جہاں گشت ؛ تاریکی، روشنی کی نوید ہے … رات، سحر کی … یہی نظام کائنات ہے

عبداللطیف ابو شامل  اتوار 14 جولائی 2019
تم دل کو ذرا سنبھال رکھنا، اک خواب تمہیں سنائیں گے ہم ۔۔۔۔ !

تم دل کو ذرا سنبھال رکھنا، اک خواب تمہیں سنائیں گے ہم ۔۔۔۔ !

قسط نمبر52

صاحبِ دعا کی بات ہوئی تو کرم فرمائوں نے نیا سوال سامنے لاکھڑا کیا اور پھر اپنے سوال کا جواب بھی خود دیا اور اس مسئلے کا حل بھی پیش کردیا، سوال جو اٹھایا گیا وہ یہ تھا کہ زمانہ بہت خراب ہے تو بچنے کی کیا صورت ہے۔ اور پھر خود ہی اس کا جواب اور اس مسئلے کا حل تجویز کردیا اور وہ بھی حتمی کہ بس ایک ہی صورت یہ رہ گئی ہے کہ سب سے کنارہ کشی اختیار کی جائے اور صرف اپنے کام سے کام رکھا جائے۔ واہ جی یہ تو خُوب ہوا کہ آپ نے اپنے سوال کا جواب خود ہی دیا اور اس مسئلے کا حل بھی خود ہی تجویز کردیا۔ تو پھر فقیر سے کیا معلوم کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔ ؟ کیا یہی کہ میں آپ سے متفق ہوں، اور اس مسئلے کے حل کے لیے آپ کی تجویز سے بھی ۔۔۔۔۔ ؟ تو بہ صد احترام عرض گزار ہوں کہ فقیر آپ سے قطعاً متفق نہیں ہے۔ تو اب کیا کریں؟ چلیے اس پر بھی بات کرتے ہیں۔ تو صاحبو! اگر ہر طرف نفسا نفسی اور مارا ماری ہے اور ہر طرف برائیوں نے یلغار کی ہوئی ہے تو کیا ہم سب ان کا مقابلہ کرنے کے بہ جائے کونے کھدروں میں دبک جائیں۔۔۔۔ ؟

سب سے کنارہ کش ہوجائیں اور اپنے خول میں بند ہوجائیں اور یا پھر اپنے جزیروں کے مکیں ہوجائیں، یہ تو کوئی حل نہیں ہے اس کا، اس کا تو سیدھا مطلب یہ ہوا کہ ہم سب کچھ دیکھتے ہوئے اپنا سر ریت میں دے لیں اور سمجھیں کہ اب چوں کہ ہمیں کچھ نظر نہیں آرہا تو حالات بھی صحیح ہوگئے ہیں تو صاحبو! نہیں یہ حل نہیں ہے اس کا۔ تو پھر کیا کریں ہم؟ چلیے سوچتے ہیں اس پر، کوئی نہ کوئی حل تو نکل ہی آئے گا ناں، گھبرانا کیسا، رب تعالٰی جب ساتھ ہے تو پھر کیسی تشویش، بس یقین کامل کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔ رب تعالٰی نے فقیر کے ارد گرد ہر طرح کی مخلوق جمع کی ہوئی ہے، انسان بھی، رنگا رنگ مخلوق واہ جی! سبحان تیری قدرت۔ فقیر کے نیک اور اچھے کرم فرما کچھ ایسے دوستوں پر معترض ہیں، جن کی بُودو بَاش الگ ہے، جدید بستیوں کے مکیں، جہاں کی دنیا ہی الگ ہے، نیک کرم فرما اپنے مشورے سے فقیر کو نوازتے ہیں کہ ان سے قطع تعلق کرلیا جائے، یعنی انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ لیکن فقیر نے ان کی کبھی نہیں سنی، کبھی باز نہیں آیا، کیسے آجائے باز، تارک دنیا ہونے تو منع کیا گیا ہے ناں۔

تو چلیے ابتدا کرتے ہیں اس رب کریم کے نام سے کہ انسان تو کچھ جانتا ہی نہیں تھا تو اس نے انسان کو علم سے نواز دیا اور پھر انسان جان پایا کہ حقیقت کیا ہے۔

ہاں رات بہت بھیگ چلی ہے۔ اچّھا ہے سکون سے سوئی رہے۔ لگتا ہے سڑکیں بھی محو خواب ہیں۔ سارا دن اتنی بڑی چھوٹی گاڑیاں ان کے سینے کو روندتی رہتی ہیں کہ بس۔ سنسان سڑکیں مجھے اس لیے بھی اچھی لگتی ہیں کہ چلو کچھ تو آرام کرلیں یہ … صبح پھر سے کچلے جانے کے لیے۔ ہاں یہ پاگل پَن ہے … سو ہے … آپ کو اس سے کیا لینا ہے! ابھی سی ویو سے ہوتا ہوا شارع فیصل کے اسٹارگیٹ سے ایئرپورٹ جانے والی سڑک پر داخل ہوا ہوں … کچھ ہی دُور آگے تین لوگ گھاس پر چادر اوڑھے سو رہے ہیں۔ نہ جانے کون ہیں وہ … کیوں سو رہے ہیں یہاں … گھر کیوں نہیں چلے جاتے! میں جانتا ہوں، ہوں گے کوئی مزدور … جو سارا دن اپنا لہو پیسنے کی صورت میں نچوڑ کر چند ٹکے اپنی گرہ میں باندھے اچھے دنوں کے خواب دیکھ رہوں گے … نہیں معلوم ان کے خواب کب تعبیر دیکھیں گے …!!

بہت دن سے اُس کا اصرار تھا گھر آنا تقریب ہے … تم ضرور آنا … اتنا وقت بھی تم نہیں نکال سکتے۔ اور میں اسے ہاں کہہ چکا تھا، سو آپ آزردہ ہوں … آپ کا جی چاہے نہ چاہے آپ کو ماننا پڑتا ہے … ہارنا پڑتا ہے … خود کو مارنا پڑتا ہے … بس یہی ہے زندگی!!

وہ دہائیوں سے میری واقف کار ہے، اس سے ملاقات بھی ایک باغیچے میں ہوئی تھی جہاں میں کچھ پودوں کے پاس بیٹھا اُن سے باتیں کر رہا تھا کہ وہ اچانک میرے سامنے آکھڑی ہوئی اور پھر سوال کیا: آپ کون ہیں؟ اس کا جواب کیا تھا میرے پاس تو میں نے صرف اتنا کہا تھا کہ میں بھی اس تلاش میں ہوں کہ میں کون ہوں! بات طول پکڑ جائے گی تو بس اس سے دوستی ہوگئی، اس وقت وہ ایک کالج میں ابتدائی جماعت کی طالبہ تھی اور جب اس نے اپنی تعلیم مکمل کرلی تو اس کی شادی ہوگئی۔ بہت خوش حال ہے وہ ڈیفنس کے اس گھر کو اس نے اتنا سجایا ہوا تھا کہ مت پوچھیے۔ آج اس کی بیٹی کی منگنی تھی … سو مجھے جانا پڑا۔

’’آگئے تم‘‘
’’ہاں آگیا، تم سے وعدہ جو کیا تھا۔‘‘
’’بہت اچھا کیا تم نے مجھے بالکل بھی امید نہیں تھی کہ تم آئو گے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’ اب تو تم بالکل پاگل ہوگئے ہو۔ اس لیے۔‘‘
میری مسکراہٹ ہی اس کا جواب تھی۔ سو تقریب شروع ہوئی۔ تقریب کیا تھی … کیا نہیں تھا اس میں ! گانا بھی، کھانا بھی اور نہ جانے کیا کچھ … مخلوط رقص، ہلا گلا اور ڈانڈیا… مجھے خاموش دیکھ کر اس نے سرگوشی کی ’’ کیوں کیا بات ہے؟‘‘
’’ کچھ نہیں۔‘‘
’’ کیوں اچھا نہیں لگ رہا۔؟‘‘
’’ بہت اچھا لگ رہا ہے۔‘‘
’’تو پھر ؟‘‘
’’تم جائو اپنا کام کرو، میں بالکل ٹھیک ہوں۔‘‘
بالاخر مجھے ذرا سا تلخ ہونا پڑا۔
کیا لوگ ہیں یہ، بالکل نرالے … جوش میں ہوش کھو بیٹھنے والے … ہر دم زندگی سے خوشیاں نچوڑنے والے … ہی ہی ہاہا کرنے والے مست … جیسے چاہو جیو والے … دنیا کا مزہ لے لو دنیا تمہاری ہے … ہر دم تازہ دم … ہاں مجھے اچھے لگتے ہیں یہ۔ ہر بات منہ پر کہہ دینے والے … آپ کو بُرا لگے تو سوری کہہ دینے میں دیر نہیں کرتے … لڑنے پر آئیں تو مردوزن کی تمیز ختم ہوجائے … بس ایسے ہیں وہ، ایسے ہی ہیں۔
ہاں مجھے میرے بہت سے متقی دوست کہتے ہیں، کیوں نہیں چھوڑ دیتا تُو انہیں۔ میرا ایک ہی جواب ہوتا ہے میں تمہیں چھوڑ سکتا ہوں، انہیں بالکل نہیں چھوڑ سکتا۔ ہاں آپ مجھ سے لاکھ مرتبہ اختلاف کیجیے۔ وہ بھی کرتے ہیں۔ آپ کو تو اس لیے چھوڑا جاسکتا ہے کہ آپ انہیں گم راہ کہتے ہیں۔

جب آپ کسی کو گم راہ کہیں تو آپ خود کو صراط مستقیم پر سمجھتے ہیں … اور جو سیدھے راستے پر ہوں ان کی فکر کیا کرنا … جب آپ انہیں جہنمی کہتے ہیں تب آپ جنّتی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں … تو پھر جنّتیوں کی کوئی کیا فکر کرے … اس لیے بس میں آپ کو چھوڑ سکتا ہوں، انہیں نہیں … بالکل بھی نہیں … کسی قیمت پر نہیں۔ میرے اندر سے آواز آتی ہے، انہیں نہیں چھوڑنا … اب بتائیے فقیر کیا کرے …! آپ بہت اچھے ہیں … ہونا بھی چاہیے … لیکن ایک بات بتائیے، بس آپ خود اچھے ہیں یہی کافی ہے؟ انہیں اپنے جیسا بنانے کا کبھی آپ نے سوچا ؟ ہاں مجھے معلوم ہے … اس میں جان جاتی ہے آپ کی۔ ان کے ساتھ مجھے باتیں کرتا دیکھ کر دنیا والے کیا کہیں گے! ڈر لگتا ہے آپ کو ان سے راہ رسم بڑھانے سے۔ آپ اپنی دنیا میں خوش رہیے پھر … مجھے کیوں منع کرتے ہیں آپ! مجھے لگتا ہے ہم سب نے اپنی زندگی کو خانوں میں بانٹ لیا ہے، چلیے یوں کہہ لیجیے ہم سب اپنے اپنے جزیروں میں جی رہے ہیں۔ میں اسے جینا نہیں سمجھتا … یہ جینا تو ہے، لیکن بس اپنے لیے جینا …! بڑا زعم ہے ہمیں کہ ہم بہت اچھے ہیں، نہ جانے کیسی سوچ ہے یہ … ہم بہت اچھے اور سب بُرے … واہ کیا بات ہے۔ ہاں ہم جب ارد گرد دیکھتے ہیں، ہم اپنے لیے اچھے دوست منتخب کرتے ہیں، کرنے بھی چاہییں … کسی نے کیا اچھی بات کی تھی: بھائی تو ہمارا ہوتا ہے ۔ انتخاب تو نہیں ہوتا۔ جیسا بھی ہو نبھانا پڑتا ہے … خون کا رشتہ جو ہے اس سے۔ دوست ہم خود بناتے ہیں اپنی پسند سے … دوست بنانا بہت آسان ہے اور دوستی نبھانا … جانتے ہیں آپ۔

ایک پاگل سے بہت دوستی ہے میری، ایک دن کہنے لگا: ایک بات بتائوں؟ میں نے کہا: ہاں کیوں نہیں ضرور۔ تو بولا: ایک آدمی تھا، اس نے اپنے بیٹے سے کہا: دوست بنائو تو نبھانا بھی۔
بیٹے نے پوچھا: ابّا وہ کیسے؟
ابا نے کہا : دیکھو دوست کی پہچان آزمائش میں ہوتی ہے۔
بیٹے نے کہا: آپ تو کہتے ہیں دوستوں کو آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہیے۔
ابّا بولے: ہاں بالکل دوستوں کو کبھی آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ پر وہ دوست ہی کیا جسے اپنے دوست کی فکر نہ ہو۔ دوست تو رازدار ہوتا ہے۔
بات آئی گئی ہوگئی۔ کچھ دن کے بعد بیٹے کو اداس دیکھ کر ابّا بولے: کیا بات ہے بیٹا؟
کچھ نہیں ابّاجی! بس آج میں ایک دوست کے پاس گیا تھا مجھے کچھ پیسے چاہیے تھے۔
تو پھر کیا ہوا؟
ہونا کیا تھا، وہ گھر میں موجود تھا، میرے سامنے ہی تو وہ گھر میں داخل ہوا تھا لیکن اس کے بھائی نے آکر کہا کہ وہ گھر پر نہیں ہے، بس یہی سوچ رہا ہوں، چلو اس کے پاس بھی پیسے نہیں ہوں گے، پر وہ تو ملنے سے بھی رہ گیا۔
ابّاجی مسکرائے اور بولے: ہاں اب تو کچھ کچھ سمجھ دار ہوگیا ہے، اب چل میں تجھے اپنے دوست سے ملاتا ہوں۔ ابّاجی اپنے بیٹے کو لے کر اپنے دوست گھر پہنچے اور دروازے پر دستک دی۔ اندر سے آواز آئی: ’’ کون ہے؟‘‘
’’میں ہوں۔‘‘ اباجی نے کہا۔
بہت دیر تک دروازہ نہیں کھلا تو بیٹے نے ابّاجی سے کہا: ’’ابّاجی چلیے، یہاں بھی کچھ ایسا ہی معاملہ لگتا ہے۔‘‘ باپ بیٹا واپسی کے لیے مڑے ہی تھے کہ پیچھے سے آواز آئی:’’کہاں جارہے ہو یار تم!‘‘ دونوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، ابّاجی کا دوست دروازے پر کھڑا تھا۔ ابّاجی نے اتنی دیر سے دروازہ کھولنے کا سبب پوچھا تو دوست بولا: ’’میرے عزیز دوست! جب تم آئے تو میں سورہا تھا، تمہاری آواز سے میں جاگ گیا، مجھے معلوم نہیں تھا کہ تم کیوں آئے ہو۔ دیکھو یہ سارے پیسے گھر میں تھے اس تھیلی میں رکھے ہیں، یہ درکار ہیں تو لے لو۔ میری بیٹی کے رشتے کے لیے آئے ہو تو اسے کپڑے پہنا کر تیار کردیا ہے۔ بسم اﷲ کرو اور اگر کہیں جھگڑا ہوگیا ہے تو تلوار میرے ہاتھ میں ہے چلو۔ اب بتائو کیسے آئے تھے۔‘‘
ابّاجی مسکرائے اور بیٹے سے بولے: ’’دیکھا تم نے یہ ہوتا ہے دوست۔‘‘

نہیں معلوم میں جو کچھ کہنا چاہ رہا ہوں وہ آسان ہورہا ہے یا مزید مشکل … چھوٹی سی عمر میں ہی میرے اندر سوالات کا سمندر طوفان بپا رہتا تھا، رہتا ہے۔ مجھے کہا جاتا: ’’فلاں بُرا لڑکا ہے اس سے دوستی نہیں کرنا۔‘‘ میرا سول ہوتا: ’’کیوں نہیں کرنا، پھر اسے اچھا کیسے بنائیں گے؟‘‘ بہت پِٹا بھی لیکن باز نہیں آیا۔ اب تک مجھے سمجھ میں نہیں آتا کیسی دانش ہے یہ، کیسی دین داری ہے، کیسا فلسفہ ہے۔ اگر کہیں گندگی ہے وہاں سے ہم بہت بچ بچا کر نکلنے لگتے ہیں۔ اسے صاف کرنے کی فکر نہیں کرتے، اس لیے کہ کچھ چھینٹے آپ پر بھی پڑیں گے … آپ خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ ہم سب نامعلوم خوف کا شکار ہیں، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم اپنے خود ساختہ جزیرے میں قید ہوجاتے ہیں۔ اگر کوئی کہے: ’’ ہمیں سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے، گندگی میں لتھڑے ہوئوں کو باہر نکالنا ہے۔‘‘ تب ہمیں یہ خوف آن گھیرتا ہے کہ ہمارے ہاتھ خراب ہوجائیں گے۔ اگر کوئی ہمارے اعتماد کو ٹھیس پہنچائے تو ہم سب پر اعتماد کرنا چھوڑ دیتے ہیں، کہیں سے کوئی پتھر آئے تو ہم اپنا سر بچانے کے لیے گھر میں پناہ لے لیتے ہیں اور پھر سمجھتے ہیں ہم تو بچ گئے۔ قلعہ بند ہوکر سمجھتے ہیں سب جائیں بھاڑ میں چلو ہم تو محفوظ ہیں، کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں آپ! جب چاروں جانب آگ لگ جائے تو ہمارا گھر کیسے بچ سکتا ہے! ہم زندگی کا سامنا ہی نہیں کرنا چاہتے، اپنے خول میں بند ہوجاتے ہیں اور سمجھتے یہ ہیں کہ بس یہی عقل مندی ہے، بصیرت ہے، نہ جانے کیا کچھ ہے۔ ہم کب تک ایسا کرسکتے ہیں! ہمیں سب کو گلے لگانا ہے … ہم جرم کے بہ جائے مجرم سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ جرم کے اسباب معلوم ہی نہیں کرتے … کیا مسئلہ تھا کیا حالات تھے … یک طرفہ فیصلہ سنانے میں دیر ہی نہیں کرتے۔ آپ مجھے کوئی ایک بھی طبیب دکھائیں جو مرض کے بہ جائے مریض سے نفرت کرنے لگے۔ مریض سے تو وہ محبت کرتا ہے۔ فیصلہ سنانے سے نت نئے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں اور ہم نئی مصیبتوں میں گھر جاتے ہیں۔ فیصلہ سنانے سے پہلے اس کے ہر پہلو پر غور نہ کرنے کی قسم کھالی ہے ہم نے … ہم نے خود کو عقل کُل سمجھ لیا ہے۔ جب دیکھو یہی سنتے ہیں بہت بُرا زمانہ ہے … بہت خراب ہوگیا معاشرہ … سب خراب ہوگیا … سب کچھ تباہ ہوگیا … برباد ہوگیا …

’’لاتسبو الدھر فانی انا الدھر‘‘ (زمانے کو گالی مت دو کیوںکہ میں خود زمانہ ہوں‘‘ (میں زمانے کو پھیرنے والا ہوں)

زندگی سے خوف زدہ ہونا چھوڑ دیجیے … اس کا سامنا کیجیے … مت پروا کیجیے کسی کی … سب کو اپنے سینے سے لگائیے … سب ایک جیسے نہیں ہوسکتے، کبھی بھی نہیں۔ تہمت سے ڈرتے ہیں ناں آپ … مت ڈریے۔ جب آپ اپنے رب کو جواب دہ ہیں، پھر آپ کو کون سا خوف ستاتا ہے …!! قلعہ بند ہوکر کبھی حالات کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا … بالکل بھی نہیں کیا جاسکتا۔ آپ کسی کو بھی قید نہیں کرسکتے۔ کیا آپ خیالات کو، جذبات کو، احساسات کو قید کرسکتے ہیں، خوش بُو کو کون قید کرسکا ہے! کنول سے ہی کچھ سیکھیے جو ہمیشہ کیچڑ میں کِھلتا ہے۔ کیچڑ نہ ہو تو کنول بھی نہیں ہوگا۔ برائی نہ ہو تو نیکی کی پہچان کیسے ہوگی! تاریکی، روشنی کی نوید ہے … رات، سحر کی … یہی نظام کائنات ہے۔ برسات سے ہی سیکھیے جو پھولوں پر ہی نہیں کانٹوں پر بھی برستی ہے۔ زرخیز زمین کو ہی نہیں، ریگستان کو بھی سیراب کرتی ہے۔ اگر کوئی اپنی بُری عادت سے باز نہیں آتا تو آپ اپنی اچھی عادت کو ترک کردیں گے؟ آئیے اس پر بات کریں۔ کیا ہم اپنے اپنے جزیروں میں قید ہوجائیں یا زندگی کا سامنا کریں۔ سماج میں پھیلی ہوئی بے اطمینانی کو اطمینان میں کیسے بدلیں۔ جنہیں آپ بُرا کہتے ہیں انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں؟ یا انہیں بھی اپنے جیسا بنانے کی سعی کریں، کیا کریں ہم؟

مجھے آپ کے خیالات کا انتظار رہے گا۔ ہمیں اس کا سامنا کرنا ہے۔ کیسے کریں ہم اس کا مقابلہ بتائیے؟ میں نے ایک کہانی پڑھی تھی، کس کی تھی مجھے یاد نہیں ہے، سنائوں آپ کو۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کوئی قلم کار اپنا مضمون لکھنے کے لیے سمندر کا رخ کیا کرتا تھا … اس کی عادت تھی کہ کام شروع کرنے سے پہلے وہ ساحل پر چہل قدمی کیا کرتا۔ ایک روز وہ ساحل پر ٹہل رہا تھا، اسے کچھ دُور کنارے پر ایک شخص رقص کرتا نظر آیا … وہ بہت حیران ہوا کہ صبح سویرے یہ کون ہے۔ جو دن کا آغاز رقص سے کرتا ہے! یہ جاننے کے لیے وہ تیز تیز قدموں سے اس کی جانب چل پڑا۔ نزدیک پہنچا تو دیکھا کہ وہ ایک نوجوان تھا … نوجوان رقص نہیں کررہا تھا، وہ ساحل پر جُھکتا، کوئی شے اٹھاتا اور پھر پُھرتی سے اسے دُور سمندر میں پھینک دیتا۔ قلم کار نے نوجوان سے پوچھا: یہ تم کیا کررہے ہو؟ ستارہ مچھلی کو سمندر میں پھینک رہا ہوں۔ نوجوان بولا۔ میں سمجھا نہیں، تم ستارہ مچھلی کو سمندر میں کیوں پھینک رہے ہو؟

نوجوان بولا: سورج چڑھ رہا ہے اور لہریں پیچھے ہٹ رہی ہیں، میں نے انہیں پانی میں نہ پھینکا تو یہ مرجائیں گی۔ قلم کار نے کہا : یہ ساحل تو میلوں تک پھیلا ہوا ہے۔ اور سارے ساحل پر مچھلیاں بکھری پڑی ہیں، ممکن ہی نہیں کہ تمہاری اس کوشش سے کوئی فرق پڑے۔ نوجوان نے شائستگی سے قلم کار بات سنی ، نیچے جھک کر ایک اور ستارہ مچھلی اٹھائی اور اسے پیچھے ہٹتی ہوئی لہروں کے اندر پوری قوت سے اچھالتے ہوئے بولا لیکن اس کے لیے تو فرق پڑگیا ناں!
کیسی لگی آپ کو۔ خود سے زیادہ دوسروں کا خیال رکھیے۔ چلتے چلتے سنتے جائیے: میں سب سے ملتا ہوں، ان سے بھی آپ جنہیں بہت بُرا کہتے ہیں اور سمجھتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے ان کے دل کے تار کو ذرا سا چھیڑیے ، موم کی طرح پگھل جاتے ہیں اور ہم !
تم دل کو ذرا سنبھال رکھنا
اک خواب تمہیں سنائیں گے ہم

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔