’’سفرگزشت‘‘ ایک منفرد سفرنامہ

سعد اللہ جان برق  جمعرات 11 جولائی 2019
barq@email.com

[email protected]

بہت پرانے زمانے کی بات ہے ایک شخص ہمارے پاس ایک فلمی کہانی لے کرآیا کہانی میں اب تک بننے والی تمام ہندی پاکستانی فلموں کے چیدہ چیدہ ٹکڑے اور مکالمے درج تھے۔جب کہ ہیرو پر مختلف شہروں میں چار چار لڑکیاں لٹو ہوئی تھیں اورتینوں کا نام اتفاقاً ’’رضیہ‘‘ ہوتا تھا۔

وہ شخص وہ کہانی تو اپنی جگہ جس سلوک کے مستحق تھے وہ ہم نے کیا۔ لیکن آج اچانک ایک ملاقاتی نے ہمیں وہ کہانی یاد دلا دی۔یہ جس ملاقاتی کا ذکر ہم کررہے ہیں اس کانام بھی کوئی پانچویں مرتبہ ہمارے سامنے آیاتھا اس سے پہلے اسی نام کے چار دوست ہم بھگتاچکے ہیں۔بلکہ ہارچکے ہیں بتا ہی دیتے ہیں کہ اس کانام’’عتیق‘‘ہے لیکن اس سے پہلے والے چار عتیقوں کے نام کے ساتھ جو لاحقہ لگاتھا وہ اس کے نام کے ساتھ بھی ہے۔اس’’عتیق حاضرہ‘‘اور اس کتاب ’’سفرگزشت‘‘پر تو بعد میں بات کریں گے۔

پہلے سابق ’’عتیقوں‘‘کا تھوڑا بیان ہوجائے بلکہ باقی سب ’’عتیقوں‘‘ کو زمانہ عتیق میں ڈال کرصرف ایک عتیق کا ذکر اس لیے کریں گے کہ ہم آج تک یہ سمجھ نہیں پائے کہ اس کی اور ہماری’’کٹی‘‘کیوں ہوگئی کم ازکم ہمیں پتہ نہیں شاید اسے پتہ ہو کیونکہ کٹی اس کی طرف سے ہوئی تھی اور ہے۔ اس عتیق سے ہماری شناسائی تو ٹی وی میں ہوئی تھی جہاں وہ پروڈیوسر بن کر آیاتھا لیکن اس سے اصل تعلق تین پیڑیوں کا تھا ان کے دادا سے بھی ہمیں نیاز حاصل تھا کیونکہ وہ تھے تو روزنامہ شھباز کے نیوز ایجنٹ لیکن اردو ادب اور ادیبوں کے انسائیکلوپیڈیا تھے اور لاہور میں رہے تھے اور اختر شیرانی مولانا ظفرعلی خان، عدم۔

منٹو،کرشن چندر سب کے انتہائی قریب رہے تھے۔ اور بڑے’’ایکسکلوزیو‘‘ قسم کے واقعات ان ادباء وشعراء کے بارے میں ان کے پاس تھے۔پھر ان کا بیٹا بھی اسی پیشے میں تھا اور بہت بڑی نیوز ایجنسی کا مالک تھا لیکن پھر اس کا بیٹا زندگی کے اس موڑ پر ملا تو اس کے ساتھ تعلق میں یہی تین پیڑیوں کا تعلق بھی شامل تھا۔ہم نے کئی ڈرامے ساتھ کیے بڑا محنتی اور ذہین پروڈیوسر تھا۔لیکن کچھ وجوہات کے سبب سے استعفیٰ دے کر امریکا چلا گیا۔

اس کے بعد صرف سنتے رہے کہ وہاں یہ کررہاہے وہ کررہاہے شاید کوئی ریستوران کا کاروبار تھا۔خیر اب اس عتیق صاحب کی بات جو اچانک ہم سے ہمارے خراب آباد میں ملنے آئے وہ بھی ڈھونڈنے میں کافی تکلیف اٹھاکر کیونکہ آج کل ہم ’’فراری‘‘ہیں اپنے اصل گھر گاؤں کو چھوڑ کر دور جنگل بیابان میں کھیتوں کے درمیان گوشہ نشین ہیں، کوئی پوچھتا  ہے توہم بتاتے ہیں کہ ’’ملزم فرار ہونے میں کامیاب‘‘کی پوزیشن رکھتا ہوں۔

ان عتیق صاحب نے یا چلیے پورا نام ہی لیے لیتے ہیں ’’عتیق صدیقی‘‘جو ہماری زندگی کے چھوتے عتیق صدیقی ہیں پانچواں صرف عتیق ہے لیکن صدیقی کے بجائے ’’عتیق معروف‘‘ایک افغانی تھا۔یہ عتیق صدیقی بالکل ہماری کیٹگری کے ہیں کالم نگار بھی ہیں اور مزاح نگار بھی۔جس کا زندہ ثبوت ان کا سفرنامہ سفرگزشت ہے اور یہ ان چند کتابوں میں سے ایک ہے جوہم نے پوری کی پوری پڑھی ہے تحریر میں مزاح اور طنز کا کھٹامیٹھا تو ہے ہی لیکن ایک اور بات بھی ہے کہ یہ بالکل ایک آدمی کا ایک عام سا سفرنامہ ہے۔

جس میں لگژری ذرایع مواصلات، ہائی فائی قسم کے ہوٹلوں اور عالم میں انتخاب قسم کی ائرہوسسٹوں اور چندے آفتاب چندے مہتاب حسیناؤں کا ذکر نہیں بلکہ زمین پر رہنے والے زمین زادوں کا ذکراذکار ہے۔کچھ عرصہ سے ہمارے ہاں’’ ابن بطوطے‘‘اور’’مارکو پولے‘‘ کچھ زیادہ پیدا ہونے لگے جو اصل میں زیادہ تر ’’کولمبسے‘‘ ہوتے ہیں اور کسی فرڈی نینڈ اور اس کی ملکہ کے لیے ’’امریکا‘‘دریافت کرنے نکلے ہوتے ہیں یعنی ’’دوسرے‘‘ کے خرچے پر گل چھرے اڑائے جاتے ہیں اور پھر اپنی  ’’نوکری‘‘کے ساتھ ساتھ سفرنامے کی ایک ’’ٹوکری‘‘بھی اٹھالاتے ہیں جس میں زیادہ تر کاغذی پھول ہی بھرے ہوتے ہیں زیادہ کسی این جی او یا آرگنائزیشن کے نوسرباز لکھاری ہوتے ہیں یا سرکاری مندوبین وغیرہ۔ لیکن زیادہ تر کسی بیرونی ادارے یا افراد کے زبردستی کے مہمان ہوتے ہیں لیکن ’’بن بلائے‘‘نہیں ہوتے بلکہ خود کو زبردستی بلوانے والے بھی ہوتے ہیں۔ان میں سے زیادہ تر تو باقاعدہ سفرنامے لکھتے ہیں جن میں سے اگر لکھنے والے کو منہا کیاجائے توصرف’’صفرنامہ‘‘رہ جاتا ہے ۔

لیکن عتیق صدیقی کا سفرنامہ یا سفرگزشت ایک عام آدمی کا سفرنامہ ہے جو بسوں ریلوں رکشوں اور پیدل چلتاہوا اپنے رشتے داروں سے ملنے ملتان سے لکھنو،ملیح آباد وغیرہ گیاہے اور عام ہی لوگوں کی عام تکالیف اور کٹھنائیوں سے گزرا ہے اور اونچی اڑانوں اور مصنوعی ماحول کو نکالا جائے تو یہی ’’عام لوگ‘‘ہی زندگی اور معاشرے کے ’’رنگ‘‘ لیے ہوئے ہوتے ہیں۔اس میں بہت سارے ایسے چھوٹے لوگ ہیں جو بڑے لوگوں کو اپنے کاندھوں پراٹھا کر ’’بڑے‘‘ اور اونچے بناتے ہیں یوں کہیے کہ اس ’’عالی شان‘‘محل کی وہ بنیادی اینٹ ہوتے ہیں جو نظر نہیں آتے لیکن محل کو اونچا کیے ہوئے ہوتے ہیں۔

ہمیں تو اس لیے بھی زیادہ لطف آیا کہ ہم  خود بھی اگر ہند کے کچھ مقامات دیکھنے کی تمنا رکھتے ہیں تو ان میں لکھنو ملیح آباد رامپور وغیرہ سرفہرست ہیں۔سفرنامے میں جہاں عام آدمیوں کے واقعات ہیں جن میں صدیقی صاحب نے اپنے طنزومزاح سے بڑے خوبصورت رنگ بھرے ہیں۔بہرحال’’سفرگزشت‘‘۔’’کرایہ ڈوب‘‘کے بجائے ’’کرایہ وصول‘‘کتاب ہے۔ہمیں تو اور خوشی اس لیے ہوئی کہ کتاب کے ساتھ ساتھ ’’گمشدگان‘‘کی جگہ ایک اور ’’عتیق‘‘مل گیا جو بالکل ہمارے ڈھب اور ٹائپ کا ہے اور زیادہ خوشی اس کی ہوئی کہ سفرناموں کے ’’جمعہ بازار‘‘میں کہیں کہیں سفرنامے بھی مل جاتے ہیں اور پھر’’ناکردہ گناہوں‘‘کی حسرت بھی کوئی چیز ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔