ایک ٹیڑھا مگر میٹھا آدمی

طارق محمود میاں  جمعرات 12 ستمبر 2013
tariq@tariqmian.com

[email protected]

اور پھر یوں ہوا کہ احمد ہمیش گفتگو درمیان میں چھوڑ کے دیوار پر لگی ہوئی 3D تصویر کے پاس جا کے کھڑا ہو گیا۔ پھر اچانک اس نے ’’مس لنڈا‘‘ سے ایک ایسی بات پوچھی کہ ہم سب ہکا بکا رہ گئے۔

وہ بات کیا تھی؟ یہ میں ذرا آگے چل کے بتاؤں گا۔ پہلے مجھے احمد ہمیش کی موت کا ماتم کر لینے دیجیے۔ وہ گزشتہ روز دنیا سے منہ موڑ گیا۔۔۔۔ اور اس سے ایک روز پہلے شفیع عقیل بھی۔ دونوں نے ادب کی دنیا کو اپنے لکھے ہوئے لفظوں کی نصف صدیاں عطا کیں بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ شفیع عقیل ادب کے ساتھ ساتھ اخبار کی دنیا کے بہت بڑے مرد میدان تھے۔ اخبار پڑھنے اور لکھنے والا کون ہو گا جو انھیں جانتا نہ ہو اور ایک تعلق خاطر نہ رکھتا ہو۔۔۔۔ لیکن احمد ہمیش ادب کا ایک چلبلا اور بانکا شخص تھا۔1970 کی دہائی۔ یہ تب کی بات ہے جب نثری نظم (پروز پوئٹری) کا خاصا غلغلہ تھا، نوجوان لڑکے لڑکیوں کا ایک گروہ تھا جو اس طرف مائل ہوا اور ادب کے دلچسپ پہلو مباحث کا موضوع بننے لگے۔ احمد ہمیش دعوے دار تھے کہ وہ پروز پوئم کے بانی ہیں اور انھوں نے 1961میں پہلی نثری نظم لکھی تھی۔ اس گروہ کے خیال میں شاعری کی یہ فارم آزاد نظم سے مختلف اس طرح تھی کہ اس میں میٹر کو توڑا گیا تھا۔ یوں جیسے ایک ماہر مصور روایت سے ہٹ کر تجرید کو اپنی تخلیق کی بنیاد بناتا ہے۔

تب قمر جمیل نے اس تحریک کی کمان سنبھالی۔ وہ بڑے دھوم دھڑکے سے اس کا علم اٹھا کے نکل کھڑے ہوئے۔ ضمیر علی کی فلسفیانہ مدد انھیں حاصل تھی اور ان کے نوجوان سپاہیوں میں شامل تھے۔۔۔۔ محمود کنور، انور سن رائے، فاطمہ حسن، عذرا عباس، ثروت حسین، اقبال فریدی، شاہدہ حسن، ایوب خاور، طلعت حسین، سراج منیر، تنویر انجم، شوکت عابد اور بہت سے دوسرے۔ ان کے ساتھیوں میں سے، ایک منفرد کہانی نویس ہونے کے ساتھ ساتھ، احمد ہمیش کا دعویٰ وہی تھا جس کا میں نے اوپر ذکر کیا کہ وہ نثری نظم کے بانی ہیں۔ اس دعوے کی بنیاد ان کی وہ نظم تھی جو 1961میں بھارت میں شایع ہوئی۔ اردو ادب کی اس پہلی نثری نظم کا عنوان تھا۔۔۔۔ ’’اور یہ بھی ایک ڈائری‘‘۔ اس کی آخری تین سطریں یوں ہیں:

سائبان کے تیسرے کونے میں پہلی دھوپ چمکنے لگی

پہلا کونا دوسرے کونے کا دشمن ہے

اور چوتھے کونے میں دھندلے خاکے ہیں

لاہور میں ایسے سر پھروں کا ایک اور گروہ موجود تھا۔ ان کے پاس بھی پروز پوئٹری کا بانی ہونے کے دو ایک دعویدار موجود تھے۔ مبارک احمد وغیرہ جنھیں احمد ہمیش قطعی خاطر میں نہ لاتے۔ یہ سب لوگ ٹولیوں کی شکل میں جمع ہوتے۔ اپنی ’’نظمیں‘‘ تنقید کے لیے پیش کرتے اور خوب بحث کرتے۔۔۔۔ آسانی کے لیے عرض کرتا ہوں کہ یہ بحث اسی نوعیت کی ہوتی تھی جیسی تجریدی مصوری کے بارے میں کہ اگر یہ گھوڑے کا سر ہے تو دھڑ عورت جیسا کیوں ہے، یا بجلی کے کھمبے نے جوتے کیوں پہنے ہوئے ہیں۔۔۔۔ اور میں جسے سمجھا تھا انناس وہ عورت نکلی۔ وغیرہ وغیرہ۔اتفاق سے یہ وہی زمانہ تھا جب ہم لوگ یونیورسٹی سے فارغ ہوئے اور ’’دھنک‘‘ سے تجربہ حاصل کرنے کے بعد میں نے کراچی سے اپنا رسالہ ’’عقاب‘‘ جاری کیا۔ اس کے ایک شمارے کے لیے ایک بار ہم نے پروز پوئٹری کے جغادریوں اور ان کے نقادوں کو آپس میں بھڑا دیا۔ یہ ایک طویل نشست تھی۔ ’’ادبی پنگ پانگ‘‘ اس کا نام تھا اور اس میں قمر جمیل اور ضمیر علی بھی موجود تھے۔ اس کا اہتمام طاہر مسعود نے کیا تھا۔ بحث میں تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ایسی خونخوار گرما گرمی ہو جاتی کہ لوگوں کو ٹھنڈا کرنے کو طرح طرح کے جتن کرنا پڑتے۔ طاہر مسعود پانچ بار احمد ہمیش کو اور دو بار انعام صدیقی کو دروازے سے پکڑ کر واپس لائے۔

ایک مرحلے پر خوش بخت عالیہ نے کہا ’’بھئی! محمود کنور کی یہ نظم میری سمجھ میں بالکل نہیں آئی۔

آج میں اپنے پاگل پن پر

ہنستے ہنستے لوٹ گیا

ہمیش صاحب! آپ بتائیے کہ اس میں کون سی ذات کا کرب بیان کیا گیا ہے؟‘‘

احمد ہمیش نے کہا ’’میں اپنی بات شروع کرنے سے پہلے کرائسٹ کی ایک تمثیل سنانا چاہتا ہوں۔ جیسس کرائسٹ کسی جنگل سے گزر رہے تھے تو انھوں نے کسی کتے کو مرا ہوا پایا۔ بڑا تعفن تھا۔ ایک حواری نے کہا اس کی کھال تو بالکل ادھڑ گئی ہے۔ دوسرے نے کہا اس کی آنکھیں ابل پڑ رہی ہیں۔ تیسرے حواری نے کہا اس میں تو کیڑے پڑ گئے ہیں۔ لیکن کرائسٹ نے صرف ایک جملہ کہا۔ تم یہ تو دیکھو اس کے دانت چمک رہے ہیں۔ تو پہلے آپ وہ آنکھ پیدا کیجیے جو کرائسٹ کی آنکھ تھی۔‘‘

اس پر انعام صدیقی بولے ’’گویا وہ آنکھ اور ذہن صرف ان شاعروں تک محدود ہے جو ایسی شاعری کر رہے ہیں‘‘۔ اس کے بعد خوب لڑائی ہوئی اور شور مچا۔ آگے ایک جگہ انعام صدیقی نے کہا ’’رابرٹ براؤننگ نے لکھا تھا کہ جب میں نظم لکھ رہا ہوتا ہوں تو میری نظم تین ہی افراد سمجھتے ہیں۔ ایک میں، دوسری میری بیوی اور تیسرا خدا۔ اور جب میں نظم لکھ چکا ہوتا ہوں تو اسے صرف خدا سمجھتا ہے۔ لیکن نثری نظم کا معاملہ یہ ہے کہ اسے خدا بھی سمجھنے سے قاصر ہے‘‘۔ اس پر پھر بہت لڑائی ہوئی۔ احمد ہمیش کو کندھوں سے پکڑ کے بٹھانا پڑا۔

ہم نے سنا کہ اسے عام زندگی میں بھی ڈراما کرنے کا شوق تھا۔ بے ضرر سے ڈرامے۔ فراق گورکھپوری کا اصلی نام رگھوپتی سہائے تھا اور سریندر پرکاش بھارت کے ایک مشہور افسانہ نگار۔ وہ ضیاء الحق کا دور تھا۔ کسی نے بتایا کہ قمر جمیل رمضان میں رگھوپتی سہائے اور احمد ہمیش، سریندر پرکاش بن کے ہندوؤں کے ہوٹل میں دوپہر کا کھانا کھاتے ہیں۔

انھی دنوں امریکا سے ایک ادبی قتالہ کی آمد ہوئی۔ اس کا نام ’’لنڈا وینٹک‘‘ تھا۔ خوش رو اور دبلی پتلی۔ روانی سے اردو بولتی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ جدید اردو افسانے پر ریسرچ کر رہی ہے لیکن کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ سی آئی اے کی ایجنٹ ہے اور یہاں کے ادیبوں کے سیاسی رجحانات کی خفیہ رپورٹ تیار کر رہی ہے۔ شہر میں جا بجا اس کے لیے تقریبات ہونے لگیں۔ سب اس کے لیے بچھے جا رہے تھے۔ ایک اور امریکی لڑکی بھی اس کے ساتھ تھی۔ طاہر مسعود نے بھی ’’عقاب‘‘ کے لیے دو بار اس کا انٹرویو کیا اور اس کی آنکھوں کو گھبرائی ہوئی ہرنی جیسی قرار دیا۔ تبھی ایک دن اچانک میرے دفتر کا دروازہ کھلا اور احمد ہمیش، غزالی آنکھوں اور اس کی ساتھی کے ہمراہ اندر داخل ہوا۔ وہ دونوں شلوار قمیض میں ملبوس تھیں۔ اب یہاں ان سے تیسری بار انٹرویو کیا گیا۔ اسی دوران احمد ہمیش اٹھا اور دفتر کی دیوار پر لگی تھری ڈائمینشن تصویر کو کبھی دائیں اور کبھی بائیں طرف سے دیکھنے لگا۔ یہ خانہ کعبہ کی تصویر تھی۔ اسے دیکھتے دیکھتے ایک دم سے احمد ہمیش مخاطب ہوا۔۔۔۔ ’’مس لنڈا! کیا آپ نے کبھی حج کیا ہے؟‘‘ ہم سب چونک کے اسے دیکھنے لگے۔ کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ احمد ہمیش کچھ دیر کھڑا مس لنڈا کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر اس کے برابر والی کرسی پر آ کے خاموشی سے بیٹھ گیا…اوراب تو خاموشی ہی خاموشی ہے۔ ایک ابدی خاموشی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔