ڈاکٹرز کے دل نہ توڑیں!

مناظر علی  بدھ 10 جولائی 2019
ڈاکٹرز مریض کی جان بچانے کے لیے اپنی پوری کوشش کرتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ڈاکٹرز مریض کی جان بچانے کے لیے اپنی پوری کوشش کرتے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

موت برحق ہے اور اس پر اہل ایمان کا یقین ہے۔ قرآن پاک نے بھی اس کی وضاحت کردی ہے تاکہ کسی کو کوئی شک نہ رہے۔ فرمان الٰہی ہے ’’ہر جان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے‘‘۔ قرآنی احکامات اور اس میں بیان کیے گئے پچھلی قوموں کے واقعات پر شک وشبے کی گنجائش نہیں، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے شروع میں ہی تمام شکوک وشبہات ختم کردیئے۔ فرمایا ’’اس کتاب میں کوئی شک نہیں‘‘۔

میرا سوال اللہ کے ان بندوں سے ہے، جو ایسے معاملات میں غصہ مخلوق پر نکالتے ہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آج تحریر معمول سے ہٹ کر کیوں ہے۔ گزشتہ دنوں شالیمار اسپتال لاہور میں ایک مریضہ کی دوران آپریشن موت واقع ہوگئی۔ جس پر اس کے لواحقین نے اسپتال سر پر اٹھالیا۔ اتنی توڑپھوڑ اور ہنگامہ آرائی کی کہ ڈاکٹرز اور عملے نے اپنی جان بچانے کےلیے چھپنے میں ہی عافیت سمجھی۔

وہ عملہ جو حساس مریضوں کی تکلیف دور کرنے کےلیے مامور ہوتا ہے، وہ ڈاکٹرز جو انسان کو مرتے مرتے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں مسیحاؤں کو اپنی ڈیوٹی چھوڑنا پڑی، کیوں کہ کچھ مشتعل افراد کو یہ اعتراض تھا کہ ان کی مریضہ کی موت کیوں واقع ہوگئی؟ وہ اپنی مریضہ کی جان کا بدلہ لینے کےلیے ڈاکٹرز اور عملے کو نقصان پہنچا سکتے تھے اور اس صورتحال میں کچھ بھی ہوسکتا تھا۔ دو گھنٹے تک یہ کیفیت رہی، جس کے بعد پولیس نے آکر مشتعل ہجوم کو کنٹرول کیا اور ڈاکٹرز اپنی ڈیوٹی پر واپس آئے۔

اس صورتحال کے ذمے دار مظاہرین ہیں اور ان کی اس حرکت کی وجہ سے صادق آباد کے نورالحسن نامی موٹاپے کے شکار مریض کی زندگی کا چراغ بھی گل ہوگیا۔ اگر پولیس نہ پہنچتی تو خدشہ تھا کہ مزید جانی نقصان ہوتا۔

میرا سوال ایسے لوگوں سے ہے جو موت کو برحق بھی سمجھتے ہیں، قدرت کا فیصلہ اور نظام کائنات بھی مانتے ہیں، اور پھر کسی پیارے کی موت پر ذمے دار اُن لوگوں کو ٹھہراتے ہیں، جو اسے مارنے نہیں بلکہ بچانے کےلیے اپنی پوری کوشش کرتے ہیں۔ ایسا کوئی ڈاکٹر نہیں ہوگا جو مریض کو اسپتال میں علاج کےلیے نہیں بلکہ مارنے کے لیے داخل کرتا ہو۔

نورالحسن کا علاج کرنے والے ڈاکٹر معاذ کو اس حادثے کے بعد بے حد افسردہ دیکھا گیا، کیوں کہ ان کی محنت پر مظاہرین نے پانی پھیر دیا تھا۔ جس مریض کو لانے کےلیے آرمی چیف نے خصوصی ہیلی کاپٹر بھجوایا ہو، جسے نارمل زندگی میں واپس لوٹانے کےلیے لاہور سے ڈاکٹروں کی ٹیم صادق آباد گئی ہو۔ آپ سوچیں کہ وہ اس انسان کے علاج کےلیے کتنے سنجیدہ ہوں گے اور انہیں اس موت کا کتنا دکھ ہوا ہوگا۔ کیا ایسے ڈاکٹرز اور عملہ بے حس ہوسکتا ہے؟

یہ رویہ صرف لاہور میں ہی نہیں دیکھا گیا، آئے روز ایسی خبریں پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں کہ مریض کا انتقال ہوگیا اور لواحقین مشتعل ہوگئے۔ بچہ دم توڑ گیا اور رشتے داروں نے احتجاج شروع کردیا۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ جہاں کہیں ڈاکٹروں کی غفلت ثابت ہو، کہیں کوئی مجرمانہ عمل نظر آئے تو اس کی نشاندہی کریں۔ اس کےلیے متعلقہ فورم سے رجوع کرنا چاہیے نہ کہ اپنے مریض کا بدلہ لینے کےلیے دوسرے مریضوں کی زندگی بھی خطرے میں ڈال دی جائے۔

افسوسناک صورتحال ہے کہ احتجاجی روش ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ جہاں ایک طرف چھوٹی سی بات پر لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں، وہیں اب یہ برا رواج اسپتالوں جیسی جگہوں پر بھی عام ہورہا ہے۔ جہاں مریضوں کو سکون چاہیے وہاں ہنگامہ آرائی کرکے ایسے لوگ کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہیں۔ اور کیا وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ زندگی و موت خدا کے ہاتھ میں ہے۔ ڈاکٹرز کا علاج معالجہ تو ایک بہانہ ہے، ایک تسلی ہے اور درد کو کم کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ دنیا کا کوئی ڈاکٹر موت سے نہیں لڑسکتا۔ سانسوں کی ٹوٹتی ڈوری کو جوڑ نہیں سکتا اور جسم و روح کو ہمیشہ کےلیے ایک ساتھ نہیں رکھ سکتا۔ جب سانسیں پوری ہوجائیں اور خالق سے ملنے کا وقت آجائے تو پھر ہر ذی روح نے اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ اور اس بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بھی واضح فرمایا ہے تاکہ کسی کو شک نہ رہے۔

ضرورت سمجھداری کی ہے۔ غور و فکر اور خوداحتسابی ہر انسان کو کرنا چاہیے۔ کوئی ایسا عمل کرنے سے پہلے ہزار بار سوچنے کی ضرورت ہے جس سے دوسرے انسان کو تکلیف ہو، جس سے قیمتی جان ضائع ہونے کا ڈر ہو، جس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو۔ مشتعل اور غیرسنجیدہ لوگوں سے گزارش ہے کہ اگر ڈاکٹرز پر یقین ہی نہیں تو پھر علاج گاہوں میں جانے کے بجائے کوئی ایسی جگہ تلاش کریں جہاں آپ اور آپ کے مریض موت سے بچ سکیں۔ اگر نہیں، تو پھر خدارا! اپنے مریض کی فکر کرنے کے چکر میں دوسروں کی زندگی میں مزید تکلیفیں نہ پیدا کریں اور ان ڈاکٹرز کے دل بھی مت توڑیئے جو انسانیت کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مناظر علی

مناظر علی

بلاگر مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز کے نیوزروم سے وابستہ رہ چکے ہیں، آج کل لاہور کے ایک ٹی وی چینل پر کام کررہے ہیں۔ عوامی مسائل اجاگر کرنے کےلیے مختلف ویب سائٹس پر بلاگ لکھتے ہیں۔ ان سے فیس بک آئی ڈی munazer.ali پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔