چیئرمین سینٹ کو ہٹانے کے لیے تحریک عدم اعتماد جمع

رضا الرحمٰن  بدھ 10 جولائی 2019
اپوزیشن جماعتوں نے چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد بڑی سنجیدگی سے جمع کرائی ہے۔

اپوزیشن جماعتوں نے چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد بڑی سنجیدگی سے جمع کرائی ہے۔

کوئٹہ:  اپوزیشن جماعتوں نے چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی جبکہ اپوزیشن جماعتوں کی رہبر کمیٹی نے یہ عہدہ اکثریتی جماعت (ن) لیگ کو دینے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ اس سے قبل یہ باتیں گردش کر رہی تھیں کہ نئے چیئرمین سینٹ کیلئے پی پی پی کے رضا ربانی اُمیدوار ہو سکتے ہیں؟ لیکن اس نئی خبر نے حکومتی حلقوں کے ان تمام تجزیوں اور شوشوں کی نفی کردی جس میں یہ کہا جا رہا تھا کہ اپوزیشن جماعتیں اس معاملے میں اختلافات کا شکار ہیں۔

چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی جن کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے اور بلوچستان کی اس نومولود پارٹی نے جولائی2018ء کے الیکشن میں جس طرح سے عوامی سطح پر اپنے آپ کو منوایا اور بلوچستان کی سب سے بڑی پارلیمانی جماعت بن کر اُبھری اور سینٹ کے چیئرمین کے انتخاب میں سیاسی پتے کھیل کر اپنا چیئرمین لائی تھی کی قیادت بلوچستان کارڈ کھیل کر بھی اپنے چیئرمین کو بچاتی نظر نہیں آرہی۔

بلوچستان عوامی پارٹی کی قیادت نے چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کو بچانے کیلئے اسلام آباد میں پڑاؤ بھی ڈالے رکھا اور مختلف سیاسی رہنماؤں سے رابطے اور ملاقاتیں بھی کیں اور انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ بلوچستان فیڈریشن کی ایک اکائی ہے جسے ہمیشہ وفاق اور قومی سطح پر سیاست کرنے والی جماعتوں سے گلہ رہا ہے کہ اُسے نظر انداز کیا گیا وفاق میں چار بڑے عہدوں میں سے کسی بھی عہدے پر بلوچستان کو نمائندگی نہیں دی گئی اور پہلی مرتبہ جب بلوچستان کو ان چاروں بڑے عہدوں میں سے ایک عہدہ چیئرمین سینٹ کا دیا گیا تو وہ بھی بعض قوتوں کو ہضم نہیں ہو رہا اس لئے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے چیئرمین سینٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جا رہی ہے۔

اس سلسلے میں بلوچستان عوامی پارٹی کی قیادت نے بلوچستان کی قوم پرست سیاسی و پارلیمانی جماعتوں سے بھی رابطے کئے جو کہ زیادہ موثر ثابت نہیں ہوئے اب جبکہ اپوزیشن جماعتوں کی رہبر کمیٹی نے9 جولائی کو سینٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد جمع کرانے اور13جولائی کو اس عہدے کیلئے اپنا مشترکہ اُمیدوار لانے کا اعلان کیا ہے تو سیاسی درجہ حرارت میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔

بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس میں شک و شبے والی بات نہیں کہ اپوزیشن جماعتوں نے چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد بڑی سنجیدگی سے جمع کرائی ہے اور حکومتی حلقوں کو یہ پیغام دینا چاہتی ہیں کہ تمام اپوزیشن جماعتیں متحد ہیں اور ان میں اختلافات کی جو خبریں اور شوشے چھوڑے جا رہے ہیں اُن میں کوئی صداقت نہیں اور اپوزیشن جماعتوں کا اگلا ہدف وزیراعظم ہوں گے۔

ان سیاسی مبصرین کے مطابق یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ چیئرمین سینٹ کا عہدہ اپوزیشن جماعتوں کی رہبر کمیٹی نے (ن) لیگ کو دینے کا عندیہ دیا ہے جبکہ نیشنل پارٹی کے سینیٹر میر حاصل بزنجو کا نام بھی زیر غور ہے ان سیاسی مبصرین کے مطابق (ن) لیگ کی قیادت یہاں یہ سیاسی لیڈ بھی لے سکتی ہے کہ وہ قربانی دیتے ہوئے یہ عہدہ اپنی اتحادی قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی کو دیدے اگر اس طرح کی کوئی صورتحال سامنے آئی تو (ن) لیگ نے جس طرح 2013ء کے انتخابات میں بلوچستان میں بڑی پارلیمانی جماعت ہونے کے باوجود وزارت اعلیٰ نیشنل پارٹی کو دیدی تھی اُس کے اس عمل کو ہر فورم پر پذیرائی بھی ملی تھی اگر (ن) لیگ کی قیادت اس اس جذبے کے تحت کہ یہ عہدہ تاریخ میں پہلی مرتبہ بلوچستان کو دیا گیا فیڈریشن کو مضبوط کرنے ، صوبے کے احساس محرومی کے خاتمے اور ماضی کے زخموں پر مرہم رکھنے کیلئے یہ قربانی دیتی ہے اور نیشنل پارٹی کے سینیٹر میر حاصل بزنجو مشترکہ اُمیدوار کے طور پر سامنے آجاتے ہیں تو (ن) لیگ بلوچستان کے حوالے سے ایک اور سیاسی گول کرنے میں کامیاب ہوجائے گی؟ جس کے ملکی سیاست خصوصاً بلوچستان کی سیاست پر مثبت اثرات مرتب ہوں ہیںاور وفاق مضبوط ہوگا۔

دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال بجٹ پیش کرنے کے بعد کافی ایکٹو دکھائی دے رہے ہیں، ترقیاتی کاموں پر فوکس اور صوبے کے انتظامی اُمور کو درست سمت کی طرف لے جانے کے ساتھ ساتھ عوامی رابطوں کا بھی آغاز کردیا ہے۔

وزیراعلیٰ جام کمال نے صوبائی حکومت کی کارکردگی وڈیو کانفرنسنگ شروع کردی ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ان کمشنروں کے ڈویژن میں جاری منصوبوں کی پیش رفت سمیت دیگر اُمور کے بارے میں آگاہی حاصل کی اور انہیں مختلف ہدایات بھی جاری کیں۔ وزیراعلیٰ نے ویڈیو کانفرنسنگ کے دوران کمشنرز کو عوامی مسائل کے حل کیلئے اقدامات کرنے پر زور دیا۔

سیاسی حلقے وزیراعلیٰ جام کمال کے ایکٹو ہونے اور عوامی مسائل کے حل سمیت دیگر اقدامات کو نیک شگون قرار دے رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ جام کمال کے ان اقدامات سے مستقبل میں دور رس نتائج برآمد ہونگے اور جس طرح سے اُن کی حکومت کے حوالے سے گزشتہ11 ماہ سے یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ سست روی کا شکار ہے اب ان اقدامات سے نہ صرف اس تاثر کو ختم کرنے میں مدد ملے گی بلکہ صوبے میں حکومت بھی دکھائی دے گی۔

بعض عوامی اور سیاسی حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان ویڈیو کانفرنس کی طرز پر تمام اضلاع میں کھلی کچہریوں کا بھی انعقاد کرائیں تاکہ دور دراز علاقوں سے کوئٹہ آنے والوں کے مسائل ان کی دہلیز پر ہی حل ہوں اس عمل سے یقیناً عوام میں حکومت کا گراف بلند ہوگا بلکہ آئندہ انتخابات میں حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کو بھی اچھے نتائج حاصل کرنے میں مدد ملے سکے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔