اے مسلم خوابیدہ اٹھ!

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی  جمعرات 12 ستمبر 2013
drtayyabsinghanvi100@gmail.com

[email protected]

ایک دل توڑ کر تو نے مسجد بنائی!

ایک مان توڑ کر تو نے نماز پڑھی!

کسی کو رلا کر تو رب راضی کرنے چلا!

کسی کو ستا کر تو حج کر آیا!

تو نے نیکی کر کے گنہگار کو حقیر جانا!

اے کرنے والے، بہتر تھا کہ تو گناہ کر کے انسان رہ جاتا نیکی کر کے خدا نہ بنتا!

آج اسلام کی عدم معرفت اور دینی شعور کے عدم ادراک و آگہی کے فقدان نے ہماری ترجیحات کو ہی نہیں بدلا بلکہ ہمیں ہماری اصل دینی و معاشرتی ذمے داریوں سے بھی نابلد کر دیا ہے۔ ہم حقوق اللہ کا خیال رکھتے ہیں تو حقوق العباد کو قطعی فراموش کر دیتے ہیں۔ اگر حقوق العباد کی ادائیگی میں کامیاب ہوتے ہیں تو اللہ کے حقوق میں خیانت کر دیتے ہیں۔۔۔ اور اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اللہ کو اپنے حقوق سے زیادہ اپنے بندوں کے حقوق کی پاسداری کا بہت خیال ہے اسی لیے انسانوں پر واضح کر دیا کہ میں اپنے حقوق تو پھر بھی معاف کر دوں گا لیکن بندوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی اس وقت تک معاف نہیں ہو گی جب تک بندہ خود حق تلفی و زیادتی کرنے والے ظالم کو معاف نہیں کرے گا۔

آج ہمارا معاشرہ ظلم و زیادتی اور مظالم کی آماج گاہ بن گیا ہے، ہر طاقتور کمزور پر حاوی ہے، قطع صلہ رحمی، رشتہ داروں، فقراء، غرباء و مساکین کی حق تلفی اور ان کے ساتھ بداخلاقی و خود غرضی کا برتاؤ عام سی بات ہے، جھوٹ، غیبت، چوری، بے ایمانی، فراڈ، دھوکا دہی، کم تولنا، وعدہ خلافی کرنا، خیانت کرنا، مغلظات اگلنا، نازیبا کلمات کی ادائیگی، غلط بے قابو جذباتی مظاہرے، بدمعاملگی، بدگمانی و تکرار، تلخی بھرے لب و لہجے، کراہت ، ربط ضبط کا فقدان، شقی القلبی، شفقت و الفت اور عفو و درگزر سے ناآشنائی، رنجشیں، کدورتیں اور جھگڑے، عیب چینی و تذلیل آمیز رویے، طنز و تعریض، پھبتی اور تمسخر، تذلیل و توہین، رنگ نسل زبان اور ذات پات کی تفریق، مال و اسباب کی محبت، حرص و ہوس، حب جاہ، جلد بازی، سہل پسندی، احساس برتری کی خواہش اور دوسروں پر حکمرانی کی تمنا، نیکی کا حکم نہ دینا اور برائی کی جانب بلانا، اکل حلال کی بجائے حرام کی جانب رغبت، خوش طبعی اور مزاج سے بیزاری، بے صبری و عجلت، نرمی و ملاطفت سے محرومی، قتل و غارت گری، دینی ملی اور معاشرتی سطح پر وحدت و اخوت کا پارہ پارہ ہونا، یہی ہمارے طبایع کی وہ مختلف کمزوریاں ہیں جن کی وجہ سے آج ہمارے معاشرے یں اسلامی تشخص برائے نام رہ گیا ہے، ہمارے کردار کی کمزوریوں نے ہمارے دینی ملی و معاشرتی اقدار اور تقاضوں کو ایسا نقصان پہنچایا ہے کہ اب صرف برائیاں ہی ہمارے معاشرے کی اصل پہچان بن کر رہ گئی ہیں۔

ایک مرتبہ میں نے بیرون ملک ایک انگریز کو اسلام کی دعوت دی تو اس نے مجھے لاجواب کرتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے اسلام سے محبت ہے لیکن مسلمانوں سے نفرت ہے!‘‘ میں نے پوچھا ’’why?‘‘ تو وہ بولا ’’اس why کا جواب بھی آپ اور آپ کی قوم خوب جانتی ہے‘‘۔ اب میں کیسے اسے مطمئن کرتا کہ آج بیشتر اسلامی ناموں والے نام نہاد مسلمانوں کا درحقیقت اسلام کی زندہ و تابندہ عظیم تعلیمات سے اکثر دور کا واسطہ بھی نہیں کہ کہنے کو تو ہم سب مسلمان ہی ہیں لیکن اسلام کا مطلوب بندہ مومن اقبال کی نظر سے دیکھیے!

ہر لحظہ ہے مومن کی نئی آن نئی شان

کردار میں‘ گفتار میں اللہ کی برہان

اسلام تو دین فطرت اور رحمت و رافت کا علم بردار ہے۔ اس کی تمام تعلیمات امن وسلامتی کی ضمانت فراہم کرتی ہیں۔ مسلمان دوسروں کے لیے سہولت اور آسانی پیدا کرتا ہے وہ کسی کے لیے پریشانی اور تکلیف کا باعث نہیں بنتا۔ اسلامی اخلاق صفات عالیہ کا مرقع ہیں۔ رسول اللہؐ کی شخصیت میں زندگی گزارنے کا کامل اور بہترین نمونہ موجود ہے۔ مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ مسلمان بھائیوں کے ساتھ تو رحمت، شفقت، رافت اور مہربانی کا رویہ رکھتا ہی ہے نیز اس کو ان غیر مسلموں کے ساتھ بھی حسن سلوک کی تعلیم دی گئی ہے جو اسلامی ریاست میں آباد پرامن زندگی بسر کر رہے ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زندگی گزارنے کا لائحہ عمل قرآن حکیم کی صورت میں دیا ہے اس میں حقیقی کامیابی کے حصول کا اجمالی خاکہ موجود ہے، یقینا ہر مسلمان کے لیے قرآن و سنت کے مطابق گزرنے والی زندگی سراپا امن و سلامتی ہے جس کی فیوض و برکات سے اپنے اور غیر سب بہرہ مند اور مستفید ہوتے ہیں۔

لیکن آج ہم اپنی معاشرتی ذمے داریوں سے غافل اور اسلامی تعلیمات سے بہت دور ہیں، شناخت اور پہچان مبہم و مشکوک ہوتی جا رہی ہیں، آج بے عملی اور بدعملی کی اس روش کی بنا پر داخلی و خارجی دونوں سطح پر ناکام اور دنیا بھر میں بدنام اور ذلیل و رسوا ہو رہے ہیں، غلامی ہم پر مسلط کر دی گئی ہے۔ ہم کفار کی سازشوں کا رونا تو بہت روتے اور بڑا واویلا کرتے ہیں لیکن آج ہم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے اپنے دینی، ملی اور معاشرتی اقدار کی بقا اور اسلام کے تحفظ کے لیے اپنے اپنے حصے کا کام کیا ہے؟ ہم اپنے عظیم اسلاف کی طرح باکردار ہیں اور نہ ہی اسلام کے ساتھ اتنے مخلص جتنے ہمارے دشمن اسلام دشمنی کے ساتھ مخلص ہیں۔

اگر ہم سب اپنا اپنا محاسبہ کریں، اپنے نفس اور ذات کی اصلاح کریں، اپنے ضمیر کو بیدار کریں، اپنے فرائض میں کام چوری اور غفلت شعاری کے لیے اپنی خواہشوں کو ڈھال نہ بنائیں تو ہمارا ضمیر خود گواہی دے گا کہ اغیار سے زیادہ ہم خود اپنے دشمن ہیں اور اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی چلا رہے ہیں۔ ہم خود اپنے پیارے نبیؐ کی مبارک سنتوں اور پاکیزہ طریقوں پر عمل کیوں نہیں کرتے؟ ہم جو اپنے فرائض اور ذمے داریوں سے آنکھیں چرانے کے لیے اپنے ہر نقصان کو یہود و نصاریٰ اور ہنود پر ڈال دیتے ہیں، ہمیں خود رحمۃ اللعالمینؐ کی بتائی ہوئی ہدایات پر عمل کرنے کی توفیق کیوں نہیں ہوتی؟ آخر ہمیں اسلام کی امن وسلامتی پر مبنی تعلیمات پر عمل کرنے سے امریکا نے روک رکھا ہے؟

نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، جہاد، داڑھی، حسن سلوک، بھائی چارہ و مواخات، انفاق فی سبیل اللہ، نیکی کی دعوت اور برائی سے روکنا، امن و سلامتی اور پرسکون ماحول کے قیام میں کردار ادا کرنے سے اسرائیل نے روکا ہے یا ہماری خواتین کو اولاد کی بہتر اخلاقی تربیت، سیرت و کردار کی تعمیر اور پردے کے احکام پر عمل کرنے میں بھارتی سازش رکاوٹ بنی ہوئی ہے؟ ہمارے گھروں میں آلات فحاشی کون سا دشمن ملک رکھ گیا ہے؟ ہم اپنی اولاد کو کسی امریکی دباؤ پر اسلام کی زندہ جاویداں تعلیمات سے دور اور محروم رکھتے ہیں؟ ہماری شادیوں پر اسلامی سادگیوں سے ہٹ کر ہندوانہ رسومات بجا لانے کے لیے کب بھارتی ایجنٹ آتے ہیں؟ اکثر معاملات میں تو ہم خود ہی اپنے دشمن ہیں اور پھر ان کے بھیانک نتائج کا خمیازہ بھی بھگت رہے ہیں۔

وہ تہذیب و قوم جس نے بحیثیت مسلمان ہزار سال دنیا پر حکمرانی کی، عروج کی منزلیں طے کیں، پچھلے ڈھائی، تین سو سال سے بتدریج روبہ زوال ہے اور اس زوال کی اصل وجہ بغاوت، نافرمانی، بدامنی اور ظلم کی راہ اختیار کرنا ہے جس کی وجہ سے اللہ نے ہمیں خوف، حزن و ملال، مصیبتوں اور پریشانیوں میں مبتلا کر دیا ہے، لوگ امریکا کی مثال دیتے ہیں کہ امریکا ترقی کی شاہراہ پر کیسے گامزن ہے؟ امریکا کی تاریخ پڑھنے والے جانتے ہیں کہ جن لوگوں نے اس ملک کو اس مقام تک پہنچایا ہے انھوں نے برسوں بڑی محنت اور ایمانداری کے ساتھ، لگن اور صبر کے ساتھ کام کر کے پورے وسائل کو فتح کیا ہے۔

ہم لوگ خیال کرتے ہیں کہ یورپ نے پوری دنیا کے اندر جو غلبہ حاصل کیا ہے وہ سائنس و ٹیکنالوجی کا نتیجہ ہے لیکن اگر یورپ کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم چلتا ہے کہ جس جذبے نے یورپ کی اقوام کو یورپ سے نکال کر دنیا کی تسخیر کی راہ پر ڈالا وہ وحشیوں (Barbarians) کو ترقی دینے اور مہذب بنانے کا جذبہ تھا، دنیا کو تہذیب سے روشناس کرانے کا جذبہ اور مقصد انھیں دنیا کے کونے کونے تک لے گیا۔ اسلام کی مثال خود ہمارے سامنے ہے۔ مسلمانوں کے پاس نہ سائنس و ٹیکنالوجی تھی، نہ اسلحہ اور وسائل لیکن مقصد سے لگن اور محبت ان پر غالب ہوئی تو پھر وہ دنیا کے اندر پھیلتے چلے گئے اور صرف 200 سال کے اندر انھوں نے ایک ایسی تہذیب کی بنیاد ڈالی جو آج بھی موجود ہے اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ میں ایمان و تقویٰ، صبر و استغفار کی کوئی مادی تعبیر کر رہا ہوں بلکہ میرا مقصد یہ ہے کہ جہاں اس کا فقدان ہے، خواہ صحیح بات کے لیے ہو وہ مغلوب ہو گا اور جہاں یہ موجود ہے، خواہ غلط بات کے لیے ہو، وہ غالب ہو گا، پس آج ہمیں بھی اس مقصد اور جذبے کی اشد ضرورت ہے۔

مسلم خوابیدہ اٹھ‘ ہنگامہ آرا تو بھی ہو

وہ چمک اٹھا افق‘ گرم تقاضا تو بھی ہو

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔