شاہ راہِ قراقرم کے عجائبات

ڈاکٹر سید محمد عظیم شاہ بخاری  اتوار 14 جولائی 2019
ہَوا میں جھولتا حُسینی پُل، دنیا کا عجیب ترین لینڈاسکیپ پاسو کی تِکونی چوٹیاں، ذکراسکردو اور ہُنزہ کے مزے دار پکوانوں کا

ہَوا میں جھولتا حُسینی پُل، دنیا کا عجیب ترین لینڈاسکیپ پاسو کی تِکونی چوٹیاں، ذکراسکردو اور ہُنزہ کے مزے دار پکوانوں کا

(آخری قسط)

٭ گُلمِت؛
عطاآباد سے ذرا آگے جائیں تو گُلمِت کا بورڈ نظر آتا ہے۔ گلمت، جسے ’’گُلِ گلمت‘‘ بھی کہتے ہیں گوجال سب ڈویژن کا مرکزی شہر ہے۔ گلیشیئرز اور بلندوبالا پہاڑوں کے بیچ واقع یہ شہر ایک مشہور سیاحتی مقام ہے جہاں کئی ہوٹل، ریستوراں اور ایک چھوٹا سا میوزیم بھی بنا ہوا ہے۔ گلمت میں ایک پولوگراؤنڈ اور اس کے شمال میں میر آف ہُنزہ کا محل واقع ہے جہاں وہ گرمیاں گزارنے آتے تھے۔ یہاں کے قدیم عبادت خانوں کو اب لائبریری بنا دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں چھے سات جماعت خانے بھی ہیں۔

٭ حُسینی برِج:
گُلمت کے بعد ہی حُسینی کا علاقہ آتا ہے جہاں دنیا کے خطرناک ترین پُلوں میں سے ایک، بین الاقوامی شہرت کا حامل حُسینی برِج واقع ہے۔ کسی بھی سیاح کا ٹور حسینی برج اور پسو کونز کے ساتھ تصویر بنائے بغیر مکمل نہیں مانا جاتا۔ سو اگر آپ یہاں آ ہی گئے ہیں تو دل کڑا کر کے حُسینی تک ضرور جائیں۔ حسینی پُل تک جانے کے لیے آپ کو پیدل پانچ منٹ کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ پل پر چڑھنے کے لیے 60 روپے کا ٹکٹ خریدیں اور اپنی باری پر چڑھ جائیں اگر آپ اتنے جگرے والے ہیں تو۔ باری پر اس لیے کیوںکہ یہ پُل آٹھ نو سے زیادہ افراد کا وزن نہیں اٹھا سکتا۔

دریائے سِندھ پر ہَوا کے جھونکوں پر جھولتا یہ پُل بڑے بڑے رسوں اور لکڑی کے تختوں سے بنایا گیا ہے جن کا درمیانی فاصلہ اکثر جگہوں پر اتنا زیادہ ہے کہ دیکھنے والا گھبرا کر وہیں جم جاتا ہے۔ اکثر سیاح یہاں اپنی ہمت آزمانے آتے ہیں جب کہ بہت کم ہی اسے پار کرپاتے ہیں۔یوں تو قراقرم ہائی وے بننے کے بعد یہاں تک پہنچنا آسان ہو گیا ہے، لیکن گلگت بلتستان کے اندر اب بھی مختلف اندرونی علاقوں تک پہنچنے کے لیے ایسے پل استعمال کیے جاتے ہیں۔ اِس سے آپ وہاں کے باسیوں کی مشکلات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

٭ پاسو کونز اور گلیشیئر:
یوں تو حسینی سے ہی آپ کو پاسو کونز نظر آنے لگ جاتی ہیں لیکن جیسے جیسے آپ قریب جاتے ہیں یہ برف پوش، خوب صورت تکونی چوٹیاں اور زیادہ غضب ڈھانے لگتی ہیں۔ پُرانے زمانے کے اسپین میں پسو ایک چھوٹی سی بستی تھی۔ ہمارا پسو وادی گوجال کا ایک مشہور سیاحتی مقام ہے جہاں پاکستان کا دوسرا طویل ترین گلیشیئر، ’’بٹورا گلیشیئر‘‘ واقع ہے۔ اس گلیشیئر کی لمبائی 56 کلومیٹر ہے اور سیاچن کے بعد اسے پاکستان کا سب سے بڑا گلیشیئر مانا جاتاہے۔ اس کے ساتھ ہی ’’پاسو پیک‘‘ بھی سر اْٹھائے کھڑی ہے۔ 6000 میٹر سے بھی زیادہ بُلند ’’پاسو کونز‘‘ جنہیں پاسو کیتھیڈرل بھی کہا جاتا ہے، اس علاقے کا سب سے زیادہ دل فریب اور فریفتہ کردینے والا مقام ہے۔ کسی اہرام کی طرز پر بنی یہ قدرتی چوٹیاں شام ڈھلنے کے وقت ایک سحرانگیز نظارہ پیش کرتی ہیں۔ پسو اپنے باغات، تکونی چوٹیوں جنہیں کونز کہا جاتا ہے، پھلوں اور قدرتی خوب صورتی کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔ کہتے ہیں ایسا عجیب و غریب لینڈاسکیپ دنیا میں اور کہیں نہیں ہے۔

پاکستان، چین، افغانستان کا وا خان کوریڈور اور چائنیز ترکستان
یہاں میں پسو کی ایک سوغات کا ذکر کرنا چاہوں گا جو بہت کم لوگوں کے علم میں ہے۔ یہ ہے ’’خوبانی کا کیک‘‘ جو پاسو میں موجود گلیشیئر بریز نامی کیفے کے مشہور شیف احمد علی کی سوغات ہے۔ یہ کیفے مرکزی شاہ راہ سے کافی اوپر بنا ہوا ہے، اسی لیے اکثر سیاحوں کی نظر سے اوجھل رہتا ہے۔ تقریباً 110 سیڑھیاں چڑھنے کی مشقت کے بعد جب میں یہاں پہنچا تو آرڈر پر تیار تازہ کیک میرے حوالے کیا گیا۔ اس کی بھی ایک منفرد تاریخ ہے۔

یہاں کے شیف اور مالک احمد علی خان صاحب کے مطابق وہ یہ ریستوراں 2003 سے چلا رہے ہیں اور یہاں کا مشہور خوبانی کیک اصل میں ان کی دادی کی ریسیپی ہے جو خاندان میں سینہ بہ سینہ منتقل ہوکر ان تک پہنچی ہے۔ یہ ترکیب خفیہ رکھی گئی ہے اور کسی کو بھی ان کے کچن میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ کیفے کے اندر ان کی مرحومہ دادی کی ایک تصویر بھی رکھی ہے۔ ساتھ ساتھ ملک کے مشہور سیاست دانوں (جن میں بلاول بھٹو بھی شامل ہیں) کی تصاویر بھی ہیں جو یہاں کا دورہ کرچکے ہیں۔ اگر آپ پسو جائیں تو یہاں کا کیک کھانا مت بھولیے گا۔

٭ سوست:
یہاں سے خیبر اور دوسرے چھوٹے قصبوں سے ہوکر آپ سوست پہنچتے ہیں جو شمال کی طرف پاکستان کا آخری آباد شہر ہے، جس کے بعد پاکستان اور چین کا بارڈر ہے۔ اس شہر کو لوگ مذاقاً سُست بھی کہتے ہیں لیکن یہ جفاکش اور محنتی لوگوں کا شہر ہے جو میلوں دور سے سیاحوں کے لیے کھانا پینا اور دیگر ضروریاتِ زندگی کا سامان لاتے ہیں۔ درحقیقت یہی وہ محنتی لوگ ہیں جن کی وجہ سے شمالی علاقوں کی سیاحت زندہ ہے۔ شاہ راہ قراقرم کی تعمیر کے بعد سوست نے گلگت بلتستان کے علاقے میں ایک اہم تجارتی مرکز کی حیثیت حاصل کرلی ہے۔

سوست میں پاکستان کسٹمز کی دفتروں کے علاوہ ایک ڈرائی پورٹ بھی ہے جہاں پر چین سے آنے اور چین کو جانے والے سامان تجارت کو محفوظ رکھا جاتا ہے، اور بین الاقوامی تجارت کے اصولوں کے مطابق انتظامی کاروائیاں بھی کی جاتی ہیں۔ سوست میں گلگت بلتستان اور پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے تاجروں اور محنت کشوں کی ایک بڑی تعداد بھی رہتی ہے، جس کی وجہ سے یہاں معاشی سرگرمیاں دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ ہیں۔ سوست میں مختلف ہوٹلز اور پاکستان ٹورزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کا ایک موٹیل بھی ہے جس کے اندر جاکر آپ کو کسی مغربی ملک کی رہائش گاہ کا احساس ہوتا ہے۔ یہاں نہ صرف آپ کو چین کے جھنڈے اور تصاویر نظر آئیں گی بلکہ کوریا، جاپان، اٹلی اور دیگر ملکوں کے سیاحوں کے لگائے گئے اسٹیکرز اور بیگ بھی ملیں گے۔ سوست شہر بالکل ویسا ہی ہے جیسا آج سے دس سال پہلے تھا۔ یہاں ترقی کی رفتار ذرا سُست ہے۔ سوست کے بازار میں آپ کو ہُنزہ کے قیمتی پتھر ملیں گے لیکن یہاں کی خاصیت کوک نامی پتھر سے بنے ماربل سے ملتے جلتے منفرد نوادرات اور برتن ہیں جو میں نے اپنے سفر میں اور کہیں نہیں دیکھے۔

٭ خُنجراب ٹاپ و پاک چین بارڈر:
سوست سے آگے قراقرم خُنجراب نیشنل پارک کے پہاڑی اور خشک لینڈاسکیپ سے گزرتی ہے۔ گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ میں واقع خُنجراب نیشنل پارک پاکستان کا 3 بڑا اور دنیا کے چند بلندترین پارکس میں سے ایک ہے۔ یہ نیشنل پارک گلگت سے 269 کلومیٹر شمال مشرق میں دو لاکھ چھبیس ہزار نو سو تیرہ 226913 ہیکٹرز پر پھیلا ہوا ہے جس میں وادی خنجراب اور شِمشال شامل ہیں۔ اس علاقے کو اپریل 1979ء میں اس وقت کے وزیرِاعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے ’’مارکوپولو شیپ‘‘ کی حفاظت کے لیے نیشنل پارک کا درجہ دیا تھا۔ یہ پورا نیشنل پارک چوںکہ سطح سمندر سے بہت زیادہ بلند (3200 میٹر سے لے کر 600 میٹر تک) ہے، اس لیے سال کے بیشتر مہینوں میں پورا پارک برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ پورا علاقہ وسیع وعریض گلیشیئرز اور برفانی جھیلیوں سے اٹا پڑا ہے۔ خنجراب نیشنل پارک کے علاقے میں سبزہ بہت کم ہے۔

اس علاقے کو نیشنل پارک قرار دینے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ یہاں پائے جانے والے جنگلی جانوروں، بالخصوص بھیڑوں کی ایک نایاب نسل ’’مارکو پولو شیپ‘‘ کی نہ صرف حفاظت کی جائے بلکہ ان کی افزائش نسل کے لیے موزوں ماحول فراہم کیا جائے، کیوںکہ یہ جانور پورے پاکستان میں اور کہیں نہیں پایا جاتا۔ مارکو پولو شیپ کے علاوہ یہاں برفانی تیندوے، لومڑی، سُنہری عقاب، چکور، بھورا بگلا، اُلو، بھیڑیے، برفانی ریچھ، ہمالیائی بکرے، بھورے ریچھ اور سنہرے چوہوں کی بھی متعدد اقسام موجود ہیں۔ شاہ راہِ قراقرم کی وجہ سے عام لوگوں اور سیاحوں کی یہاں تک رسائی آسان ہوگئی ہے۔ شکار پر

پابندی کی وجہ سے آپ کو بہت سے جانور قراقرم ہائی وے پر چلتے پھرتے بھی نظر آئیں گے۔ خنجراب نیشنل پارک سے ہوتی ہوئی یہ شاہ راہ وہاں جا پہنچتی ہے جہاں کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا، خُنجراب ٹاپ۔

درۂ خُنجراب (بلندی 4693 میٹر یا 15397 فٹ) سلسلۂ کوہ قراقرم میں ایک بلند پہاڑی درہ ہے جو پاکستان کے گلگت بلتستان، جموں و کشمیر اور چین کے سنکیانگ کے علاقوں کے لیے ایک فوجی مصلحتی مقام ہے۔ اس کا نام وخی زبان سے ہے جس کا مطلب ’’پانی کا چشمہ یا گرتا پانی‘‘ ہے۔ درّہ خنجراب کو دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے۔پاکستان اور چین نے جب یہ منصوبہ بنایا تھا تو دنیا ان پر ہنستی تھی کہ جہاں انسان نہیں پہنچ سکتا وہاں ایک پُختہ سڑک کیوںکر جائے گی؟ لیکنوہی ہوتا ہے جو منظورِخُدا ہوتا ہے۔

یہ شاہ راہ بنی اور دنیا نے دیکھا کہ کیسے دو ممالک کے انجنیئرز اور مزدوروں نے جان پر کھیل کر اپنی دوستی کی نشانی کو دنیا کے اونچے بارڈر تک پہنچایا۔ تبھی اکثر لوگ اسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ بھی کہتے ہیں۔

اس جگہ کے پاس کئی ریکارڈز ہیں جیسے یہ دنیا کی سب سے اونچی اور خوب صورت سرحدی کراسنگ ہے۔ یہاں واقع اے-ٹی-ایم مشین دنیا کی سب سے اونچی اے ٹی ایم ہے۔ یہ جگہ قراقرم ہائی وے کا سب سے اونچا پوائنٹ ہے اور یہاں سے گزرنے والی روڈ دنیا کی سب سے اونچی پکی سڑک ہے۔ دو طرفہ اچھے تعلقات کی بدولت یہاں فوجی پہرہ بھی کم ہے۔ پاکستان چین اکنامک کوریڈور کے تحت یہاں سے ریلوے لائن گزارنے کا بھی منصوبہ بنایا گیا ہے جس پر فی الحال کوئی پروگریس نظر نہیں آتی۔

اب چلتے ہیں ہُنزہ و نگر میں بسنے والے لوگوں کی طرف اور ان کے زرخیز ذہنوں کو کھنگالتے ہیں۔

57 سالہ دیدارعلی کا تعلق وادیٔ ہُنزہ کے شہر علی آباد سے ہے اور وہ ایک ریٹائرڈ پرنسپل ہیں۔ بیگ گیسٹ ہاؤس نامی سرائے چلانے والے دیدار علی نے آج سے کئی سال پہلے پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی جب گلگت بلتستان میں تعلیم عام نہ تھی۔ انہوں نے گلگت بلتستان کی بدلتی ہوئی معاشی اور معاشرتی زندگی کو غور سے دیکھا ہے۔ وہ گلگت بلتستان کے بدلنے کے چشم دید گواہ ہیں۔ اُن کے ساتھ ایک بھرپور نشست میں کچھ اہم سوالات کا خُلاصہ کیا گیا، جس کا حال پیشِ خدمت ہے۔

٭ گلگت بلتستان میں تعلیم کی صورت حال کیا ہے؟
دیدار علی کہتے ہیں کہ 1964 سے پہلے گلگت بلتستان میں تعلیم تقریباً صفر تھی۔ اسکول و کالج ناپید تھے۔ جو لوگ تعلیم کے متوالے تھے وہ پشاور یا پنجاب جاتے تھے اور اپنی تعلیم مکمل کرکے یہاں آکر پڑھاتے تھے۔ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے یہاں تعلیم کی بنیاد رکھی۔ پھر ہمارے اِمام سلطان کی ڈائمنڈ جوبلی آئی اور اس خوشی میں انہوں نے یہاں کے مرکزی شہر کریم آباد میں ایک اسکول بنوایا اور تب سے یہاں تعلیم عام ہونا شروع ہوئی۔ غیرملکی سیاحوں نے بھی یہاں تعلیم کا شعور اجاگر کرنے میں بھرپور ساتھ دیا اور اسکول بنوائے۔ پھر پرنس کریم آغا خان نے کافی اسکول اور کالج بنوائے۔ پرویز مشرف کے زمانے میں گلگت بلتستان میں ’’قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی‘‘ کے نام سے پہلی یونیورسٹی کی بنیاد رکھی گئی جو ہُنزہ، دیامیر اور غزر میں بھی اپنے سب کیمپس کے ذریعے فروغِ تعلیم کے لیے کوشاں ہے۔ پھر صدر ممنون حسین کے دور میں 2017 میں اسکردو میں یونیورسٹی آف بلتستان کی بنیاد رکھی گئی اور آج گلگت بلتستان میں تعلیم کی صورت حال ماضی کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے۔

٭آج کے گلگت بلتستان اور بیس پچیس سال پہلے کے جی-بی کو آپ کیسا دیکھتے ہیں؟ کیا بنیادی فرق ہے ان میں؟
پہلے ان علاقوں کا رہن سہن بہت عام سا تھا۔ کچے گھر تھے، لوگوں کا آپس میں ملنا ملانا زیادہ ہوتا تھا، محبت زیادہ تھی۔ ایک دوسرے کی عزت بھی زیادہ کرتے تھے۔ لوگوں میں محنت و جفاکشی کی عادت کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ پتھر توڑ کر لانا اور دوردراز علاقوں سے پانی بھرنا عام سی بات تھی۔ تب سیاحت اتنی زیادہ نہیں تھی۔ لوگ کھیتی باڑی کرکے اور قیمتی پتھر نکال کر روزی کماتے تھے۔ بڑے ٹرک اور گاڑیاں اِکّادُکا ہی نظر آتی تھیں۔ بنیادی ڈھانچے کی کمی تھی اور شہر بہت چھوٹے تھے۔ اس زمانے میں یہاں انگریز/گورے بہت آتے تھے جب کہ پاکستانیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی جب کہ آج اس کا اُلٹ حساب ہے۔

آج کا گلگت بلتستان جِدت کی طرف گام زن ہے۔ سیاحوں کا خوب رش ہوتا ہے جس کی بدولت روزگار کے مواقع بڑھے ہیں۔ نت نئے ہوٹلز اور ریستوراں کْھل گئے ہیں۔ شہر، بازار اور سڑکیں پھیل گئی ہیں۔ لوگوں کا رجحان کاروبار اور نوکریوں کی طرف ہو گیا ہے۔ نوجوانوں میں شعور بیدار ہوچکا ہے۔ آج کا نوجوان اپنے بنیادی حقوق سے مکمل آشنا ہے۔ البتہ لوگوں میں محبت اور ایک دوسرے کا احساس کچھ کم ہوا ہے۔

٭ ہِز ہائی نیس پرنس کریم آغا خان کا گلگت، ہُنزہ اور نگر کی ترقی میں کتنا ہاتھ ہے؟ ان کے بغیر آپ گلگت بلتستان کو کیسا دیکھتے ہیں؟
میں سمجھتا ہوں کہ یہ علاقے اور ان کی ترقی ہِزہائی نیس کی مرہونِ منت ہے۔ آغا خان ٹرسٹ نے یہاں نہ صرف 150 سے اوپر اسکول کھولے ہیں بلکہ اسپتال، ڈسپنسریاں، ووکیشنل ادارے، کھیل کے میدان بھی انہی کی بدولت ہیں۔ اسی وجہ سے ہُنزہ میں شرح تعلیم بہت زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ اب ہماری بچیاں بھی موسیقی سیکھ رہی ہیں۔ یہاں کا جو ثقافتی ورثہ ہے اسے بھی انہوں نے بحال کروایا ہے ورنہ تو یہاں کے قلعے کھنڈر بن چکے ہوتے۔ آغا خان نے یہاں کے نوجوانوں کو نوکریاں دی ہیں اور انہیں مختلف شعبوں کھپایا ہے۔ ان کے بغیر یہاں کی ترقی تقریباً ناممکن تھی۔

٭ یہاں کے لوگ سیاسی طور پر کس کے زیادہ قریب ہیں؟
یہاں کے لوگ اسی جماعت کو پسند کرتے ہیں اور ووٹ بھی دیتے ہیں جو مرکز میں اقتدار میں ہو کیوںکہ وہ جانتے ہیں کہ اس خِطے کو وہی حکومت کچھ دے سکتی ہے جو اقتدار میں ہے۔ لیکن میں آپ کو بتاؤں اندرونی طور پر یہاں کے لوگ بھٹو کو بہت پسند کرتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس علاقے کے لیے بہت کچھ کیا خصوصاً ہمیں گندم پر سبسڈی دی اور گلگت بلتستان کی اسمبلی بھی پیپلزپارٹی کے دور میں بنی اس لیے ہمیں بھٹو سے محبت ہے۔

اس کے بعد ان کے بیٹے اسلم پرویز نے گفتگو میں حِصہ لیا اور ہُنزہ نگر کے مشہور کھابوں کے بارے میں بتایا۔ اسلم پرویز نہ صرف اپنے والد کا ہاتھ بٹاتے ہیں بلکہ گلگت بلتستان پولیس میں نوکری بھی کر رہے ہیں۔ چلیے جانتے ہیں گلگت و ہنزہ کے مشہور کھابوں کے بارے میں۔
1-نمکین چائے : اْن کے مطابق ہم ہُنزہ والے میٹھی چائے نہیں پیتے۔ جی ہاں! یہاں کی چائے نمکین ہوتی ہے اور وہ اسے ہی پسند کرتے ہیں۔ یہ رواج پورے گلگت بلتستان میں ہے۔
2- گُو-لی/ بارُوئے گیالِن: گینانی کے تہوار پر بنائی جانے والی یہ مشہور ڈش جو سے بنائی جاتی ہے۔ جو کو بھون کر اس میں پانی ڈالا جاتا ہے۔ پھر آٹے کی طرح ہوجانے پر گوندھ لیتے ہیں اور اس کی روٹی بنائی جاتی ہے جس پر گیری کا تیل لگایا جاتا ہے۔ اسے عموماً ناشتے میں نمکین چائے کے ساتھ کھایا جاتا ہے لیکن آپ اسے چائے کے بغیر بھی کھا سکتے ہیں۔ اصل میں یہ ایک تہوار کی ڈش ہے۔
3- ممتُو: ممتو، پاکستان کے انتہائی شمال میں اسکردو اور ہنزہ -نگر کی ایک مزے دار ڈش ہے اسے آپ گلگت بلتستان کا سموسہ بھی کہہ سکتے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ یہ گھی یا تیل میں نہیں تلا جاتا بلکہ اسٹیم یعنی بھاپ پر پکایا جاتا ہے۔ ’’شمال کا ڈمپلنگ‘‘ کہلائی جانے والی یہ ڈش چین سے تعلق رکھتی ہے جسے بعد میں یہاں کے لوگوں نے اپنایا اور آج یہ گلگت بلتستان کا مشہور ’’کھابہ‘‘ ہے۔
بھاپ پر پکائی جانے والی اس ڈش میں گائے یا بھیڑ کا قیمہ، پیاز، لہسن اور ہری مرچ سے بنایا گیا مسالا، آٹے اور میدے کے ورق میں بھرا جاتا ہے اور تیار ہوجانے کے بعد اسے مختلف چٹنیوں اور سِرکے کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ انتہائی زیادہ ڈیمانڈ ہونے کے بعد ممتو ، لاہور اور پنڈی میں بھی ملتا ہے۔
4- چاپشورو:چاپشورو یا شارپشورو کو ہُنزہ کا پیزا کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ پیزا نما یہ ڈش روٹی سے ملتی جلتی ہے جس کے اندر لذیز مسالا بھرا جاتا ہے۔
سب سے پہلے گندم کے آٹے سے روٹی بنائی جاتی ہے جس پر مسالا رکھا جاتا ہے۔ یہ فِلنگ گائے یا یاک کے گوشت میں مختلف اجزاء جیسے ٹماٹر، پیاز، ہری مرچ اور مسالے شامل کر کہ بنائی جاتی ہے۔ اس کے بعد اس پر ایک اور روٹی رکھ کر اس کے کناروں کو خوب صورت طریقے سے موڑ دیا جاتا ہے۔ ایک بڑے توے پر رکھ کر دس سے پندرہ منٹ تک پکایا جاتا ہے اور سُنہرا ہونے پر اتار لیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اسے پیزا کی طرح ٹکڑے کر کے کھاتے ہیں جب کہ کچھ بیچ میں سے روٹی کی پرت اُٹھا کر مزے سے کھاتے ہیں۔
5- دیرم فِٹی: یہ گندم سے بنائی جاتی ہے۔ اس کے لیے گندم کو پہلے کچھ عرصہ نمی والی جگہ پر رکھنا پڑتا ہے جس سے اس میں مِٹھاس آجاتی ہے۔ بعد میں اس کے آٹے سے روٹی بناکر پراٹھے کی طرح خوبانی کے تیل میں پکایا جاتا ہے۔ کچھ لوگ بادام کا روغن بھی لگاتے ہیں۔ پھر اسی پراٹھے کو ٹکڑے کرکے یا پیس کر دیسی گھی میں پکاکر پیش کیا جاتا ہے۔ نشاستے سے بھرپور یہ غذا ہنزہ میں طاقت ور تصور کی جاتی ہے جسے زیادہ تر کسان کھیتوں میں کام کرنے کے دوران ساتھ لے جاتے ہیں۔
6- مُولیدا: یہ دہی سے بنایا جاتا ہے۔ دہی میں گندم کی روٹی کے باریک ٹکڑے ڈال کر پیاز، نمک، دھنیا ڈالا جاتا ہے۔ مِکس کرنے کے بعد اسے گاڑھا کیا جاتا ہے اور پھر گیری کا تیل ڈال کر بنایا جاتا ہے۔
7- یاک کا گوشت: پاکستان کے دوسرے علاقوں کے برخلاف یہاں بھینسیں وغیرہ بہت کم ہیں۔ یاک یہاں کا عام اور مشہور جانور ہے۔ یہاں یاک کا دودھ اور گوشت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ یاک کا دودھ بہت گاڑھا ہوتا ہے جس سے چائے نہیں بنائی جاسکتی، جب کہ اس کا گوشت مارخور کی طرح تاثیر میں گرم اور گہری لال رنگت کا ہوتا ہے۔
8- بٹرنگ داؤدو: ہنزہ کا روایتی سوپ جو سردیوں میں خوبانی سے بنایا جاتا ہے۔ یہ سردی کے موسمی امراض اور قبض میں بھی مفید تصور کیا جاتا ہے۔ یہ خشک خوبانیوں میں چینی، پانی اور لیموں کا رس ملا کر تیار کیا جاتا ہے۔ یہ سوپ ہنزہ کے ہر گھر میں بنایا جاتا ہے۔
اب چلتے ہیں گلگت بلتستان کی کچھ خاص سوغاتوں کی طرف جو پاکستان کے اس حِصے کا خاصہ ہیں۔

٭ ہُنزہ و نگر کے مشہور پھل
ہُنزہ اور نگر کے پھلوں میں سب سے مشہور چیری ہے جو یہاں وافر مقدار میں اگائی جاتی ہے۔ ہُنزہ کی کالے رنگ کی رس بھری چیری ملک اور بیرونِ ملک تک بھیجی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کی خوبانی بھی اپنی مثال آپ ہے۔ انتہائی میٹھی اور خوش ذائقہ۔ یہاں سیب، اخروٹ، ملبیری اور شہتوت بھی وافر مِلتے ہیں۔
اشکین: پیلے رنگ کی لکڑی نُما یہ جڑی بوٹی بہت اوپر پہاڑوں سے حاصل کی جاتی ہے۔ مقامیوں کے مطابق یہ جوڑوں اور ہڈیوں کے درد میں انتہائی مفید ہے۔ گرم تاثیر کی وجہ سے اسے تھوڑی مقدار میں دودھ میں مِلا کر پیا جاتا ہے۔ اشکین کا ایک ٹکڑاسو روپے میں بہ آسانی مل جاتا ہے۔
جنگلی حیات: پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں کی جنگلی حیات باقی پاکستان سے بہت مختلف ہے۔ پہاڑی بکرے، یاک، مارکوپولو شیپ، مارخور یہاں کے مشہور جانور ہیں۔ ان کے علاوہ اُڑیال، جنگلی خرگوش، پہاڑی نیولا، مھورا ریچھ، ترکستانی سیاہ گوش، لومڑی، تبتی بھیڑیا اور برفانی چیتا بھی پائے جاتے ہیں۔ لیکن یہ شہروں سے دور پہاڑوں اور جنگلوں میں قیام کرتے ہیں۔ شہری علاقوں میں صرف پہاڑی بکرے، بھینسیں، یاک اور خرگوش نظر آتے ہیں۔

٭ موسیقی:
یہاں کی تاریخ کی طرح یہاں کی ثقافت بھی انتہائی زرخیز ہے جو دیکھنے والے کو مبہوت کردیتی ہے۔ اس علاقے کے مسحور کُن مناظر اور بدلتی رُتوں نے یہاں کے لوگوں کے ’’ذوقِ جمال‘‘ کو جِلا بخشی ہے اور فطرت سے ان کی محبت یہاں کی شاعری، موسیقی، رسم ورواج، ادب اور رقص میں بھی جھلکتی ہے۔ گلگت بلتستان کی موسیقی اور روایتی دھنیں بھی ملک کے دیگر علاقوں کی موسیقی اور دھنوں سے بالکل مختلف ہیں۔

گلگت، ہُنزہ و نگر کے مشہور سازوں میں رُباب، دُمبق، ڈامل، ڈڈنگ، سُرنائی اور دُف شامل ہیں۔

رُباب یہاں کا سب سے مشہورساز ہے جو مذہبی موسیقی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ صوبہ بلوچستان میں بھی بجایا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کی اِس ساز کا آبائی وطن ’’وسط ایشیا ‘‘ ہے۔ رُباب کو شہتوت کی جڑ اور تنے سے بنایا جاتا ہے۔ پھر چمڑا لگایا جاتا ہے اور اس میں 6 سے 12 تاریں لگائی جاتی ہیں۔ اِس کا اُوپری حصہ لمبا اور نیچے کا حصہ طنبورے کی طرح ہوتا ہے جس پر بہت سے تار ہوتے ہیں، اس کی دھن کانوں میں رس گھول کر سننے والوں کو مدہوش کردیتی ہے۔ ہُنزہ کے رباب چھوٹے جب کہ دیگر شمالی علاقوں کے بڑے ہوتے ہیں۔ رباب کے ساتھ مقامی طور پر بنی ہوئی دف کا استعمال ہوتا ہے۔ شاہراہِ قراقرم کے ذریعے اب سنکیانگ اور کاشغر سے بھی دف منگوائے جاتے ہیں۔

سُرنائی بھی اس علاقے کا ایک اہم ساز ہے جو شہنائی کی ہی ایک قسم ہے۔ خوبانی کی لکڑی سے بنے اس ساز میں آٹھ سوراخ ہوتے ہیں جن میں سات سوراخ اوپر اور ایک نیچے کی طرف ہوتا ہے۔
اسے گلگت اور نگر سمیت بلتستان اور چِترال میں بھی بجایا جاتا ہے۔

٭ لِباس:
مرد حضرات کا مخصوص لباس شلوار قمیص اور ہنزہ کیپ ہے جسے اکثر لوگ چترالی ٹوپی بھی کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اوورکوٹ جیسا سفید اونی چوغہ بھی بہت مقبول ہے جس پر مختلف رنگوں سے خوب صورت بیل بوٹے بنائے جاتے ہیں۔
خواتین کا لباس نہایت دل چسپ ہے۔ یہاں مقامی خواتین کُھلے گھیردار اور کام والے فراک اور اوپر خوب صورت کام والی رنگ برنگی ٹوپیاں پہنتی ہیں۔ بوڑھی خواتین ان ٹوپیوں پر صاف ستھرا سفید دوپٹہ لپیٹتی ہیں جو ان خواتین کو نہایت خوب صورت اور نفیس لُک دیتا ہے۔ نوجوان لڑکیاں اوپر رنگ برنگے دوپٹے پہنتی ہیں۔ زیورات میں زیادہ تر چاندی کے زیور استعمال کیے جاتے ہیں جن میں بڑے چھوٹے مختلف جڑاؤ پتھر اور جواہر لگائے جاتے ہیں۔ یاقوت، لاجورد اور پکھراج کے زیورات زیادہ استعمال کیے جاتے ہیں۔

یہ تو تھی شاہ راہِ قراقرم کی کہانی۔ وہ سڑک جو پنجاب کے میدانوں سے شروع ہو کر پختونخواہ کے کوہستانوں اور گلگت بلتستان کے بلند وبالا پہاڑوں کا سینہ چیرتی ہوئی درۂ خنجراب سے ہوکر عوامی جمہوریہ چین تک جاتی ہے۔ یہ صرف ایک روڈ نہیں ہے، یہ گلگت بلتستان کی شہہ رگ ہے، شمال میں پاکستان کی لائف لائن ہے جس سے ہزاروں گھرانوں کا روزگار وابستہ ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ شاہ راہِ قراقرم بننے کے بعد سیاحت، ترقی، معاشی بڑھوتری، جِدت، ثقافت کے نئے رنگ، امن اور تمدن نے گلگت بلتستان کا رخ کیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔