جھوٹوں کی اسمبلیاں!

علی احمد ڈھلوں  جمعرات 11 جولائی 2019
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

ہمارے ملک میں کئی دہائیوں سے جتنی لوٹ مار ہوئی ہے اور کئی سیاستدانوں،کرکٹروں، تاجروں، صنعتکاروں اور سرکاری افسروں نے جو اثاثے بنائے ہیں، اُس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ یہ ہمارا ہی سرمایہ ہے جو چند لوگوں کی جیبوں میں جمع ہو چکا ہے اور وہ اس پر قبضہ جماکر بیٹھے ہوئے ہیں۔

کوئی ان سے یہ نہیں پوچھ رہا ہے کہ جناب آپ نے اتنی زیادہ دولت کہاں سے اور کن ذرایع سے حاصل کی ہے، اگر کوئی سیاستدان ہے تو بس ہر سال الیکشن کمیشن کی جانب سے لسٹیں جاری ہوتی ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ کون سا لیڈرکتنا غریب ہے اور کون کتنا امیر۔ پچھلے سالوں کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اس سال بھی قومی اسمبلی اور دیگر اسمبلیوں کے اراکین کے اثاثے سامنے لائے گئے ہیں ۔ اب چند روز تک یہ ایشو زیر بحث رہے گا، لیکن حقیقت میں اسے سنجیدہ کم ہی لیا جاتا ہے، بلکہ شغل میلے کے لیے، مذاق وغیرہ اُڑانے کی حد تک یا پھر مزاحیہ پروگرام کی حیثیت سے اسے یاد رکھا جاتا ہے۔

اثاثوں کی تفصیلات سے بہت سے انکشافات بھی سامنے آتے ہیں، بہت سے ایسے رکن ہوتے ہیں جو ذاتی گھر یا گاڑی وغیرہ سے بھی محروم ہوتے ہیں، قوم کو بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنی زوجہ محترمہ کے گھر میں رہتے ہیں اور ان کی نقل و حرکت بھی انھی کی گاڑی میں ہوتی ہے۔ ایسے میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ ’’صاحب‘‘ ایک ڈرائیور، معاون، سہولت کار وغیرہ کی حیثیت سے اس گھر میں رہتے ہوں گے جب کہ تمام تر احکامات اسی کے چلتے ہوں گے جو گھر اور گاڑی کا مالک ہے۔

لیکن کیا کیجیے کہ دل اُدھر نہیں جاتا، اپنے ہی اثاثہ جات کو اپنے اہلِ خانہ کے مختلف افراد کے نام کردیا جاتا ہے اور خود کو کنگال ظاہر کرکے قوم کے سامنے پیش کردیا جاتا ہے۔ اس قدر جھوٹ ! اس قدر جھوٹ! آپ میری اس بات سے ضرور اتفاق کریں گے کہ پاکستان میں قومی یا صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنا کوئی آسان کام نہیں ہے کیوں کہ جو اُمیدوار جیت کر اسمبلی میں آتا ہے وہ کم از کم 10کروڑ روپے خرچ کر چکا ہوتا ہے۔ اب جس رکن اسمبلی کے پاس کل 50لاکھ روپے ہے وہ کیسے اسمبلی میں پہنچ گیا؟

اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے لیے الیکشن کمیشن نے اخراجات کی حد مقرر کر رکھی ہے، اس راز کو بچہ بچہ جانتا ہے کہ مقرر کردہ حد میں کسی صورت الیکشن نہیں لڑا جاسکتا۔ الیکشن کمیشن صرف گوشوارے طلب کرتا ہے، جعلی اصلی کے چکر میں کوئی نہیں پڑتا۔ یوں پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھ دی جاتی ہے ۔ جو لوگ کروڑوں روپے لگاکر الیکشن لڑتے ہیں، تو زبانِ خلق یہی کہتی ہے کہ انھوں نے کسی نہ کسی طرح اپنا خرچا پورا کرنا ہوتا ہے۔

خیر اس سال بھی الیکشن کمیشن کی جانب سے فہرست جاری کی گئی ہے جس میں وزیراعظم عمران خان نے 10کروڑ 82 لاکھ روپے مالیت کی پراپرٹی اور رقم ظاہر کی۔ وزیراعظم کے پاس ذاتی گاڑی نہیں ہے۔ شہبازشریف کے اثاثوں کی مالیت 18کروڑ 96 لاکھ روپے ہے۔ اُن کی اہلیہ نصرت شہباز کے اثاثوں کی مالیت 23 کروڑ روپے سے زائد ہے۔ آصف زرداری کے اثاثوں کی مالیت 67 کروڑ روپے سے زائد ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے اثاثوں کی مالیت ایک ارب 54 کروڑ روپے سے زائد ہے جب کہ ان کے دبئی میں 2 ولاز میں شراکت داری بھی ہے۔

وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کے پاس 3کروڑ 58 لاکھ روپے کے اثاثے، 8کروڑ 73 لاکھ روپے کا بینک بیلنس اور 25 لاکھ روپے کے پرائز بانڈ ہیں۔ رانا ثنا اللہ کے پاس 6 کروڑ 60 لاکھ روپے کے اثاثے ہیں، پیپلز پارٹی کے سید خورشید شاہ بھی 6کروڑ روپے کے اثاثوں کے مالک ہیں۔ مراد سعید غریب ارکان قومی اسمبلی میں شامل ہیں اور ان کے پاس 36 لاکھ نقد اور 15 تولا سونا ہے۔ اسی طرح پی ٹی آئی رہنما شہریار آفریدی 2 کروڑ روپے کے اثاثوں کے مالک ہیں جب کہ وزیر دفاع پرویز خٹک 13کروڑ 95 لاکھ کے اثاثوں اور ڈھائی کروڑ روپے کا بینک بیلنس رکھتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ایم این اے سمیع الحسن گیلانی ایک ارب روپے سے زائد اثاثوں کے مالک ہیں جب کہ وفاقی وزیر علی زیدی 3کروڑ روپے سے زائد اثاثے رکھتے ہیں۔

مزے کی بات یہ ہے کہ 362اراکین اسمبلی میں سے 200کے قریب ممبرقومی اسمبلی ایسے ہیں جن کے پاس ذاتی سواری یا ذاتی گھر نہیں ہے۔اور ڈیڑھ سو کے قریب اراکین اسمبلی کے پاس 1کروڑ روپے سے کم کے اثاثے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی ایک ائیر لائن کے مالک ہیں جس کا ایک ایک جہاز اربوں روپے مالیت کا ہے جب کہ اُن کے اثاثے محض 65کروڑ ظاہر کیے گئے ہیں۔ میں ذاتی طور پر لاہور اور اس کے گردو نواح کے ممبران کو جانتا ہوں، ان میں سے کوئی بھی غریب خاندان سے تعلق نہیں رکھتا ۔ اس لیے اس قدر کم اثاثے ظاہر کیے گئے ہیں کہ ان پر ترس آتا ہے۔

کچھ لیڈرحضرات نے تو کسر نفسی سے کام لیتے ہوئے اپنے اثاثوں کی اس قدر کم قیمت بتائی ہے جسے  پڑھ کر مجھے اپنے آپ پر افسوس ہوتا ہے کہ مجھے بھی اخبار نویسی چھوڑ کر سیاستدانوں کی صف میں شامل ہو جانا چاہیے کیونکہ ان میں سے بیشتر سیاسی لیڈروںسے میرے اثاثے کہیں زیادہ ہیں۔ مجھے بھی افسوس ہو رہا ہے کہ میں نے ساری عمر ایسے ہی اخبار میں نوکری کرتے ہوئے گزار دی، میں بھی کم از کم غریب سیاستدانوں کی صف میں تو شامل ہو ہی سکتا تھا اورپھر اپنے اثاثوں میں اضافہ بھی کرتا رہتا اور جب کبھی الیکشن کا وقت آتا تو میں بھی انھی لوگوں کی صف میں شامل ہوتا جن کے پاس اپنی سواری تک نہیں ہے ۔کیا ہم ان اسمبلیوں سے اُمید رکھ سکتے ہیں کہ یہ عوام کی خدمت کریں گے؟جن کی بنیاد ہی جھوٹ پر مبنی ہو!

معلوم نہیں ہمارے یہ نمایندے اس جدید ترین دور میں کس کو بیو قوف بنا رہے ہیں کیونکہ اب وہ وقت گزر چکا جب ہر چیز پردے میں چھپائی جا سکتی تھی۔ ہمارے اوپر ایک ایسا طبقہ مسلط چلا آرہاہے جو  ہمارے اوپرحکمرانی کے لیے باریاں بانٹ لیتا ہے۔ کیا کوئی ادارہ یہ تحقیق کرنے کی جسارت کرے گا کہ قوم کی نمایندگی اور رہنمائی کرنے والے لوگ کتنا سچ بولتے ہیں، ان کے اصل اثاثے کتنے ہیں؟ ہمارے یہ قانون ساز ادارے معیشت پر بھاری بوجھ ہیں، ایک ایک اجلاس پر کروڑوں روپے خرچ ہوجاتے ہیں۔

اکثر اوقات اسمبلیوں کا کورم پورا نہیں ہوپاتا، وزراء بھی حاضر نہیں ہوتے، یہ لوگ غیر حاضر ہوکر بھی تنخواہ اور مراعات کے مستحق ہی قرار پاتے ہیں، شاید ہمارے ایوان پاکستان کا واحد ادارہ ہیں، جہاں غیر حاضری پر بھی ناصرف تنخواہ بلکہ پروٹوکول اور استحقاق بھی ملتا ہے۔ آج کل چونکہ ٹیکس وصولی، نان فائلر کو ٹیکس نیٹ میں لانا اور دیگر بہت سی اسکیمیں چل رہی ہیں، کچھ توقع کی جاسکتی ہے کہ شاید اِن معزز ارکان کے اثاثوں کی تحقیقات بھی ہوجائیں اور ان کی تنخواہوں میں مزید کمی کردی جائے،انھیں اجلاسوں میں لانے کا پابند کردیا جائے۔ اگر ایسا ممکن ہوگیا تو ملک و قوم کی خوش بختی کی طرف ایک قدم قرار پائے گا !

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔