- کوشش ہے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات پاکستان کے حق میں ہوں، مریم اورنگزیب
- پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مظلوم کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کی قرارداد منظور
- ترکیہ کے المناک زلزلے پر بھی بھارت کا پاکستان کیخلاف پروپیگنڈا
- راولپنڈی میں گیارہ سالہ بچی سے زیادتی
- امریکا؛ ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر گولی لگنے سے پاکستانی نژاد پولیس افسر جاں بحق
- اگر کوئی لڑکی محبت کا اظہار کرے تو میں کیا کرسکتا ہوں، نسیم شاہ
- پنجاب، خیبر پختونخوا میں بلدیاتی اداروں کی معطلی کا نوٹیفکیشن اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج
- حکومت کا پیٹرول کی قیمت بڑھانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، ذخیرہ اندوز باز آجائیں، وزیر پیٹرولیم
- سعودی ولی عہد کا ترکیہ اور شام کو امداد پہنچانے کیلیے فضائی پُل بنانے کا حکم
- پی ٹی آئی کا 33 حلقوں پر ضمنی انتخابات کی تاریخ تبدیل کرنے کا مطالبہ
- انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں کمی آگئی
- انڈے کھانے سے دل کو فائدہ ہوسکتا ہے
- گلیشیئر پگھلنے سے پاکستان اور بھارت میں 50 لاکھ افراد متاثر ہوسکتے ہیں
- کابینہ میں توسیع؛ وزیراعظم نے مزید 7 معاونین خصوصی مقرر کردیے
- ہالینڈ میں زیرِ آب سائیکلوں کی سب سے بڑی پارکنگ کی تعمیر کا منصوبہ
- فاسٹ بولر وہاب ریاض کی پی ایس ایل میں شرکت پر سوالیہ نشان لگ گیا
- اسلام آباد؛ شادی شدہ خاتون کی نازبیا تصاویر بنوانے والا پولیس اہلکار گرفتار
- الیکشن کمیشن ہنگامہ آرائی: تحریک انصاف کے عامر ڈوگر اور لیگی سینیٹر گرفتار
- ملبے کے ڈھیر پر مردہ بیٹی کا ہاتھ تھامے بے بس باپ کی تصویر دیکھ کر ہر آنکھ اشکبار
- ایک تولہ سونے کی قیمت 2 لاکھ روپے سے نیچے آگئی
نذیرنے 1930 میں خاموش فلم سے کیرئیر شروع کیا
مذکورہ فلم پایہ تکمیل تک پہنچنے سے قبل ہی ڈبوں میں بند ہوگئی اور پھر انھوں نے ’’سچائی‘‘ بنائی جس میں مرکزی کردار سورن اور نذیر نے خود ادا کیا۔ فوٹو: فائل
لاہور: اداکار نذیرلاہور کی مشہور ککے زئی برادری سے تعلق رکھنے والے ایک معزز گھرانے کے چشم وچراغ تھے۔
مضبوط سڈول جسم ، مناسب قدوقامت منفرد گھنے اور سیاہ گھنگریالے بال، دلکش خدوخال اور بھرپور مردانہ وجاہت جیسی خصوصیات کے حامل نوجوان نذیر کو ہدایتکار اے آر کاردار نے 1930ء میں خاموش فلم ’’مسٹر یس بینڈیٹ‘‘ میں متعارف کروایا ۔ 1931ء میں پہلی بولتی فلم ’’عالم آراء‘‘ کی تکمیل اور نمائش کے بعد بھی اپنا فلمی سفر کو جاری رکھا ۔ انھوں نے متعدد فلموں میں اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا جن میں ’’آب حیات‘‘ ، ’’ چندر گپت‘‘ ،’’ بدروحی‘‘ ، ’’ دہلی کا ٹھگ‘‘ ، ’’ شری دھرم‘‘ ، ’’ پریتما‘‘ ،’’ سگندل سماج‘‘ ، ’’ کیپٹن کشوری‘‘ ، ’’ زمانہ‘‘ ، ’’ شیر کا پنچہ‘‘ ،’’ پیاس‘‘ ، ’’ گھر کی لاج‘‘ ، ’’ اپنی نگریا‘‘ ، ’’ کون کسی کا ‘‘ ، ’’مڈنائیٹ میل‘‘ ، ’’ جوش اسلام ‘‘ ، ’’ماں باپ‘‘ اور ’’ گائوں کی گوری‘‘ جیسی معروف فلمیں بھی شامل ہیں ۔
پھر وہ اداکاری سے ہدایتکاری کے شعبے میں آئے اور ہند پکچرز کے نام سے ادارہ قائم کیا جس کے تحت ’’سندیسہ‘‘ ، ’’ کلجگ‘‘ ،’’ سوسائٹی ‘‘ ،’’ آبرو‘‘ ، ’’ سلمی‘‘ ،’’ لیلی مجنوں‘‘ ، ’’وامق عذر‘‘ ، ’’عابدہ ‘‘ پروڈیوس اور ڈائریکٹ کیں۔ عابدہ اور ایک فلم کے علاوہ باقی تمام فلموں میں مرکزی کردار بھی خود ادا کیے ۔ ہدایتکار امرناتھ کی فلم ’’گائوں کی گوری‘‘ میں ملکہ ترنم نورجہاں کے ہیرو تھے۔ ’’لیلی مجنوں ‘‘ اور ’’ وامق عذرا‘‘ میں ان کی اور سورن لتا کی رومانوی جوڑی کو بڑی شہرت حاصل ہوئی۔
ان کے ادارے کی فلموں ’’ گھر بار‘‘ ،’’ چھیڑ چھاڑ‘‘ ، ’’ماں باپ کی لاج‘‘ اور ’’یادگار‘‘ کو امر ناتھ ،نانا بھٹ اور شریف نیر نے ڈائریکٹ کیا تھا ۔نذیر نے تین شادیاں کیں پہلی شادی اپنی ہی برادری میں سکیندرا نامی خاتون سے کی جس سے بیٹی ثریا اور بیٹا افضل نذیر پیدا ہوئے ۔بیٹا افضل نذیر نے دو فلموں ’’وحشی ‘‘ اور ’’فرشتہ‘‘ میں کام کیا اورپھر ایک ٹریفک حادثے میں ایک ٹانگ سے محروم ہوگئے۔
دوسری شادی نیپالی اداکارہ ستارا سے کی جس نے متعدد فلموں میں ان کے ساتھ مرکزی رومانوی کردار ادا کیے پھر ان کے حقیقی بھانجے اور مغل اعظم کے ہدایتکار کے آصف ہی اپنی ممانی ستارا کو لے اڑے ۔ نذیر نے ستارا کو طلاق دیدی ۔ نذیر نے تیسری شادی معروف اداکارہ سورن لتا سے کی تھی جس نے اسلام قبول کرکے اپنا نام سعیدہ بانو رکھ لیا ۔ سورن لتا نے اس چاہت ومحبت کو آخری سانس تک نبھایا ۔ سورن لتا سے ان کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے ۔نذیر اور سورن لتا نے پاکستان آکر انیس فلمز کے نام سے فلمساز ادارہ قائم کیا اور انتہائی نامساعد حالات اور بے سروسامانی میں اپنے نئے سفر کا آغاز پنجاب کی مشہور لوک داستان ہیر رانجھا پر ’’عشق پنجاب‘‘ کے نام سے فلم بنائی ۔
مذکورہ فلم پایہ تکمیل تک پہنچنے سے قبل ہی ڈبوں میں بند ہوگئی اور پھر انھوں نے ’’سچائی‘‘ بنائی جس میں مرکزی کردار سورن اور نذیر نے خود ادا کیا۔ پھر انھوں نے تقسیم ہند سے قبل بننے والی فلم’’گائوں کی گوری‘‘ کی کہانی کو’’پھیرے‘‘ کے نام سے فلمایا۔ ’’پھیرے‘‘ کے بعد ’’لارے‘‘ پنجابی فلم بنائی جو ان کے پہلے ادارے ہند پکچرز کی فلم ’’چھیڑ چھاڑ‘‘ کی کہانی تھی ۔ بعدازاں انھوں نے پاکستان میں ’’انوکھی داستان‘‘ ، ’’ خاتون‘‘، ’’شہری بابو‘‘ ،’’ہیر‘‘،’’ صابرہ‘‘ ، ’’نور اسلام ‘‘ ،’’ عظمت اسلام ‘‘ ،’’ بلوجی ‘‘ اور ’’شمع‘‘ فلمیں پروڈیوس اور ڈائریکٹ کیں۔ اپنی فلموںکے علاوہ انھوںنے ’’نوکر‘‘ ،’’ حمیدہ‘‘ ،’’ سوال ‘‘ میں اداکاری کی ۔ نذیر 26اگست 1983ء کو عالم فانی سے رخصت ہوگئے ۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔