دھرتی ماں کو اتنے زخم!

آفتاب احمد خانزادہ  جمعرات 12 ستمبر 2013

1854 میں جب امریکا کی حکومت نے سرخ فا م انڈین قبائل کو ان کی زمینیں بیچنے کی دعوت دی تو سو کوامش (Suquamish) قبیلے کے سردار Chief Seattle نے مندرجہ ذیل جواب بھیجا۔ ’’اے واشنگٹن کے سفید فام سردار! ہمیں پیغام آیا ہے کہ تم ہماری زمینیں خریدنا چاہتے ہو۔ تم نے اپنی دوستی کا ہاتھ بھی بڑھایا ہے۔ یہ تمہاری مہر بانی ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ تمہیں ہماری دوستی کی بہت کم ضرورت ہے۔ ہم تمہاری دعوت پر غور کریں گے۔ ہمیں اس بات کا احساس ہے کہ اگر ہم نے اپنی زمینیں نہ بیچیں تو تم اپنی بندوقیں لے کر آ جائو گے اور ان پر قبضہ کر لو گے۔ ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ ہم اپنے آسمان کی وسعت اور اپنی دھرتی ماں کی چاہت کیسے بیچیں یہ خیال ہمارے لیے نیا ہے۔ اگر ہم خود بھی اپنی ہوا کی تازگی اور اپنے پانیوں کی لطافت کے مالک نہیں ہیں تو تم ہم سے وہ کیسے خرید سکتے ہو۔ ہمار ی دھرتی ماں ہمار ے لیے مقد س ہے۔

اس کی گھا س کا ہر تنکا، اس کی ریت کا ہر ذرہ، اس کے جنگلوں کا ہر درخت اوراس کی فضائوں کا ہر پتنگا ہمار ے لیے محتر م ہے۔ جب درختوں کے پتے ہوائو ں میں جھومتے ہیں تو ماضی کی سب یادیں، جو ہمارے ذہنوں میں محفو ظ ہیں تازہ ہو جاتی ہیں۔ سفید فام قوم کے مرد ے جب ستاروں کی سیر کرنے جاتے ہیں تو وہ اپنی دھرتی کو بھول جاتے ہیں لیکن ہمارے بزرگ اسے یاد رکھتے ہیں کیونکہ وہ اسے اپنی ماں سمجھتے ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ ہم دھرتی ماں کا حصہ ہیں نہ کہ وہ ہمار ی ذات کا حصہ ہے۔ اس دھرتی کے خوشبودار پھول ہمار ی بہنیں ہیں۔ اس دھر تی کی چھاتی پر چلنے والے ہر ن اور گھوڑے اور ان کی فضائوں میں اڑنے والے شہباز اور کبوتر ہمارے بھائی ہیں۔ ہم سب ایک ہی خاندان کا حصہ ہیں۔ اے واشنگٹن کے سردار! تم نے جو ہماری دھرتی ماں کی چاہت اور خوشبو کو خریدنے کا پیغام بھیجا ہے کیا تم جانتے ہو تم کس چیز کا سودا کر رہے ہو تم کہتے ہو تم نے ہمارے لیے ایک علاقہ مخصوص کر رکھا ہے تا کہ ہم آرام و سکون کی زندگی گزار سکیں۔

تم چاہتے ہو کہ تم ہمارے با پ بن جائو اور ہم تمہارے بچے۔ ہم تمہاری دعو ت پر غور کریں گے لیکن یہ مرحلہ آسان نہ ہو گا کیونکہ ہم اپنی دھرتی ماں کا بہت احترام کرتے ہیں۔ ہمار ی ندیوں اور دریائوں میں جو پانی بہتا ہے وہ پانی نہیں بلکہ ہمارے آبائو اجداد کا خون ہے۔ اگر ہم اپنی زمینیں بیچ دیں تو تمہیں اپنے بچوں کو یہ وصیت کرنی ہو گی کہ وہ ان کا احترام کریں۔ ہمار ی دھرتی کے دریا ہمارے بھائی ہیں جو ہماری پیاس بجھاتے ہیں ۔ یہ دریا ہمار ی کشتیوں کو سہارا دیتے ہیں اور ہمارے بچوں کی بھو ک مٹا تے ہیں۔ اس لیے اگر تم نے یہ دریا خرید لیے تو تمہارے بچوں کو ان کا ایسا خیال رکھنا ہو گا جیسے کوئی اپنے بھائی کا خیال رکھتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ماضی میں قبائلی لوگ سفید فام لوگوں کے آگے ایسے ہی پسپا ہوتے آئے ہیں جیسے سو رج کی روشنی کے آگے پہاڑوں کی دھند پسپا ہوتی ہے۔ ہم ان زمینوں کا احترام کرتے ہیں کیونکہ ان میں ہمارے آبا ئو اجداد کی راکھ دفن ہے۔

ہمارے لیے ان کی قبریں، پہاڑ اور درخت سب محترم ہیں۔ اے واشنگٹن کے سردار! ہمارے اور تمہارے نقطہ نظر اور طر ز زندگی میں بہت فرق ہے۔ نہ ہم تمہیں سمجھ پائے ہیں اور نہ تم ہمیں۔ جب ہم تمہارے شہروں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں بہت دکھ ہوتا ہے۔ ان میں خا موشی کا فقدا ن ہے۔ وہاں اتنا شور ہوتا ہے کہ کوئی انسان بہار میں پتوں کر سرسرانے اور پتنگوں کے پھڑپھڑانے کی آواز نہیں سن پاتا۔ تمہارے شہروں کا شور ہمارے کانوں کو مجروح کرتا ہے۔ اگر انسان جانوروں کی کراہ یا تالاب کے گرد مینڈکوں کے مباحثے کو بھی نہ سن سکے تو اس کی زندگی کا کیا فائدہ۔ قبائلی لوگ جھیل کے رخساروں کو سہلاتی ہوا کے لمس اور بارش میں دھلے ہوئے پھولوں سے معطر فضا سے محظوظ ہونے کے عادی ہیں۔ ہمیں ہماری ہوا بہت عزیز ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ انسان، جانور اور درخت ایک ہی فضا میں سانس لیتے ہیں۔ اسے سفید فام سردار! اگر ہم نے یہ زمینیں بیچ دیں تو تمہیں ان کی ہوائوں کا خیال رکھنا ہو گا کیونکہ وہ ہمیں بہت عزیز رہی ہیں۔ یہ ہوائیں زندگی کا تحفظ کرتی ہیں۔

اگر ہم نے یہ زمینیں بیچنے کا فیصلہ کیا بھی تو اس شرط پر کہ سفید فام انسان دھرتی کے جانوروں کو بھی اپنا بھائی سمجھیں گے۔ ہم قبائلی لوگ جانوروںکو بھی عزیز رکھتے ہیں۔ ہم نے سفید فام انسانوں کو پہاڑوں اور وادیوں سے گزرتی ہوئی ریل گاڑی کی کھڑکی سے ہزاروں بھینسوں پر گو لیاں برساتے دیکھا ہے۔ ہم ان کی ذہنیت کو نہیں سمجھتے۔ ہم سوچتے ہیں کہ اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے معصوم جانوروں کا قتل کیسے روا ہو سکتا ہے؟ ہماری نگا ہ میں انسانوں اور جانوروں کی زندگی میں گہرا رشتہ ہے۔ اگر سب جانور ختم ہو گئے تو انسان تنہا ہ رہ جا ئے گا۔ جو مصیبتیں آج جانوروں پر گزرتی ہے وہی کل انسانوں پر گزریں گی۔ اس زندگی میں سب چیزیں آپس میں مربوط ہیں۔ اے سفید فام سردار! تمہیں اپنے بچوں کو سکھانا ہو گا کہ وہ جس زمین پر قدم اٹھاتے ہیں اس کے نیچے ان کے آبائو اجداد کی راکھ دفن ہے۔ انھیں اس دھرتی کا احترام کرنا ہو گا۔ کیونکہ اس کی آغوش میں ہمارے بزرگوں کے خزانے دفن ہیں۔

ہماری طرح تمہیں بھی اپنے بچوں یہ درس دینا ہو گا کہ دھرتی ہماری ماں ہے۔ اس دھرتی ماں پر جو بھی آفت آئے گی وہ ایک دن اس کے بچوں کو بھی متا ثر کرے گی۔ جو انسان اس دھرتی کے چہرے پر تھوکتے ہیں وہ دراصل اپنے چہرے پر تھو ک رہے ہوتے ہیں۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ ہم دھرتی کے مالک نہیں وہ ہماری مالک ہے۔ انسان نے زندگی کا جال نہیں بنا وہ صرف اس جال کا ایک دھا گا ہے۔ وہ اس جال کے ساتھ جو سلوک کرتا ہے وہ دراصل اپنے ساتھ وہی سلوک کر رہاہوتا ہے۔ ہم اپنے آپ سے پوچھتے ہیں کہ آخر ہم اپنے بزرگوں کے مرنے سے غمزدہ کیوں ہیں قبائل انسانوں سے بنتے ہیں اور انسان فا نی ہیں۔ وہ سمندر کی لہروں کی طرح آتے ہیں اور جاتے ہیں۔ سب قوموں کی منزل ایک ہی ہے۔ اے سفید فام سردار! اگر ہم نے اپنی دھرتی ماں بیچ دی تو تم اس کی یادوں کو ذہن میں محفو ظ رکھنا اور اس کا احترام کرنا۔ اس سے اسی طرح محبت کرنا جیسے خدا ہم سب سے محبت کر تا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ ہمارا خدا ایک ہے اور ہم ایک ہی منزل کے مسافر ہیں۔ سفید فام قوم بھی ہماری طرح اپنے مقدر سے نہ بچ سکے گی۔ ہم اپنے آسمان کی وسعت اور اپنی دھرتی ماں کی چاہت اور خوشبو کو بیچنے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کر یں گے لیکن یہ تصور ہمارے لیے نیا ہے۔ یہ تو تھی امریکا کی کہانی۔ ادھر پاکستان کی دھرتی میری ماں ہے لیکن دھرتی ماں کی آج اتنی دردناک حالت ہے کہ بیان کرتے ہوئے قلم بھی روتا ہے۔ میں اپنی ماں کا مجرم ہوں۔ میں نے اپنی دھرتی ماں کو اتنے زخم دیے ہیں کہ وہ چھلنی چھلنی ہے۔ انسان انسان سے ڈر رہاہے۔ قتل کر رہا ہے قتل ہو رہا ہے۔ مرنے والے کی زبان پر بھی کلمہ ہے اور مارنے والے کی زبان پر بھی۔ ایک وقت تھا جب میری دھرتی ماں میں محبت گنگناتی تھی وہاں آج موت مسکراتی ہے غربت، بھوک، افلاس، بیماریوں، انتہاپسندی، دہشت گردی کا راج ہے۔ میرے آبائو اجداد کی قبر وں کی خاموشیاں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ تو ہماری امانت کی حفا ظت نہ کر سکا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔