میں رہتے ہوئے کھیلنا پڑے گا کہ جو ان کے لیے مقرر کردی گئی ہیں، اور اے این پی جو اپنے سٹی صدر سرتاج خان کے قتل کے خلاف میدان میں نکلی اور صوبائی اسمبلی کے سامنے بھرپور احتجاج کیا وہ اب اگلے دو مراحل کی تیاری کر رہی ہے۔

10جولائی کوہارون بلور شہید کی پہلی برسی ہے جس کے لیے تیاریاں جاری ہیں ، ہارون بلور کی برسی کے سلسلے میں اگرچہ اجتماع پشاورمیں منعقد ہوگا تاہم اس سے اے این پی کی قیادت قبائلی اضلاع کے انتخابات کے حوالے سے فائدہ لے گی اور حکومت کو آڑے ہاتھوں لینے کے ساتھ اپنا منشور اورپروگرام بھی پیش کریگی کیونکہ یہ ان کے لیے سنہری موقع ہے۔ اس کے بعد اے این پی اگلا میدان ایک مرتبہ پھر12جولائی کو خیبرپختونخوا اسمبلی کے باہر گرمائے گی کیونکہ اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے سرتاج خان کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے دس دنوں کی ڈیڈ لائن دی تھی جو12جولائی کو پوری ہو رہی ہے۔ تاہم صوبائی حکومت مذکورہ احتجاج سے قبل سرتاج قتل کیس میں اب تک ہونے والی تحقیقات سامنے لاتے ہوئے ماحول ٹھنڈا کر سکتی ہے۔

خیبرپختونخوا حکومت آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرنے اوراس کی منظوری کے بعد اگلے محاذ کے لیے تیار ہوگئی ہے اور اگلا مرحلہ بجلی منافع کے بقایاجات کی مرکز سے وصولی کے ساتھ سالانہ منافع کی رقم کو اے جی این قاضی فارمولے کے مطابق سالانہ 129 ارب تک بڑھانا اور اس رقم کی مرکز سے سہ ماہی یا ماہانہ بنیادوںپر وصولی ہے جس کے لیے ٹیکنیکل کمیٹی کی سطح پر بھی کام جاری ہے جبکہ دوسری جانب وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمودخان اور ان کی ٹیم وزیراعظم اور ان کے متعمدین کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کی مرکزی حکومت اس بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے خیبرپختونخوا کو خاطر خواہ فائدہ پہنچا سکتی ہے جس سے پی ٹی آئی کا یہ بیس کیمپ مزید مضبوط ہو سکتا ہے اور آئندہ عام انتخابات کے لیے بھی پی ٹی آئی کے لیے آسانیاں پیدا ہو جائیں گی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔