اندازِ بیاں اور

امجد اسلام امجد  جمعرات 12 ستمبر 2013
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

لارڈ نذیر احمد کا نام اب کسی تعارف کا محتاج نہیں کہ اوورسیز پاکستانیوں کے نمایندہ کی حیثیت سے بالعموم اور برطانوی پارلیمنٹ کے ہائوس آف لارڈز کے پہلے پاکستانی نژاد رکن کے حوالے سے بالخصوص وہ ہمہ وقت نہ صرف خبروں میں رہتے ہیں بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کا سیاسی قدوقامت بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے ۔ اُن کی تقریروں کا جادو سر چڑھ کر ہی نہیں بولتا دلوں اور دماغوں میں بھی اُترتا چلا جاتا ہے ایک راست گو اور شعلہ بیان مقررّ کے حوالے سے اب وہ اسلامی دنیا کے ساتھ ساتھ مغرب کے سیاسی اور فکری حلقوں میں بھی ایک ایسے دانشور کا درجہ حاصل کرتے جا رہے ہیں جو بیک وقت مشرق کے جذباتی اور روائتی اور مغرب کے منطقی اور معاشی اعتبار سے ترقی یافتہ ذہن سے بیک وقت مکالمہ کرنے کی حیرت انگیز صلاحیت رکھتے ہیں۔

’’اندازِ بیاں اور‘‘ اصل میں ان کے مختلف انٹرویوز، تحریروں اور تقاریر کا مجموعہ ہے جسے عزیزی عمران حسین چوہدری نے بڑی محنت اور سلیقے کے ساتھ جمع اور شایع کیا ہے ۔ محنت کا تعلق ترجمے کی روانی اور متن سے نکالی گئی بامعنی، بر محل اور برجستہ سرخیوں سے ہے جب کہ پیش کش کا منطقہ کتاب کا صوری حسن ہے ترجمے کی سلامت اور روانی کا ذکر اس لیے ضروری ہے کہ عام طور پر انگریزی سے اُردو ( یا کسی بھی زبان کے کسی دوسری زبان میں) ترجمے میں الفاظ کے استعاراتی پہلو اور طرزِ ادا کے خصوصی رنگ مدّھم پڑجاتے ہیں لیکن اس کتاب کی حد تک مترجم نے (جن کا نام میرے علم میں نہیں) لارڈ نذیر کی گفتار کے مخصوص آہنگ کو اس حد تک قائم رکھا ہے کہ بعض اوقات یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ اصل عبارت اُردو میںتھی یا انگریزی میں۔

یہ تقریب گورنر ہائوس لاہور میں منعقد ہوئی ۔ صدارت گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے کی ۔ اسٹیج پر مہمان خصوصی لارڈ نذیر کے علاوہ سہیل وڑائچ ، اجمل نیازی، عطا ء الرحمن، بشرٰی اعجاز، کبیر شاہ صاحب، خلیل سندھو اور راقم الحروف کو جگہ دی گئی تھی جب کہ تقریباً اتنے ہی مزید مقررّین سامعین کی صفوں میں چھپے بیٹھے تھے ۔ اتفاق سے میری چوہدری سرور اور لارڈ نذیر سے پہلی پہلی ملاقات انگلستان میں اُس وقت ہوئی جب یہ دونوں بالترتیب ہائوس آف کامنز اور ہائوس آف لارڈز میں اوّلین پاکستانی نژاد مسلمانوں کے طور پر منتخب ہوئے تھے۔ وطنِ عزیز کی طرح وہاں کے پاکستانیوں میں بھی ان کی اس حیرت انگیز اور تاریخ ساز ترقی پر شک و شبہ کرنے والوں کی ایک جماعت موجود تھی لیکن جس بہادری، سلیقے اور استقلال کے ساتھ ان دونوں حضرات نے برطانوی پاکستانیوں ،عالمِ اسلام کے مسائل، پاکستان اور کشمیر کے حق میں آواز بلند کی اور اپنوں اورغیروں کے پھیلائے ہوئے سکینڈلز کا سامنا کیا اُس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ان دونوں حضرات کو یہاں بھی اور وہاں بھی بہت عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

لارڈ نذیر احمد ایک مزدور کے بیٹے اور سیلف میڈ انسان ہیں جو اپنی محنت اور غربت کے دنوں کو نہ تو چھپاتے ہیں اور نہ ہی انھیں ’’عظمت کا اشتہار‘‘ بناتے ہیں اور میرے خیال میں یہی اُن کی کامیابی کا بنیادی راز ہے اس کتاب ’’اندازِ بیاں اور ‘‘ میں مرتب عمران حسین چوہدری نے اُن کے اخبارات، جرائد اور ٹی وی چینلز کو دیے گئے  19 انٹرویوز مختلف مسائل اورتاثرات پر مبنی 11 تحریریں اور مختلف النوع عالمی مسائل پر کی گئی 11 تقریریں ایک جگہ جمع کر دی ہیں بلاشبہ  271 صفحات پر مبنی یہ مجموعہ پڑھنے میں بھی بہت لطف دیتا ہے لیکن اگر اس کے ساتھ کچھ تقاریر کی  CD یا  DVD بھی شامل کر دی جاتیں تو یہ لطف دو آتشہ ہوجاتا کیونکہ لارڈ نذیر کو قدرت کی طرف سے جو بولنے کا ڈھب عنائت ہوا ہے وہ کم کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔

کالم کی محدود وسعتِ داماں کے پیشِ نظر اقتباسات پیش کرنا ممکن نہ ہوگا کہ اس میں ’’پسلی پھڑک اُٹھی نگہِ انتخاب کی‘‘ سی صورت جگہ جگہ راستہ روکتی ہے لیکن مختلف موضوعات سے متعلق چیدہ چیدہ نکات کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ ان سے اس بات کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان کی فکر کا دائرہ کس قدر وسیع اور گہرا ہے اور یہ کہ وہ ایسے موضوعات پر بھی کُھل کر بات کرتے ہیں جن کو چُھونے کی بھی ہمت گنتی کے چند لوگوںمیں ہی نظر آتی ہے۔ یہ ذکر میری طبع کے خلاف کچھ کچھ قصیدے کا سا رنگ اختیار کر گیا ہے لیکن میں اسے اس لیے جائز سمجھتا ہوں کہ اب لارڈ نذیر جیسے لوگ بہت تیزی سے نہ صرف کم ہوتے جارہے ہیں بلکہ اُن کی جگہ لینے والی سپلائی لائن بھی معدوم ہوتی جارہی ہے ۔ تو آیئے لارڈ نذیر احمد کے مختلف انٹرویوز سے اخذ کی گئی چند سرخیوں پر اس دعا کے ساتھ نظر ڈالتے ہیں کہ ربِ کریم ہم سب کو اور ہماری اگلی نسلوں کو ان مسائل پر سوچنے اور انھیں حل کرنے کی وہ توفیق دے کہ جو ایک عام سے اندازِ بیاں کو ’’انداز بیاں اور‘‘ کا درجہ دے دیتی ہے۔

.1برطانوی مساجد میں خطبہ انگریزی میں ہونا چاہیے۔

.2پاکستانی اور کشمیری جماعتوںکی شاخیں برطانیہ میں کمیونٹی کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔

.3والدین اور کمیونٹی لیڈر نوجوان نسل کو بچانے کے لیے کچھ کریں۔

.4سوشل سیکیورٹی کے نشے نے والدین کو بے کار رہنے کی عادت ڈال دی ہے۔

.5خود ساختہ لیڈر اور بعض مذہبی رہنما کمیونٹی کے انتشار کی جڑ ہیں۔

.6بعض اسلامی تنظیمیں نوجوانوں کو اپنے مقاصد کی خاطر جنونی بنا رہی ہیں۔

.7اپنی دکان کے بچے ہوئے چپس کھانے سے میں موٹا ہوگیا۔

.8قبرستان میں بیٹھ کر ابتدائی تعلیم حاصل کی۔

.9کالج کے زمانے میں کاروبار شروع کر دیا اور دو ٹریکٹر اپنے ہاتھ سے پینٹ کرکے پاکستان بھیجے۔

.10بھارت امن کے لیے سنجیدہ ہے تو کشمیریوں کا قتلِ عام بند کرے۔

.11انٹر فیتھ ڈائیلاگ سے ہی دنیا بحران سے نکل سکتی ہے۔

.12علماء اور مشائخ کے لیے انگریزی سے واقفیت وقت کی اہم ضرورت ہے ۔

.13او آئی سی کی حیثیت ڈنر کلب سے زیادہ نہیں ہے۔

.14کشمیر کی قسمت کا فیصلہ دہلی ،اسلام آباد یا واشنگٹن میں نہیں ہونا چاہیے۔

.15برطانوی جیلوں میں ساڑھے سات ہزار مسلم نوجوان مختلف جرائم میں قید ہیں۔

.16میں نے کئی معاملات میں حکومتِ برطانیہ اور لیبر پارٹی کی پالیسیوں اورفیصلوں کی کُھل کر مخالفت کی ۔

.17مغرب اور مسلم اُمہّ کے درمیان پُل کا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔

18۔برطانیہ میں مقیم مسلمان اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہّ دیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔