اے پی سی، کیا تاریخ خود کو دہرائے گی؟

نصرت جاوید  جمعرات 12 ستمبر 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

بالآخر نواز شریف صاحب نے بھی تیسری مرتبہ اس ملک کا وزیر اعظم بن جانے کے بعد اپنے دور کی پہلی آل پارٹیز کانفرنس منعقد کر ہی ڈالی۔ اس کانفرنس کے اختتام پر بھی ایک لمبا اور دھواں دار مشترکہ اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے جس میں اس بات پر بھی گہرے دُکھ کا اظہار کیا گیا کہ ماضی میں ہونے والی ایسی کانفرنسوں کے اختتام پر جاری کی گئی قراردادوں پر عمل درآمد نہ ہوا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اپنے اس دُکھ کا اظہار کرنے سے پہلے پیر کی آل پارٹیز کانفرنس میں بیٹھے ہمارے رہ نما یہ بھی پتہ لگا لیتے کہ ماضی میں متفقہ طور پر منظور کردہ ان قراردادوں پر عمل کیوں نہ ہوسکا۔ میری ٹھوس اطلاعات کے مطابق لیکن کسی نے اس حوالے سے کوئی جاندار سوالات ہی نہ اُٹھائے۔

آل پارٹیز کانفرنس ایک حوالے سے بس سوچ بچار کرنے کو سجائی ایک بیٹھک ہوا کرتی ہے۔ مگر سنا ہے کہ ہمارے ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ یہاں فیصلہ سازی کا سب سے بڑا ادارہ ایک منتخب اور بڑی خود مختار پارلیمان ہے۔ اس پارلیمان کے دو ایوان ہوا کرتے ہیں، قومی اسمبلی اور سینیٹ ۔ ان دونوں کے اراکین پر مشتمل کسی زمانے میں ایک قومی سلامتی کمیٹی بنی تھی، میرے بڑے پیارے دوست رضا ربانی اس کے چیئرمین تھے۔

امریکا نے پاک افغان سرحد پر قائم ایک چوکی پر حملہ کیا تو ہمارے کئی جوان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ہم نے امریکا سے کم از کم یہ مطالبہ کیا کہ وہ اس حملے پر واضح الفاظ میں معافی مانگے اور ہمارے نامزد کردہ افسران کے ساتھ مل کر اس حملے کی وجوہات اور تفصیلات کا جائزہ لے۔ اپنی روایتی رعونت کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکا مگر راضی نہ ہوا۔ہم نے اس کے فوجیوں کو پاکستانی راستوں سے افغانستان جانے والی رسد بند کردی۔ یہ رسد بند کردینے کے بعد فیصلہ ہوا کہ رضا ربانی کی سربراہی میں بنائی یہ کمیٹی اب ہمارے لیے کچھ رہ نما اصول وضع کرے گی جس کی روشنی میں ہم امریکا سے اپنے تعلقات بحال کرکے انھیں برقرار رکھ سکیں۔ رضا ربانی کی اس کمیٹی میں ہمارے ملک کے چند بڑے ہی جید سیاستدان بھی موجود تھے۔ وہ پورے سات مہینوں تک بحث مباحثہ اور غوروخوض کرتے رہے۔ پھر ایک بھاری بھر کم دستاویز تیار ہوئی۔ اسے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے سامنے بڑے دھوم دھڑکے سے پیش کیا گیا۔

نتیجہ کیا نکلا؟ اس کا جواب کوئی دینے کو تیار نہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کی ساری محنتِ شاقہ کے باوجود بالآخر اس وقت کے وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کو واشنگٹن کے ایک افسر سے تن تنہاء مذاکرات کرنا پڑے۔ امریکی وزیر خارجہ نے بڑی نرم سی معذرت پیش کردی۔ ہم نے ان کی رسد بحال کردی کیونکہ ان کی رسد روکنے کی وجہ سے واشنگٹن والے ہمیں وہ رقوم بھی ادا نہیں کررہے تھے جو ان کی چلائی ’’وار آن ٹیرر‘‘ میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے ہم اپنے خزانے سے پہلے ہی خرچ کرچکے تھے۔ یہ رقم ڈیڑھ ارب ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔ اس کے بغیر ہمارے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ خلقِ خدا کی بھلائی کا کوئی منصوبہ تو دور کی بات ہے ریاست کو اپنے روزمرہ کے اخراجات پورا کرنا بھی مشکل نظر آنا شروع ہوگیا تھا۔ ہم پنجابی والی ’’کھوتی‘‘ کی طرح اسی تنخواہ پر گزارہ کرنے پھر اسی مقام پر آگئے جہاں امریکی فوجیوں کی رسد بند کردینے سے پہلے کھڑے تھے۔

پیر کی کانفرنس کے اکثر شرکاء کو مگر اب کی بار یقین ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو نہیں دہرائے گی۔ میں نے جب ان میں سے چند افراد کو ذرا زور دے کر پوچھا کہ کیوں اور کیسے تو کوئی تسلی بخش جواب نہ ملا۔ تحریک انصاف والے تو بلکہ شاداں ہیں کہ بالآخر نواز شریف کی حکومت نے ان کی یہ بات مان لی ہے کہ ڈرون حملے رکوائے بغیر پاکستان میں دہشت گردی ختم نہیں کی جاسکتی۔ اس کانفرنس کے اختتام پر جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا ہے اس میں یہ ٹھوس پیغام دیا گیا ہے کہ اب کی بار ہماری سرزمین پر ڈرون حملہ ہوا تو ہماری وزارتِ خارجہ محض اس کی مذمت کرنے تک محدود نہیں رہے گی، ہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے اور اپنی خود مختاری کی پامالی کی دہائی دیتے ہوئے انصاف مانگیں گے۔ ڈرون حملے روکنے کے لیے سلامتی کونسل کی راہ سمجھانے والوں کو یاد ہی نہیں رہا کہ کشمیر کا مسئلہ بھی تو کئی برسوں سے اسی کونسل کے سرد خانے میں پڑا ہے۔ فرض کرلیتے ہیں کہ اس بار نتیجہ کچھ اور نکلے گا۔ مگر کیسے؟

کیا ہم جانتے ہیں کہ افغانستان میں جو امریکی اور اس کے اتحادیوں کی فوج ہے اس کوISAFکیوں کہا جاتا ہے؟ اس کو امریکی یا نیٹو کے بجائے ایک ’’بین الاقوامی فوج‘‘ اس لیے کہا جاتا ہے کہ نائن الیون کے بعد اقوام متحدہ ہی کی سیکیورٹی کونسل کا ایک اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں نیویارک پر ہونے والے حملے کا ذمے دار ’’القاعدہ‘‘ کو ٹھہرایا گیا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ اگر طالبان ’’القاعدہ‘‘ کے لوگوں کو انصاف کے بین الاقوامی کٹہرے میں پیش نہیں کریں گے تو ان کے ملک پر فوج کشی کردی جائے گی۔ میرے جیسے سادہ لوگوں کو تو ابھی تک یقین نہیں آیا کہ نائن الیون ’’القاعدہ‘‘ نے کیا تھا۔ لیکن جنرل(ر) حمید گل جیسے دفاعی امور کے ماہر تو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سارا کھیل یہودیوں کی موساد نے رچایا تھا۔

مسئلہ مگر میرا اور حمید گل کا یہ ہے کہ اقوام متحدہ والے ہماری اس سوچ سے اتفاق نہیں کرتے۔ غیروں کی بات تو رہی ایک طرف ان دنوں اقوام متحدہ میں پاکستان کے سرکاری مندوب نے بھی ’’القاعدہ‘‘ پر شبے کا اثبات کیا تھا۔ اس کے بعد جو حکومتیں آئیں خواہ وہ پیپلز پارٹی کی ہوں یا اب نواز شریف کی انھوں نے بھی اقوام متحدہ سے باقاعدہ رجوع نہیں کیا کہ وہ ’’القاعدہ‘‘ کو نائن الیون کے واقعات کا ذمے دار ٹھہرانے والے فیصلے پر نظرثانی کرے۔ شاید خدانخواستہ آیندہ ہماری سرزمین پر کوئی ڈرون گرا تو اس کے خلاف سیکیورٹی کونسل جاکر ہم نائن الیون کے واقعات کی حقیقت جاننے کا مطالبہ بھی کر ڈالیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر حمید گل صاحب جیسے افراد کی منت سماجت کی جائے کہ وہ ہمارا یہ کیس اقوام متحدہ میں لڑیں تو وہ قوم اور مسلم اُمہ کے وسیع تر مفاد میں تیار ہوجائیں۔ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔ سچ کو کبھی تو پوری دُنیا کے سامنے واشگاف ہونا چاہیے۔ اسے پاکستانی ٹیلی وژن چینلوں کی اسکرینوں تک محدود کیوں رکھا جائے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔