کتابیں شکست نہیں کھائیں گی

نادر شاہ عادل  جمعرات 11 جولائی 2019

’’ نادر بیٹے، تمہارے شیلف میں مجھے انگریزی گرامرکی کتابیں بہت زیادہ نظرآرہی ہیں؟‘‘یہ سوال لیاری والے دوکمروں کے گھر میں پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی مختار رانا نے پوچھا تھا۔ ان کی نگاہ wren & Marten پر پڑی تو گرامرکی کتابیں نکال کر میز پر رکھ دیں۔

مسکرائے اور میرے والد اسرار عارفی کی طرف منہ کرکے کہنے لگے، ’’ برخوردار نے بڑی کتابیں جمع کی ہیں‘‘ وہ خود فرش پر بستر بچھوا کر سوئے تھے،گزشتہ روز انھوں نے بھٹو صاحب کی بلائی گئی ہالہ کانفرنس میں اراکین اسمبلی کی دھواں دھار تقریریں سنی تھیں۔ مختار رانا صاحب خود بھی اسپیکر تھے،کانفرنس کی کہانی دوسری صبح ابو سے بیان کرتے ہوئے بولے حضرت عمرؓ اور اسلام کے معاشی نظام پر میری انقلابی تقریرکے نوٹس لیتے ہوئے بھٹو صاحب سخت برہم ہوئے تھے، غالباً اسی جرات اظہار ہی پر انھیں پی پی سے راستے الگ کرنا پڑے ، قید وبند کی صعوبتیں جھیلیں، ملٹری کورٹ نے دس کوڑوں کی سزا سنائی مگر مختار رانا کی عدالت کے سامنے بیان اور سیاسی نظریات کے بے باکانہ اظہار پر عدلیہ اس انتہائی اقدام سے گریز پا رہی۔ باقی   سزا رانا صاحب نے پوری کی۔

مختار رانا کا تعلق والد محترم سے خاکسار تحریک سے تھا،ان کے جیش سے متعلق لوگوں میں میر عالی احمد تالپور، رسول بخش تالپور، عبداللطیف بٹ،  میر غلام قادر ہمدانی اور دیگر دوست و قلمکار شامل تھے۔

مختار رانا جب بھی لائل پور سے کراچی آتے ان کا قیام لیاری میں ہمارا گھر ہوتا تھا۔ بڑے بھائی سید امداد حسین پیپلز پارٹی کے رکن سندھ اسمبلی تھے، مختار رانا کی سیاسی اور فکری تربیت سے بھائی جان بھی مستفید ہوئے۔1970 کے الیکش میں امداد حسین ، عبدالستار گبول ، علی احمد سومرو، پروفیسر این ڈی خان، پروفیسر ماہ بی بی بلوچ، عبداللہ بلوچ، عبدالرحیم بلوچ ، سید  سعید حسن، ولی محمد لاسی، خدا بخش لاسی ، اللہ بخش یوسفی و پارٹی کے جلسوں میں شعلہ بیانی میں اپنی مثال آپ تھے۔بعد ازاں پی ٹی وی نیلام گھر فیم طارق عزیز بھی کراچی کے انتخابی جلسوں میں مین اسپیکر ہوتے تھے، ان کے جوش خطابت کا تقابل  صرف معراج محمد خان ہی کے انداز خطابت سے کیا جاسکتا تھا۔

مختار رانا جب کراچی پہنچے تو ان کے ہمراہ پی پی کے دو اہم، ایم این اے بھی تھے، قصور سے خورشید علی خان اور مردان سے عبدالخالق خان نے پروفیسرکرارحسین اور پائنیر انشورنس کمپنی کے سربراہ عابد زبیری کے ہاں رہائش اختیار کی۔ تاج حیدر کا اسی حوالہ سے لیاری کنکشن مضبوط و مستحکم ہوگیا تھا۔ لیاری ہی کی ایک گلی میں برصغیر کے بہت بڑے مزدور لیڈرخورشید محمد خان رہتے تھے جو ’’ کے پی ٹی لیبر آرگنائزیشن‘‘ کے سیکریٹری جنرل تھے، میں نے ان جیسے دیانتدار محنت کش رہنما بہت کم دیکھے، بابا منظور رضی اس کی شاید تصدیق کر دیں۔ مختار رانا کی یاد میں خالد علیگ نے ایک قطعہ اور چند اشعار بھی لکھے تھے، جن کی خطاطی ’’حریت‘‘ کے نامور خطاط سلیم اختر نے کی، قطعہ تھا۔

ساتھیو اب بھی وہی رسم چلی آتی ہے

کوئی صیاد ہوا اور کوئی صید ہوا

تم کہ ہر حال میں عیسیٰ کے حواری نکلے

میں کہ ہر دور میں مصلوب ہوا، قید ہوا

دیگر چند شعر یہ تھے،

دشت پیما ہے نفس لاکھ بگولوں کی طرح

دل میں یادیں تری محفوظ ہیں پھولوں کی طرح

گرچہ مامور من اللہ نہیں تھے ہم لوگ

ظلم ہنس ہنس کے سہے ہم نے رسولوں کی طرح

حسن ہی حسن ہے دنیا میں جدھر بھی دیکھو

عشق پہ جب سے رکھی ہم نے اصولوں کی طرح

اب آئیں اصل گفتگو کی طرف جو انگریزی گرامر کی کتابوں سے شروع ہوئی تھی۔ یہ میرے ایم اے فائنل کا زمانہ تھا، فٹ پاتھ سے کتابیں خریدنے کا جنون تھا، لیاری میں حسن قصرقندی، غلام قادر اور قلندر بخش کتابی کیڑا تھے، میں نہیں سمجھ سکا کہ لیاری کے ایسے لاتعداد گمنام نوجوانوں کا شاندار اور تابناک مطالعہ رائیگاںکیسے گیا، وہ لوگ ہوا کے دوش پر رکھے ہوئے چراغوں کی طرح کیسے بجھ گئے۔کیوں تاریکی بڑھی، پھر جب ن، میم دانش نے لیاری میں ظہورکیا ، منفرد شاعری میں شناخت پائی، عروج حاصل کیا اور زاہدہ حنا کی رفاقت و قلمی تعاون ، مشاعروں، ڈیبیٹ سے اردوکالج میں تہلکہ مچایا تو آرٹس کونسل کی ایک تقریب میں پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ  قاسم نے کہا کہ ن م دانش کی شاعری تفکر آمیز ہے۔

موقع مناسب دیکھ کر سجاد میر نے لقمہ دیا کہ لیاری کے ن م دانش کو میں نے نادرشاہ عادل کے توسط سے دریافت کیا کیونکہ شاہ جی کی مادری زبان بھی بلوچی ہے جنھیں اکثر دوست غلطی سے حیدرآباد دکن کی گدڑی کا لال سمجھتے ہیں۔کئی دوست آج بھی کہتے ہیں کہ شاہ جی آپ کی اردو گفتگو اور تحریر میں بلوچیت اور‘‘ اڑے واجہ کب بجے گا باجہ‘‘ کی فاروق پراچہ والی بے ساختیت نہیں ہے، میں انھیں بتاتا ہوں بندہ پر تقصیرفٹ پاتھ کی کتابوں کا طالب علم ہے ، میری اور ہر نئی نسل کی زندگی اور ان کا مستقبل کتب بینی سے عبارت ہونا چاہیے۔ ہم جیسے بے منزل نوجوانوں کا پورا لڑکپن اور جوانی لیاری میں پرانی کتابوں کی دشت کی سیاحی میں گزری۔

کوڑھی گارڈن، ریگل چوک، ٹاور، لائٹ ہاؤس، فیروز سنز ، نور محمد بک سیلرز ،کے ایم سی اسٹیڈیم، بند روڈ (ایم اے جناح روڈسابقہ) غلام علی ، شیخ شوکت علی بک شاپ کے علاوہ جس جگہ پرانی کتابوں کا سرمایہ دیکھا اور پتھارے پر ادبی ماہنامے، ویکلی رسالے دیکھے ان کا شکارکیا، اسی حوالہ سے مختار رانا کا سوال تھا کہ جب اردو کی اچھی کتابوں کا ذخیرہ کرلیا ہے تو بیٹے اب گریمراورکمپوزیشن  کو خیر باد کہہ دو ۔کیا آپ کو ماضی استمراری،ماضی مجہول یاد ہونگے۔

میں سنتا رہا، خاموش تھا، اندرکی دنیا میں ایک ارتعاش سا آیا کہ باتیں رانا جی کی درست ہیں ۔ اب مجھے داغ دہلوی کی شاعری، میر وغالب اور فیض وفراز، میر گل خان نصیر، سید ہاشمی، مبارک قاضی اور محمد بیگ بلوچ کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ انگریزی ادب پر توجہ دینا ہوگی۔والد نے بھی کہہ دیا تھا کہ جب پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کررہے ہو تو اردو جرنلزم کا کیا بنے گا، صحافی تو خبریں بنانے سے ہی بنتا ہے جس طرح مشہور ہے کہ اردو زباں آتی ہے آتے آتے۔ مجھے والد صاحب کی خوشنویسی ، شاعری، تراجم اور خطاطی  کے تجربوں سے بھی واسطہ پڑا تھا، میں ان کے لیے ریشم کا کیڑا تھا۔

مجھے مختار رانا نے ایک کلیدی فقرہ کہا کہ ’’نادر بیٹے آپ نے اردو کی کتابیں پڑیں تو اردو لکھنا آگیا،اب انگریزی پڑھنا شروع کروگے انگریزی بھی آجائے گی، یہ تاکید مجھے انگریزی ڈان اخبار کے فضل بلوچ نے کی کہ شاہ جی انگریزی ناول پڑھو۔ خبرکی کاپی نکھرے گی۔ مختار رانا کی بات میں نے یاد رکھی کہ گریمر اور کمپوزیشن ایک حد تک لازم ہے مگر ان کی کتابیں پڑھنے سے جارج برناڈشا کی انگریزی نہیں آئے گی۔

آج سوچتا ہوں اور خاصا فکری و ذہنی بحران میں مبتلا ہوں کہ پرنٹ میڈیاکی موت کے نقارے بجتے دیکھتا ہوں تو کیا کروں ، نئی نسل کو کس طرح حوصلہ دیا جائے کہ وہ کتابوں سے دوستی کرلے، اچھا ادب پڑھے، ممتازکالم نویسوں کی تحریروں کو اپنے نصاب میں شامل کرے، اردو زبان پر توجہ دے، فصیح  اور بلیغ زبان کی  جمالیات سے قربت پیدا کرے، نئی نسل کو باور کرانے کی ضرورت کون پوری کریگا کہ یہ عہد اردو صحافت اور زبان کے زوال کا نہیں،اس کے نشاۃ ثانیہ کا ہے۔ ڈونٹ جوک ! کتنی بار مجھے اپنے سینئر اور نوجوان صحافیوں نے بصد ادب ٹوکا کہ شاہ جی کس عہد میں جی رہے ہو،کہاں کی اردو کلاسیکیت، کون سی اردوصحافت، میڈیا پر نزع کا عالم ہے،   ریختہ کے تم ہی استاد نہیں ہو ۔ بڑے صحافی مزیدکتنے دن چلیں گے ، صحافت کو بھی ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی کمرشلائزیشن نے نوچ لیا ، ٹیسٹ کرکٹ کی نسل ہی برباد ہوگئی ۔

لیکن جہاندیدہ جرنلسٹس جہاں کہیں ملتے ہیں وہ یقین دلاتے ہیں پرنٹ میڈیا مررہا ہوگا لیکن لفظ نہیں، کتابیں انسٹافون سے شکست نہیں کھائیں گی، لیاری کا نوجوان عمران خان کی تبدیلی میں افتادگان خاک ہی رہے گا مگر علم سے اس کا تعلق رہے گا۔ افلاس سے نہیں۔ انشااللہ۔ ایک بس کنڈکٹر کا کہنا تھا کہ آپ نے کسی ایسے آدمی کو دیکھا ہے جو صحافت اور بسوں کے دھکے ایک ساتھ کھاتا ہو اور پھر یہ کہتا ہو ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے۔ میں یہ سن کر مسکراتا ہوں کہ کتنا معروضیت آشنا، حقیقت پسند اورانسان دوست شخص ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔