دستاویزی معیشت کی سمت بڑھتے قدم

سید عاصم محمود  اتوار 14 جولائی 2019
 حکومت ِ وقت ٹیکس نظام سے باہر پاکستانیوں کو قانونی دائرے میں لانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے تاکہ ملکی اکانومی ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔۔۔ خصوصی رپورٹ

 حکومت ِ وقت ٹیکس نظام سے باہر پاکستانیوں کو قانونی دائرے میں لانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے تاکہ ملکی اکانومی ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔۔۔ خصوصی رپورٹ

یہ 29 مئی 1988ء کی بات ہے، صدر مملکت جنرل ضیاء الحق نے پاکستان کی پارلیمنٹ اچانک تحلیل کردی۔ بجٹ کی آمد آمد تھی۔ سابق وزیر خزانہ میاں یاسین وٹو رخصت ہوئے، تو صدر مملکت نے نیا بجٹ تشکیل دینے کی ذمے داری مشہور ماہر معاشیات اور ’’ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس‘‘ کے خالق، محبوب الحق کو سونپ دی۔تب حکومت معاشی مسائل کا شکار تھی۔ حکومتی اخراجات بڑھ رہے تھے جبکہ آمدن میں برائے نام اضافہ ہورہا تھا۔

محبوب الحق سمجھتے تھے کہ آمدن نہ بڑھنے کی بنیادی وجہ ٹیکس چوری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس دینے کے لحاظ سے پاکستان میں تین بڑے طبقے ہیں: اول تنخواہ دار طبقہ، دوم متوسط و غریب طبقہ اور سوم ایلیٹ طبقہ جس میں امیر کبیر پاکستانی شامل تھے۔ اول و دوم طبقے تو ہر قسم کے ٹیکس دیتے مگر محبوب الحق کا خیال تھا کہ ایلیٹ طبقے میں شامل کئی پاکستانی اپنے حصے کا ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ اس کی اہم وجہ یہ تھی کہ لاکھوں پاکستانی اپنا لین دین نقد کرتے تھے اور بہت سے ٹیکس نہ دیتے ۔اس قسم کی معاشی سرگرمی اصطلاح میں ’’غیر دستاویزی معیشت‘‘ (Informal economy) کہلاتی ہے۔

نئے وزیر خزانہ، محبوب الحق نے فیصلہ کیا کہ غیر دستاویزی معیشت میں شامل پاکستانیوں کو ٹیکس نظام میں لایا جائے۔ چناں چہ انہوں نے جون 1988ء میں قومی بجٹ پیش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اب ملک بھر میں جو لین دین پچاس ہزار روپے سے بڑی رقم کا ہوا، وہ بذریعہ چیک ہوگا۔ یہ شرط عائد کرنے کا مقصد یہ تھا کہ پچاس ہزار روپے سے بڑی ہر رقم کا لین دین بینکوں کے ذریعے دستاویزی شکل میں آجائے۔ اس ڈیٹا کے ذریعے پھر ٹیکس لینے والے قومی ادارے کسی بھی وقت جان سکتے تھے کہ فلاں کمپنی یا فرد ماہانہ یا سالانہ کتنی رقم کا لین دین کرتا ہے۔ اور یہ ڈیٹا پھر افشا کردیتا کہ کمپنی یا فرد اپنی آمدن کے مطابق ٹیکس دے رہا ہے یا نہیں؟ اس طریق کار سے واقعتاً ٹیکس چوری ختم کرنے میں مدد مل سکتی تھی۔ مگر اس شرط کے خلاف تجار،کاروباری افراد وغیرہ نے طوفان کھڑا کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس شرط سے ملک بھر میں کاروباری و معاشی سرگرمیاں سست پڑجائیں گی۔

چھوٹے تاجر اور دکاندار چیک قبول نہیں کریں گے۔ چیکوں کی کلیرئنگ کا عمل بہت وقت ضائع کرے گا۔ ایکسپورٹ کے آرڈر منجمند ہوجائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ ان کے زبردست احتجاج پر ضیاء الحق حکومت نے پچاس ہزار روپے سے زیادہ رقم کا لین دین بذریعہ چیک کرنے کی شرط اگلے بجٹ تک ملتوی کردی… مگر وہ کبھی عملی جامہ نہ پہن سکی۔ گیارہ سال بعد ایک اور جرنیل، پرویز مشرف نے بھی پاکستانیوں کو دستاویزی معیشت میں لانے کی کوششیں کیں مگر وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ ان دو مثالوں سے عیاںہے کہ پاکستان کی غیر دستاویزی معیشت میں شامل افراد اتنے طاقتور ہوگئے کہ فوجی حکومتیں بھی انہیں شکست دے کر دستاویزی اکانومی میں نہیں لاسکیں۔ اب پی ٹی آئی حکومت غیر دستاویزی معیشت سے نبرد آزما ہے اور اس کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔تاجروں اور کاروباریوں کی کئی تنظیموں نے ہڑتالیں کر ڈالیں۔

غیر دستاویزی معیشت کا پھیلاؤ

ماہرین معاشیات کی رو سے پچھلے پچاس برس میں غیر دستاویزی معیشت پاکستان کے جی ڈی پی(خام قومی آمدن) کا ’’40 سے 70 فیصد ‘‘تک حصہ بن چکی۔ دستاویزی اور غیر دستاویزی معیشت کے مابین دو فرق نمایاں ہیں۔ اول یہ کہ حکومت کے پاس غیر دستاویزی معیشت میں جاری معاشی سرگرمیوں اور لین دین کا ریکارڈ موجود نہیں ہوتا۔ دوسرے یہ کہ غیر دستاویزی معیشت میں کاروبار کرتے لوگ زیادہ سے زیادہ چند ’’بالواسطہ‘‘ ٹیکس (Indirect Tax) دیتے ہیں۔ یہ افراد کسی قسم کے’’براہ راست‘‘ ٹیکس (Direct tax) ادا نہیں کرتے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر غیر دستاویزی معیشت کا لین دین دستاویزی ہو جائے اور سبھی پاکستانی ایمان داری سے ٹیکس دیں تو حکومت پاکستان کو ہر سال ٹیکسوں کی مد میں چار ہزار ارب روپے کے بجائے آٹھ نو ہزار ارب روپے تک آمدن ہوسکتی ہے۔

غیر دستاویزی معیشت ناجائز معاشی سرگرمی ہے۔ اس معیشت میں موجود کوئی پاکستانی حلال طریقے سے بھی کمارہا ہے مگر ٹیکس نہیں دیتا، تو شرع اور قانون کی نظر سے مجرم قرار پائے گا۔ بہ حیثیت شہری وہ ٹیکس ادا نہ کرکے ریاست سے بدعہدی کرتا ہے۔ غیر دستاویزی معیشت حکومت کو سالانہ کھربوں روپے کی آمدن سے محروم کردیتی ہے جبکہ اس سے فائدہ اٹھانے والے کئی پاکستانی مال و دولت میں کھیلتے ہیں۔ گویا معاشرے کے ایک طبقے میں ارتکاز دولت جنم لیتا ہے جوشرعی و قانونی لحاظ سے جائز نہیں۔سوال یہ ہے کہ پاکستان میں معیشت کا یہ غیرقانونی روپ کس طرح پھل پھول گیا؟اس ملک دشمن سرگرمی کو حکمران طبقے(خصوصاً سیاست دانوں اور بیوروکریسی)کی کرپشن، حکومت پر عوام کی بداعتمادی اور انسانی لالچ وہوس کے سبب جڑیں پھیلانے میں کامیابی ملی۔گویا اسے جنم دینے میں حکومت اور عوام،دونوں نے حصہ لیا۔ظاہر ہے،تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔

سرکاری دفاتر میں رشوت کے لعنتی چلن نے غیر دستاویزی معیشت کو رواج دیا۔ پاکستانیوں نے جب دیکھا کہ ان کے ادا کردہ ٹیکسوں کا ایک حصہ انتظامیہ کے لوگ کھا جاتے ہیں تو وہ ٹیکس دینے سے کترانے لگے۔اس صورت حال سے بے ایمان پاکستانی تو خوش ہوئے کہ پیسہ بچ رہا ہے۔ جو ایماندار تھے وہ اپنے ٹیکسوں کی رقم بطور چندہ فلاحی تنظیموں کو دینے لگے تاکہ پیسہ کسی نیک مقصد میں کام آ سکے۔ رفتہ رفتہ دیگر پاکستانی بھی،جن میں کرپٹ سرکاری افسر،سیاسی رہنما،جرائم پیشہ اور دہشت گرد شامل تھے، اس سرگرمی میں شریک ہوگئے اور یوں وطن عزیز میں غیر دستاویزی معیشت رواج پا گئی۔

آج ساڑھے چار کروڑ پاکستانی اس معیشت سے وابستہ ہیں۔یہ مگر متنازع معاشی سرگرمی ہے۔ اس میں شامل پاکستانیوں کی اکثریت کئی اقسام کے ٹیکس نہیں دیتی جو بہر حال شریعت ‘ قانون اور اخلاقیات کے لحاظ سے ناجائز عمل ہے۔ اگر حکومت کرپٹ ہے بھی تو ا یک مسلمان کی یہی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی آمدن کے لحاظ سے سبھی ٹیکس ادا کرے یعنی وہ اپنا فرض تو انجام دے ۔ آخر یوم حشر ہر مسلمان کو اپنے اپنے اعمال اور نیکی و بدی کا حساب دینا ہے ۔ کیا وہ یہ کہہ کر بری الذمہ ہو جائے گا کہ اُس نے اِس لیے ٹیکس نہ دیئے کہ حکمران طبقہ کرپٹ تھا؟

پی ٹی آئی حکومت پاکستانیوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہی ہے کہ ان کے ادا کردہ ٹیکسوں کی رقم حکمران طبقے کی تجوریوں میں نہیں جائے گی بلکہ وہ ملک و قوم کو ترقی دینے ‘ قرضے اتارنے ‘ دفاع مضبوط بنانے اور عوامی فلاحی منصوبے شروع کرنے پر خرچ ہو گی۔ ٹیکس اکھٹے کرنے والے سرکاری ادارے،ایف بی آر میں بنیادی تبدیلیاں لانے کا بھی اعلان کیا گیا۔موجودہ حکومت پر کرپشن کے الزامات نہیں‘ اسی لیے دیگر سیاسی پارٹیوں کی نسبت عوام اس پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں۔

آنے والوں برسوں ہی میں حکومت کی کارکردگی واضح کرے گی کہ وہ ایمان دار ہے یا نہیں۔حکومت وقت نے بہرحال غیر دستاویزی معیشت کا حصّہ بنے اہل وطن کو دستاویزی معیشت میں لانے کی خاطر کئی اقدامات کیے۔ مثلاً ایمنسٹی سکیم شروع کی گئی تاکہ پاکستانی اپنی غیر قانونی جائیدادیں و دولت ظاہر کر دیں۔ ساتھ ساتھ حکومت نے ایسے قانونی اقدامات بھی کیے کہ وہ غیر دستاویزی معیشت میں شامل کرپٹ افراد کا جینا کٹھن بنا دیں۔ مثلاً بینک اکاؤنٹس کی پڑتال کی گئی۔ آڑھتیوں کا لین دین چیک کیا گیا۔ مدعا یہ ہے کہ ان امیر پاکستانیوں کو ٹیکس نظام میں لایا جائے جو ٹیکس نہیں دیتے۔ ان لوگوں کے گھروں اور دفاتر پر چھاپے مارنے کی باتیں بھی ہوئیں جس سے ملک میں خوف کی فضا نے جنم لیا۔

معاشی سرگرمی کا پہیہ جام

مسئلہ یہ ہے کہ پچھلے پچاس برس میں نچلے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے کروڑوں مرد و زن غیر دستاویزی معیشت کا حصہ بن چکے۔ درحقیقت یہی پاکستان میں روز گار کا سب سے بڑا ذریعہ بن گیا۔ جب پی ٹی آئی حکومت غیر دستاویزی معیشت میں شامل امرا اور بڑے مگرمچھوں کے خلاف سرگرم ہوئی تو انہوںنے اپنا پیسہ نکال لیا یا منجمند کر دیا۔ یعنی لین دین بند کر دیا گیا کیونکہ حکومت اسی پیسے اور لین دین کو دستاویزی بنانا چاہتی ہے۔ سرمایہ منجمد ہونے سے غیر دستاویزی معیشت میں جاری بیشتر معاشی و کاروباری سرگرمیاں ٹھپ ہو گئیں۔

نتیجہً بہت سے افراد بیروز گار ہو گئے یا پھر جزوقتی ملازمتیں کر کے پیٹ کی آگ بجھانے کا بندوست کرنے لگے۔ اسی دوران آمدن بڑھانے کے لیے حکومت نے نہ صرف ٹیکسوں کی شرح بڑھائی بلکہ اہم اشیا مثلاً پٹرول‘ بجلی‘ گیس کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا۔ اس عمل سے مہنگائی بڑھ گئی۔یوں غیر دستاویزی معیشت کا حصہ بنے لاکھوں غریب مردوزن سرمائے کے منجمند ہونے اور مہنگائی بڑھنے کے درمیان سینڈوچ بن گئے اور شدید طور پر متاثر ہوئے ۔بہت سے پاکستانیوں کے لیے ایک وقت کی روٹی حاصل کرنا بھی کٹھن مرحلہ بن گیا۔ گویا وہ کرپٹ امرا اور حکومت کے درمیان جاری لڑائی میں پس کر رہ گئے۔

بعض ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ حکومت وقت کو غیر دستاویزی معیشت نابود کرنے کے اقدامات بتدریج ‘ رفتہ رفتہ کرنے چاہئیں تھے۔ حکومت نے اچانک غیر قانونی معاشی سرگرمیوں پر ہلّہ بول دیا جس سے ملک بھر میں بے چینی پھیل گئی۔ اس سے عوام میں حکومت کے خلاف مخالفانہ جذبات و احساسات نے جنم لیا… حالانکہ حکومتی اقدامات اصولی و قانونی طور پر درست ہیں۔ بہتر تھا کہ حکومت سنت نبوی ﷺ پر عمل کرتی ۔ نبی کریم ﷺ پر جب وحی اتری تو آپﷺ تین سال تک قریش مکہ کے مابین خفیہ انداز میں تبلیغ فرماتے رہے۔ آپ ﷺ عظیم ترین نبی تھے۔ آپﷺ کے دائرہ اختیار میں سب کچھ تھا مگر آپ ﷺ کفار پر کفر و شرک کی خامیاں اجاگر کرتے رہے تاکہ وہ راہ راست پر آ جائیں۔

تین سال بعد آپ ﷺ نے اعلان نبوت فرمایا تو تب بھی عجلت اور جلد بازی سے پرہیز فرمایا۔ حتیٰ کہ آپﷺ کی مساعی جمیلہ سے نور اسلام صحرائے عرب میں پھیلنے لگا۔ غرض آپﷺ نے یک لخت کفار کا غیر قانونی و غیر اخلاقی مذہبی و معاشی نظام تلپٹ نہیں کیا بلکہ تدبر و حکمت سے کام لے کر بتدریج اسے ملیا میٹ کر دیا۔اسی طرح پی ٹی آئی حکومت کو بھی رفتہ رفتہ غیر دستاویزی معیشت ختم کرنے کے اقدامات کرنے چاہیں تاکہ خصوصاً نچلے و متوسط طبقوں کے افراد اس عظیم الشان تبدیلی سے کم سے کم متاثر ہوں۔پچاس برس سے چلے آ رہے مالی و معاشی نظام کو یک لخت ختم کرنا بچوں کا کھیل نہیں۔

پاکستان کی غیر دستاویزی معیشت اس لحاظ سے منفرد و انوکھی ہے کہ یہ قومی معیشت کے ڈھانچے میں ریڑھ کی ہڈی جیسی حیثیت اختیار کر چکی ۔ وطن عزیز کی ’’70تا 75 فیصد‘‘ افرادی قوت اسی سے وابستہ ہے۔ حتیٰ کہ دستاویزی معیشت میں شامل بہت سے کاروبار بھی اسی کے سہارے چلتے ہیں۔ اسی لیے پی ٹی آئی حکومت غیر دستاویزی اکانومی کے خلاف سرگرم ہوئی‘ تو قومی معیشت جام سی ہو گئی۔

حیرت انگیز طور پر بہت سے ایماندار اور اصول و قانون کے پکے پاکستانی بھی غیر دستاویزی معیشت کو ناجائز نہیں سمجھتے ۔ یہ نظریہ جنم لینے کی بنیادی وجہ افسوسناک حکومتی کارکردگی ہے۔مثال کے طور پر ہر شہری کو صحت و تعلیم کی سہولتیں مہیا کرنا حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ لیکن سرکاری ہسپتالوں اور اسکولوں کی حالت زار سب کے سامنے ہے۔ سرکاری دفاتر میں رشوت ستانی ختم نہیں ہو سکی۔ سڑک کسی جگہ سے ٹوٹ جائے تو کئی ماہ اس کی مرمت نہیں ہوتی ۔کوئی شہری کسی مقدمے میں پھنس جائے تو پھر پولیس اور عدالتوں کا تعلق اسے تلخ تجربات سے دو چار کرتا ہے۔ امن و امان کی صورتحال بھی تسلی بخش نہیں۔ غرض حکومت کے جو فرائض اور ذمے داریاں ہیں‘ وہ انہیں پورا کرنے میں ناکام رہی ۔ یہی مایوس کن کارکردگی دیکھتے ہوئے کئی پاکستانی سوال کرتے ہیں کہ وہ حکومت کو ٹیکس کیوں ادا کریں ؟ جبکہ اس طرز فکر سے لالچی و کرپٹ پاکستانی فائدہ ا ٹھاتے ہیں کہ انہیں ناجائز طور پہ دولت جمع کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔

صرف ساڑھے سات لاکھ پاکستانی

اعداد و شمار کے مطابق بائیس کروڑ پاکستانیوں میں سے صرف ساڑھے سات لاکھ پاکستانی صحیح معنوں میں ٹیکس دہندہ ہیں۔ ان میں سے بھی ’’صرف تین فیصد‘‘ ٹیکسوں کی کل رقم کا ساٹھ فیصد ادا کرتے ہیں۔ یقیناً یہ نہایت کم تعداد ہے ۔اسی طرح ایک لاکھ رجسٹرڈ کمپنیوں میں سے صرف نصف ٹیکس ریٹرن فائل کرتی ہیں۔جبکہ بیشتر ٹیکس صرف ساڑھے تین سو کمپنیوں سے حاصل ہوتا ہے۔ مزید براں جو پاکستانی ٹیکس دیتے ہیں‘ ان میں سے کئی لوگ ایمان داری نہیں دکھاتے اور کسی نہ کسی طرح رقم بچا لیتے ہیں۔ اسی ٹیکس چوری کا نتیجہ ہے کہ حکومت پاکستان کو اپنی کل آمدن میں سے صرف’’ 9 فیصد‘‘ رقم ٹیکسوں کے ذریعے ملتی ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک میں یہ شرح 30 تا 55 فیصد کے مابین ہے۔

مثلاً ناروے کی حکومت اپنی آمدنی کا 55فیصد ٹیکسوں سے حاصل کرتی ہے۔ فن لینڈ (55فیصد) ‘ ڈنمارک (51فیصد) ‘ سویڈن (50فیصد) ‘ فرانس (48 فیصد)‘ جرمنی (45 فیصد) وغیرہ میں بھی یہ شرح بہت بلند ہے۔ جو عرب ممالک تیل کی دولت سے مالا مال یاخانہ جنگی کا شکار ہیں‘ صرف وہیںٹیکسوں کی شرح آمدن بہت کم ہے۔ مثلاً متحدہ عرب امارات میں یہ صفر ‘ سعودی عرب میں 5.3 فیصد اور خانہ جنگی میں مبتلا لیبیا میں 2.7 فیصد ہے۔ بھارت میں یہ شرح 19فیصد ہو چکی ۔ ترقی یافتہ ممالک میںآبادی کا بہت بڑا طبقہ ٹیکس دیتا ہے۔ کئی ترقی پذیر ممالک مثلاً بھارت‘ سری لنکا‘ بنگلہ دیش میں بھی بہ لحاظ آبادی زیادہ شہری پاکستانی شہریوں کی نسبت ٹیکس دیتے ہیں۔

ٹیکسوں کی رقم کم ملنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ملک وقوم مقروض ہو جاتے ہیں۔ حکمران آمدن کم ہونے کی بنا پر عالمی و مقامی مالیاتی اداروں سے قرضے لیتے ہیں تاکہ حکومتی اخراجات پورے کر سکیں۔ 1971ء میں جب پاکستان دولخت ہوا تو اس پر چند ارب روپے کا کُل قرضہ تھا۔ حکمران طبقے نے قرضے لینے شروع کیے‘ تو جلد ادھار کی لعنت نشہ بن کر ان سے چمٹ گئی۔بعد ازاں ذاتی مفادات پورے کرنے کی خاطر بھی قرضے لیے گئے۔ نتیجہ یہ کہ آج پاکستان پر قرضوں کی مجموعی رقم بتیس ہزار ارب روپے سے بڑھ چکی۔

اگرملک و قوم پر قرضے بڑھتے چلے گئے تو خدانخواستہ پاکستان قرض دینے والے عالمی و مقامی مالیاتی اداروں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن سکتا ہے اور اس کی خودمختاری و آزادی کو شدید ضعف پہنچے گا۔درج بالا خطرے کا احساس کرتے ہوئے غیر دستاویزی معیشت میں شامل ہر محب وطن پاکستانی کو چاہیے کہ وہ قومی ٹیکس نظام کا حصہ بن جائے۔ قانون پر عمل کرنے سے ذہنی سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ضمیر بھی مطمئن رہتا ہے۔ مگر پی ٹی آئی حکومت نے بھی تمام پاکستانیوں کو یہ یقین دلانا ہے کہ ان کے ادا کردہ ٹیکسوں کی رقم جائز سرگرمیوں پر خرچ ہو گی۔ کرپشن ہرگز وہ رقم ہڑپ نہیں کر سکتی۔باہمی اعتماد بڑھنے کے باعث ہی پاکستان میں غیر دستاویزی معیشت اتنا سکڑ سکتی ہے کہ وہ قومی معیشت کے لیے نقصان دہ اور خطرہ نہ رہے۔

غیر دستاویزی معیشت کی ایک بہت بڑی خامی یہ ہے کہ اس کی وجہ سے حکومت نہ صرف بہت سے بالواسطہ ٹیکس عوام پر ٹھونس دیتی بلکہ ان کی شرح بھی زیادہ رکھی جاتی ہے۔بالواسطہ ٹیکس امیر اور غریب کے مابین کوئی تمیز نہیں کرتے اور سبھی کو ایک جیسی شرح کے مطابق رقم ادا کرنا پڑتی ہے۔ ا مرا تو باآسانی یہ ٹیکس دیتے ہیں مگر غریبوں پر مالی بوجھ پڑ جاتا ہے۔

گویابالواسطہ ٹیکس نچلے و متوسط طبقات پر ظلم کرنے کے مترادف ہے۔پاکستان میں بھی بالواسطہ ٹیکسوں کی کثیر تعداد موجود ہے۔ ان میں سیلز ٹیکس ‘ ودہولڈنگ ٹیکس‘ کسٹم ڈیوٹیاں اور سنٹرل ایکسائز ڈیوٹیاں نمایاں ہیں۔ وفاقی ‘ صوبائی اور مقامی … حکومت کی تینوں سطحوں میں مختلف اقسام کے بالواسطہ ٹیکس موجود ہیں جو غریب پر خوامخواہ کا مالی بوجھ ڈالتے ہیں۔ ٹیکس چوروں اور کرپٹ پاکستانیوں کے جرم کی سزا انہیں بھگتنا پڑتی ہے۔ حکومتوں نے کاروباری افراد پر بھی براہ راست ٹیکسوں کے علاوہ کئی بالواسطہ ٹیکس تھوپ رکھے ہیں۔ کاروباری تو ان ٹیکسوں کی رقم اپنی مصنوعات کی قیمتیں بڑھا کر پا لیتے ہیں مگر یہ عمل ملک میں مہنگائی بڑھا دیتا ہے۔حکومت کو ٹیکسوں کی مد میں ’’75‘‘فیصد آمدن بالواسطہ ٹیکسوں سے ہی ملتی ہے۔

عادلانہ و منصفانہ ٹیکس نظام

پی ٹی آئی حکومت کو چاہیے کہ وہ پاکستان کا ٹیکس نظام عادلانہ اور منصفانہ بنائے۔ اس نظام میں بیشتر آمدن براہ راست ٹیکسوں یعنی انکم ٹیکس‘ ویلتھ ٹیکس‘ کارپوریٹ ٹیکس ‘ پراپرٹی ٹیکس‘ گفٹ ٹیکس وغیرہ سے حاصل کی جائے۔امیر طبقہ ہی یہ ٹیکس ادا کرتا ہے۔جبکہ بالواسطہ ٹیکس کم سے کم رکھے جائیں، نیز عام استعمال کی اشیا کو سیلز ٹیکس سے مبرا رکھا جائے۔ دنیا بھر میں ٹیکسوں کا یہی منصفانہ نظام رائج ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں حکومتوں کو بنیادی طورپر انکم ٹیکس، کارپوریٹ ٹیکس اور سیلز ٹیکس کے ذریعے آمدن ہوتی ہے۔ کارپوریٹ ٹیکس کمپنیوں جبکہ سیلز ٹیکس پُرتعیش اشیا پہ لگتا ہے۔

عام استعمال کی اشیا پر سیلز ٹیکس کی شرح کم رکھی جاتی ہے۔ کینیڈا میں امرا پر انکم ٹیکس کی شرح 58 فیصد ہے۔ گویا کینیڈا میں مقیم ایک پاکستانی نے بالفرض سال میں ایک ارب روپے کمائے تو اس رقم سے 58 کروڑ روپے بطور انکم ٹیکس اسے کینیڈین حکومت کو دینا پڑیں گے۔ دیگر ممالک میں انکم ٹیکس کی بالائی شرح یہ ہے… سویڈن 57 فیصد، جاپان 56 فیصد، ڈنمارک 56 فیصد، اسرائیل 50 فیصد، چین 45، پاکستان 31 فیصد اور بھارت 30 فیصد۔ بھارت میں جو شخص سالانہ ڈھائی لاکھ روپے سے زیادہ کمائے، اسے انکم ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ پاکستان میں تنخواہ دار کے لیے یہ شرح چھ لاکھ جبکہ غیر تنخواہ دار پاکستانی کے واسطے چار لاکھ روپے ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں شہری اطمینان و سکون سے ٹیکس دیتے ہیں۔ انہیں علم ہے کہ ٹیکسوں کی رقم حکمران طبقہ ہڑپ نہیں کر سکتا بلکہ وہ ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے منصوبوں پر خرچ ہوگی۔ پھر انہیں کئی سرکاری سہولیات مفت بھی ملتی ہیں۔ مثلاً ہسپتالوں میں مفت علاج، مفت ابتدائی تعلیم، فوری انصاف، بیروزگاری الاؤنس وغیرہ۔ مزید براں جو شہری دھوکے بازی سے ٹیکس نہ دیں، حکومت زبردستی ان سے رقم نکلوالیتی ہے۔ وجہ یہ کہ ترقی یافتہ ممالک میں معیشت سو فیصد تک دستاویزی ہوچکی۔ بیشتر ممالک میں آپ سو ڈیڑھ سو ڈالر جتنی رقم کا ہی نقد لین دین کرسکتے ہیں۔

بڑی خریداری کی صورت میں لین دین بذریعہ چیک یا کریڈٹ کارڈ ہوگا۔ نیز خریدار کو اپنی شناخت کروانا ہوگی۔ دستاویزی معیشت کے باعث حکومت ہر شہری کی آمدن اور اخراجات سے باخبر رہتی ہے اور اس بات سے بھی کہ وہ کتنا ٹیکس دے رہا ہے۔ کوئی شہری آمدن و خرچ کے حساب سے ٹیکس نہ دے تو فوراً پکڑا جاتا ہے۔ اکثر ممالک میں ٹیکس چوری پر مجرم کو نہ صرف بھاری جرمانہ ہوتا بلکہ اسے جیل بھی جانا پڑتا ہے۔ نیز معاشرے میں ذلت و خواری اس کا مقدر بنتی ہے۔ پھر کوئی اس سے لین دین کرنا پسند نہیں کرتا۔ ترقی یافتہ معاشروں میں گویا ٹیکس چوری ایک بہت بڑا جرم ہے جس کے مرتکب فرد سے شدید نفرت کی جاتی ہے۔

حالیہ قومی بجٹ میں پی ٹی آئی حکومت نے غیر دستاویزی معیشت کو دستاویزی بنانے کے لیے ایک اہم قدم اٹھایا۔ صنعت کاروں، تاجروں اور کاروباری افراد کو کہا گیا کہ وہ ٹیکس نظام سے باہر جس غیر رجسٹرڈ شخص سے پچاس ہزار روپے سے زائد مالیت کا لین دین کریں، تو اس کے شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی اور لین دین کی تفصیل ایف بی آر کو فراہم کریں۔ مگر کاروباری طبقے نے اس تجویز کو قبول نہیں کیا۔ اس کا کہنا ہے کہ تجویز پر عملدرآمد سے کاروباری سرگرمیاں ماند پڑ جائیں گی۔ بعض کمپنیوں کا مطالبہ ہے کہ یہ تجویز تین چار ماہ تک موخر کردی جائے۔

وی آئی پی کلچر کا خاتمہ

پاکستان کے ٹیکس گزاروں کی ایک بڑی شکایت یہ ہے کہ حکمران طبقہ محنت مشقت سے کمائی ان کی رقم کی قدر نہیں کرتا۔ یہ رقم ٹیکسوں کی صورت حکمران طبقے کو ملتی ہے مگر وہ اسے اپنے اللے تللوں اور خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں پر اڑا دیتا ہے۔ مثلاً جو بھی نئی حکومت آئے، تو اس کا ہر وزیر مشیر اپنے دفتر کی تزئین و آرائش اور نئی گاڑیاں خریدنے پر کروڑوں روپے خرچ کردیتا ہے۔ غیر ملکی دوروں میں بھی ٹیکس گزاروں کی رقم بے دردی سے خرچ کی جاتی ہے اور حکومتی ارکان غیر ممالک میں شاہانہ طرز رہائش اختیار کرتے ہیں۔

گویا غریب ٹیکس دہندگان کی رقم حکومت کو پالنے پوسنے میں صرف ہوجاتی ہے۔پاکستان میں فی الوقت 197 سرکاری ادارے کام کررہے ہیں۔ ان میں سے دس پندرہ کو چھوڑ کر بقیہ خسارے میں ہیں۔ یہ ادارے ہر سال اربوں روپے پی جاتے ہیں مگر بدلے میں منافع نہیں دیتے۔ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں میں پی آئی اے، کوئٹہ الیکٹرک کمپنی، حیدر آباد الیکٹرک کمپنی، پاکستان ریلوے، پاکستان اسٹیل ملز اور دیگر الیکٹرک کمپنیاں شامل ہیں۔ او جی ڈی سی ایل اور نیشنل بینک سب سے زیادہ منافع کمانے والے سرکاری ادارے ہیں۔

حکومت پاکستان نئے مالی سال میں ٹیکسوں کے ذریعے ساڑھے پانچ ہزار ارب روپے حاصل کرنا چاہتی ہے۔ بعض ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ اپنا ٹارگٹ حاصل کرنے کی خاطر حکومت نے بالواسطہ ٹیکسوں کی شرح بڑھا دی جس سے متوسط و غریب طبقوں پر مہنگائی کا بوجھ بڑھ گیا۔ حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ ایلیٹ طبقے سے ٹیکسوں کی زیادہ رقم حاصل کرنے کے لیے مختلف اقدامات کرتی مگر ریاست مدینہ بنانے کے دعویٰ داروں نے حسب روایت تنخواہ دار اور متوسط و غریب طبقات ہی کو آمدن بڑھانے کے لیے قربانی کا بکرا بنالیا۔ اس عمل سے عوامی سطح پر حکومت مخالف جذبات جنم لیں گے۔

یہ بھی مگر حقیقت ہے کہ بظاہر غریب نظر آنے والے کئی پاکستانی دراصل امیر ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنی وضع قطع ایسی رکھی ہوتی ہے کہ وہ غریب دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے پاکستانی بھی ہیں جو ایک ٹھیلا چلا کر روزانہ ہزارہا روپے کماتے ہیں مگر کچھ بالواسطہ ٹیکسوں کے علاوہ کوئی انکم ٹیکس، کارپوریٹ ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس وغیرہ ادا نہیں کرتے۔ ان کی ٹیکس چوری کا خمیازہ پھر خصوصاً تنخواہ دار طبقے کو بھگتنا پڑتا ہے جسے ہر حال میں براہ راست اوربالواسطہ، دونوں اقسام کے ٹیکس ادا کرنے ہیں۔

بعض پاکستانیوں کا خیال ہے کہ ٹیکس نظام غیر اسلامی ہے کیونکہ ایک اسلامی حکومت میں ٹیکس نہیں پائے جاتے۔ یہ گمراہ کن سوچ ہے، اسلامی حکومت بھی ٹیکس لگاتی ہے تاہم ان کی نوعیت مختلف ہے۔ ظاہر ہے، دفاع مضبوط کرنے اور دیگر امور مملکت چلانے کی خاطر اسلامی حکومت کو بھی سرمایہ درکار ہے۔ تاہم شرط یہ ہے کہ اسلامی حکومت بذریعہ ٹیکس اتنی ہی رقم وصول کرے جتنی اسے ضرورت ہے۔ پاکستان اور دیگر ممالک میں تو حکومتیں زیادہ سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کرنے کی لت میں گرفتار ہوچکیں۔ وجہ یہ کہ وہ آمدن کے لحاظ سے اخراجات نہیں کر پاتیں۔یہ صورت حال جنم لینے کی اہم وجہ یہ ہے کہ دور جدید کا انسان مادی خواہشات کے پھندے میں پھنس چکا۔ قناعت و سادگی کو خیرباد کہہ کر اس نے لالچ و ہوس سے ناتا جوڑ لیا۔

اب وہ اپنی خواہشات پوری کرنے کے لیے جائز و ناجائز اقدامات کرنے کو تیار ہے۔ حالانکہ سوچا جائے تو ایک انسان کو روزمرہ ضروریات پوری کرنے کے لیے کتنی رقم درکار ہوتی ہے؟ مادی خواہشات سے پاک ایک انسان تو دو وقت کی روٹی کھا کر بھی اپنے ذہنی و جسمانی افعال درست طریقے سے انجام دے سکتا ہے۔ مگر خواہشات میں پھنسا انسان روزانہ کروڑوں روپے بھی کمائے، تو اس کی ہوس ختم نہیں ہوتی ۔ ایسے انسان کو سوچنا چاہیے کہ وہ چاہے کھربوں کمالے، دنیا میں خالی ہاتھ آیا تھا اور خالی دامن لیے ہی جائے گا۔

پی ٹی آئی حکومت نے غیر دستاویزی معیشت ختم کرنے کی مہم چلا کر گویا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیئے۔ اس دوران حکومت سے غلطیاں بھی سرزد ہوئیں۔ مثلاً پکانے کے تیل، چینی اور دیگر ایسی اشیا پر ٹیکس بڑھا دیا گیا جسے متوسط و غریب طبقہ استعمال کرتا ہے۔ لیکن ریاست اب معیشت کو دستاویزی بنانے کا فیصلہ کرچکی۔ طویل المعیاد لحاظ سے ملک و قوم کے لیے یہ خوش آئند فیصلہ ہے۔

لہٰذا تمام پاکستانیوں کو چاہیے کہ وہ اپنے ٹیکس ادا کرکے قانونی و اخلاقی فرض انجام دیں۔ اسی طرح ملک و قوم کو ترقی دینا اور خوشحال و مضبوط بنانا ممکن ہو گا۔حکومت کو چاہیے کہ وہ ٹیکس دینے لینے کا طریق کار آسان بلکہ کمپیوٹری بنا دے تاکہ کسی قسم کی باہمی کرپشن کا امکان نہ رہے۔ جو پاکستانی ٹیکس چور رہنا چاہتے ہیں ،انہیں دین و دنیا میں اپنے بدانجام کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔