پاکستان ایک نئی سمت میں؟

مقتدا منصور  جمعرات 12 ستمبر 2013
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

پیر کو ایک پروقار تقریب میںنئے صدر جناب ممنون حسین نے حلف اٹھالیا۔یوںپاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک صدر اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد ایوان صدرسے رخصت ہوا اور دوسرے نے اس کی جگہ سنبھالی۔اس سے قبل 11مئی2013 کوہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں ایک قومی اسمبلی کی جگہ دوسری قومی اسمبلی کے اراکین ایوان میں پہنچے اور انتہائی پرامن اندازمیںنئی حکومت تشکیل پائی۔اس کے علاوہ ایک اور اچھی روایت یہ شروع ہوئی ہے کہ سبکدوش ہونے والے صدر کے اعزاز میں مخالف جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم نے الوداعی ظہرانہ دیا اور انھیں باعزت طریقے سے رخصت کیا۔امید ہے کہ یہ روایت تسلسل کے ساتھ جاری رہے گی تاکہ جمہوری اقدار کو مزید استحکام حاصل ہوسکے۔

دنیا بھر میں کم از کم ایک صدی سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ انتخابات اپنے وقت مقررہ پرہوتے ہیں۔ ضرورت کے تحت کبھی کبھار وسط مدتی انتخابات بھی ہوجاتے ہیں۔لیکن انتقال اقتدار ہمیشہ پر امن ہوتا ہے۔نئی حکومت انتخابی مہم کے دوران ہونے والی تلخیوں کو فراموش کرکے جانے والی حکومت کوخوش دلی سے رخصت کرتی ہے۔ ہمارے یہاںاس قسم کے واقعات اچھنبے کاباعث اس لیے بنتے ہیں،کیونکہ ہم پر امن انتقالِ اقتدارکے عادی نہیں ہیں۔ ہمارے یہاں گزشتہ 66 برس کے دوران نہ کوئی حکومت اپنی متعین مدت پوری کرسکی اور نہ کوئی سربراہ مملکت باعزت طریقہ سے اقتدار کے ایوانوں سے رخصت ہوا۔ ملک کے پہلے وزیراعظم کو 16 اکتوبر 1951 کو راولپنڈی میں قتل کردیا گیا۔اس کے بعد ملک کے گورنر جنرل ملک غلام محمد نے1953میںملک کے دوسرے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت برطرف کردی اور پھر1954 میں دستورساز اسمبلی کو بھی تحلیل کردیا۔ اس کے بعد چار برس تک” توچل میں آیا” کاایسا رواج پڑاکہ کوئی بھی وزیر اعظم ایک سال بھی مکمل نہیں کرسکا۔ابراہیم اسماعیل چندریگرتو صرف59دن وزیراعظم رہ پائے۔خودگورنرجنرل ملک غلام محمد سے اسکندر مرزا نے زبردستی استعفیٰ لیا۔

اکتوبر 1958 میںفوج کے سربراہ جنرل ایوب خان (جو خود ہی فیلڈ مارشل بھی بن گئے) نے پورے پارلیمانی جمہوری نظام ہی کو لپیٹ دیا۔انھوں نے 1956 کے آئین کے تحت منتخب صدر اسکندر مرزا کو معزول کرکے ملک ہی سے رخصت کردیا۔ ایوب خان کا خیال تھا کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت ناخواندہ ہونے کے سبب پارلیمانی جمہوری اقدار سے ناواقف ہے، اس لیے صدارتی نظام عوام کے مزاج کے لحاظ سے زیادہ موزوں ہے۔اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انھوں نے ملک میں بنیادی جمہوریتوں کا نظام متعارف کرایا اور 1962 میں صدارتی طرز کا آئین دیا۔ مگر ان کا تصور حکمرانی بھی زیادہ عرصہ نہیںچل سکا اور وہ بھی محض دس برس بعد عوام کے سیلاب ِرواں میں بہہ گئے اور نہ اپنا آئین بچا سکے اور نہ صدارتی نظام۔

سقوط ڈھاکہ کے بعد 20دسمبر1971 کو جب مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے باقی ماندہ ملک کی باگ ڈور سنبھالی تو اس کا شیرازہ بکھرنے کو تھا۔گوکہ باقی ماندہ صوبوں کو ایک لڑی میں پروئے رکھنے کے لیے ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت تھی  مگر مسٹر بھٹو نے اپنی ذہانت اور سیاسی فعالیت کو بروئے کار لاتے ہوئے نئے آئین کے ذریعہ اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی۔اس سلسلے میںمیر غوث بخش بزنجو مرحوم کی سیاسی بصیرت اور مساعی نے کلیدی کردار اداکیا۔انھوں نے بلوچستان سے منتخب ہونے والے نمایندوںکو نئے آئینی مسودے کو قبول کرنے پر آمادہ کرکے ملک کو بچانے میں کلیدی کردار اداکیا۔1973 کے متفقہ آئین کے بعد یہ توقع پیدا ہوئی تھی کہ ایک تو ملک کی شیرازہ بندی ہوگئی ہے اورکسی طالع آزماء آئین کو منسوخ کرنے کی جسارت نہیں ہوگی۔لیکن یہ خوش فہمی محض چار برس بعد ہی اس وقت دم توڑ گئی ،جب 4 اور5جولائی کی درمیانی شب ایک آمر  نے منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔

ضیاء الحق  نے ایوب خان کی طرح نہ کوئی نیاآئین تشکیل دیا اور نہ جنرل یحییٰ خان کی طرح LFOدیا،بلکہ 1973 میں نافذ ہونے والے آئین کو پہلے معلق کیا پھر اس میں حسب ضرورت من مانی ترامیم کرکے اسے پارلیمانی کے بجائے صدارتی بنادیا۔یہی عمل ان کے بعد آنے والے  پرویز مشرف نے آئین کے ساتھ کیا۔ ضیاء نے آٹھویں ترمیم کے ذریعہ آئین کا حلیہ مسخ کیا تو  پرویز مشرف نے سترھویں ترمیم کے ذریعہ یہی کام کیا۔ان دونوں آمروں  نے اپنے ہی چنیدہ سیاسی شخصیات کو وزیر اعظم بنایا ،مگر دونوں ہی نے ان وزرائے اعظم کو ان کی مدت مکمل ہونے سے پہلے ہی رخصت کردیا۔البتہ  پرویز مشرف نے 2002 میں آمریت کی چھتری تلے بننے والی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے بجائے وزرائے اعظم تبدیل کرنے پر اکتفاء کیا۔یوںاس بری یا بھلی اسمبلی کے مدت پوری کرنے کی پہلی روایت جنرل پرویز مشرف کے دور ہی میں پڑی۔

بی بی صاحبہ کی شہادت کے بعد 2008 میں قائم ہونے والی پارلیمان اور ان کے شوہر نامدارجناب آصف علی زرداری نے بحیثیت صدر مملکت اپنی پانچ برس کی مدت مکمل کرکے 66برس کے دوران قائم ہونے والی روایت کو توڑ دیا اور جمہوری عمل کے تسلسل کی نئی تاریخ رقم کی۔اس عمل میں جہاں پیپلز پارٹی کی مفاہمت کی سیاست نے کلیدی کردار ادا کیا ،وہیں میاںنواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ(ن) نے بھی سیاسی بلوغت اور معاملہ فہمی کا ثبوت دیا۔جب ذرایع ابلاغ کا منھ زور گھوڑا مسلسل دولتھیاں جھاڑ رہا ہو۔جب عدلیہ بھی حکمرانوں کی مرضی کے فیصلے دینے اور ان  کے سامنے جھکنے سے انکار کر دے  اور سب سے بڑھ کران کی جماعت پر مختلف نوعیت کے الزامات کی بوچھاڑ ہو، تو ایسی صورتحال میں آصف علی زرداری کا پانچ برس تک صدارت کے عہدے پر موجود رہنا،ان کے تحمل، برداشت اور حوصلہ مندی کا کھلا اظہار ہے۔

جہاں تک پانچ برسوں کے دوران خود ان کی اور ان کی جماعت کی کارکردگی کا تعلق ہے، توآصف علی زرداری نے بحیثیت صدرمملکت بعض ایسے فیصلے اور اقدامات کیے جو اس ملک کی سیاسی تاریخ میں سنگ میل کا درجہ رکھتے ہیں۔ جن میںصدارتی اختیارات میں غیر ضروری اضافوں کا خاتمہ، تمام صوبوں کے لیے قابل قبول اور متوازن NFC ایوارڈ کی منظوری، امریکا کی شدید مخالفت کے باوجود پاک ایران گیس پائپ لائن کا معاہدہ اور گوادر پورٹ کی دوبارہ فعالیت شامل ہیں۔ان فیصلوں سے ان کی سیاسی بصیرت اور جرأت رندانہ کا اندازہ ہوتا ہے۔البتہ اس میں شک نہیں کہ ان کے نامزد کردہ وزرائے اعظم ڈیلیور کرنے میںقطعی ناکام رہے۔ پارٹی بھی مختلف اسباب کی وجہ سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیںکرسکی۔جس کی وجہ سے ملک میں بجلی اور قدرتی گیس کا بحران مزید گہرا ہوا اور مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہوا۔لیکن ان تمام خامیوں اور خرابیِ بسیارکے باوجود ان کی جماعت کی حکومت نے کسی نہ کسی طرح عوام کو ریلیف دینے کی بھی کوشش کی۔ پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور میں سرکاری ملازمین اور پینشنرز کی تنخواہوں اور پینشن ایک سوبیس فیصد سے زائدکا اضافہ ایک ایسا اقدام ہے، جو یاد رکھا جائے گا۔

ابھی ہم ایوان صدر میں جمہوری انداز میں ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں یہ اظہاریہ تحریر کر رہے تھے کہ دو خبریں سامنے آئیں۔ایک کا تعلق اسی روز ہونے والی کل جماعتی کانفرنس سے تھا، جس میں ہزاروں پاکستانیوں کے قاتل  طالبان سے مذاکرات کی منظوری دی گئی۔جب کہ دوسری کا تعلق انصاف کی سرِبازار نیلامی سے تھا۔کل جماعتی کانفرنس میںجمہوریت دشمن طالبان سے مذاکرات کے لیے مذہبی جماعتوں کا دبائو کارگرثابت ہوااور حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے۔ اس فیصلے سے یہ اندازہ بہر حال ہوا کہ 5فیصد سے بھی کم ووٹ بینک رکھنے والی مذہبی جماعتیں  کس قدر مضبوط ہیںاور کس طرح ریاستی منصوبہ سازی پر حاوی آتی ہیں۔اسی روز خبر آئی کہ کراچی میں مقتول شاہ زیب کے والدین امیروکبیر اور بااثر قاتلوں کے دبائو کے آگے بے بس ہوکر قاتلوں کو معاف کرنے پر مجبور ہوگئے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر دولت مند قاتل دیت اور قصاص کا سہارا لے کر بچ نکلے گا، جب کہ غریب قاتل کا مقدر پھانسی کا پھندا ہوگا۔ یہ ہیں معاشرے کے وہ کھلے تضادات جو ذرایع ابلاغ کی تیز رفتار ترقی کے باعث کھل کر سامنے آرہے ہیںاور وسیع پیمانے پر تبدیلیوں کے متقاضی ہیں۔

پاکستان، ان گنت پیچیدہ اور گھمبیر مسائل کی گرداب میں پھنساہوا ہے،جنھیں حل کیے بغیرمعاشرے کی ترقی کا تصور عبث ہے۔لیکن ان مسائل کا بنیادی سبب نظم حکمرانی کا بحران ہے۔اس لیے حکمرانی میں بہتری اور استحکام ہی ملک کو مسائل کے بھنورسے نکال سکتا ہے۔اس لیے یہ کہنا کسی بھی طورپرغلط نہیں ہے کہ اقتدار کی پرامن منتقلی دنیاکے بیشتر ممالک کے لیے بیشک ایک عام سی بات ہو، مگر پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا واقعہ ہے۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہمیں اچھی حکمرانی کی طرف بڑھنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔لیکن اگر سمت کا تعین ہوجائے تو مسائل کے حل کی سبیل پیدا ہوتی ہے۔ یعنی طبیب اگر مرض کی صحیح تشخیص کرلے،تو پھراس کے لیے دوا کا انتخاب کوئی اہم مسئلہ نہیں رہتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔