حُبِ الہی

عظمیٰ علی  جمعـء 12 جولائی 2019
ﷲ ہی عبادت کے لائق ہے اور وہی ہماری عاجزی، انکساری اور محبّت کا حق دار ہے۔ فوٹو: فائل

ﷲ ہی عبادت کے لائق ہے اور وہی ہماری عاجزی، انکساری اور محبّت کا حق دار ہے۔ فوٹو: فائل

تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ بزرگ و برتر کے لیے ہیں جس نے اپنی محبّت کو سب سے بڑی عنایت اور عظیم ترین عطیہ قرار دیا ہے۔

اللہ سبحان و تعالیٰ کی محبت ایمان کا جُز ہے۔ عقیدہ ٔ توحید اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک انسان اپنے رب کو ہر اعتبار سے محبوب نہ بنالے۔ اللہ ہی وہ ذات ہے جو عبادت کے لائق ہے اور وہی ہماری عاجزی، انکساری اور محبّت کا حق دار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو شدید محبّت کرنے والا کہا ہے اور فرمایا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے وہ اللہ سے شدید محبّت کرتے ہیں۔

حُب ِ الہی، اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے پسندیدہ اعمال کو اپنی جان و مال پر ترجیح دینے کا نام ہے۔ اسی لیے تو نبی کریمؐ نے دعا فرمائی کہ اے اللہ! میں تجھ سے تیری محبّت کا سوال کرتا ہوں اور تجھ سے محبّت کرنے والے کی محبّت کا اور ہر ایسے عمل کی محبّت کا جو تیری محبّت کے قریب تر کر دے ۔حُب ِ الہی انسان کو اس کے ذمے واجب کام کرنے اور تمام ممنوعہ امور سے دور رہنے پر اُبھارتی ہے اور مزید آگے بڑھ کر مستحبات پر ترغیب اور مکروہ چیزوں سے انسان کو دُور رکھتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کی محبّت انسان کے دل کو حلاوتِ ایمان سے بھر دیتی ہے۔ آپؐ کے فرمان کا مفہوم ہے کہ جو شخص اللہ کو رب مانے، اسلام کو اپنا دین جانے، مُحمّد ﷺ کو اپنا رسول مانے تو اس نے ایمان کو ذائقہ چکھ لیا۔ حقیقی حُبِ الہی انسان کے دل سے اللہ کی تمام نافرمانیوں کو نکال کر انسانی جسم کو اطاعت پر مجبور کردیتی ہے، جس سے نفس کو سکون مل جاتا ہے۔ اہل ایمان کو اللہ تعالی نے بتایا ہے کہ جب میں کسی بندے سے محبّت کرنے لگوں تو میں اس کی سماعت بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جن کے ذریعے وہ چلتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی محبّت گناہوں سے بچنے کے لیے مضبوط ترین ڈھال ہے، کیوں کہ ہر کوئی اپنے محبوب کا فرماں بردار ہوتا ہے۔ جو چیز اچھی معلوم ہو اس کی طرف طبعیت کی رغبت کو محبّت کہتے ہیں اگر وہ رغبت قوی ہو تو اُسے عشق کہتے ہیں اور جو چیز، بُری لگے اُس سے طبعیت کی نفرت کو عداوت کہتے ہیں اور جہاں اچھائی اور بُرائی نہ ہو وہاں محبّت اور عداوت بھی نہیں ہوتی۔ حقِ تعالیٰ کے سوا اور کوئی دوستی کے لائق نہیں، جو کوئی ماسوائے اللہ کے دوست رکھتا ہے وہ حقِ تعالیٰ کو نہیں پہچانتا، البتہ جب وہ خدا کے ساتھ کسی کے تعلق کی وجہ سے اُسے دوست رکھے جیسا کہ محبوب خدا، سرور انبیاء ﷺ کو دوست رکھنا بھی خدا کو ہی دوست رکھنا ہے۔

اس لیے کہ جو شخص اللہ کو دوست رکھتا ہے تو اُس کے رسول اور محبوب کو بھی دوست رکھتا ہے۔ جیسے کہ یہ بڑی حیرانی کی بات ہوگی کہ کوئی شخص دھوپ سے دوڑ کر درخت کے سائے کو تو دوست رکھے لیکن درخت کو دوست نہ رکھے جس کی وجہ سے سائے کا قیام ہے اور آدمی یہ جانتا ہے کہ جس طرح سائے کا قیام درخت کے سبب ہے اسی طرح اُس کی اپنی ذات اور اُس کی صفات کا قیام حق تعالیٰ کے سبب ہے جیسا کہ روایت میں ہے کہ فرمانِِ باری تعالیٰ کا مفہوم ہے کہ میں بیمار ہُوا تو تُونے میری عیادت کیوں نہ کی ؟ عرض کیا گیا کہ خدایا تُو تمام عالم کا مالک اور خداوند ہے تو کیسے بیمار ہوگا ؟ ارشاد ہوا کہ فلاں بندہ بیمار تھا اگر تُونے اس کی عیادت کی ہوتی تو گویا وہ میری ہی عیادت ہوتی۔

حُب ِ الہی ایک گوہرِ عزیز ہے اور حُبِ الہی کا دعویٰ کرنا کوئی آسان نہیں ہے۔ لہٰذا انسان کو بغیر سو چے سمجھے اپنے اُوپر محبت کا گمان نہیں کرنا چاہیے کہ میں بھی اہلِ محبّت میں سے ہوں، کیوں کہ حُبِ الہی کی کچھ نشانیاں ہیں جو کہ دیکھنا چاہیے کہ اُس میں موجود ہیں کہ نہیں اور یہ سات نشانیاں یہ ہیں۔ پہلی یہ کہ موت سے کراہت نہ کرے۔ کیوں کہ کوئی مُحب اپنے محبوب کے دیدار کو ناپسند نہیں کرتا۔ جنابِ رسول مقبول ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص خُدا کے دیدار کو دوست رکھتا ہے، خدا بھی اس کے دیدار کو دوست رکھتا ہے۔

البتہ یہ بات جائز ہے کہ آدمی موت سے مُحبّت کرتا ہو لیکن اس کے جلدی آنے سے نفرت کرتا ہو نہ کہ خود اصل موت سے نفرت کرے اس موت کے جلدی آنے کی نفرت کی وجہ بھی یہ ہو کہ ابھی آخرت کا سامانِ راہ تیار نہ ہو اور وہ اسے تیار کرنے میں مصروف ہو۔ دوسری علامت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے محبوبؐ پر خود کو نثار کردے اور جو چیز بھی اُسے اپنے حق میں قربِ خداوندی کا ذریعہ سمجھے اُسے ہرگز نہ چھوڑے اور جو چیز اُس سے دوری کا سبب ہو اُس سے دُور رہے۔ اور یہ وہ شخص ہوتا ہے جو خلوص دل سے صرف حقِ تعالیٰ کو ہی دوست رکھتا ہے۔

تیسری علامت یہ ہے کہ ذکرِ الہی کی تازگی سے اُس کا دل کبھی بھی محروم نہ ہو اور بے تکلف ذکرِ الہی کا شائق رہے ۔ اسی لیے جو شخص کسی چیز کو دوست رکھتا ہے تو اکثر اس ذکر کرتا رہتا ہے مُحبّت اگر کامل ہوتی ہے تو کبھی نہیں بھولتا۔ چوتھی یہ ہے کہ قرآن پاک کو دوست رکھے کہ یہ اُس کا کلام ہے اُس کے رسول کریمؐ کو دوست رکھے کہ یہ اُس کے دوست ہیں۔ بل کہ اُس کی طرف منسوب ہر چیز کو دوست رکھے۔

پانچویں یہ ہے کہ خلوت میں مناجات کرنے کی حرص میں مبتلا اور ہمیشہ اسی انتظار میں ہو کہ کب رات آئے اور میں دنیا کے تمام مشاغل سے نجات پاکر خلوت میں دوست کے ساتھ گفت گُو کر سکوں۔ لیکن اگر رات دن نیند اور دنیاوی باتوں سے فرصت نہ ہو تو پھر گویا اُس کی محبت ناقص اور کم زور ہے کہ اُسے حقِ تعالیٰ سے زیادہ دوسری چیزوں سے محبّت ہوئی۔

چھٹی یہ کہ اُس پر عبادت کرنا آسان ہو، وہ اسے بوجھ نہ سمجھے۔ ایک عابد نے کہا کہ پہلے تیس سال تک گویا میں نے تہجد کی نماز جان کنی کے عالم میں ادا کی لیکن میں نے اپنے آپ کو اس پر کاربند رکھا اور جب عادی ہوگیا تو پھر عبادت مجھے عیش و عشرت محسوس ہوئی۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ جب اللہ کی محبت پکی ہوجائے تو پھر کوئی لذّت عبادت کی لذّت سے بڑھ کر نہیں ہوسکتی اور پھر کبھی عبادت دشوار نہیں لگ سکتی۔ ساتویں یہ ہے کہ حقِ تعالیٰ کے تمام اطاعت گزار بندوں کے ساتھ مُحبّت رکھے اور اُن پر رحم کرے اور شفقت سے پیش آئے۔

اللہ پاک ہمیں اپنی اور اپنے حبیب نبی کریم ﷺ کی سچی اور پکی مُحبّت عطا فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔