یہ ہے پاکستان، یہ ہے ہماری پہچان

سید بابر علی  بدھ 11 ستمبر 2013
تین جنوری2009کو بی بی سی اردو کے پہلے بلاگ کی زینت بننے والے الفاظ نہیں جانتے تھے کہ وادی سوات کی ’’گل مکئی‘‘ نے انہیں ہمیشہ کے لیے امر کردیا ہے۔ فوٹو: فائل

تین جنوری2009کو بی بی سی اردو کے پہلے بلاگ کی زینت بننے والے الفاظ نہیں جانتے تھے کہ وادی سوات کی ’’گل مکئی‘‘ نے انہیں ہمیشہ کے لیے امر کردیا ہے۔ فوٹو: فائل

ملالہ یوسف زئی پاکستان کی ایک ایسی بہادر بیٹی اور قابل قدر سرمایہ ہے، جس نے اس وقت دنیا کے نقشے پر پاکستان کا مثبت پہلو اجاگر کیا جب بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی اور پاکستان کو لازم و ملزوم قرار دیا جا رہا تھا۔

حال ہی میں بچوں کے لیے خدمات پر دیا جانے والا اعزاز ’’انٹرنیشل چلڈرن پیس پرائز‘‘ حاصل کرکے ملالہ نے وطن کے حالات پر افسردہ پاکستانیوں کے دل خوشی سے بھردیے اور سر فخر سے بلند کردیا۔ پاکستان کی روشن پہچان بن جانے والی یہ بچی عزم وحوصلے کی ایک روشن مثال ہے۔

چند دن قبل ہی ہالینڈ کے شہر ہیگ میں ملالہ یوسف زئی کو ’’انٹرنیشنل چلڈرنز پیس پرائز‘‘ سے نوازا گیا۔ تقریب سے خطاب میں یمنی صحافی اور ایکٹیوسٹ توکل کارمان نے ملالہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’ملالہ کے سر میں لگنے والی گولی وہ لمحہ تھا جب ان کے ملک نے تاریخ کا اہم سنگ میل عبور کیا تھا۔‘‘

رواں ماہ ہی ملالہ نے برمنگھم میں یورپ کی سب سے بڑی لائبریری کا افتتاح بھی کیا ہے۔ اس موقع پر عوام سے خطاب میں ملالہ کا کہنا تھا،’’میں آج اس عمارت میں بہت فخر محسوس کر رہی ہوں، جو لاکھوں کتابوں کا گھر ہے، جسے خواتین کے لیے بنایا گیا ہے اور اس شہر میں جو میرے خوب صورت ملک ’’پاکستان‘‘ کے بعد میرا دوسرا گھر ہے۔ انہوں نے کہا،’’کتابوں اور کتب خانوں کے بغیر کوئی شہر ایک قبرستان کی طرح ہوتا ہے۔‘‘

ملالہ کا نام ٹائم میگزین کی جانب سے جاری ہونے والی دنیا کی سو سب سے بااثر افراد کی 2013 کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا ہے۔ فہرست میں اسے’’آئیکون ‘‘ کے درجے میں رکھا گیا ہے۔

ناروے کی پارلیمان کے حزبِ اقتدار کے ارکان نے ملالہ یوسف زئی کا نام ’’نوبل امن انعام‘‘ کے لیے نارویجن نوبل امن کمیٹی کو دے دیا ہے۔

دسمبر 2012 میں فرانس کی پارلیمان کے ڈیڑھ سو اراکین نے اس یادداشت پر دستخط کیے تھے جس میں ملالہ یوسف زئی کو 2013 کے نوبل امن انعام کے لیے نام زد کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

پاکستان نے بھی ملالہ یوسف زئی کو ملک کے قومی امن کے اعزاز سے نوازا تھا اور پاکستان کی قومی اسمبلی نے دسمبر 2012 میں ملالہ یوسف زئی کو ’’دخترِ پاکستان‘‘ کا خطاب دینے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی تھی۔

لندن کی ایک تنظیم ’’انڈیکس‘‘ نے بھی ملالہ کوآزادیِ اظہار کے ایوارڈ’’Doughty Street Advocacy‘‘ سے نوازا ہے۔

ملالہ یوسف زئی کو 2012کا ’’بین الاقوامی ٹپریری ایوارڈ برائے امن‘‘ دیا گیا ہے۔ اسے آئرلینڈ کا یہ اعلیٰ ایوارڈ بچوں کی تعلیم کے لیے آواز بلند کرنے اور ان کے بلند حوصلے کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ ملالہ یہ اعزاز حاصل کرنے والی دوسری فرد ہے۔ اس سے قبل 2007میں ٹپریری ایوارڈ سابق وزیرِاعظم مرحومہ بے نظیر بھٹو نے بھی حاصل کیا تھا، جب کہ ملالہ یوسف زئی کے علاوہ امریکا کی سابق خاتونِ اول اور اس وقت کی امریکی وزیرِخارجہ ہیلری کلنٹن، بھارت کی کانگریس پارٹی کی راہ نما سونیا گاندھی، کینیا سے تعلق رکھنے والے سابق صحافی جان گیتھونگو اور تنظیم ’’پیکس کرسٹی انٹرنیشنل‘‘ بھی ٹپریری ایوارڈ2012کے لیے نام زد ہونے والوں میں شامل تھے۔

تین جنوری2009کو بی بی سی اردو کے پہلے بلاگ کی زینت بننے والے الفاظ نہیں جانتے تھے کہ وادی سوات کی ’’گل مکئی‘‘ نے انہیں ہمیشہ کے لیے امر کردیا ہے۔ ’’گل مکئی‘‘ کے فرضی نام سے ڈائری لکھنے والی کم عمر لیکن پُرعزم وبلند حوصلہ ملالہ یوسف زئی نے ان لوگوں کے خلاف قلم کی طاقت استعمال کرنا شروع کی جو دہشت کی علامت بن چکے تھے۔ لڑکیوں کی تعلیم میں رکاوٹ بننے والی ہر شے کو ختم کرنے کا عزم لیے اس بہادر لڑکی نے باقاعدگی سے اپنی تحریروں میں تعلیم دشمن عناصر کو بے نقاب کرنا شروع کردیا۔ ملالہ کی ڈائری نے دنیا کو اس سنگین صورت حال سے صحیح معنوں میں آگاہ کیا جس سے سوات سمیت پاکستان کے شمالی علاقوں کے عوام دوچار تھے، کیوں کہ یہ میڈیا کی رپورٹ نہیں، ایک معصوم اور حالات سے متاثرہ بچی کے سچے جذبات اور کھرے الفاظ تھے۔

جلد ہی ملالہ اپنی تحریر سے ملکی اور غیرملکی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ملالہ کی زندگی کو لاحق خطرات میں بھی اضافہ ہوگیا۔ اکتوبر 2011 میں جنوبی افریقا کے آرچ بشپ ’’Desmond Tutu‘‘ نے بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ڈچ تنظیم ’’کڈز رائٹس فائونڈیشن‘‘ کے ’’انٹر نیشنل چلڈرنز پیس پرائز‘‘ کے لیے ملالہ کانام تجویزکیا۔ ملالہ اس ایوارڈ کے لیے نام زد ہونے والی پہلی پاکستانی لڑکی بن گئی۔ دسمبر2011 میں ملالہ کی بین الاقوامی سطح پر شہرت میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب اسے اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے ’’نیشنل یوتھ پیس پرائز‘‘ دیا۔ وزیر اعظم نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ملالہ کی کوششوں کو سراہتے ہوئے سوات کے ایک سیکنڈری اسکول کا نام اس کے نام پر رکھنے کا اعلان کیا،

جب کہ ملالہ کی درخواست پر وزیر اعظم نے ’’سوات ڈگری کالج فار ویمن ‘‘ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کیمپس بھی قائم کرنے کی ہدایت دی۔ تا ہم علم کی شمع جلانے والی ملالہ کی زندگی کی شمع بجھانے کے لیے 9 اکتوبر 2012 کو اس پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ حملے میں شدید زخمی ہونے والی ملالہ کو فوراً پشاور کے فوجی اسپتال منتقل کردیا گیا۔ تین گھنٹے کے طویل آپریشن کے بعد ملالہ کے سر اور گردن میں لگنے والی گولی تو نکال لی گئی، تاہم اس کی حالت بدستور تشویش ناک تھی، دو دن بعد پاکستانی اور برطانوی ڈاکٹروں کے ایک پینل نے ملالہ کو علاج کے لیے بیرون ملک بھیجنے کا ارادہ کرلیا۔ اور انہیں برمنگھم کے ’’کوئن الزبتھ ہسپتال‘‘ میں لے جایا گیا۔

ملالہ پر حملے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح دنیا بھر میں پھیل گئی، تمام عالمی راہ نمائوں نے اس حملے کی مذمت کر تے ہوئے ملالہ یوسف زئی سے اظہار ہمدردی کیا۔ صحت یابی کے بعد اپنے پہلے بیان میں بھی ملالہ نے علم کی شمع جلانے رکھنے کا عہد کیا۔

صحت یابی کے بعد اپنے پہلے ویڈیو بیان میں ملالہ نے پہلے انگریزی، پھر اردو اور بعد میں پشتو میں اپنا پیغام دیا۔
اس پیغام میں ملالہ نے کہا،’’میں بول سکتی ہوں، دیکھ سکتی ہوں، اور اب دن بدن میری صحت بہتر ہو رہی ہے۔‘‘
اس نے کہا کہ سب لوگوں نے میرے لیے دعائیں کی ہیں۔ ’’ان دعاؤں کی وجہ سے خدا نے مجھے نئی زندگی دی ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ’’میں خود کو دوبارہ بھی قربان کرنے کے لیے تیار ہوں، میں چاہتی ہوں کہ ہر ایک بچی اور ہر ایک بچہ تعلیم حاصل کرے اور ہمارے ملک بلکہ پوری دنیا میں امن ہو۔ اور اس امن کے لیے میں دوبارہ بھی خود کو قربان کردوں گی۔‘‘

ملالہ نے کہا کہ ’’میں لوگوں کی خدمت کرنا چاہتی ہوں، میں چاہتی ہوں کہ ہر لڑکی، ہر بچہ تعلیم حاصل کرے۔ اس مقصد کے لیے ہم نے ملالہ فنڈ بنایا ہے۔‘‘
برمنگھم کوئن الزبتھ اسپتال میں علاج کے بعد اب اس نے اسکول جانا شروع کردیا ہے۔ ملالہ نے صحت یابی کے بعد ایجبیسٹن ہائی اسکول میں پہلے دن کو اپنی زندگی کا اہم ترین دن قرار دیا۔ اس موقع پر اس کا کہنا تھا،’’میری زندگی کا سب سے اچھا دن واپس اسکول جانے کا ہے۔ میرا خواب ہے کہ تمام بچے اسکول جاسکیں، میں اسکول یونیفارم پہن کر فخر محسوس کر رہی ہوں۔‘‘

ملالہ یوسف زئی نے برطانیہ میں آپ بیتی لکھنے کا معاہدہ بھی کیا ہے۔ ملالہ کو کتاب لکھنے کا معاوضہ 30 لاکھ امریکی ڈالر دیا جائے گا۔ اس سال کے آخر تک شایع ہونے والی اس آپ بیتی کا نام ’’میں ملالہ ہوں‘‘ ہو گا۔

ملالہ کا اپنی آپ بیتی کے حوالے سے کہنا ہے، مجھے امید ہے میری کہانی ’’ہر لڑکے اور لڑکی کے اسکول جانے کے حق کے لیے چلائی جانے والی مہم کا حصہ ہو گی۔ اور ’’مجھے امید ہے کہ یہ کتاب دنیا بھر کے لوگوں تک پہنچے گی، تاکہ انھیں احساس ہو کہ بعض بچوں کے لیے تعلیم حاصل کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ میں اپنی کہانی سنانا چاہتی ہوں لیکن یہ میری بلکہ تعلیم سے محروم چھے کروڑ بچوں کی کہانی بھی ہو گی۔‘‘

کتاب کے حقو ق رکھنے والے پبلشر ’’لٹل براؤن‘‘ کے مائیکل پائٹش کا اس حوالے سے کہنا ہے،’’ملالہ دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کے لیے تحریک کا باعث ہیں۔ اس کی ہمت اور بقا کی کہانی سے دماغ کھلیں گے، دل بڑے ہوں گے اور اس سے زیادہ لڑکیوں اور لڑکوں کو تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔‘‘

بولی وڈ کے ہدایت کار امجد خان نے بھی ’’ملالہ‘‘ کے نام سے ملالہ یوسف زئی کی زندگی پر فلم بنانے کا اعلان کیا ۔ اس حوالے سے امجد خان کا کہنا ہے،’’ملالہ تعلیم کے شعبے میں خود ایک تحریک ہے، میری یہ فلم ملالہ کے لیے ایک خراج عقیدت ہوگی۔‘‘

ملالہ یوسف زئی بارہ جولائی کو اپنی سولھویں سال گرہ کے موقع پر نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں مہمانِ خصوصی کے طور پر شریک ہوئی۔
پاکستانی طالبہ ملالہ یوسف زئی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اقوام متحدہ نے اس کی تاریخ پیدائش ’’بارہ جولائی‘‘ کو ملالہ یوسف زئی سے منسوب کردیا ہے۔ ’’ورلڈ ملالہ ڈے‘‘ منانے کا مقصد دنیا میں ہر بچے کے لیے تعلیم کے حصول کو ممکن بنانے کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔

دنیا بھر سے محبتیں، خراج تحسین اور اعزازات سمیٹنے والی پاکستان کی یہ بیٹی اپنی قوم کا فخر اور پہچان بن چکی ہے۔ آج جب دنیا ہمیں ہماری زمین پر خوف پھیلاتے اور خون بہاتے دہشت گردوں، منافرت کی آگ بھڑکاتے انتہاپسندوں، لوٹ مار کرتے سیاست دانوں اور بے کسوں پر ظلم ڈھاتے زورآوروں کے سیاہ چہرے دکھا کر کہتی ہے،’’یہ ہے پاکستان‘‘ تو ہم دمکتی پیشانی اور روشن آنکھوں والی ملالہ کی تصویر دکھا کر فخر سے کہہ سکتے ہیں،’’نہیں، یہ ہے پاکستان، یہ ہے ہماری پہچان۔‘‘

’’گُل مکئی‘‘ کی ڈائری کے چند اقتباسات


سوات میں شدت پسندوں کی جانب سے لڑکیوں کے اسکول کو نشانہ بنانے اور انہیں اسکول نہ بھیجنے کے اعلان کے بعد ایک سات سالہ طالبہ نے ’’گل مکئی‘‘ کے فرضی نام سے بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر ڈائری لکھنے کا سلسلہ شروع کیا، بعد میں گل مکئی اپنے اصل نام ملالہ یوسف زئی کے ساتھ دنیا کے سامنے آئی۔ ’’گل مکئی‘‘ کی ڈائری کے چند اقتباسات درج ذیل ہیں:

٭تین جنوری2009: میں خوف زدہ ہوں
کل رات میں نے بہت ڈراؤنا خواب دیکھا، جس میں فوجی، ہیلی کاپٹر اور طالبان دکھائی دیے۔ فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد اس قسم کے خواب بار بار دیکھ رہی ہوں۔ ماں نے مجھے ناشتا دیا اور پھر تیار ہوکر اسکول کے لیے روانہ ہوگئی۔ مجھے اسکول جاتے وقت بہت خوف محسوس ہو رہا تھا کیوں کہ طالبان نے لڑکیوں کو اسکول نہ بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ آج اسمبلی میں ہیڈ مسٹریس نے ہمیں کہا کہ کل سے گھر کے کپڑے پہن کر اسکول آئیں۔

٭پانچ جنوری2009: رنگ برنگے کپڑے پہن کر نہ آئیں
آج جب اسکول جانے کے لیے یونیفارم پہننے لگی تو یا د آیا کہ ہیڈمسٹریس نے گھر کے کپڑے پہن کر اسکول آنے کو کہا تھا۔ میں نے اپنا پسندیدہ گلابی رنگ کا لباس پہن لیا۔ اسکول میں ہر لڑکی نے گھر کے کپڑے پہن رکھے تھے، جس سے اسکول گھر جیسا لگ رہا تھا۔ اسمبلی میں ہمیں پھر بتایا گیا کہ رنگ برنگے کپڑے نہ پہنیں کیوں کہ طالبان اس پر بھی اعتراض کریں گے۔

٭چودہ جنوری2009: شاید میں دوبارہ اسکول نہ جاسکوں
آج میں اسکول جاتے وقت بہت خفا تھی، کیوں کہ کل سے سردیوں کی چھٹیاں شروع ہو رہی ہیں۔ ہیڈ مسٹریس نے سردی کی چھٹیوں کا اعلان تو کیا مگر یہ نہیں بتایا کہ اسکول دوبارہ کب کھلے گا۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے، پہلے ہمیں ہمیشہ چھٹیوں کے ختم ہونے کی مقررہ تاریخ بتائی جاتی تھی۔ اس کی وجہ تو انہوں نے نہیں بتائی، لیکن میرا خیال ہے کہ طالبان کی جانب سے پندرہ جنوری کے بعد لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی کے سبب ایسا کیا گیا ہے۔

٭پندرہ جنوری2009: بے سکون نیند
پوری رات توپوں کی شدید گھن گرج کی وجہ سے میں تین مرتبہ جاگی۔ آج ہی سے اسکول کی چھٹیاں بھی شروع ہوگئی ہیں، اسی لیے میں آرام سے دس بجے سو کر اٹھی۔ بعد میں میری ایک کلاس فیلو آئی اور ہم نے ہوم ورک کرنا شروع کردیا۔ آج پندرہ جنوری تھی یعنی طالبان کی طرف سے لڑکیوں کے اسکول نہ جانے کی دھمکی کی آخری تاریخ، مگر میری کلاس فیلو کچھ اس اعتماد سے ہوم ورک کر رہی ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔

آج میں نے بی بی سی کے لیے لکھی گئی اپنی ڈائری بھی پڑھی۔ ماں کو میرا فرضی نام ’’گل مکئی‘‘ بہت پسند آیا اور ابو سے کہنے لگیں کہ میرا نام بدل کر گل مکئی کیوں نہیں رکھ لیتے۔ مجھے بھی یہ نام پسند ہے، کیوں کہ مجھے اپنا نام اس لیے اچھا نہیں لگتا کہ اس کے معنی ’’غم زدہ‘‘ کے ہیں۔

ابو نے بتایا کہ چند دن پہلے بھی کسی نے ڈائری کا پرنٹ نکال کر انہیں دکھایا تھا کہ یہ دیکھو سوات کی کسی طالبہ کی کتنی زبردست ڈائری چھپی ہے۔ ابو نے کہا کہ میں نے مسکراتے ہوئے ڈائری پر نظر ڈالی اور خوف کی وجہ سے یہ بھی نہیں کہہ سکا کہ ’’ہاں یہ تو میرے بیٹی کی ڈائری ہے۔

اقوام متحدہ سے خطاب


اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں ملالہ یوسف زئی نے کہا،’’شدت پسند تعلیم کی طاقت سے خوف زدہ ہیں اور وہ دنیا میں اپنے حقوق کے لیے جدو جہد کرنے والے ہر فرد کی آواز ہیں۔ ملالہ ڈے صرف میرا دن نہیں، آج کا دن اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے والی ہر لڑکی اور لڑکے کا دن ہے۔ میں ہر اس شخص کی آواز ہوں، جس کی آواز کوئی نہیں سن رہا، وہ جو پرامن ماحول میں رہنے اور حصولِ تعلیم کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

طالبان کا خیال تھا کہ ان کی گولی ہمیں خاموش کر دے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس گولی سے کمزوری اور ناامیدی مر گئی جب کہ طاقت اور حوصلے کو نئی زندگی ملی۔ میں وہی ملالہ ہوں اور اب میرے عزائم، امید اور حوصلہ پہلے سے زیادہ بلند ہے۔

ہمیں قلم اور کتاب کی اہمیت کا اندازہ بندوق دیکھ کر ہوتا ہے۔ شدت پسند تعلیم کی طاقت سے خوف زدہ ہیں۔ وہ خواتین سے ڈرتے ہیں۔ وہ تبدیلی اور اس برابری سے خوف زدہ ہیں۔

قلم اور کتاب دنیا کے سب سے طاقتور ہتھیار ہیں۔ ایک طالب علم، ایک استاد، ایک قلم اور ایک کتاب دنیا تبدیل کر سکتے ہیں۔

میں اقوامِ متحدہ میں ہر بچے کی تعلیم کے حق کی بات کرنے آئی ہوں، میں طالبان اور دیگر شدت پسندوں کے بچوں کے لیے بھی تعلیم چاہتی ہوں۔ کیوں کہ تعلیم ہی سب مسائل کا واحد حل ہے اور ہماری سب سے بڑی ترجیح تعلیم ہی ہونی چاہیے۔

ملالہ نے اقوامِ متحدہ سے خطاب کرنے کا موقع ملنے کو اپنے لیے اعزاز قرار دیا اور اپنی صحت یابی کے لیے دعا کرنے والے تمام افراد کا شکریہ بھی ادا کیا۔

شلوار قمیص میں ملبوس، پیروں میں عام سی چپل، سر پر دوپٹہ اور سفید رنگ کی شال اوڑھے ملالہ یوسف زئی نے اقوام متحدہ کی سیکیوریٹی کونسل کے اسی پوڈیم پر خطاب کیا جہاں اس سے قبل ’’فیڈل کاسترو‘‘،’’جنرل ضیاء الحق‘‘، ’’یاسر عرفات‘‘، ’’بے نظیر بھٹو‘‘، ’’دلائی لاما‘‘، ’’باراک اوباما‘‘، ’’جارج بش‘‘، ’’نیلسن منڈیلا‘‘ اور ’’ہوگو شاویز‘‘ جیسی دنیا کی مشہور شخصیات خطاب کر چکی ہیں۔

ملالہ نے اقوام متحدہ میں کی گئی اپنی تقریر میں دنیا میں امن، علم، عدم تشدد اور برداشت کی تعلیمات کے لیے پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفیٰؐ ، حضرت عیسیٰٔ، مہاتما بدھ، مارٹن لوتھر کنگ، نیلسن منڈیلا اور محمد علی جناح کے حوالے بھی شامل کیے تھے۔ ملالہ یوسف زئی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ نیلسن منڈیلا کے بعد تقریر کرنے والی دوسری شخصیت ہیں، جنہیں اقوام متحدہ میں اتنی پذیرائی دی گئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔