ایران امریکا کشیدگی میں اضافہ

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 12 جولائی 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

امریکا ایک عرصے سے جن دو ملکوں سے پنگے لے رہا ہے، ان میں ایک شمالی کوریا ہے، دوسرا ایران ہے، دونوں ملکوں سے پنگوں میں امریکا کی داداگیری سب سے بڑا فیکٹر ہے۔ ایران سے تنازعہ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کا ہے، اسرائیل امریکا کی ناروا پشت پناہی کی وجہ علاقے کی داداگیری چھوڑنے کے لیے تیار نہیں اور شمالی کوریا کا مسئلہ بھی ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق ہی ہے۔

امریکا کے صدرکی یہ سائیکی ہے کہ وہ فریق مخالف کی جائز بات سننے کے بجائے اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ یہی صورتحال ایران کے ساتھ بھی ہے، ایران کے سر پر اسرائیل کو سوارکیا گیا ہے اور اسرائیل کے مقابلے کے لیے ایران جب ایٹمی ہتھیار تیار کرنا چاہتا ہے تو  ٹرمپ ایران کی اس گستاخی پر سخت ناراض ہوجاتے ہیں اور اپنا غصہ نکال لیتے ہیں۔ شمالی کوریا کا کہنا ہے کہ امریکا شمالی کوریا کے صدرکم جونگ سے ٹرمپ کی ملاقات کے باوجود دشمنی پر تلا ہوا ہے۔

یاد رہے کہ شمالی کوریا کے صدرکم جونگ سے امریکی صدر ٹرمپ کی ملاقات کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں جو بہتری آئی تھی اور دونوں رہنماؤں کے درمیان جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے مذاکرات کے لیے ایک ٹیم بنانے پر اتفاق ہوا تھا۔ اقوام متحدہ میں شمالی کوریا کے وفد نے کہا کہ امریکا پر پابندیوں کی جنونیت طاری ہے ۔ شمالی کوریا نے کہا ہے کہ امریکا خطے میں پرامن ماحول کو بگاڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔

شمالی کوریا کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے افسوسناک بات یہ ہے کہ امریکا، فرانس، جرمنی اور برطانیہ کی طرف سے اقوام متحدہ کے تمام ممبران کو جو مشترکہ خط بھیجا گیا ہے اس میں شمالی کوریا پر مزید پابندیاں لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ شمالی کوریا کے وفد نے کہا ہے کہ امریکا پر پابندیاں لگانے کا جنون سوار ہے جو مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

شمالی کوریا کے وفد نے کہا ہے کہ امریکا دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق معاہدے کے بعد بھی دشمنی کے رویے پر تلا ہوا ہے۔ شمالی کوریا کے حوالے سے امریکا کا رویہ زیادہ جارحانہ ہو رہا ہے۔ امریکا نے شمالی کوریا کے ورکرز کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے جو اس کی انتقامی پالیسی کا اظہار ہے۔

وفد نے اقوام متحدہ کے ممبران کو خبردار کیا ہے کہ انھیں امریکا کی جانب سے شمالی کوریا میں امن کی صورتحال کو خراب کرنے کی کوششوں سے محتاط رہنا ہوگا۔ یاد رہے کہ جب دونوں ملکوں کے درمیان پہلے مذاکرات کا آغاز ہوا تو شمالی کوریا کے صدر نے امریکا کی خواہش کے مطابق جوہری ہتھیاروں کو اور جوہری ہتھیار بنانے کے اڈوں کو ختم کردیا تھا۔ امریکی صدر کی یہ سائیکی ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں اور زیر اثر ملکوں کی غیر اصولی حمایت کی کوشش کرتا ہے جس کی وجہ فریقین میں اعتماد کا فقدان پیدا ہوجاتا ہے۔اسی طرح ایران کا معاملہ ہے۔ ایران بھی امریکا کی طرف سے لگائی جانے والی  پابندیوں سے سخت ناخوش اور بے زار ہے۔

صدر ٹرمپ کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ فریق مخالف کو پابندیوں میں جکڑکر رکھیں، یہ کوشش عملاً بلیک میلنگ ثابت ہوتی ہے۔ ایران کے انٹیلی جنس کے وزیرکا کہنا ہے کہ اگر امریکا ایران پر لگائی گئی پابندیاں  اٹھالے تو ایران امریکا سے مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ ایران کے نمایندے کا کہنا ہے کہ کوئی بھی مذاکراتی عمل ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی اجازت کے بعد ہی شروع کیا جاسکتا ہے۔ ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای نے مشروط مذاکرات کی اجازت دے دی ہے۔ ایران کے انٹیلی جنس امریکا کو ایران کی فوجی طاقت کا اندازہ ہوگیا ہے۔

ایک تازہ خبر کے مطابق ایرانی فوج کے سربراہ میجر جنرل عبدالرحیم موسوی نے ملک کی نیم سرکاری ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کسی بھی ملک کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا ، ملکی ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر ہونے والے ایک خطاب میں ایرانی وزیر دفاع نے کہا کہ ایران کے آئل ٹینکر کو تحویل میں رکھنے کا برطانوی اقدام دھمکی آمیز اور غلط تھا۔ ایرانی وزیر دفاع نے یہ بھی کہا کہ ایران کی جانب سے گزشتہ ماہ امریکی ڈرون گرائے جانے سے واشنگٹن کو یہ پیغام دیا گیا تھا کہ ایران اپنی سرحدوں کی حفاظت کرے گا۔

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ برطانیہ ہمارے پکڑے جانے والے آئل ٹینکر واپس کرے۔ ایران کے جوہری توانائی کے ادارے نے کہا ہے کہ 2015کے جوہری معاہدے کے تحت یورینیم افزودگی جن حدود کی اجازت ہے۔ ایران نے ان سے تجاوز کیا ہے۔ ایران نے کہا ہے کہ اس نے 4.5 فیصد کی افزودگی کی شرح کو عبور کیا ہے۔ جب کہ معاہدے میں دی گئی یہ حد 3.67 کی ہے، اس شرح کو عبور کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے روکا جائے، انھوں نے کہا ہے کہ امریکا دباؤ کی سیاست سے باز نہ آیا تو ایران نیوکلیئر سمجھوتے میں دی گئی ضمانتوں سے انحراف کرتے ہوئے یورینیم کی افزودگی کو 20 فیصد تک لے جائے گا۔

روس نے کہا ہے کہ اسے ایران کی جانب سے 2015 کے جوہری معاہدے میں یورینیم کی افزودگی کی مقررہ حدود سے تجاوز پر تشویش ہے اور وہ اس کے بچاؤ کے لیے سفارتی کوششیں جاری رکھے گا۔ ہم اب بھی 2015 کے جوہری معاہدے کے حامی ہیں۔ ایران کی جانب سے کسی بھی سطح پر کسی بھی مقدار میں یورینیم افزودہ کرنے پر تیار ہونے کو بین الاقوامی سطح پر مذمت کا سامنا ہے۔ تمام فریق اس بات پر بھی اتفاق رکھتے ہیں کہ تہران کو کسی بھی قسم کے جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکے جانے کی ضرورت ہے۔ ایران کے حالیہ فیصلے نے تہران اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کردیا ہے۔ اس سلسلے میں امریکی صدر ٹرمپ یورینیم کی افزودگی کی سطح بڑھانے سے متعلق ایرانی اعلان پر اپنے پہلے تبصرے میں ایک بار پھر اپنا موقف دہرا چکے ہیں کہ تہران کے لیے کبھی بھی ایٹمی ہتھیاروں کا حصول ممکن نہیں ہوگا۔

ہم نے یہاں دونوں ملکوں کے موقف کو وضاحت سے پیش کیا ہے کہ دنیا ان دونوں ملکوں کے موقف تضادات کو سمجھ سکے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایران کا مخالف فریق اسرائیل ہے اور اسرائیل ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ علاقے کے پڑوسی ملکوں کے لیے مستقل خطرہ بنا ہوا ہے۔ ایران پر ایٹمی ہتھیار بنانے کی پابندی کی وجہ دونوں ملکوں کے درمیان طاقت کے توازن میں جو فرق موجود ہے، کیا اس فرق کی موجودگی میں اس خطے میں امن کی پائیداری ممکن ہے؟ اصل مسئلہ یہ ہے کہ امریکا کے سامراجی منصوبوں میں امریکا کے حامی اور باجگزار ملکوں کے لیے تو کوئی شرط نہیں لاگو ہوتی اور انصاف پسند ملکوں کے خلاف امریکا کی سامراجی پٹاری میں بے شمار پابندیاں موجود ہوتی ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر اس نااتفاقی کا جب تک نوٹس نہیں لیا جائے گا اور امریکا کو جانبدارانہ سیاست سے نہیں روکا جائے گا، اس وقت تک عالمی امن کا یقینی تحفظ ممکن نہیں ہے۔

روس ، چین، بھارت وغیرہ کا شمارکسی حد تک آزاد خارجہ پالیسی رکھنے والے ملکوں میں ہوتا ہے۔ ان ملکوں کی ذمے داری ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف مشترکہ آواز اٹھائیں۔ امریکا کی سیاست خود پرستی اور جبر پر مبنی ہے اور اسی سیاست نے دنیا میں عدم توازن ناانصافی جیسی مشکلات پیدا کر رکھی ہیں۔ اس حوالے سے کم ازکم اقوام متحدہ ہی ایک آزاد اور خودمختار ادارے کی حیثیت سے کام کرسکتا تو دنیا ان مسائل ان مشکلات کا شکار ہونے سے بچ جاتی جس کا اسے سامنا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔