شیخ الاسلام مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھویؒ

پروفیسر شاداب احمد صدیقی  اتوار 14 جولائی 2019
عظیم محدث، یگانہ روزگا فقیہ محدث، مفسر، سیرت نگار اور قادر الکلام شاعر

عظیم محدث، یگانہ روزگا فقیہ محدث، مفسر، سیرت نگار اور قادر الکلام شاعر

حیدر آباد: سندھ کو صوفیا کرام کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ یہاں بے شمار معروف صوفیائے کرام پیدا ہوئے یا دوسرے خطوں سے آکر مقیم ہوئے۔ سندھ کے علما صدیوں سے علم و ادب کی آبیاری کرتے آئے ہیں۔ علم تفسیر، علم حدیث، علم فقہ، علم الرجال الغرض سندھ کے علما اور صوفیا نے اپنی تخلیقات سے دنیا میں نام روشن کیا اور اسلام پھیلانے میں سندھ میں اہم کردار ادا کیا۔

آج ان علمائے کرام کا علمی ورثہ عصر حاضر کے لیے مشعل راہ ہے جن سے تحقیق کی نئی راہیں ہموار ہوتی جارہی ہیں۔ باب الاسلام سندھ کے قدیم شہر ٹھٹھ میں سوا لاکھ اولیا کرام مدفون ہیں۔ انھی اولیائے کرام میں ایک عظیم المرتبت ہستی، شیخ الاسلام، سندھ کے علم و ادب کے حوالے سے بین الاقوامی شہرت یافتہ عظیم محدث، یگانہ روزگا فقیہ محدث، مفسر، سیرت نگار اور قادر الکلام شاعر، مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھویؒ ہیں۔ آپ کا اسم گرامی ’’محمد ہاشم‘‘ ہے، کنیت ابو عبدالرحمٰن، آپ کا شجرہ نسب اس طرح ہے۔ محمد ہاشم بن الغفور بن، عبدالرحمٰن بن عبداللطیف بن عبدالرحمٰن بن خیر الدین حارثیؒ۔ آپ کے نام کے ساتھ چار نسبتوں کا ذکر کیا گیا ہے، جن کا پس منظر یہ ہے۔۔۔۔ ’’سندھی‘‘ چوںکہ آپ کا تعلق سندھ تھا اس وجہ سے ’’سندھی‘‘ کہلاتے ہیں۔

’’بھٹوروی‘‘ چوںکہ آپ کی پیدائش میرپوربٹھورو، ٹھٹھ، سندھ میں ہوئی اس وجہ سے ’’بٹھوروی‘‘ کہلاتے ہیں۔ ’’بہرامپوری‘‘ چوںکہ محمد ہاشم نے تحصیل علم کے بعد بٹھورو کے نزدیکی گاؤں ’’بہرام پور‘‘ میں سکونت اختیار کی اس وجہ سے آپ ’’بہرامپوری‘‘ کہلاتے ہیں۔ ’’ٹھٹھوی‘‘ چوںکہ مخدوم صاحب کا آخر دم تک ٹھٹھ سے تعلق رہا اور یہیں آباد رہے اس وجہ سے ’’ٹھٹھوی‘‘ کہلاتے ہیں۔ مخدوم محمد ہاشم صاحب کی ذات پنہور تھی، اور ان کا شجرہ نسب عرب قبیلے بنو حارث یعنی حارث بن عبدالمطلب سے جا ملتا ہے۔

اس قبیلے کے کچھ افراد جہاد کی غرض سے محمد بن قاسمؒ کے ساتھ پہلی صدی ہجری میں سندھ آئے تھے اور ان میں سے کچھ افراد نے اسلام کو فروغ دینے کے لیے یہیں سکونت اختیار کرلی تھی۔ انھی سے مخدوم محمد ہاشم کے آبائے کرام کا نسب جا ملتا ہے۔ مخدوم محمد ہاشم کے والد مخدوم عبدالغفور ٹھٹھوی، جو خود بھی ایک عالم تھے، پہلے سیہون میں رہائش پذیر تھے۔ بعدازاں گردش زمانہ کی وجہ سے ٹھٹھ کے علاقے میرپور بٹھورو میں آباد ہوگئے۔ جہاں تک لفظ ’’مخدوم‘‘ کا تعلق ہے یہ کوئی ذات نہیں ہے بلکہ آپ کو علمی جدوجہد اور دینی خدمات سرانجام دینے کی وجہ سے ’’مخدوم‘‘ کہا جانے لگا جب کہ ’’رچرڈ برٹن‘‘ لکھتے ہیں کہ ’’مخدوم‘‘ اس وقت سندھ میں ایک عہدہ تھا جس کے لیے بڑے بڑے لوگ خواہش مند ہوتے تھے۔

مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی کی پیدائش بروز جمعرات 10 ربیع الاول سن 1104ہجری بمطابق 19 نومبر 1692 کو میر پور بٹھورو ٹھٹھ سندھ میں مخدوم عبدالغفور ٹھٹھوی کے گھر میں ہوئی۔ آپ کے القاب شیخ الاسلام، شمس الملت ودین، مخدوم المخادیم، حضرت، سندالاقالیم، ملجا افقھا والمحدثین، مسلک حنفی، مکتب فکر قادری تھا۔ حضرت مخدوم صاحب کو علمی دنیا اور مذہبی تاریخ میں ایک خاص اہمیت اور عظمت حاصل ہے۔ آپ ذات فرشتہ صفات اور ایک رحمت کا خورشید تھے جو خلق خدا کو علمی روشنی پہنچاتے تھے۔ تقریباً نصف صدی تک ان کی خانقاہ علم و فضا کو گہوارہ اور ارشاد و تلقین کا مرکز رہی۔ ہزاروں گشتگان علم نے وہاں آکر علم کی روشنی حاصل کی۔ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی کا تعلق علمی گھرانے سے تھا۔

اللہ تعالیٰ نے مخدوم ہاشم صاحب کو پیدائشی طور پر لیاقت و ذہانت سے نوازا تھا۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے والد مخدوم عبدالغفور ٹھٹھوی سے حاصل کی۔ یہیں حفظ قرآن مکمل کیا اور فارسی، صرف و نحو، فقہ کی تعلیم بھی اپنے والد سے حاصل کی۔ اس کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے ٹھٹھ شہر کا رخ کیا جو اس وقت علم و ادب کے حوالے سے تمام دنیا میں مشہور تھا اور تمام علوم و فنون کا گہوارہ اور بڑے بڑے علمائے کرام اور صوفیائے کرام کا مرکز تھا۔ انھوں نے مخدوم محمد سعید ٹھٹھوی سے عربی کی تعلیم حاصل کی۔ پھر مخدوم ضیا الدین ٹھٹھوی سے علم حدیث کی تعلیم حاصل کی اور یوں صرف نو برس کی عمر میں فارسی اور عربی علوم کے مطالعوں کی تکمیل کی۔ آپ کی یہ ذہانت دیکھ کر بڑے بڑے علما کرام حیران ہوئے اور آپ کی عزت کرنے لگے، چناںچہ آپ سب کی آنکھوں کا تارا بن گئے۔ اسی دوران میں 113ھ /1702ء میں مخدوم ہاشم کے والد بزرگوار مخدوم عبدالغفور ٹھٹھوی وفات پاگئے۔ ٹھٹھ سے فراغت کے بعد مخدوم ہاشم نے چند سال دینی خدمات انجام دیں۔

مخدوم ہاشمؒ کو علم حدیث و تفسیر و تصوف میں کمال حاصل کرنے کا شوق تھا۔ مخدوم ہاشم نے 1135ھ/1722ء میں حج کیا۔ حجاز مقدس کے سفر کے دوران تحصیل علم کا موقع ملا، اور انھوں نے حج کی سعادت حاصل کرنے کے علاوہ مکہ اور مدینہ منورہ کے مشہور علما اور محدثین سے علم حدیث، فقہ، عقائد اور تفسیر کا علم اور سندیں حاصل کیں۔ مخدوم ہاشم کے سندھ کے مشہور اساتذہ میں ان کے والد مخدوم عبدالغفور ٹھٹھوی، مخدوم محمد سعید ٹھٹھوی، مخدوم ضیا الدین ٹھٹھوی، مخدوم رحمت اللہ ٹھٹھوی اور مخدوم ہاشم شامل ہیں۔ سفرِحرمین کے دوران آپ نے جن اساتذہ کرام سے علم حاصل کیا ان میں شیخ عبدالقادر حنفی صدیقی مکی (متوفی 1138/1726ء) شیخ عبد بن علی مصری (متوفی 1140ھ/1733ء) شیخ علی بن عبدالمالک دراوی (متوفی 1145ھ/1733ء) شامل تھے۔

مخدوم ہاشم سچے عاشق رسولؐ تھے۔ حضورؐ سے انتہا سے زیادہ محبت کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ہر وقت زبان مبارک پر درودشریف کا ورد جاری رہتا تھا۔

آپؒ کا مقام اگر یہ کہا جائے کہ ہندوستان کے جید عالم دین و محدث شاہ عبدالحق محدث دہلوی جیسا ہے تو غلط نہ ہوگا کیوںکہ آپؒ کا دیا گیا فتویٰ کبھی بھی رد نہ ہوا۔ مخدوم محمد ہاشم نے حصول علم کے بعد روحانی تعلیم و تربیت اور اکتساب فیض کے لیے مرشد کامل کی تلاش شروع کی۔ لہٰذا آپ اس وقت کے شیخ کامل، آفتاب مکلی، حضرت ابوالقاسم، نور الحق درس نقشبندی (المتوفی 1138ھ) کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے اور بیعت کی درخواست کی، لیکن مخدوم ابوالقاسم نقشبندی ٹھٹھوی نے مخدوم سے جواباً فرمایا ’’مجھ سے تلقین لینے والوں (مریدین) کی صورتیں مجھ پر پیش کی گئیں ان میں آپ کا نام نہیں۔‘‘ تو آپؒ نے عرض کیا کہ میرے شیخ مرشد کے متعلق راہ نمائی فرمائیں تو حضرت مخدوم ابوالقاسمؒ نے فرمایا کہ آپ کے مرشد قطب ربانی سید اللہ بن سید غلام محمد سورتی قادری (المتوفی 1138ھ) ہیں۔ آپ ان کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوں۔ حضرت سید سعد اللہ سلسلہ عالیہ قادری کے عظیم پیشوا تھے۔ ہندوستان میں الٰہ آباد قصبہ سوات کے رہنے والے تھے۔

لہٰذا حضرت مخدوم ہاشمؒ 1134ھ میں حرم شریف سے واپس ہوتے ہوئے ہندوستان کے شہر سورت کی بندرگاہ پر اترے۔ حضرت شیخ سعد اللہ قادری کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے اور سلسلہ عالیہ قادریہ میں داخل ہوئے اور وہاں 1123ھ سے 1124 تک قیام کیا، بعدازاں سید سعد اللہ سلونی نے مخدوم محمد ہاشم کو سلسلہ قادریہ کا خرقہ پہناتے ہوئے اجازت و خلافت سے نوازا۔ مرشد کی کام کی خدمت اور خرقہ اخلاق حاصل کرنے کے حوالے سے ایک واقعہ آج کے مریدین کے لیے انتہائی غور طلب ہے۔ مشہور ہے کہ مخدوم ہاشم صاحب اپنے مرشد کامل کے دربار میں عالمانہ انداز کی بجائے عام انسان کے انداز میں حاضر ہوئے اور سلسلہ قادریہ میں بیعت ہوئے اور پیرومرشد کے حکم کی تکمیل میں پورا ایک سال گھوڑوں کے اصطبل کی صفائی میں مشغول رہے۔ کبھی بھی نہ ہی یہ کہا اور نہ سوچا کہ میں ایک عالم دین ہوں بلکہ اپنی ذات کی نفی کرتے رہے یعنی یہ ظاہر کرتے کہ میں عام انسان ہوں۔

ایک سال گزر گیا، مخدوم ہاشم ٹھٹھوی کے پیرومرشد کے پاس ایک دقیق فتویٰ آیا جس کے لیے ٹھٹھ کے مخدوم صاحب یعنی آپؒ مخدوم ہاشم کے جواب کی ضرورت پڑی۔ آپؒ عام انسان کی طرح پیرومرشد کی خدمت میں رہتے تھے۔ پیرومرشد نے بلایا، آپؒ فوراً حاضر ہوئے۔ حکم ہوا ٹھٹھ کے مخدوم ہاشم کو جانتے ہو؟ عرض کی جی! حکم فرمایا کہ ان (مخدوم ہاشم) سے فتویٰ کا جواب لے آؤ۔ آپؒ کی عاجزی، انکساری، ادب، سعادت مندی و فرماںبرداری کا کیا کہنا! پیرومرشد سے یہ ہرگز نہ کہا کہ جناب میں ہی تو مخدوم ہاشم ہوں بلکہ حکم کی تکمیل میں نکل کھڑے ہوئے۔ آپؒ کے پیر صاحب کی طرف سے یہ ایک طرح کا امتحان بھی تھا۔ چناںچہ آپؒ کسی بستی میں ٹھہر کر فتویٰ کا جواب لکھ کر کچھ عرصہ قیام کے بعد حاضر ہوئے کہ کہیں پیر و مرشد جلد آنے کی وجہ محسوس نہ کرلیں۔ جب فتویٰ کا جواب پیر و مرشد کے ہاتھ میں دیا تو کچھ لمحات کے لیے ایک نظر مخدوم ہاشم صاحب کے چہرے کو دیکھتے رہے اور دوسری نظر فتویٰ پر ڈالتے رہے آخر پیر صاحب نے مخدوم ہاشم ٹھٹھوی کو اپنے سینے سے لگایا اور خرقہ خلافت و سند کی اجازت فرمائی۔

مخدوم ہاشمؒ جب سرزمین ٹھٹھ 1137ھ میں پہنچے تو رنگ ہی کچھ اور تھا۔ آپؒ کی نورانی پیشانی ضیابار تھی اور آنکھوں سے نور چمک رہا تھا۔ مخدوم ہاشم کی حضرت مخدوم ابوالقاسم نقشبندیؒ سے بھی اتنی عقیدت تھی کہ ہر روز آپؒ مخدوم ابوالقاسمؒ کے آستانہ عالیہ میں چارپائی کی صفائی اپنے ہاتھوں سے کرتے تھے۔

مخدوم ہاشمؒ کو نقشبندی سلسلے کا بھی فیض حاصل تھا۔ اس کے علاوہ مفتی مکہ شیخ عبدالقادرؒ جوکہ شریعت کے ساتھ ساتھ طریقت کے بھی شیخ وقت تھے، کہ ذریعے آپؒ کا سلسلہ حضرت محی الدین ابن عربیؒ سے جاملتا ہے۔ حضرت مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی طریقت کا رنگ حاصل کرنے کے باوجود بھی ہر وقت شریعت کی پاسبانی میں رہتے تھے۔ حضرت مخدوم ہاشم ٹھٹھویؒ کی سیرت اور خوف خدا کا اندازہ آپ کے ان فرمودات سے لگایا جاسکتا ہے۔ آپ ہمیشہ اپنے نفس کو مخاطب ہوکر فرمایا کرتے تھے:

(1)۔ اے نفس! اگر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے تو کر، ورنہ اس کا رزق نہ کھا۔

(2)۔ اے نفس! جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے ان سے باز آ، ورنہ اس کی سلطنت سے نکل جا۔

(3)۔ اے نفس! قسمت ازلی سے جو تمہیں مل رہا ہے اس پر قناعت کر، ورنہ اپنے لیے کوئی اور تلاش کر جو تیری قسمت زیادہ کرے۔

(4)۔ اے نفس! اگر گناہ کا ارادہ کرتا ہے تو ایسی جگہ تلاش کر جہاں تجھے اللہ تعالیٰ نہ دیکھ سکے، ورنہ گناہ نہ کر۔

مخدوم ہاشم ٹھٹھوی نے تحصیل علم کے بعد بٹھورو کے نزدیکی گاؤں بہرام پور میں سکونت اختیار کی اور وہاں کے لوگوں کو دین اسلام میں اشاعت، ترویج کے لیے وعظ اور تقریروں کا سلسلہ شروع کیا مگر وہاں کے لوگوں کو مخدوم ہاشم کے وعظ و تقریروں کی اہمیت کا اندازہ نہ ہوا، اسی لیے مخدوم صاحب دل برداشتہ ہوکر بہرام پور سے ٹھٹھ شہر میں آگئے اور یہاں آکر محلہ میں جامع خسرو (دابگراں والی مسجد) کے قریب دارالعلوم ہاشمیہ کے نام سے مدرسے کی بنیاد رکھی، جہاں انھوں نے حسب خواہش دین اسلام کی اشاعت و ترویج، تصنیف و تالیف اور درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ ہاشمی مسجد مخدوم محمد ہاشم کے محلے میں واقع تھی۔ اسی مسجد سے انھوں نے دین اسلام کے فروغ اور استقامت کے لیے سندھ کے حکم رانوں کے نام خطوط لکھے۔

اسی مسجد میں انھوں نے فقہی مسائل پر فتاویٰ جاری کیے۔ مخدوم صاحب کا دستور تھا کہ وہ دن کے تیسرے پہر درس حدیث دیتے تھے۔ مخدوم صاحب کے بعد ان کے فرزند مخدوم عبداللطیف ان کی مسند پر جلوہ افروز ہوئے اور درس و تدریس کے ساتھ وعظ کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ یہ مسجد تالپوروں کے عہد تک قائم رہی۔ جامع خسرو کو دابگراں والی مسجد بھی کہا جاتا تھا کیونکہ یہ مسجد دابگراں کے محلے میں واقع تھی۔ یہ دوسری مسجد ہے جس میں مخدوم ہاشم ہر جمعہ کی صبح وعظ کیا کرتے تھے۔ مخدوم صاحب کے بعد ان کے فرزند مخدوم عبداللطیف ٹھٹھوی نے اپنے والد بزرگوار کے طریقۂ کار کو جاری رکھا۔ اب نہ یہ محلہ موجود ہے اور نہ ہی مکین، اس لیے یہ مسجد زبوں حالی کا شکار ہوگئی ہے۔

حضرت مخدوم ہاشم مجدد وقت تھے۔ دین متین کے قوانین کی ترویج اسلام کی بنیادوں کے استحکام کی کوششوں میں بے حد مصروف رہتے تھے۔ ہر مہینے کئی ہندو آپؒ کی بہترین کوششوں کے طفیل کفر کی ذلت سے چھٹکارا پاکر زیور اسلام سے آراستہ ہوئے۔ آپؒ سندھ و ہند، عرب و عجم میں بہت مشہور تھے اور آپؒ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ عوام کے علاوہ حکام وقت سے بھی آپؒ کی خط و کتابت جاری رہتی تھی۔ نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی جیسے بادشاہان وقت بھی احکام اسلامی کے نفاذ کے سلسلے میں مخدوم ہاشمؒ کی استدعا کے موافق چلتے تھے۔

کلہوڑا دور کے حاکم سندھ میاں غلام شاہ کلہوڑا نے مخدوم ہاشم ٹھٹھوی کو ٹھٹھ کا قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) مقرر کیا۔ اس وقت سندھ کا حدود اربع آج سے قدرے مختلف تھا۔ مخدوم ہاشم ایک عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑی جاگیر کے بھی مالک تھے۔ مخدوم محمد ہاشم نے ٹھٹھ میں رائج بدعات اور غیر اسلامی رسومات کو بند کرانے کے لیے حاکم سندھ میاں غلام شاہ کلہوڑا سے ایک حکم نامہ جاری کرایا تھا۔ اس حکم نامے کے اجرا کے بعد ٹھٹھ سے بری رسومات، بدعات، عورتوں کا قبروں پر جانا وغیرہ کا کسی حد تک خاتمہ ہوگیا۔ کچھ لوگوں نے میاں غلام شاہ کلہوڑا کو مخدوم ہاشم کے خلاف ورغلانے کی کوشش کی لیکن اس کا نتیجہ ان سازشی لوگوں کے خلاف نکلا۔ مخدوم ہاشم نے بھٹ شاہ کے بہت سے سفر کیے اور شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ سے ملاقاتیں کیں۔

مخدوم محمد ہاشم نے مٹیاری کا سفر بھی اختیار کیا اور سید رکن الدین متعلوی جو اپنے وقت کے کامل ولی اور نہایت سخی بزرگ تھے۔ شہر کھڑا، ریاست خیرپور میں واقع ایک چھوٹا شہر ہے۔ یہ شہر قدیم عرصے سے علمی مرکز رہا ہے۔ یہاں مخدوموں کا خاندان آباد ہے۔ اس خاندان سے مخدوم اسد اللہ شاہ (متوفی 966ھ/1559ء) جلال الدین اکبر کے دور میں سندھ کے قاضی القضاۃ مقرر ہوئے تھے۔ کلہوڑا دور میں اس خاندان کے مخدوم عبدالرحمٰن شہید کھڑائی ایک مشہور بزرگ و عالم گزرے ہیں، مخدوم محمد ہاشم اس بزرگ کے ہم عصر اور گہرے دوست تھے۔ روایت ہے کہ مخدوم محمد ہاشم نے شہر کھڑا کا سفر بھی کیا اور مخدوم عبدالرحمٰن شہید سے ملاقات کی۔ مخدوم محمد ہاشم کا آبائی وطن سیہون تھا جس کی وجہ سے ان کا آنا جانا رہتا تھا۔ وہ لعل شہباز قلندر کے مزار پر بھی آئے، اس دور میں نماز کے وقت بھی دھمال جاری رہتا تھا۔ مخدوم محمد ہاشم کی کوششوں سے نماز کے اوقات میں دھمال پر پابندی لگی۔

یہ پابندی ابھی تک جاری ہے۔ مخدوم ہاشم کے شاگردوں کی ایک طویل فہرست ہے جس میں قابل ذکر نام سید شہمیر شاہ (مٹیاری والے) متوفی 1177ھ، مخدوم ابوالحسن صغیر ٹھٹھوی مدنی 1187ھ وفات، مخدوم عبدالرحمٰن ٹھٹھوی متوفی 1181ھ، (مخدوم ہاشم کے بڑے فرزند)، مخدوم عبداللطیف ٹھٹھوی متوفی 1189ھ، (مخدوم ہاشم کے چھوٹے فرزند)، مخدوم نور محمد نصر پوری، شاہ فقیر اللہ علوی شکارپوری متوفی 1195ھ، مخدوم عبدالخالق ٹھٹھوی، مخدوم عبداللہ مندھرو متوفی 1238ھ، سید صالح محمد شاہ جیلانی گھوٹکی والے متوفی 1182ھ، شیخ الاسلام مراد سیہوانی، عزت اللہ کیریو، حافظ آدم طالب ٹھٹھوی، نور محمد خستہ ٹکھڑائی، محمد ہاشم ٹھٹھوی عظیم عالم دین اور کثیر التصانیف مصنف تھے۔

تاریخ کی کتابوں کی ورق گردانی سے پتا چلتا ہے کہ مخدوم ہاشم کے دور میں آپ کے سوا ایسی کوئی شخصیت نظر نہیں آتی جس کی تین سو سے زیادہ کتب تصنیف شدہ ہوں اور جس کے مکتوبات کی تعداد ہزاروں سے تجاوز کرگئی ہو۔ انھوں نے کتب فقہ، اسما الرجال، قواعد، تفسیر قرآن، سیرت النبی، علم عروض، ارکان اسلام، حدیث اور بہت سے اسلامی موضوعات پر عربی، فارسی، سندھی زبانوں میں تصنیف و تالیف کیں۔ آپ کی تصانیف کا دور 1130 سے شروع ہوتا ہے جب کہ آپ کی عمر اس وقت فقط 26 سال تھی۔ مخدوم محمد ہاشم کی تمام کتب کا احاطہ تو ممکن نہیں البتہ ان میں سے کچھ دست یاب کتب کی تفصیل یہ ہے۔

الباقیات الصالحات، قوت العاشقین سیرت النبیؐ، ذادالفقیر فقہ، راحت المومنین فقہ، سایہ نامہ فقہ، بناالاسلام عقائد، تفسیر ہاشمی تفسیر، تحفۃ التائبین فقہ، اصلاح مقدمہ الصلوٰۃ فقہ، مظہر الانوار فقہ، وسیلۃ القبول فی حضرت رسول، فاکھۃالبستان فقہ، دستور الفرائض، آپ کی بے شمار کتب ہیں۔ مخدوم ہاشم کو عربی، فارسی اور سندھی زبانوں پر مکمل عبور حاصل تھا۔ آپ محققین علما اور مدققین حفاظ حدیث میں تھے۔ غرض اللہ کی نشانیوں میں سے ایک تھے، خصوصاً تفسیر و حدیث و فقہ سیرت و تاریخ و تجوید میں لاثانی تھے۔ مخدوم صاحب ایک بہت قدآور شاعر بھی تھے۔ آپ کا کلام عربی، فارسی اور سندھی میں موجود ہے۔ آپ کے عربی اشعار دیکھ کر تو زمانہ نبویؐ کے شاعر یاد آجاتے ہیں۔ آپ کی شاعری میں عشق رسولؐ کی عجیب جھلک نظر آتی ہے کچھ اشعار عربی کے یہ ہیں:آپ سرکار دو عالمؐ سے یوں استغاثہ کرتے ہیں:

اغثنی یا رسول حانت ندامتی

اغثنی یا حبیب اللہ قامت قیامتی

اغثنی یا شفیع المذنبین جمیعھم

تفرفت فی دمآء کثرۃ شامتی

اغثنی مستغیثا مذنبا متذللا

ضعیفا نحیفامن وفورو خامتی

ترجمہ:

اے اللہ کے رسولؐ فریاد رسی کیجیے میری ندامت کا وقت آیا۔

اے اللہ کے رسولؐ فریاد رسی کیجیے میرے لیے قیامت قائم ہوگی۔

اے تمام گناہوں کی سفارش کرکے بخشوانے والے فریاد ہے۔

میں کثرت گناہ کی شامت کے مصائب کے سمندر میں گر گیا ہوں۔

گناہ گار عاجز و ناتواں جوکہ وفور کاہلی کے باعث فریاد طلب کر رہا ہے، اس کی فریاد کو پہنچ جائیے۔

ان اشعار سے بخوبی اندازا کیا جاسکتا ہے کہ آپ کے دل میں کس قدر عشق مصطفی تھا۔ عشق رسالت مآبؐ آپ کو ورثے میں ملا تھا۔ جس کا اثر آپ کی زندگی پر نمایاں نظر آتا تھا۔ آپ کا سب کچھ سنت رسولؒؐ کے مطابق ہتا تھا۔ آپؒ سنت مطہرہ کا بہترین نمونہ تھے۔ مخدوم ہاشم ٹھٹھوی کی مرکزی مسجد کے امام تھے۔ آپؒ نے اپنی ایک معروف تصنیف ’’مداح نامہ سندھ‘‘ میں سندھی معاشرے اور ثقافت میں اسلام کے بارے میں بحث کی ہے۔ آپؒ کی ایک اور معروف کتاب ’’الباقیات الصالحات‘‘ میں ازواج مطہراتؓ کی حیات کے بارے میں تفصیلات درج ہیں۔ مخدوم ہاشم ٹھٹھوی کی گراں قدر تصانیف مصر کی جامع الازہر کے نصاب میں شامل ہیں۔ ان کے مخطوطات کی بڑی تعداد بھارت، سعودی عرب، ترکی، پاکستان، برطانیہ اور یورپ کے بہت سے ممالک کے کتب خانوں میں موجود ہیں۔ جوں جوں سفر آخرت کا زمانہ قریب آتا رہا حضرت شیخ الاسلام پر علم و حکمت کی نئی نئی راہیں کھلتی جا رہی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ فیضان نبوی الصلوٰۃ والسلام کے نئے نئے چشمے پھوٹ رہے ہیں۔ بالآخر علم و عرفان، معرفت و ایقان کا یہ آفتاب جہاں تاب، بروز جمعرات 6 رجب المرجب 1174ہجری بمطابق 11 فروری 1761ء کو بظاہر غروب ہوگیا۔

جب آپ کا وصال ہوا اس وقت آپ کی عمر 70 برس تھی۔ وصال والی جگہ پر 6 ماہ تک لگاتار مشک کی خوشبو آتی رہی اور غسل کے وقت آپ کا قلب مبارک ذکر اللہ سے جاری تھا (سبحان اللہ)۔ آپؒ کی تدفین مکلی کے قبرستان میں ہوئی اور لاکھوں لوگ آج بھی آپ سے فیض حاصل کر رہے ہیں۔ بزرگان دین کی تعلیمات انسانیت کے لیے مشعل راہ ہیں۔ اولیا کرام کی تعلیمات پر عمل ہماری نجات کا سبب بنے گا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اولیائے کرامؒ کی زندگی اور ان کے ’’پند و نصائح‘‘ ہماری زندگی کے لیے انمول تحفہ ہیں۔ اللہ کے ان مقرب بندوں کا عمل احکام الٰہی اور تعلیمات محمدیؐ کے مطابق ہوتا ہے۔

ان اولیائے حق کی زبان سے نکلے ہوئے کلمات اسلامی تعلیمات کا سبق ہوتے ہیں۔ اب یہ علیحدہ بات ہے کہ ہم اولیائے کرام کے اقوال و تعلیمات کو پڑھتے ہیں، مگر ان پر عمل پیرا ہونے کی کوشش نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بزرگان دین کے اقوال و تعلیمات کو سمجھنے اور ان پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ جس طرح چاند اور سورج کی روشنی سے ظلمت و اندھیرا دور ہوتا ہے اسی طرح بزرگان دین کے تذکرے سے دلوں میں نور پیدا ہوتا ہے اور مردہ دلوں کو حیات اور ناآشنا دلوں کو معرفت کی لذت ملتی ہے۔ زندگی گزارنے کا ڈھنگ اور اپنے رب سے ملاقات کا سلیقہ ملتا ہے۔ اخلاق کی روشنی اور حسن کردار کی کرنیں ملتی ہیں۔ بزرگان دین کے افکار اور تعلیمات کو نصاب کا حصہ بنایا جائے، خاص طور پر نوجوانوں کو بزرگان دین کی تعلیمات سے آگاہی دی جائے۔ آج کل کے نفسانفسی کے دور میں نوجوانوں کو بزرگان دین کی حیات سے روشناس کرنے کے لیے اساتذہ اور علما کرام اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔

شیخ الاسلام مخدوم ہاشم ٹھٹھویؒ کی زندگی کو خاص طور پر نوجوانوں میں اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ دین سے قربت ہی ہماری نجات کا ذریعہ ہے۔ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی مخدوم ہاشم ٹھٹھویؒ کے مزار کی رونق زائرین کا ہجوم، نورانیت، روحانیت اور آپ کا فیضان تابندہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔