عقل کی بات

امجد اسلام امجد  جمعرات 11 جولائی 2019
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

ہوا اور پانی کی طرح عقل کی باتیں بھی نوعِ انسانی کا اجتماعی ورثہ اور سرمایہ ہیں اور ان کو حاصل کرنے کے لیے کسی ویزے یا اجازت نامے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی، اگر ہم اپنے تہذیبی اور تاریخی سرمائے میں اس قصے کا ذکر ڈھونڈنا چاہیں تو فوری طور پر دھیان رسول کریمؐ کی ایک حدیث مبارک اور جنابِ علی مرتضی  ؓ کے ایک قول کی طرف جاتا ہے جو کچھ اس طرح سے ہیں۔

۱۔ حکمت مومن کا گمشدہ مال ہے جہاں سے ملے اس کو حاصل کرلو۔

۲۔  یہ نہ دیکھو کون کہتا ہے یہ دیکھو کہ کیا کہتا ہے ۔

اب ان دونوں باتوں کی گہرائی پر غور کرتے جائیے تو ذہن کی کھڑکیاں اور فکر کے دروازے کھٹا کھٹ کھلتے چلے جاتے ہیں۔ قدیم انسانی دانش سے لے کر اس انٹرنیٹ اور گوگل سرچ کی دنیا تک کے سفر کے درمیان اقوام نے دوسروں کے تجربات سے سیکھ کر اپنے لیے آسانیاں پیدا کیں۔ بدقسمتی سے ہم مسلمانوں میں بالخصوص اور تیسری دنیا کے لوگوں میں بالعموم کچھ ایسے رویے اور مسائل غالب رہے ہیں جن کی وجہ سے ہم یورپ میں پندرہویں اور سولہویں صدی کے ہنگام میں رونما ہونے والے علمی اور فکری انقلاب سے یا تو کٹ گئے یا پھر ہمیں ان سے مشروط اور محدود آگاہی کا ہی موقع مل سکا ۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مسلمانوں نے اپنے ابتدائی دور یعنی آٹھویں سے بارہویں صدی تک تراجم اور تعلیم کے ذریعے اُس وقت تک کے موجود علوم کو ہر جگہ سے جمع کیا اور یوں ایک ایسی اجتماعی دانش کے باغ کو فروغ دیا جس میں ہر رنگ کے پھول موجود اور دیکھنے والوں کی دسترس میں تھے۔ اہل یورپ اور دنیا کی دیگر اقوام نے اس رعایت کو تسلسل بخشا اور اس اسلامی دور کے ترقی یافتہ علوم اور حاصل کردہ دانش سے نہ صرف بھرپور استفادہ کیا بلکہ ان کو اہل علم کے ساتھ ساتھ عام لوگوں تک پہنچانے کا اہتمام کیا ۔اس عمل میں تحریک احیائے علوم ، پرنٹنگ پریس کی ایجاد، صنعتی انقلاب اور نوآبادیاتی وسائل کی تقسیم نے اُن کی بھرپور مدد کی لیکن کریڈٹ بہرحال انھی کو جاتا ہے کہ آج دنیا بھر کے لوگ انسان کی اجتماعی دانش سے حسبِ توفیق فائدہ اُٹھا سکتے ہیں ۔

جیسا کہ میرے قارئین جانتے ہیں میں سیاسی موضوعات اور بالخصوص میڈیا پر اُچھالے جانے والے موضوعات پر براہِ راست لکھنے سے نہ صرف بہت احتراز کرتا ہوں بلکہ بالواسطہ انداز میں بھی بہت کم اس نواح  سے گزرتا ہوںاس کی ساری وجہیں دو ہیں ایک تو یہ موضوع ایک انگریزی محاورے کے مطابق ’’میرا چائے کا کپ‘‘ نہیں ہے اور یہ کہ مجھ سے کہیں بہتر اور باخبر لوگ اس میدان میں پہلے سے موجود ہیں اور دوسرے یہ کہ بدقسمتی سے ہمارے پرنٹ، الیکٹرانک ، نیوز اور سوشل ہر طرح کے میڈیا میں اختلاف رائے کو مخالفت ، دشمنی اور دانستہ کردار کشی بنا دیا گیا ہے اور عمومی طور پر کوئی شخص دوسرے کی بات سننے اور سمجھنے کو تیار ہی نہیں ہوتا۔ مکالمہ خودکلامی کی شکل اختیار کر گیا ہے اور ہر بات کو ’’ہمارے سچ‘‘ کے پیمانے پر تولا جاتا ہے ۔

ہر پارٹی کے نزدیک’’عوام‘‘ سے مراد صرف وہ لوگ ہیں جو اُن کے ووٹریا ہم خیال ہیں یہی وجہ ہے کہ مرض کا حل بھی مرض کے بجائے ’’مریض‘‘ کے حوالے سے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کیا کر رہی ہے یہ کیوں اور کیسے کر رہی ہے ؟ اور یہ اُن سے ہو سکے گا یا نہیں؟ اس بحث میں پڑنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ ’’عوام‘‘ ہیں کون؟ اگر تو ان سے مراد ہر وہ شخص ہے جو پاکستان کا شہری ہے تو پھر انھیں ’’ہم اور تم‘‘ میں تقسیم کرنا کسی طرح سے بنتا بھی نہیں ۔ ہر سیاسی گروہ کو یہ مان کر آگے جانا چاہیے کہ پاکستانی عوام کی تمام خوبیاں اور جملہ خامیاں ہم سب کی ہیں اور ان کی تحسین یا تنقید بھی اسی حوالے سے کی جانی چاہیے۔

بات شروع ہوئی تھی عقل اور دانش کے حوالے سے کہ یہ جہاں سے بھی ملیں اور جس سے بھی ملیں ان کو لے لے لینا چاہیے کہ اصل مقصد عوام اور خلق خدا کی زندگیوں کو آسان اور بہتر بنانا ہے سو اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اس میدان میں ہمارے نووارد دوست شبر زیدی ،پہلے سے موجود اور ایکٹو ماہرین معاشیات حفیظ پاشا ، اسحاق ڈار ، اسد عمر، ڈاکٹر اشفاق، شاہد صدیقی، سلمان شاہ اور دیگر سب کے سب کا اوّلین مقصد ایسی پالیسیاں وضع کرنا ہونا چاہیے جو عوام کو فائدہ، دینے کے ساتھ ساتھ ملک کی معاشی بنیادوں کو بھی مضبوط اور مستحکم کریں، اب ظاہر ہے اگر منزل ایک اور مشترک ہو تو راستہ لڑنے اور جھگڑنے کے بجائے مل بیٹھ کر اور باہمی صلاح مشورے سے طے کیا جاتا ہے یا یوں کہیئے کہ اسے اس طرح سے طے کرنا چاہیے مگر ہم روزانہ بلکہ صبح و شام اس معاملے پر بھی لوگوں میں محب وطن دشمن کے القابات کا اس قدر بے دردی سے استعمال کرتے ہیں کہ ذہن چکرا سا جاتا ہے ۔

پی ٹی آئی کے ماہرینِ معاشیات اور دیگر تمام ان سے قدرے مختلف یا الگ نقطہ نظر رکھنے والے سب کے سب لوگ اس ملک اور اس کے معاشی نظام کی بہتری چاہتے ہیں، سو سب کی بات سننی اور سمجھنی چاہیے اور ایسے راستے  نکالنے چاہییں جو موجودہ صورتِ حال میں زیادہ بہتر اور موزوں تر ہوں اور اگر اس ضمن میں ’’عقل کی بات‘‘ کسی ایسے شخص  سے ہی ملے جو اُن کی طرح تعلیمی اور علمی ڈگریاں نہ رکھتا ہو تو اس کو بھی وہ توجہ اور عزت دینی چاہیے جو وہ اپنے لیے پسند کرتے ہیں ۔

مثال کے طور پر ایک بڑے بزنس مین کی یہ بات (جو انھوں نے اپنے کچھ حالیہ انٹرویوز میں بار بار دہرائی ہے) کہ پانچ ہزار کے کرنسی نوٹ اور چالیس ہزارکے پرائز بانڈ ختم کردینے سے رشوت، چھپائی ہوئی دولت اور بے نامی جائیدادوں کے مسئلے پر بہت حد تک قابو پایا جاسکتا ہے ایسی ہے کہ جس پر سنجیدگی سے غور اور ممکنہ عمل کرنا بنتا ہے۔

اب رہی یہ بات کہ مذکورہ بزنس مین کی اپنی دولت کے معاملات کی شفافیت پر مختلف طرح کے شکوک کی پرچھائیاں موجود ہیں تو اس کا صحیح جواب یہ ہے کہ ان کے ضمن میں متعلقہ قانون کو تحقیق اور فیصلہ کرنے دیجیے یعنی یہ نہ دیکھیے کہ کون کہتا ہے بلکہ یہ دیکھیے کہ کیا کہتا ہے ، ممکن ہے اُن کی حاصل کردہ دولت شفاف نہ ہو مگر جس طرح سے انھوں نے اپنے  مختلف پراجیکٹس کو سوچا ، بنایا اور چلایا ہے اور اس ضمن میں مثالی کارکردگی کے جو نمونے پیش کیے ہیں۔

اُس سے اُن کی تنظیمی صلاحیتوں کی جو تصویر سامنے آتی ہے وہ بلاشبہ لائق تعریف ہے سو ایک ایسا شخص جو ’’معاشیات‘‘ کے عملی پہلو پر اس قدر دسترس اور تجربہ رکھتا ہو اُس کی رائے بلاشبہ ایک ’’ماہر‘‘ کی رائے کہی جاسکتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق ہمارے ہمسائے میں مودی گورنمنٹ نے بھی اس طریقے پر عمل کیا ہے جس سے بھارتی معیشت کے کئی پہلو بہتری سے ہم کنار ہوئے ہیں، مودی کو تو شائد اگلے الیکشن میں اس کا فائدہ پہنچے۔

امید کی جانی چاہیے کہ حکومت چالیس ہزار کے بانڈ پر پابندی کے بعد اب سنجیدگی سے اگر پانچ سو یا ہزار کے نوٹ نہ سہی صرف پانچ ہزار ہی کے نوٹوں پر پابندی عائد کرکے انھیں منسوخ کردے تو رشوت اور بلیک منی کے پھیلانے پر بہت حدتک قابو پایا جاسکتا ہے ممکن ہے سوشل یا کسی اور میڈیا پر کچھ لوگ ملک ریاض کے حوالے سے میری نیّت پر بھی شک کا اظہار فرمائیں مگر میں اسی خدشے کے باوجود اُن کی اس بات کی تائید ضرور کروں گا کہ ہر اچھی بات کے فروغ میں کسی نہ کسی بُری بات کا زوال مضمر ہوتا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔