آج کچھ درد مرے دل میں سِوا ہوتا ہے

رئیس فاطمہ  جمعرات 12 ستمبر 2013

پچھلے ہفتے انڈیا سے کراچی واپس پہنچے تو اگلے ہی دن ایک کرم فرما کا فون آیا اور انھوں نے فرمایا کہ۔۔۔۔’’آپ لوگ واپس آگئے ہوں تو فلاں صاحب کی کتابیں آپ کو تبصرے کے لیے روانہ کردوں، تاکہ آپ کالم میں ان کا ذکر کردیں‘‘ میں نے انھیں نہایت ادب اور احترام سے سمجھایا کہ ’’ادارتی صفحے کے کالم کتابوں کے تبصرے کے لیے نہیں ہوتے۔ لہٰذا آپ وہ کتابیں میگزین سیکشن کے انچارج کے نام بھجوادیں تاکہ مطلوبہ کتب پر بھرپور طریقے سے تبصرہ ہوجائے‘‘ پھر بھی انھوں نے اصرار کیا کہ ’’میں دیکھ ضرور لوں مناسب سمجھوں تو تبصرہ کردوں‘‘ میں نے پھر بصد احترام انھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ ’’میں صرف اس صورت میں کسی کتاب کا تعارف قارئین سے کرواتی ہوں کہ وہ مجھے پسند آئے اور قارئین کو بھی اس کے مطالعے سے کوئی علمی فائدہ ضرور ہو۔۔۔۔خاص کر وہ طریقے سے ہم وہ قرض ادا کرتے ہیں جو ہم پہ واجب بھی نہیں ہے۔ لیکن وہ بڑے ادیب اس بات کے مستحق ضرور ہیں کہ نئی نسل کو ان کی گمشدہ کتابوں کے حوالے سے زندہ رکھا جائے۔‘‘

فون بند ہوتے ہی صاحب کتاب (نام جان بوجھ کر نہیں لکھ رہی) کے دو تفصیلی SMS میرے اور قاضی اختر کے موبائل پر آئے اور ان صاحب نے جن کے ہم نام سے بھی واقف نہیں جاننا تو دور کی بات ہے ہمیں خوب برا بھلا بھی کہا۔ اور یہ بھی لکھا کہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ میں کیوں ان کی کتابوں پہ تبصرہ نہیں کرنا چاہتی۔ نیز یہ کہ انھوں نے خاصی غیرمہذب زبان استعمال کرتے ہوئے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ’’آج سے وہ ہم دونوں کے موبائل نمبر Delete کر رہے ہیں‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اس غیر مہذبانہ اور غیر شائستہ رویے کو آپ کیا نام دیں گے۔۔۔؟۔۔۔ہم سب کالم نگاروں کو کبھی نہ کبھی ایسی ہی صورت حال سے گزرنا پڑتا ہے۔ جس سے میں اکثر دوچار ہوتی ہوں۔۔۔۔!!سوال یہ ہے کہ کیا کوئی بھی کالم نگار اس بات کا پابند ہے کہ کسی بھی بھیجی ہوئی کتاب کا قصیدہ اپنے کالم میں ضرور کرے۔۔۔؟؟

جن صاحب نے پہلے مجھے فون کیا تھا وہ باقاعدہ کتابیں شایع کرنے کا کاروبار کرتے ہیں۔ لیکن انھیں یہ حق کس نے دیا تھا کہ وہ میرا موبائل نمبر ایک غیرمہذب آدمی کو دے کر کہیں کہ۔۔۔۔’’انھیں SMS کرکے گالیاں دو‘‘۔۔۔۔کیا ان کا یہ رویہ مناسب تھا۔۔۔؟ یا غیر مناسب۔۔۔؟ قارئین خود فیصلہ کریں گے۔ جن صاحب نے نامناسب زبان اپنے SMS میں استعمال کی پتہ نہیں وہ قلم کار ہیں بھی یا نہیں۔۔۔۔؟۔۔۔۔کیونکہ آج کل صاحب کتاب ہونے کے لیے ادیب یا شاعر ہونا بالکل ضروری نہیں۔ ہر قسم کی پروڈکٹ آپ کو مارکیٹ میں مطلوبہ ریٹ پر مل جائے گی۔

مرحوم حمید اختر صاحب نے ایک دفعہ لاہور میں اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں ہم دونوں سے کہا تھا کہ۔۔۔۔’’بعض کتابیں تو اس قابل بھی نہیں ہوتیں کہ انھیں تفصیلی پڑھا جائے۔۔۔۔میں تو کتاب کو سونگھ کر اس کی اہمیت کا اندازہ لگالیتا ہوں‘‘۔۔۔۔اس بات کا ذکر متعدد بار انھوں نے اپنے کالموں میں بھی کیا تھا۔ میں اس صورت حال سے اس حد تک تنگ آچکی ہوں کہ جیسے میں کوئی کتاب بھیجنے کے لیے فون کرتا ہے، یا کسی تقریب میں کتاب دیتا ہے تو میں برملا پوچھ لیتی ہوں کہ وہ کتاب اگر پڑھنے کو دے رہے ہیں تو بہت بہت شکریہ۔ لیکن اگر کالم میں تبصرے کے لیے دے رہے ہیں تو بہتر ہے کہ ایکسپریس میں متعلقہ شعبے کے انچارج کو بھجوادیں۔

دو تین ماہ پہلے راشد اشرف نے چند کتابیں مجھے بھجوائیں جو پنجاب کے کسی شہر سے آئی تھیں اور گھر تبدیل کرنے کی بنا پر صاحب کتاب کے پاس میرا نیا پتہ نہ تھا۔ ایک کتاب خطوط پر مشتمل یاد داشتوں پر مبنی تھی۔ جونہی کتابیں موصول ہوئیں۔ان صاحب کا فون آگیا اور فرمائش تھی کہ فوراً پڑھوں اور تبصرہ کروں۔ لیکن ان کا لہجہ بہت شائستہ تھا۔ اب ہوتا یہ کہ روزانہ ان کا ایک SMS آتا کہ کیا میں نے ان کی کتاب پڑھ لی۔ اگر پڑھ لی ہو تو فوراً تبصرہ کردوں۔۔۔۔پھر فون آجاتا اور وہ اصرار کرتے۔ کتاب بہت ضخیم تھی۔ میں نے مہلت چاہی ۔ کتاب کو پڑھنے کی کوشش کی مگر چند صفحات کے بعد طبیعت اوب گئی۔۔۔۔ پھر بھی میں نے ان کا دل توڑنا مناسب نہ سمجھا۔ روز یہی عالم کہ بے شمار SMS اور فون الگ۔ پھر ایک دن انھی صاحب نے بصد شوق جتایا کہ ’’ان کی کتاب کو ایک پگڑی والے دانش ور نے پچاس ہزار کا انعام دلوادیا ہے‘‘۔۔۔۔باقی تفصیل کالم میں بیان کرنا ممکن تو ضرور ہے۔ لیکن ہوسکتا ہے کہ ’’بوجوہ‘‘ ان سطروں کوحذف کردیا جائے۔

دوسری کتاب جو کھولی تو پتہ چلا کہ یہ تو ٹھیک ٹھاک چربہ ہے۔ مزید ستم ظریفی یہ کہ اردو کے اشعار جو ضرب المثل ہونے کے باوجود شاعر کے نام کے حوالے سے گمنامی میں ہیں۔ ان میں غالب کا ایک شعر جو مقطع بھی ہے۔ اسے موجودہ دور کے ایک شاعر کے نام سے منسوب کردیا گیا۔۔۔۔ہے نا ستم ظریفی۔۔۔۔اور پھر دعویٰ ادیب، شاعر، کالم نگار ہونے کا۔۔۔۔شاعری والے باپ میں یہ حال تھا کہ احمد کی پگڑی محمود کے سر، غالب کا شعر داغ کے نام۔ ذوق کا میرتقی میر کے نام۔۔۔۔بس اس کے آگے ہمت نہ ہوئی۔۔۔۔لیکن میں نے راشد اشرف کو دونوں کتابوں کی تفصیل اور کارکردگی ضرور بتادی۔۔۔۔وہ الگ شرمندہ۔ اس بات پر کہ مجھے جو لاتعداد SMS اور فون کالز اس خطوط نما آپ بیتی کے سلسلے میں اٹھانا پڑی وہ الگ۔

جو حضرات کتابوں کا کاروبار کر رہے ہیں ان میں بڑے معقول اور اچھے لوگ بھی شامل ہیں۔ اکثر یہ کتابیں مجھے ملتی ہیں۔ میں انھیں پڑھنے کی کوشش بھی کرتی ہوں۔لیکن بعض اوقات انھیں ہضم کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ کتابوں کے معاملے میں میرا اپنا ایک اصول ہے کہ کسی بھی وجہ سے سمجھوتہ نہیں کرتی۔ لیکن کئی سالوں پہلے بھی جب ایک ایسی ہی صورت حال سے سامنا پڑا تھا تو میں نے توبہ کرلی تھی کہ اب کسی بھی کتاب کا تعارف نہیں کراؤں گی۔ کیونکہ فیصل آباد سے موصول ہونے والی افسانوں اور تنقید کی کتابیں واقعی اس قابل تھیں کہ انھیں فوراً ردی میں ڈال دیا جائے۔ ان صاحب نے جس طرح اخلاق سے گرے ہوئے SMS بھیج کر اور فون کال کرکرکے پریشان کیا ہے۔ اس سے میں بہت دل برداشتہ ہوگئی تھی۔ لاہور کے ایک ادبی پرچے میں ایک نام ور نقاد نے بھی ان صاحب کے افسانوں اور ان کے طرز عمل کی خوب بھد اڑائی تھی بلکہ اچھی خاصی خبر لی تھی۔ جو بالکل صحیح تھی اور ایک طریقے سے میرے خیالات کی ترجمانی بھی تھی۔۔۔۔لیکن حیرت انگیز طور پر اسی پرچے میں ان صاحب کا ’’خصوصی گوشہ‘‘ بھی دیکھا۔۔۔۔اس صورت حال پہ سوائے اس کے کیا کہوں کہ ۔۔۔۔  ناطقہ سربہ گریباں کہ اسے کیا کہیے۔

ادب کا نام لیتے ہی ایک مہذب رویے اور شائستگی کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے۔ لیکن یہ تاثر صرف اصلی ادیب اور شاعر سے وابستہ ہے  نہ کہ جعلی پیروں کی طرح کے جعلی ادیبوں کے لیے۔ جو موٹی رقم دے کر شاعری کے کئی کئی مجموعے چھپوا لیتے ہیں۔ اس موٹی رقم میں کتابوں پہ تبصرے اور تقریبات منعقد کرنے کا معاوضہ بھی شامل ہوتا ہے۔ اسی لیے ایسی کتابیں ہم کالم نگاروں کو ہمیشہ پبلشرز کی طرف سے موصول ہوتی ہیں۔ کیونکہ جس کے نام سے کتاب مارکیٹ میں آرہی ہے۔ اسے تو کسی بات کا پتہ ہی نہیں۔ وہ تو بس اس بات سے خوش کہ کتاب کے سرورق پر اس کا نام اور پشت پر تصویر شایع ہوگئی۔۔۔۔اس کے بعد وہ کتابیں ردی میں تول کر بکیں یا پنواڑی اس کے صفحات میں پان لپیٹ کردیں۔ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ وہ اسی میں خوش کہ وہ صاحب کتاب ہوگیا۔اس کالم کے چھپنے کے بعد بھی میں جانتی ہوں کہ کئی فون اور SMS مزید ناراضگی کے آئیں گے کہ ہم سب کالم نگار خواہ کسی بھی اخبار سے وابستہ ہوں۔ اس قسم کے رویوں کے عادی ہوتے ہیں۔ صرف کتاب پر ہی نہیں بلکہ ہر وہ موضوع اور وہ سطریں جو کسی کا جھوٹ بے نقاب کر رہی ہیں ان کو پڑھتے ہی موبائل پر گالیوں کی سروس شروع ہوجاتی ہے۔ پہلے گالیوں کا ٹھیکہ مذہبی جماعتوں نے لے رکھا تھا۔ اب اس میں جعلی ادیب اور خود ساختہ دانش ور بھی شامل ہوگئے ہیں بقول غالب:

رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی سے معاف

آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔